Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors

















Jalse per Gunda jat nay dandajat sey hamla kiya
July 28, 2023 اُردو میں جمع بنانے کے لیے ’جات‘ کا لاحقہ لگانے کی وبا شاید پہلے پہل ہمارے ’تھانہ جات‘ کو لاحق ہوئی ہوگی، پھر غالباً وہیں سے معاشرے کے دیگر ’شعبہ جات‘ کو بھی لگ گئی۔ ابھی ابھی ایک خبر سنی ہے۔ سنتے ہی’’طبیعت اچانک رواں ہوگئی ہے‘‘۔ خبر کچھ یوں ہے: ’’محرم الحرام کے پیش نظر آئی جی جیل خانہ جات (پنجاب) نے جیل افسران کی چھٹیاں منسوخ کرکے تمام جیل افسران کو صبح سے شام تک اپنے دفاتر میں موجود رہنے کی ہدایت کردی ہے۔
مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین ( 3)
تحریر : عبد المتین منیری ۔ ہمارے کئی ایک بزرگ ہیں جنہوں نے مستشرقین اور استشراق کے منفی پہلؤوں ہی کو اجاگر کیا ہے، اوربس کوئی ایک سطر تعریف لکھنے پر اکتفا کی ہے، ہمارے خیال میں اس سے وسعت مطالعہ پر قدغن لگتی ہے، لہذا ہمیں عموما ان دو چار مستشرقین کے نام ہی معلوم رہ گئے ہیں جن کا ذکر سرسید احمد خانؒ، علامہ شبلیؒ اور علامہ سید سلیمان ندویؒ نےآج ستر سال قبل اپنی تحریروں میں کیا ہے، اس سلسلے میں ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ جو فکری اور تحقیقی کتابیں لکھی
مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین ( 2)
تحریر : عبد المتین منیری مولانا اکبرآبادیؒ نے گولڈ زیہر کی کتابوں کے تعلق سے عربوں کے روئیے کے بارے میں لکھا ہے کہ "عرب علماء نے ان کی جملہ کتابوں کے ترجمے شائع کئے، اور ان کی قابل اعتراض باتوں پر حاشئے میں تنقید کی اور حقائق اجاگر کئے"۔ آپ نے اس سلسلے میں مصر کے مایہ ناز عالم دین شیخ محمد یوسف موسی کا جن کی تقریظ ماذا خسر العالم کی زینت بنی ہے ،اور جنہوں نے گولڈزیہر کی کتاب کے ترجمے پر نوٹس لکھے ہیں قول نقل کیا ہے کہ" کتاب اغلاط سے بھی خالی نہیں
مولانا سعید احمد اکبر آبادی اور مسستشترقین ( 1)
تحریر : عبد المتین منیری دو روز قبل علم وکتاب گروپ کے ایک معزز ممبر نے مولانا سعید احمد اکبرآبادیؒ مدیر برہان دہلی کا ایک اقتباس پوسٹ کیا ہے جس میں مولانا نے گولڈ زیہر پر ہمدردانہ انداز سے تبصرہ کیا ہے، یہ مضمون معارف اعظم گڑھ شمارہ اگسٹ ۱۹۸۲ء میں چھپا ہے، ہماری رائے میں مستشرقین اور استشراق کا مطالعہ کرنے والوں کے لئے یہ ایک رہنما مضمون ہے، یہ استشراق کو سمجھنے میں بہت ہی ممد ومعاون ہے۔ گولڈزیہر کے تعلق سے ہم نے اس مضمون کے علاوہ اور بھی مضامین کو معارف اعظم گڑھ، برہان دہل
یہ مقناطیس کی دعوت تھی...- احمد حاطب صدیقی
پچھلے جمعے کا پہلا جملہ تھا: ’’اگر ہندوستان والے اپنے ریلوے اسٹیشنوں کو ’پھک پھک اڈّا‘ کہہ سکتے ہیں تو پاکستان والے اپنے ٹی وی اسٹیشنوں کو ’بک بک اڈّا‘ کیوں نہیں کہہ سکتے؟‘‘ اِس پر ہمسایہ ملک کے کئی مردو زن اِک دوجے کا دامن تھامے لَین بنائے ’چھک چھک، پَھک پَھک، پوں پوں‘ کرتے چلے آئے اس عاجز کو مزید عاجز کرنے، کہ پھک پھک اڈّا نہیں بھک بھک اڈّا ہوتا ہے، اور اب نہیں ہوتا، پہلے ہوتا تھا۔ یہ آزادی سے قبل کا قصہ ہے۔ انگریزوں نے ہندوستان
