Search results

Search results for ''


اقتدار کا غرور چکناچور… سہیل انجم

Bhatkallys Other

پاکستان کے معروف شاعر اعجاز رحمانی کا ایک شعر ہے: ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہوں گے میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں لیکن یہاں کوئی ابہام نہیں ہے، کوئی شش و پنج نہیں ہے۔ سب کچھ صاف شفاف اور واضح اور شیشے کی طرح عیاں ہے۔ پھر بھی ابھی بہت دنوں تک اس پہ تبصرے ہوتے رہیں گے۔ اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا جاتا رہے گا۔ اس کا تجزیہ کیا جاتا رہے گا اور ان تجزیوں کی روشنی میں مستقبل کی سیاست کی صورت دیکھنے کی کوشش کی جاتی رہے گی۔ قارئین بات کی تہہ تک پہنچ گئے ہوں گے۔ ہم ذکر کر رہے ہ

 سچی باتیں (۸؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ میدان حشر۔۔۔مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

وَلَو تَرَی اذِ الظَّالمون فی غمراتِ المَوتِ والملائکۃ باسطوا أیدیہم أخرجوا أنفسکم الیوم تُجْزَوْنَ عذاب الہون بما کنتم تَقُولون علَی اللہ غَیر الحقِّ وَکُنتم عَن آیاتہ تستکبرون وَلَقد جئتمونا فُرادیٰ کَما خَلقَکُمْ وتَرکْتُم ما خوّلناکم وراء ظہورکم وَما تَریٰ معکم شُفعاء کم الَّذین زَعمتم أنّہم فیکُم شرکاء وَلَقَد تَقَطّع منکم وضلّ عنکم ما کنتم تَزْعُمون۔ کاش تم دیکھتے، جس وقت یہ ظالم مَوت کے بے ہوشیوں میں ہوں، اور فرشتے ہاتھ بڑھا بڑھا کر کہہ رہے ہوں، کہ اے اپنی جانیں نکالو۔ آج ہی تو تم

یہ آخری صدی ہے کتابوں سے عشق کی؟۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

پڑھتے پڑھتے آنکھیں پتھرا گئیں اورسنتے سنتے کان پک گئے کہ… ’’یہ کتابوں کی آخری صدی ہے‘‘ … ’’کتاب ختم ہورہی ہے‘‘ … ’’الوداع، الوداع، دورِ کتاب الوداع‘‘ اور… ’’بہت جلد کتابوں کا دور ختم ہونے والا ہے‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ ایسی باتیں ہم نے پہلے بھی بہت سنیں۔ پچھلی صدی میں سنا کہ یہ صدی اس دنیا کی آخری صدی ہے۔ ایک سائنس دان نے دعویٰ کردیا کہ اتنے برس میں سورج کا ڈبّا گول ہوجائے گا۔ کچھ ’تعلیم یافتہ‘ لوگوں نے اُٹھ کر قیامت کی تاریخ طے کردی۔ اس پیش گوئی پر ایمان بالغیب لانے والے لرزتے رہے، اُن کے اعصاب پر

مولانا عبد الستار خان مصنف عربی کا معلم۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

 بات سے بات: مولانا عبد الستار خان مصنف عربی کا معلم کے بارے میں چند منتشر باتیں  عبد المتین منیری  ایک کرم فرما نے خوش فہمی میں اس ناچیز سے مولانا عبد الستار خان مرحوم کے سلسلے میں معلومات دینے کی فرمائش کی ہے، مولانا مرحوم کی عربی قواعد وزبان کی نصابی کتاب عربی کا معلم ( ۴ حصے) اور کلید عربی کا معلم (۲ حصے ) ایک زمانے  میں کافی مقبول نصابی کتابیں تھی، معلوم نہیں یہ کتابیں ہمارے دینی مدارس میں بھی رائج تھیں یا نہیں، البتہ پنجاب ،سندھ ، ممبئی کوکن  وغیرہم کے سرکاری

خط کی انشا اور ہے، لکھنے کی اِملا اور ہے... تحریر: احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

ہفت روزہ ’وقت‘ کراچی کے سابق مالک و مدیر، جامعہ کراچی کے سابق افسر تعلقاتِ عامہ، بین الاقومی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر تشریفات و مطبوعات، اور دورِطالب علمی میں ہمارے مربی و محسن، برادرِ بزرگ جناب محمود احمد فاروقی خفا ہیں کہ ’’کچھ لوگوں نے ملے ہوئے الفاظ کے حروف توڑ توڑ کر لکھنا شروع کردیا ہے۔ بلکہ کو ’بل کہ‘، چنانچہ کو ’چناں چہ‘ اور چونکہ کو ’چوں کہ‘ وغیرہ۔ میاں اس پر کالم لکھو!‘‘ حکم کی تعمیل میں ہم کالم تو لکھ رہے ہیں، مگر کیا عرض کریں؟ کچھ دنوں سے ہم بھی اُنھیں ’کچ

