Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















بات سے بات: مصباح اللغات اور مولانا عبد الحفیظ بلیاویؒ(1)۔۔۔ عبد المتین منیری
چند روز قبل علم وکتاب پر عربی اردو کتب لغت کے ضمن میں مصباح اللغات اور القاموس الوحید کا تذکرہ آیا تھا، اوراس پر تبصرےبھی کئی ایک آئے تھے، ان میں سے مصباح اللغات کے بارے میں بعض تبصروں کے تحت اللفظ میں مولانا بلیاویؒ کی کوششوں کی ناقدری کا ہمیں احساس ہوا، ناچیز کی رائے میں ہمیشہ ہر سچ بولنے کی ضرورت نہیں ہوا کرتی۔ کتب لغت اور دائرہ معارف اسلامیہ قسم کی کتابیں ایک فرد کے لکھنے کی نہیں ہوا کرتیں، ترقی یافتہ زبانوں میں یہ کتابیں ماہرین کی ایک ٹیم تیار کرتی ہے، آج سے تیس چالیس سال
سچی باتیں۔۔۔ بہادر شاہ ظفر کا دسترخوان۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ
(تاریخ اشاعت : 19-12-1930ء ) کچھ روز ہوئے، اُردو اخبارات میں بہادرشاہؔ کے دسترخوان کی بعض تفصیلات شائع ہوئیں، اور بڑے شوق واشتیاق کے ساتھ ایک اخبار سے دوسرے میں نقل ہوتی رہیں۔ کھانے کے کُل انواع واقسام توکون بتاسکتاہے، البتہ یہ معلوم ہوا، کہ محض روٹی کی قسم کی کم از کم ۱۵چیزیں ہوتی تھیں، چپاتی، پراٹھے، شیرمال، باقرخانی، نانِ گلزار، نانِ بادام، نانِ پستہ ، وغیرہ۔ علیٰ ہذا پُلاؤ بھی پندرہ بیس قسم کے ہوتے تھے، یخنی پُلاؤ، نورمحلی پُلاؤ، مرغ پُلاؤ، بیضہ پُلاؤ، وغیرہ۔ قورمہ اور کباب، کم از کم
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ہُودہ کے معنی مل گئے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
https://telegram.me/ilimokitab پچھلے کالم میں ہم پوچھ بیٹھے تھے کہ لفظ بے ہودہ کے اندر یہ ہُودہ کیا شے ہے؟ قارئین کو یہ سوال خوش آیا۔ لوگ ہماری علم طلبی اور سعادت مندی سے خاصے خوش ہوئے۔ اس قسم کے سوالات ہمارے ہی ذہن میں نہیں کلبلاتے، سید ضمیر جعفری مرحوم بھی کچھ ایسے ہی سوالات اُٹھایا کرتے تھے۔ مثلاً طرزِ غالبؔ میں کہی ہوئی ایک نظم میں ضمیرؔ صاحب حد درجہ حیرانی سے پوچھتے ہیں: ’کر‘ کراچی میں ہے تو کیوں ہے یہ؟ اور لاہور میں یہ ’لا‘ کیا ہے؟ تو لاہور سے لائے ہمارے سوال کا جواب حضرتِ عبدال
بات سےبات ۔۔۔سالانہ امتحانات پر حضرت تھانوی کا ملفوظ
دو روز قبل ہمارے محترم مولانا محمد طلحہ منیار صاحب نے علم وکتاب گروپ پر ہمارے دینی نظام تعلیم میں امتحانات کے غیر ضروری ہونے پر اپنا ایک نقطہ نظر پیش کیا تھا، اور اس کی تائید میں حضرت حکیم الامت مولانا تھانویؒ کا یہ ملفوظ پیش کیا تھا، *حضرت والا کا طریقۂ امتحانِ طلبہ* فرمایا: آج کل جو تحریری امتحان رائج ہے میں تو اس کا مخالف ہوں ۔ اس میں طلباء پر بڑی مشقت و گرانی پڑتی ہے۔ امتحان سے مقصود تو استعداد کا دیکھنا ہے ، سو طالب علمی کے زمانہ میں اس قدر استعداد کا دیکھنا کافی ہے کہ اس کتاب کو یہ اچھی
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ تم بھی بے تحاشا بھاگے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
