Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















ہریانہ میں داروکی طرح گئو رکشک بھی نقلی اور اصلی
از:حفیظ نعمانی ایک طرف تو وزیر اعظم مودی صاحب کی خواہش یہ ہے کہ قوم ان کی آواز کو پنڈت نہرو کی آواز سے بھی زیادہ محترم سمجھے یا کم از کم ان کے برابر سمجھے، اور دوسری طرف جو اپنے کاندھوں پر اٹھا کر انھیں اس مقام تک لائے ہیں وہی اب ان کی کسی بات پر کان دھرنے کو تیار نہیں، ملک کے اس کونے سے اس کونے تک اور جب انٹرنیشنل میڈیا میں بھی دلتوں کو بے رحمی سے پیٹے جانے والے کیسٹ دکھائے جانے لگے تو وزیر اعظم کو یہ فکر ہوئی کہ اب وہ اگر کسی ملک میں گئ
یہ موقع پھر نہیں آئے گا--از:ایم ودودساجد
گائے کی آڑ میں دلتوں پرکئے جانے والے مسلسل حملوں کے کافی دنوں بعدجب ہمارے وزیر اعظم نے حسب عادت مہر سکوت توڑکرایک جذباتی بیان دیاتو مجھے گجرات میں2002کے فسادات پر مبنی فلم’ پرزانیہ‘ کا ایک منظر یاد آگیا۔دلتوں پر حملوں کے تعلق سے ان کاتازہ بیان 2002میں گودھرا کے ٹرین آتشزدگی سانحہ کے بعددئے گئے بیان سے مختلف تو تھا لیکن اثرآفرینی کے اعتبار سے ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔تازہ بیان میں انہوں نے گؤ رکشکوں سے دست بستہ اپیل کرتے ہوئے کہا کہ ’’مارنا ہی ہے تو مجھے گولی مارولیکن میرے دلت بھائیوں کو نہ
ابھی تک پائوں سے چمٹی ہے زنجیریں غلامی کی۔۔۔۔۔۔از: نازش ہما قاسمی
آزاد دیش کے ذہنی غلاموں کو ملک کی سترویں یوم آزادی مبارک ہو۔۔۔! ہم آزاد ہیں بایں معنی کہ ہم نے انگریزوں کو اس ملک سے بھگا دیا… ہم آزاد ہیں کہ اپنا ایک ملک رکھتے ہیں جسے ہندوستان کہتے ہیں۔۔۔! ہم آزاد ہیں کیوں کہ ہم نے جب آنکھیں کھولیں تو لال قلعہ پر برطانیہ کانہیں؛ بلکہ شہیدوں کے خون سے لبریز ترنگا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ ہمآزاد ہیں کیوں کہ ہمارے اسلاف نے آزادی وطن کی خاطر اپنی جانیں نچھاور کی تھیں جن کے صلہ میں ہمیں 15اگست 1947کا عظیم اور آزاد دن نصیب ہوا۔ ہندوستان کو آزاد ہوئے ستر سال ہو
پیشہ کوئی ہو مسلمان صرف مسلمان ہے
از:حفیظ نعمانی اگست کی ۱۰؍ تاریخ کیا آئی جیسے قیامت آگئی، مسلمانوں کے ایک قائد نے ۱۰؍ تاریخ کو ایک صفحہ کا اشتہار چھپوایا اور اسے مسلمانوں کے لیے سیاہ دن قرار دیا، آج ۱۱؍ تاریخ کو ایک پارٹی نے آرٹیکل ۳۴۱ سے مذہبی پابندی ہٹا کر مسلمانوں کو ریزرویشن دینے کے لیے میمورنڈم دیا اور ایک نئی پارٹی آل انڈیامسلم ریزرویشن فرنٹ نے کلکٹریٹ پر دھرنا دیا، انھوں نے مطالبہ کیا کہ مسلم دھوبی، مسلم مہتر، مسلم موچی، مسل
کشمیر مودی کی طرف دیکھ رہا ہے
از:حفیظ نعمانی اس وقت ملک میں جس بات پر سب سے زیادہ شور ہورہا ہے وہ یہ ہے کہ یا تو بولتے نہیں اور بولتے ہیں تو ملک کے الگ الگ صوبوں میں ہر مسئلہ پر بول دیتے ہیں،وزیر اعظم چار دن پہلے کہہ چکے ہیںکہ ہر معاملہ میں لوگ وزیر اعظم سے ہی کیوں کہتے ہیں کہ وہ بولیں؟ اور ہم اس کا جواب بھی دے چکے ہیں کہ پہلے لوک سبھا کے الیکشن میں اس کے بعد ہریانہ، مہاراشٹر،دہلی، بہار، بنگال، کیرالہ، آسام اور تمل ناڈو کے الیکشن میں صرف وہی بول رہے تھے، دوسرے پاس بیٹھے تو تھے لیکن آپ نے انھیں بولنے کا موقع ہی نہیں دیا،