سچی باتیں (۲۶؍فروری۱۹۳۲ء) نااتفاقی اور ناچاقی کا قرآنی علاج
سچی باتیں (۲۶؍فروری۱۹۳۲ء) نااتفاقی اور ناچاقی کا قرآنی علاج تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی قرآن مجید کے چھبیسویں پارہ میں ایک سورہ، حجرات ہے۔ اُس میں ارشا د ہوتاہے کہ:- ﴿إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُوا بَيْنَ أَخَوَيْكُمْ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (١٠) ﴾ [الحجرات: سب مسلمان آپس میں بھائی ہیں، سو اپنے بھائیوں کے درمیان صلح کرادیا کرو، اور اللہ سے تقویٰ اختیار کئے رہو، تاکہ تم پر رحم کیاجائے۔ گویا مقصود بندوں کی نزول رحمت سے خبر دیناہے، اور جو شر
بزرگ رشتوں کا اِمالہ جائز نہیں۔۔۔ تحریر: احمد حاطب صدیقی
اگر ہندوستان والے اپنے ریلوے اسٹیشنوں کو ’پھک پھک اڈّا‘ کہہ سکتے ہیں تو پاکستان والے اپنے ٹی وی اسٹیشنوں کو ’بک بک اڈّا‘ کیوں نہیں کہہ سکتے؟ کہہ سکتے ہیں نا؟ یہ بات ہے تو چلو یہ بھی کہہ کے دیکھتے ہیں۔ پاکستان کے ایک بک بک اڈّے سے ایک تفریحی پروگرام نشر ہوتا ہے۔ اُس پروگرام میں تالُو چھوڑے، مسلسل بولنے والے، ایک مہابکُّو برخوردار نے پرسوں بروزِ بدھ ہمیں ایک صوتی پیغام بھیجا: ’’السلام علیکم۔کیسے ہیں بھائی؟ آپ سے ایک رہنمائی چاہیے۔کل مجھے راستے میں اپنی یو
سچی باتیں (۱۹؍فروری۱۹۳۲ء)۔۔۔ حشر کے دن سب اعمال موجود پائیں گے۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی
وَوَجَدُوا مَا عملوا حَاضرًا۔ (کہف) لوگوں نے جو کچھ عمل کئے ہیں، اُنھیں موجود پائیں گے۔ یَوم تجد کلّ نفس مَا عَمِلَتْ مِنْ خَیرٍ مُحضرًا ومَا عَمِلْتْ مِنْ سُوء۔ (آل عمران) جس دن ہر شخص ، جو کچھ اُس نے نیکی کی ہے، اُسے موجود پائے گا۔ نیز جو کچھ اُس نے بدی کی ہے۔ دونوں آیتیں کلام مجید کی ہیں۔ دونوں موقعوں پر ذِکر قیامت کاہے۔ اہل تفسیر نے معنی یہ لئے ہیں، کہ اُس روز ہر انسان کا ہرعمل، چھوٹا ہو یا بڑا، نیک ہو یا بد، اُسے نامۂ اعمال میں مکتوب ومحفوظ ملے گا۔ اور ہر ادنیٰ سا ادنیٰ
حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۲)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۲)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی بہرحال اس زمانے تک جب مروان مدینہ شریف کا گورنر تھا۔ بلکہ اس کے بھی تیس برس بعد تک مزار مبارک پر حاضری دینا اس طرح ممکن تھا کہ حجرہ کے اندر تک رسائی ہو جاتی تھی اگر چہ عام امتیوں کے لئے کیا خاصاں وقت کے لئے بھی آداب زیارت کا ضابطہ یہی ہے کہ زیارت کرنے والا کسی بزرگ کے مزار سے اتنا ہی قریب ہو جتنا قرب صاحب مزار کی زندگی میں اس کی محفل میں اس کو نصیب تھا۔ ولید بن عبد الملک کے عہد حکومت میں (یعنی ۸۸ھ میں) جب
گودی میڈیا کو صبرینہ صدیقی سے سبق سیکھنے کی ضرورت... از: سہیل انجم