سورج میانی (ملتان) سے ماسٹر افسر علی مرادؔ کا مراسلہ موصول ہوا ہے: ’’پچھلے دنوں ’بے تحاشا‘ کا لفظ کئی بار پڑھنے میں آیا۔ میں یہ لفظ بار بار دیکھتا رہا اور بار بار سوچتا رہا کہ’ تحاشا‘ کیا چیز ہے، مگرسمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ آج پھر پڑھا تو آپ سے رجوع کیا‘‘۔ واہ بھئی واہ، ماسٹر صاحب واہ۔ آپ نے’تحاشا‘ کا خوب تماشا کیا۔ ایسے کچھ ’تحاشے‘ اورکچھ تماشے ہم نے بھی دیکھ رکھے ہیں۔ حرفِ نفی ’بے‘ کے بعد لگائے جانے والے الفاظ ’بے شمار‘ ہیں۔ ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جن کے معنی سے ہم اب تک ’بے بہرہ‘ ہیں ا
جناب محمد رحیم الدین انصاری کی یاد میں۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری
۲۷ ستمبر کو حیدرآباد سے جناب محمد رحیم الدین انصاری صاحب کی رحلت کی خبر آئی ہے،مرحوم گذشتہ کئی سالوں سے بیمار تھے، انہیں گردوں کی تکلیف لاحق تھی، آپ کی پیدائش تلنگانہ کے ایک سرحدی قصبے میں ہوئی تھی، آپ نے گریجویشن نظام کالج حیدرآباد میں مکمل کیا اور پھر یہیں کے ہورہے۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر (۶۸) سال تھی۔ آپ دکن کے مایہ ناز خطیب اور مصلح مولانا حمید الدین عاقل حسامی رحمۃ اللہ علیہ کے داماد تھے، آپ سے ہماری پہلی ملاقات ۱۹۸۲میں ہوئی تھی جب آپ پہلے پہل مولانا کے ساتھ دبی تشریف لائے تھے،
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ھوئیش شابش اے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
ممتاز محقق و مصنف برادرم سید ایاز محمود صاحب نے پچھلا، یعنی ’’حشو‘‘ والا کالم پڑھ کر ہمیں متوجہ فرمایا:۔ ’’جناب! لفظ ’کفو‘ کا درست تلفظ بھی آپ کی توجہ کا طلب گار ہے جو بوقتِ نکاح برابری یا ہم پلہ ہونے کے مفہوم میں آتا ہے‘‘۔ گو کہ لفظ ’کفو‘ کے تلفظ نے خود اپنی دُرستی کی دست بستہ درخواست نہیں کی، مگر سید صاحب نے صحیح فرمایا۔ نکاح خواں حضرات کو بوقتِ نکاح بسا اوقات بڑے زوروں کی تقریر آنے لگتی ہے۔ سوعربی خطبے کے ’اما بعد‘ اُردو میں بھی خطاب کردیتے ہیں۔ اُردو خطاب میں ’کفو‘ کا تلفظ کبھی ’رَفو‘ ک
غلطی ہائے مضامین۔۔۔کالج کے کائیاں لڑکے کا سوال۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
رات گئے راولپنڈی سے کسی راؤ رُستم علی خاں صاحب کا فون آیا۔ بڑی کراری آواز میں ڈانٹ کر استفسار فرمایا:۔ ’’حشوو زوائد کسے کہتے ہیں؟‘‘ ہم توموصوف کا نام ہی سن کر ڈر گئے تھے۔ باقی کام لہجے کی کرختی نے تمام کردیا تھا۔ سو، خوف سے منمناتی ہوئی آواز میں عرض کیا:۔ ’’یقین کیجیے، ہمیں نہیں کہتے۔ کسی اور کوکہتے ہوں گے‘‘۔ ہنس پڑے۔ مگر اُسی لہجے میں فرمایا:۔ ’’ قبلہ! آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔ کئی دن سے کالج کا ایک کائیاں لڑکا پیچھے پڑا ہوا ہے۔ صبح پھر کلاس ہے۔ کیا جواب دوں؟‘‘ جب پتا چلا کہ یہ مردِ ر
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۱۸۔۔۔ آستانہ نبوت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابابادئ
آستانئہ نبوت وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا یہ کسی فقیہ کا اجتہاد نہیں جس پر ردو قدح کی گنجائش ہو کسی بزرگ کا کشف نہیں جسمیں غلطی اور دھوکہ کا احتمال ہو،کوئی روایت حدیث نہیں جسکے اسنا د میں گفتگو ہوسکے،خدائے پاک کے کلام کی ایک آیت ہے ۔ارشاد ہوتا ہے کہ ’’ان لوگوں نے جس وقت اپنے اوپر ظلم کئے تھے ۔ائے پیغمبر ! اگر تمہارے پاس آگئے ہوتے اور اللہ سے اپنے قصور سے مع