جو بڑھ کر خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے۔۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
از: حفیظ نعمانی بہوجن سماج پارٹی کے دوسرے چہرہ کے طور پر پہچانے جانے والے سوامی پرساد موریہ نے جب مس مایاوتی کا ساتھ چھوڑا اور ان پر الزامات کی بوچھار کردی تو مخالف پارٹیوں کے منہ میں پانی آگیا اور زبان ہونٹوں پر آگئی، کل تک جو ان کی مخالفت میں صبح و شام الفاظ کے بم برسایا کرتے تھے، انھوں نے ان کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی شان میں قصیدے شروع کردئے، صرف اس لیے کہ موریہ غریب خانہ کو روشن کردیں۔ یہ کوئی خود ستائی نہیں ہے بلکہ تحدیث نعمت ہے کہ ہم نے کہا تھا کہ موریہ صرف اتنا انتظار کریںگے کہ ا
وجودہ حالات میں ہمارا دعوتی طریقۂ کار
از: مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی (بموقع دعوتی سمینار بمقام جامعہ دارالسلام عمر آباد) ہمارے یہاں الحمد للہ دعوتی منصوبے بنتے رہتے ہیں، مگر بعض اوقات وہ اتنے بڑے اور طویل المیعاد ہوتے ہیں کہ سوچنے ہی میں سا لوں لگ جاتے ہیں اورانھیں انجام دینے کی نوبت کم ہی آتی ہے۔عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات میں اب وقت اقدامِ عمل کا ہے، اس لیے سب سے زیادہ توجہ اس طرف دینے کی ضرورت ہے کہ جوبھی دعوتی منصوبہ بنے اس پر فوری عمل ہو۔ اس وقت ملکی اورعالمی حالات جس تیزی سے بدل رہے ہیں اس کے پیشِ نظردعوتِ د
کیا ہم نے اللہ کی اس عظیم نعمت پر اس کا شکراداکیاہے ؟
از: مولانا محمد الیاس ندوی بھٹکلی ہمارے جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں مولانا عاصم صاحب ندوی کے یہاں دو ماہ قبل پہلی بچی کی ولادت ہوئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک خوبصورت منیّ حفصہ کی شکل میں عطا کی ، یہ میرے خالو مولانا شفیع صاحب ملپا قاسمی کی نواسی بھی تھی، خلاف معمول صرف چھ ماہ میں اس معصوم کلی کی اس دنیا میں آمد ہوئی ، اس کے بعد سے اب تک یعنی گذشتہ ہفتہ تک جن مراحل سے گلشن کے اس حسین پھول کوبالخصوص اس کے والدین اوراس کے نانا محترم اورگھروالوں کو گذرنا پڑا اس کی تفصیلات کو سن کرہی نہیں بلکہ سوچ
مودی کا بولنا نہ بولنا سب برابر ہے
از:حفیظ نعمانی مودی سرکار کے ابھی تین سال دور ہیں، صرف ۲۶ مہینے میں سب کو اندازہ ہوگیا کہ سب کا ساتھ سب کا وکاس کتنا ہوگیا؟ وہ دلت جنھوں نے یہ سمجھ کر مودی کو ووٹ دیئے تھے کہ اب دلت، پٹیل، ٹھاکراور برہمن اس طرح ایک ساتھ ہوںگے کہ کوئی یہ پہچان نہ سکے گا کہ ان میں گائے کے مالک کون ہیں اور مری گائے کا چمڑہ اتارنے والے کون ؟ اونا میں جو کچھ ہوا اور جس جس طرح ننگا کرکے مارا گیا اس نے دلتوں کو ننگا نہیں کیا بلکہ مارنے والے ننگے ہو کر سامنے آگئے، اور پوری طرح مایوس ہو کر جب دلت سامنے آئے اور ان