کچھ میڈیا سوالات کے نمونے: ’’آپ اپنی جیب میں پرس رکھتے ہیں؟ آپ کو پیسوں کی ضرورت پڑے تو کیا کرتے ہیں“؟ ’’آپ میں اتنی فقیری کہاں سے آئی“؟ ’’آپ اتنی توانائی کہاں سے لاتے ہیں“؟ ’’آپ آم کاٹ کر کھاتے ہیں یا چوس کر“؟ اب ایک اور سوال کا نمونہ: ’’آپ کی حکومت مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی بہتری اور اظہار خیال کی آزادی کو برقرار رکھنے کے لیے کیا اقدامات کرے گی“؟ اوپر چار سوالات کے ج
غلطی ہائے مضامین۔۔۔ لکھنا ہے تو ذخیرۂ الفاظ گھٹائیے نہیں۔۔۔ احمد حاطب صدیقی
غ برس بھر پہلے کی بات ہے، ایک جامعہ کے شعبۂ ابلاغیات کی دو طالبات آئیں، سمعی وبصری آلات سے لدی پھندی۔ مقصد تھا ہم سے ’مصاحبہ‘ کرنا۔ دیگر سوالات کے ساتھ ساتھ ایک سوال یہ بھی اُٹھایا کہ ’’اچھی اُردوکیسے سیکھی جائے اور اچھی اُردو کیسے لکھی جائے؟‘‘ اس سوال کا جیسا جواب ہم سے بن پڑا ہم نے دے دیا۔ پھر وہی جواب اپنے ایک کالم میں بھی لکھ ڈالا۔ یہ کالم 9 ستمبر 2022ء کو شائع ہوچکا ہے۔ اب پچھلے پرلے روز کی بات سنیے۔ ایک پُرانے ’پرونے‘ ہمارے گھر
حج کا سفر۔۔۔ آداب باریابی۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا فرنگی محلی
ادب کا تقاضا تھا کہ پائیں مبارک سے حاضر ہوکرمواجہہ شریف (ر وبروئی) میں باریابی حاصل کی جائے لیکن جسے خود اپنے سرو پا کا ہوش نہ رہا ہو اس سے کسی قسم کا تقاضا کرنا تقاضائے ہوش مندی کے خلاف ہو گا۔ آسان بات یہ تھی کہ جس سمت سے لوگوں کو دربار میں حاضر ہونے کے لئے جاتے دیکھتے اسی سمت چل پڑتے مگر ہم اس وقت جانے کے لئے اٹھے تھے جب مسجد نبوی سے لوگ رخصت ہو رہے تھے۔ رخصت ہونے والوں کا ساتھ دیتے تو جس طرح دروازے سے داخل ہوئے تھے اسی طرح باہر نکل جاتے، میں کب چونکا ؟ کہ اس محفل میں جب رخصت کا سا
حج کا سفر۔۔۔ آداب باریابی۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا فرنگی محلی
ادب کا تقاضا تھا کہ پائیں مبارک سے حاضر ہوکرمواجہہ شریف (ر وبروئی) میں باریابی حاصل کی جائے لیکن جسے خود اپنے سرو پا کا ہوش نہ رہا ہو اس سے کسی قسم کا تقاضا کرنا تقاضائے ہوش مندی کے خلاف ہو گا۔ آسان بات یہ تھی کہ جس سمت سے لوگوں کو دربار میں حاضر ہونے کے لئے جاتے دیکھتے اسی سمت چل پڑتے مگر ہم اس وقت جانے کے لئے اٹھے تھے جب مسجد نبوی سے لوگ رخصت ہو رہے تھے۔ رخصت ہونے والوں کا ساتھ دیتے تو جس طرح دروازے سے داخل ہوئے تھے اسی طرح باہر نکل جاتے، میں کب چونکا ؟ کہ اس محفل میں جب رخصت کا سا
حج کا سفر۔۔۔ حضور خواجہ دو عالم ﷺ۔۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
حیدر بھائی کے مہمان ہو کر بالکل اپنے گھر کے ماحول میں پہنچ گئے ، فرنگی محل میں ان کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا ، ہر دم آنا جانا رہتا تھا ، ان کے گھر کی خواتین یہاں بھی اس لباس میں رہتی ہیں جو لکھنؤ میں ان کا تھااور وہی زبان بولتی ہیں عورتیں بھی اور بچے بھی ، جو لکھنؤ میں ان کی تھی۔۱۵-۱۶ سال کے قیام مدینہ منورہ کی بدولت بول چال کی عربی زبان ان سب کو آگئی ہے اور ضرورت پڑنے پر بڑی روانی سے بولتے ہیں ،مگر گھر میں سب ،مادری زبان ہی بولتے ہیں ۔ حیدر بھائی کے فلیٹ میں سامان وغیر