کر لیا ہے ہم نے اپنا بیڑا غرق...- احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

ہمارے عزیز دوست ڈاکٹر افتخار برنی پاکستانی طبیبوں کی تنظیم PIMA راولپنڈی/ اسلام آباد کے صدر ہیں۔ چوں کہ منفرد لہجے کے شاعر ہیں چنانچہ پاکستانی ادیبوں کی تنظیم دائرہ علم و ادب راولپنڈی / اسلام آباد کے بھی صدر ہیں۔ آپ کی ایک نظم ’مرے دانشوروں کے واسطے خلعت ضروری ہے‘ بے دانشوں میں بے حد مقبول ہوئی اور نئی حکومت کے آنے پرنئے سرے سے مقبول ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب جسمانی امراض کے ساتھ ساتھ ذہنی امراض کے بھی معالج ہیں، سو ایک مُدّت سے پاگل انسانیت کی بے لوث خدمت کیے جارہے ہیں۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر صاحب ن

مولانا آزاد کو بھی آؤٹ کر دیا گیا...از: سہیل انجم

Bhatkallys Other

سرکاری اسکولوں کے لیے نصابی کتابیں تیار کرنے والے ادارے این سی ای آر ٹی کی جانب سے گیارہویں اور بارہویں کی کتابوں سے مغل تاریخ کو ہٹانے کا معاملہ ابھی ٹھنڈا بھی نہیں ہوا تھا کہ ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم، مجاہد آزادی، انڈین نیشنل کانگریس کے سابق صدر، صحافی اور مصنف و دانشور مولانا ابوالکلام آزاد کا حوالہ بھی نصاب کی کتاب سے خارج کر دیا گیا۔ گیارہویں کلاس کی پولیٹیکل سائنس کی کتاب کے ایک سبق میں اب تک پڑھایا جاتا رہا ہے کہ آئین ساز اسمبلی سے متعلق کئی کمیٹیاں تھیں جن کی صدارت عام طور پر

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ٹامک ٹوئیاں۔۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

میاں چنوں سے میاں امجد محمود چشتی کی ایک چٹھی موصول ہوئی ہے:۔ ’’السلام علیکم سر! ممکن ہو تو ’ٹامک ٹوئیاں مارنا‘ کی عجیب اصطلاح پر رہنمائی فرمائیے گا۔اس کا اُردو سے تعلق نہیں مل رہا ہے‘‘۔ ارے بھائی اس کا اُردو سے تعلق ملے کیسے؟ اُردو والوں میں سے جسے دیکھو وہی اس دُکھیا کو مارنے دوڑتا ہے۔ لیکن صاحب! یہ بتائیے، کیا اُردو سے تعلق جاننے کے لیے فقط اتنا جان لینا کافی نہیں کہ یہ اُردو کا محاورہ ہے اور اُردو میں استعمال ہورہا ہے؟ جہاں تک عجیب ہونے کا تعلق ہے تو جناب! ہر لفظ ہی عجیب ہے۔ تھوڑی دیر تک ل

سپریم کورٹ نے کیوں کہا ’حکومت نامرد ہے‘؟از… سہیل انجم

Bhatkallys Other

ایسی مثال شاذ و نادر ہی ملے گی کہ جب ملک کی سب سے بڑی عدالت نے ریاستی حکومتوں کو نامرد ہونے کا طعنہ دیا ہو۔ وہ مرکزی حکومت کو بھی بارہا آڑے ہاتھوں لے چکا ہے۔ مختلف امور میں اس نے حکومت کی ایسی گوشمالی کی ہے کہ کوئی اور حکومت ہوتی تو چیخ پڑتی۔ عدالت عظمیٰ پولیس محکمہ کی بھی بری طرح سرزنش کر چکی ہے۔ لیکن نہ تو مرکزی حکومت پر کوئی اثر پڑتا ہے نہ پولیس محکمے پر اور نہ ہی ریاستی حکومتوں پر۔ عدالت نے مختلف مواقع پر حکومت اور پولیس کو برا بھلا کہا ہے اور ان کی جانبداری کو کھلے بندوں شدید تنقید

 غلطی ہائے مضامین۔۔۔ میرا آڑی تھا، جو آڑے آیا- احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