ہمارے لیے پاکستان جیسے یوسف کے بھائی
حفیظ نعمانی وزیر داخلہ شری راج ناتھ سنگھ اسلام آباد پاکستان میں ہونے والی سا رک چوٹی کانفرنس میں شرکت کرنے گئے اور چند تلخ یادیں لے کر واپس بھی آگئے، اگر ہم وزیر اعظم، وزیر داخلہ یا وزیر خارجہ سے جانے سے پہلے یہ کہتے کہ وہ کانفرنس میں شرکت کریں تو کس حیثیت سے کہتے؟ سارک بنانے میں ہندوستان کا اہم کردار رہا ہے، اور وہ اس کو اتنا اہم اور اپنے سے قریب مانتا ہے کہ ۲۶؍ مئی ۲۰۱۴ء کو جب شری نریندر مودی وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف لینے والے تھے تو انھوں نے سارک کے معزز ممبروں کو بلایا تھا، اس وقت پاکستا
تلفظ کا بگاڑ
خبر لیجیے زباں بگڑی از: اطہر علی ہاشمی اردو میں املا سے بڑا مسئلہ تلفظ کا ہے۔ متعدد ٹی وی چینل کھُمبیوں کی طرح اگ آنے کے بعد یہ مسئلہ اور سنگین ہوگیا ہے۔ اینکرز اور خبریں پڑھنے والوں کی بات تو رہی ایک طرف، وہ جو ماہرین اور تجزیہ کار آتے ہیں اُن کا تلفظ بھی مغالطے میں ڈالنے والا ہوتا ہے۔ مغالطہ اس لیے کہ جو کچھ ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے نئی نسل اسی کو سند سمجھ لیتی ہے اور صحیح ہونے پر اصرار کرتی ہے۔ اب ان تجزیہ کاروں اور چینلی دانشوروں کی اصلاح تو ہو نہیں سکتی، یہ ممکن نہیں کہ گفتگو سے پہلے ان
ہمیں سو گئے داستاں کہتے کہتے۔۔۔۔ از:مستنصر حسین تارڑ
آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی امینہ سید اور آصف فرضی کے دماغوں کا بچہ یعنی ’’برین چائلڈ‘‘ ساتواں کراچی لٹریری فیسٹیول ہمیشہ کی مانند شاندار اور پُرہجوم تھا، بہت رونقیں تھیں لیکن۔۔۔میں ایک سناٹے میں حرکت کرتا تھا، مجھے کچھ سنائی نہ دیتا تھا، سوگواری اور ملال میرے ہم سفر تھے، لوگ مجھے پکارتے، تصویروں کے لئے، کتابوں پر آٹو گراف حاصل کرنے کے لئے اور مجھے سنائی نہ دیتا۔۔۔ یہ فیسٹیول نہ تھا ایک ’’شہر افسوس‘‘ تھا ’’واپسی کا سفر ‘‘ تھا۔۔۔ پچھلے برس وہ دونوں یہاں تھے اور اس برس نہ عبداللہ حسین تھا اور نہ انت
کیا آپ سہا ؔکو جانتے ہیں۔۔۔؟۔۔از: ندیم صدیقی
از: ندیم صدیقی آج ایک ایسے اہل علم، صاحبِ دانش اور فن کار کا تذکرہ مقصود ہے جو اپنے زمانے میںنابغۂ روزگار جیسا تھا۔ وہ زمانہ جب عرصہ ِ علم و ادب میں ایک سے ایک ماہر اور قد آور موجود تھے۔ انہی اکابر میں سے ایک تھے ممتاز احمد سہا۔ جو اپنے عہد کے قد آوروں سے متضاد تھے۔ قد آور جب کہا جاتا ہے تو اس کے معنی جسمانی قد نہیں بلکہ معنوی قد مراد ہوتا ہے۔ یہ سہا ، جن کے نام کے ساتھ لاحقہ کے طور پر مجددی بھی لگا ہوا ہے۔ اپنے ز
جمہوریت اور ذات پات کی تقسیم