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۱۷۔۔۔ یوم النبی ﷺ کا ایک نشریہ۔۔۔ تحریر:مولانا عبد الماجد دریابادی
بارہویں تاریخ مارچ ۶۲۴ عیسوی کی ہے اور بارہویں تاریخ ماہ رمضان ۲ ھ کی بھی ،کہ مدینہ سے ایک قافلہ ایک بڑی مہم پر ایک بڑے میدان کی طرف رواں ہے۔فاصلہ کچھ ایسا کم نہیں کوئی چار منزل۔ قافلہ میں آدمی تین سو سے اوپر اور اونٹ کُل سو ۔نتیجہ ہے کہ ایک ایک اونٹ کے حصہ دار تین تین ،اور سوار ہونا تو ایک وقت میں دوہی کے لیے ممکن تھا۔ اس لیے ایک ساتھی کو تولا محالہ پیدل ہی چلنا پڑتا۔۔۔۔۔۔اور یہی صورت قافلہ کے سردار کے لیے بھی ۔یہ صاحب اڈھیڑ عمر کے ۔یہی کوئی ۵۳ یا ۵۴ سال کی عمر کے ۔دونوں ساتھی سِن
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۱۶۔ یتیموں کا والی غلاموں کا مولی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
تاریخ کے راوی کا بیان ہے کہ جون ۶۳۲ء کی چھ اور ربیع الاول۱۱ھ کی غالبًا ۱۳ تاریخ تھی ۔جب دنیا میں آئی ہوئی روح اعظم مدینہ سے اپنے وطن اصلی کو واپس جارہی تھی ۔وقت بالکل آخر تھا ،سینہ میں غرغرہ شروع ہوچکا تھا کہ لبِ مبارک ہلے او ر آس پاس جو قریبی عزیز اور تیمادار تھے،انہوں نے کان لگادیے کہ اس وقت کوئی بہت اہم وصیت ارشاد ہورہی ہوگی ۔خیال صحیح تھا۔وصیت ارشاد ہوئی ۔لیکن نہ محبوب بیوی حضرت عائشہ ؓ کے لئے تھی ،نہ چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ ؓ کے لئے ۔اور نہ جاں نثار صحابیوں ،رفیقوں میں سے کسی کے حق میں بلک
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۱۵۔۔۔ رحمۃ للعالمین۔۔۔تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
’’میں شہادت دیتا ہوں کہ انسان بھائی بھائی ہیں‘‘۔ جس کے منھ سے یہ سندربول نکلے تھے ، آج اس کی پیدائش کا دن ہے۔اسی نے آکر دنیا کو یہ پیغام دیا تھا۔بتایا تھاکہ نسل کی ،جلد کی ،رنگ کی یاد وطنی تقسیم کی بناء پر کسی سے جنگ کرنا یا کسی کوحقیر اور ذلیل سمجھنا حماقت ہے۔یہ ساری چیزیں غیر اختیاری ہیں ۔انسان کے کردار کا ،اس کے کردار کا ،اس کے شرف اور عظمت کا ان سے کیا سردکار ۔اور اسی نے آکر یہ منادی کی تھی کہ : الخلق عیال اللہ مخلوق تو ساری ،اللہ کا کنبہ ہے۔ فاحب الخلق الی اللہ من
مردوں کی مسیحائی۔ ۱۴۔ ولادت باسعادت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
آگے کچھ سننے سنانے سے قبل ذہن کے سامنے نقشہ، تاریخ کی بڑی بڑی ضخیم کتابوں کی مدد سے چھٹی صدی عیسوی کے آخر اور ساتویں صدی عیسوی کے شروع کی دنیا کی زبردست اور نامور طاقتیں اس وقت دو تھیں، جن کے نام سے سب تھراتے تھے اور جن کا لوہا مشرق و مغرب مانے ہوئے تھے۔ مغرب میں رومن امپائر یا شہنشاہی روم اور مشرق میں پرشین امپائر یا شہنشاہی ایران۔ دونوں بڑی بڑی فوجوں اور لشکروں کے مالک، دونوں میں زر و دولت کی افراط اور دونوں تمدن عروج پر۔لیکن دونوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ۔عیش و عشرت نے مردانگی کی جڑ یں کھوک
مردوں کی مسیحائی۔۔۔ ۱۳۔ اسوہ حسنہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