معروف محقق و مصنف محترم محمد انور عباسی صاحب ہمارے دیرینہ کرم فرما ہیں۔ تعلق باغ (آزاد کشمیر) سے ہے، اور شہر شاداب اسلام آباد میں قیام فرما ہیں۔ شگفتہ مزاج اور شگفتہ گو آدمی ہیں۔ علالت میں بھی لبوں پر مسکراہٹ رقصاں رہتی ہے۔ اللہ انھیں مکمل صحت و عافیت کے ساتھ تبسم بھری طویل زندگی عطا فرمائے، آمین۔ باوجود بذلہ سنجی کے سنجیدہ، ادق بلکہ انتہائی دقیق معاشی موضوعات پر لکھتے ہیں۔ پچھلے دنوں اس عاجز کے ایک عاجزانہ کالم ’’وہ بڑی تجربہ کارہ ہے‘‘ کے حوالے سے رقم طراز ہوئے:۔ ’’الحمدللہ! کئی الفاظ کی

ماضی کے جھروکے سے، بھٹکل میں حفظ قرآن کی بہار۔۔۔ عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Nawayat And Bhatkal

حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ کی آمد اور  درجہ حفظ کا آغاز جامعہ اسلامیہ بھٹکل کو قائم ہوئے ابھی  سات سال گذرے تھے، کہ ۱۹۶۹ئ میں حضرت مولانا سید ابرار الحق رحمۃ اللہ علیہ کی بھٹکل آمد ہوئی، اس وقت جامعہ کے ثانوی درجات  شمس الدین سرکل کے پاس جوکاکو مینشن  ( موجودہ دامن )  میں متقل ہوگئے تھے۔ وہ منظر ابھی ہماری آنکھوں میں محفوظ ہے،ظہر کا وقت تھا، جوکاکو مینشن کے ہال میں ایک کرسی آپ کے بیٹھنے کے لئے سجائی گئی تھی، ابھی آپ جامعہ میں داخل ہورہے تھے کہ آذان کی

سچی باتیں …اپنے ہاتھ سے دوزخ کا ماحول بنانے والے۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1931-10-30 وَمِن الناس مَن یعجبک قولُہ فی الحیاۃ الدُّنیا ویُشہد اللہ علیٰ ما فی قلبہ وہوألد الخصام۔ واذا تولَّی سعٰی فی الأرض لیفسد فیہا ویہلک الحرث والنسل واللہ لا یحب الفساد ۔ واذا قیل لہ‘ اتق اللہ أخذتہ العزۃ بالاثم فحسبہ‘ جہنم ولبئس المہاد ۔   (بقرۃ ع ۲۵) انسانوں میں کوئی ایسا بھی ہوتاہے، جس کی گفتگو دنیوی زندگی میں، تمہین مزہ دار معلوم ہوتی ہے، اور وہ اپنے مافی الضمیر پر اللہ کا گواہ بنابناکر پیش کرتاہے، حالانکہ وہ (رسول کا) شدید ترین دشمن ہے، وہ جب مسلمانوں کی مجلس سے باہر جاتاہے، تو

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ وہ بڑی تجربہ کارہ ہے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

*غلطی ہائے مضامین۔۔۔ وہ بڑی تجربہ کارہ ہے۔۔۔ احمد حاطب صدیقی* -March 17, 2023 بنگلور (بھارت) سے محترمہ حلیمہ فردوس نے ایک مختصرسا سوال اِس عاجز کو ارسال کیا ہے:۔ ’’آج کل ’فنکارہ‘ لکھنے کا چلن عام ہے۔ اس کے بارے میں آپ کی رائے کیا ہے؟‘‘ حلیمہ آپا کا چُنّا مُنّا سا چیدہ و پیچیدہ سوال پڑھ کر ہمیں انورؔ مسعود کا ایک سنجیدہ شعر یاد آگیا:۔ کتنا آسان ہے تائید کی خو کر لینا کتنا دُشوار ہے اپنی کوئی رائے رکھنا اپنی رائے رکھنے کے جو نقصانات ہیں، اُنھیں جاننے والے جانے ہیں۔ ہم تو یہ جانے ہیں کہ

سچی باتیں (۲؍اکتوبر ۱۹۳۱ء)۔۔۔ حمیت دینی۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

آج (خدانخواستہ )کوئی آپ کے خاندان کو براکہتاہے، توآپ اُس سے لڑنے کو تیار ہوجاتے ہیں، کوئی آپ کے والد ماجد کی شان میں گستاخی کرتاہے، توآپ کا جی چاہنے لگتاہے، کہ اپنی جان اور اس کی جان ایک کردیں، کوئی آپ کے پیرومرشد کے حق میں کوئی نازیبا کلمہ زبان سے نکالتاہے، تو آپ چاہتے ہیں کہ اس کی زبان پکڑ کر کھینچ لیں، کوئی انگریز ، آپ کے ملک پر، قوم پر، معاشرت پر، کوئی اعتراض کرتاہے، تو آپ غصہ سے تِلملا جاتے ہیں۔ یہ سب عین فطرتِ بشری کے موافق ہے، اور شریعت نے بھی اِس طبعی انتقام کو جائز رکھاہے۔ شراف