از: کلدیپ نیئر پھر ایک اور ’’دلت‘‘ فیملی کو بیف کھانے کے شبے میں مار مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ لیبارٹری میں کرائے جانے والے ٹیسٹ سے ثابت ہوا کہ یہ گائے کا نہیں کسی اور مویشی کا گوشت ہے۔ کچھ عرصہ پہلے دہلی میں کیرالہ ہاؤس پر گائے کے پجاریوں نے حملہ کیا کیونکہ وہاں کھانے میں بیف دیا گیا تھا لیکن سب سے زیادہ شرمناک پہلو یہ ہے کہ ان غیر انسانی حرکات پر اونچی ذاتوں کے ہندوؤں کی طرف سے کسی ندامت کا اظہار نہیں کیا گیا اور نہ ہی آر ایس ایس کے لیڈروں نے اپنی زبان کھولی ہے جو نچلے طبقوں کی بھلائی کے لیے
جدہ میں پھنسے مزدوروں کی حقیقی تصویر
حفیظ نعمانی ہندوستا ن میں اخبارات ، ٹی وی ، ریڈیواور حکومت کے ذمہ دار سعودی عرب میں پھنسے مزدوروں کی ایسی بھیانک تصویر پیش کر رہے ہیں جسے دیکھ کر اور سن کر ہر حساس انسان پریشان ہو جاتا ہے۔وزیر خارجہ سشما سوراج صاحبہ کا ایک رکارڈ ہے کہ کوئی ہندوستانی اگر کسی دوسرے ملک میں پریشان ہے تووہ ہرطرح اسکی مدد کرتی ہیں ۔ان لوگوں کے بارے میں بھی وہ فکرمند ہیں ۔اور کل ہی انہوں نے پارلیمنٹ میں ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ نائب وزیر خارجہ کووہ ریاض بھیج رہی ہیں اوروہ وہاں کے وزیروں اور افسروں سے ان پریشان
گجرات نے بی جے پی کو دن میں تارے دکھائے۔۔۔۔از:حفیظ نعمانی
از:حفیظ نعمانی گجرات کی وزیر اعلیٰ اور نریندر بھائی مودی کی جانشین آنندی بین پٹیل نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا، انھوں نے اس کاسبب جو بھی بتایا ہو، اس کی اہمیت اس لیے نہیں ہے کہ ہر وقت ہر کوئی سچ بولے یہ ضروری نہیں اور وہ اس کی پابند بھی نہیںتھیں کہ اگر استعفیٰ دیں تو بتائیں کہ کیوں دیا اور نہ دیں تو یہ بتائیں کہ کیوں نہیںدیا؟ ’وزیر اعلیٰ‘نریندر بھائی مودی جب وزیر اعظم بننے لگے تو انھوں نے گجرات کے وزیر اعلیٰ کے عہدہ سے اپنے کو الگ کرلیا اور اپنی سب سے زیادہ بھروسہ والی خاتون آنندی بین
پرائیویٹ اسکولوں کی آبرو خطرہ میں۔۔۔۔ از: حفیظ نعمانی
از:حفیظ نعمانی کانگریس حکومت کے زمانہ میں 2009ء میں یہ خوشخبری سنائی گئی تھی کہ ملک کے ہر بچہ کو اور بچی کو مفت تعلیم دی جائے گی، مرکزی حکومت نے ملک کے ہر صوبہ کو حکم دیا تھا کہ وہ تین سال کے ا ندر اندر جہاں سرکاری اسکول نہ ہوں وہاں اسکول بنائیں اور پڑھانے والوں یا والیوں کا انتظام کریں، ہندوستان جیسے ملک میں جس میں آج بھی غریبوں کی تعداد خوش حال لوگوں سے چار گنی ہے، یہ خبر ایسی نہیں تھی کہ جشن مناتے اور محلہ محلہ اسکول کھلنے کی خوشی میں سرکاروں کی پارٹی کو ووٹ دیدتے، جیسے سونیا گاندھی نے اپ
فصل کی برداشت اور تابعدار۔۔۔ اطہر ہاشمی
پنجاب میں زراعت کے تعلق سے ایک اصطلاح نظر سے گزری جو ہمارے لیے نئی ہے اور ممکن ہے بہت سے لوگوں کے لیے بھی نئی ہو۔ یہ ہے ’’برداشت‘‘ کا استعمال۔ ویسے تو عوام ہی بہت کچھ برداشت کررہے ہیں اور صورتِ حال پر برداشتہ خاطر (بیزار، اداس، آزردہ) بھی ہیں۔ لیکن ایوب زرعی تحقیقاتی ادارے، فیصل آباد کے ڈائریکٹر نے کسانوں کو ہدایت کی ہے کہ ’’گندم کی فصل برداشت کے مرحلے میں داخل ہوگئی، بروقت کٹائی کا انتظام کرلیں‘‘۔ اسی طرح لاہور سے محکمہ زراعت کے ترجمان نے اعلان کیا ہے کہ ’’چنے کی فصل برداشت کے لیے تیار ہے، بردا