حج کا سفر۔۔۔حضوری مدینہ منوره ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
جس راہ پر پہلے کبھی گزر نہ ہوا ہو اس کے مناظر خواہ دلکش ہوں یا نہ ہوں بہرحال اپنی طرف توجہ کھینچتے رہتے ہیں اور جسں منزل پر اس سے پہلے کبھی سائبان مسافرت نہ اتارا ہوا س کی اجنبیت کا تصور کسی نہ کسی عنوان سے جاری رہتا ہے ۔ لیکن جس نئی راہ پر اس وقت ہم گامزن تھے۔ مدینہ الرسول کی راہ-اس سے پہلی دفعہ گزرنے کے باوجود یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جانی بوجھی راہ اور ایسی جانی بوجھی شخصیت کی گزر گاہ سے جس کے جلو میں ہزاروں بار تصور ہی تصور میں ادھر سے گزر ہو چکا ہے ۔اور وہ منزل جہاں اب تک رسائی نہیں ہوئی ت
غلطی ہائے مضامین۔۔۔تھا جو ’ناخوب‘ بتدریج وہی ’خوب‘ ہوا۔۔۔ تحریر: احمد حاطب صدیقی
نظر کمزور ہوگئی ہے۔ قریب کی نظر بھی اور دور کی نظر بھی۔ سو، کڑے وقت میں قریب کے رشتے دار آس پاس نظر آتے ہیں نہ دُور کے۔ بس ایک خلائے بے کراں ہے کہ ہر سُو نظر آتا ہے۔ ’کراں‘ کہتے ہیں کنارے کو، حد کو اور انتہا کو۔ ’بحرِ بے کراں‘ اور ’بے کراں آسمان‘ کی تراکیب اکثر پڑھنے اور سننے میں آتی رہتی ہیں۔ ’خلائے بے کراں‘ کو بھی انھیں میں سے ایک جانیے۔ لگے ہاتھوں ایک بات اور جان لیجے۔ لاکھ سمجھانے پر بھی کوئی بات کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اُس کی ’سم
حج کا سفر۔۔۔ کوچ کی تیاریاں۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
تمام ملکوں کے سفارت خانے جن میں ہمارا سفارت خانہ بھی شامل ہے ، جدّے ہی میں ہیں اگر چہ عام دستور یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی میں سفارتی نمائندے ہوتے ہیں ، مگر سعودی حکومت کی راجدھانی ریاض میں نہیں، بلکہ ساحلی مقام جدّےمیں تمام ملکوں کے سفرا ءقیام رکھتے ہیں ۔ زمانۂ حج میں سفارت خانوں کے عارضی دفاتر مکۂ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھی کھل جاتے ہیں ،چوں کہ ہر ملک اپنے حاجیوں کے لیے خصوصاً اور عام حاجیوں کے لیے عموماً، مکۂ معظمہ ، منیٰ اور مدینہ منورہ میں شفا خانے بھی کھولتا ہے ۔ اور
حج کا سفر۔۔۔موتمر عالم اسلامی۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی
ہمارے قیام مکہ معظمہ کے دوران وہاں رابطہ عالم اسلامی کی دوسری موتمر اسلامی کا انعقاد ہوا، ایک شاہی محل تھا جسے معزول شاہ سعود نے رابطہ عالم اسلامی کو دے دیا تھا، وہیں رابطے کا سکریٹریٹ ہے، وہیں موتمر اسلامی ہوئی، مؤتمر کے مندوبین تمام اسلامی آبادیوں سے آئے تھے اور وہی مؤتمر میں شریک ہو سکتے تھے، رابطہ عالم اسلامی کے نائب صدر مولانا سید ابوالحسن علی صاحب ندوی نے ہمارے لئے بھی مندوب کا ٹکٹ داخلہ بغیر ہمارے کہے منگا کر دیا جس میں ہمیں "صحیفۂ صوت الشعب" (اخبار قومی آواز) کا مندوب کہا گیا تھا، موتمر