غلطی ہائے مضامین۔۔۔اِس لیے فدوی کین ناٹ کم۔۔۔- احمد حاطب صدیقی 

Bhatkallys Other

حکیمِ حاذق حضرت مولانا محسن ترمذی کے درِ حکمت سے ہمیں حکم ہوا کہ ’’آج کل اُردو اخبارات اور اُردو نشریات میں انگریزی اصطلاحات دھڑلّے سے استعمال ہورہی ہیں۔ ذرا اس پر بھی کچھ لکھیے‘‘۔ ’دھڑلّے‘ کا لفظ سن کر ہمارا تو دل ہی دھڑ دھڑ دھڑ دھڑ کرنے لگا۔ لغت نکال کر معنی دیکھے تو معلوم ہوا کہ ’اِزدحام، ہجوم، بھیڑ، یورش، زور، شور اور رعب دبدبہ‘ وغیرہ دھڑلّا کہلاتا ہے۔ کھلے بندوں، نڈر ہوکر، شدت سے، ادبدا کر، بے خوفی کے ساتھ یا علانیہ کیا جانے والا ہر کام ’دھڑلّے سے‘ کیا ہوا کام ہے۔ امیرؔ مینائی بھی ایک روز

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ناطقہ سر بہ گریباں ہے...احمد حاطب صدیقی 

Bhatkallys Other

حضرت مولانا مفتی منیب الرحمٰن حفظہٗ اللہ پچھلے کالم پر کلام فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:۔ ’’آپ نے گزشتہ شمارے میں لکھا: ’’منہ میں زبان تو دیگر جان داروں کے بھی ہوتی ہے۔ مگر ’حیوانِ ناطق‘انسان ہی کہلاتا ہے۔ انسان نے اپنے نطق سے نکلی ہوئی آواز کو الفاظ کی صورت دی‘‘۔گزارش یہ ہے کہ یہ بات بالکل درست ہے۔ ناطق کے معنی ہیں: گویائی والا، گفتار والایا بولنے والا۔ یعنی اپنے مافی الضمیر کو بامعنی کلمات میں ادا کرنے کی صلاحیت رکھنے والا۔ لیکن اپنی اصل کے اعتبار سے ’حیوانِ ناطق‘ کی تعریف علمائے منطق نے یہ کی ہے

سچی باتیں۔۔۔موت وحیات کی کشمکش۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys Other

1931-08-14 (مولانا دریابادی کی ادارت میں سنہ ۱۹۲۵ء تا ۱۹۷۷ئ جاری سچ، صدق، صدق جدید  لکھنؤ کے ادارتی کالم سچی باتیں سے انتخاب ) بمبئی کے انگریز مصور ہفتہ وار ٹائمس آف انڈیاؔ (۲؍اگست کے پرچہ) میں ایک انگریز شکاری کی تصویر شائع ہوئی ہے، جو شیر کا شکار کرنے گیاتھا۔ شیر نے اُلٹا خود اُسی پر حملہ کردیا۔ تصویر میں منظر یہ دکھایاہے، کہ شیر اپنے پچھلے پَیروں پر کھڑا ہوا، پوری غضبناکی، خون ریزی اور درندگی کے ساتھ شکاری پر حملہ آورہے، شکاری کی بندوق دانتوں میں لئے ہوئے چاہتاہے ، کہ چباکر ریزہ ریزہ کرڈا

امجد اسلام امجد اور ان کی یادیں... ڈاکٹر طاہر مسعود

Bhatkallys Other

فروری کی یہ صبح کتنی غم ناک نکلی جب علامہ عبدالستار عاصم نے واٹس ایپ پہ اطلاع دی کہ شاعر، ڈراما نگار اور چالیس سے زائد کتابوں کے مصنف امجد اسلام امجد اِس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے اور ان کی روح اپنے رب کے حضور حاضر ہوگئی۔ زندگی وقتی حقیقت ہے، یہ الگ بات کہ ہم اسے ایک مستقل حقیقت سمجھتے ہیں۔ جیسے آئے ہیں اِس دنیا میں تو ہمیشہ رہیں گے، اور بلاوا کبھی آئے گا نہیں۔ ہاں ایسا ہے تو اس لیے ہے کہ غفلت اور بے خبری کا پردہ آنکھوں پہ تنا رہے، ورنہ آدمی کا جینا محال ہوجائے۔ امجد اسلام امجد جب تک جیتے رہے،