اسوہ حسنہ امانت الہٰی بزم کائنات اپنی ساری دلفریب زینتوں اور دلکش آرائشوں کے ساتھ سج چکی، طلسم خانہ فطرت اپنی تمام ندرتوں اور نیرنگیوں کے ساتھ تیار ہو چکا، نگار خانہ موجودات کا ایک ایک نقش آب و رنگ کی جگمگاہٹ سے چمک اٹھا، اس وقت ما کان وما یکون کاسب سے زیادہ بے بہا، سب سے زیادہ عزیز الوجود گوہر ’’امانت الہی‘‘کے نام سے کثرت کے بازار میں پیش ہوا، اور وحدت کے خلوت کدہ سے آواز آئی کہ ’’ہے کوئی جو اس گوہر شرف کا حامل بن سکے؟ عالم ملکوت میں سنّاٹا چھا گیا، عا
مردوں کی مسیحائی۔۔۱۲۔۔ ناک کا داغ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
ناک کا داغ نظام عالم کو قائم کیے ہوئےبے شمار مدّت گزر چکی ہے، دنیا اپنی انھیں نیرنگیوں اور بوقلمونیوں کے ساتھ ایک بے حساب زمانہ سے آباد ہے، نامی گرامی حکماء پیدا ہوچکے ہیں ، نامور کشور کشا گزر چکے ہیں ، یہ سب کچھ ہے، لیکن ’’علم‘‘اور ’’تمدن‘‘ کا جو مفہوم سمجھا جارہا ہے۔ اس سے انسانی دماغ ابھی تک ناآشنا ہے۔ دنیا مختلف قوموں میں بٹی ہوئی ہے، اور زمین مختلف اقلیموں میں پھٹی ہوئی ہے، ہرقوم دوسری سے بے گانہ، ہر ملک دوسرے سے اجنبی۔ آمد و رفت کے وسائ
مردوں کی مسیحائی۔ ۱۱۔ میلادی روایات۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
بعض پچھلے نمبروں میں بہ ذیل مراسلات، میلادی روایات کی صحت پر گفتگو آچکی ہے، آج کی صحبت میں پھر اس پر ایک نظرکرنا ہے۔ کلام مجید میں ذکر متعدد انبیاء کرام کا آتا ہے، لیکن صرف چند انبیاء کرام اور ان کے متعلقین ہیں، جن کی پیدائش یا ولادت کا ذکر آیا ہے۔ اس مختصرفہرست میں سب سے پہلے نام حضرت آدم علیہ السلام کا ہے۔ آپ کی پیدائش خوارق عادات ایک مجموعہ تھی، اور فطرت کے عام دستور کے بالکل مخالف ہوئی۔ اوّل تو آپ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا گیا، پھر فرشتوں سے آپ کی تعظیم کرائی گئی، اور جس مخلو
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۱۰---عتاب محبوب ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
صورت حَال صورت یہ ہوئی کہ ایک بار مکہ میں حضورؐ اپنی مجلس میں مصروف تبلیغ تھے کہ قریش کے بڑے بڑے زور آور اور متکبر سردار،ابوجہل،شیبہ،امیہ وغیرہم آنکلے،اور اس مجلس میں بیٹھ گئے۔ اسلام سے بڑھ کر ظاہر ہے کہ حضورؐ کو کون سی شے عزیز ہو سکتی؟ دن رات اٹھتے بیٹھتے سوتے جاگتے۔ دھن تھی تو اسی کی، تڑپ تھی تو اسکی۔ ایسا موقع مل جانا حضورؐ کے نقطہ نظر سے غنیمت نہیں، نعمت تھا۔ ایسے مواقع حاصل ہی کب ہوتے تھے؟ منکرین قریش،حضورؐ کی کوئی آواز اپنے کانوں تک آنے ہی کے کب روادار ہوتے تھے۔ جتنی سرگرمی جس قدر انہم
مردوں کی مسیحائی۔۔۔۰۹--- صابر رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی
انسانیت کے لیے ہرمصیبت میں تعزیت و تسلّی کا پیام اور صبر و رضا کا نمونہ خلق عظیم کا ایک خاص پہلو اصلاح اور مصیبتیں جتنے مصلحین دین کی فلاح و بہبود کا نقشہ لے کر اٹھے کس کی آؤ بھگت گالیوں رسوائیوں سے، تکفیر و تفسیق سے،ضرب و بند سے نہیں ہوئی۔ کیا ابو حنیفہؒ قید میں نہیں ڈالے گئے؟ کیا احمد بن حنبلؒ کی پیٹھ سے خون کے شرارے خود مسلمانوں کے کوڑوں سے نہیں بہے؟کیا غزالیؒ کی کتابیں آگ کے ڈھیر میں خود مسلمانوں کے ہاتھوں نہیں جھونکی گئیں؟ کیا اسمعیل شہیدؒ پر کفر کا فتوی نہیں لگا؟ کیا ان سب کی مصیب