Search results

Search results for ''


حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  (۰۲)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

*حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  (۰۲)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی* ہمارے مولانا عتیق صاحب بھی اس سال حج کو گئے تھے، ان کو۷،ذی الحجہ کو جعہ کی نماز کے بعد حرم شریف میں دیکھ کر ہمیں ذراتعجب ہوا، بہت تعجب اس لئے نہیں ہوا کہ ممبئی  میں سن گن مل گئی تھی کہ ان کو بھی بذریعہ ہوائی جہاز جانے کی اجازت مل گئی ہے، جب انھوں نے بتایا کہ ان کی بیوی ،ہماری چچی صاحبہ بھی ساتھ آئی ہیں،تو واقعی حیرت سے ان کا منھ دیکھنے لگے، اگر حرم شریف میں نہ ہوتے یاا ن کی بذلہ سنجی کا کوئی سابقہ تجربہ ہمیں ہوتا تو ہم سمجھتے

حج کا سفر۔۔۔حج کے دنوں میں  ( ۰۱)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

تین چار روز جو ہمارے لئے فرصت کے تھے، ان ہی میں مناسک حج کی ادائیگی کے انتظامات کرنا تھے،حج کے زیادہ تر مناسک(ارکان)مکہ معظمہ سے دور آٹھ دس میل کی مسافت پر ادا ہوتے ہیں ۔ حج کا دن نویں ذی الحجہ (یومِ عرفہ )ہے ، اس سے ایک دن قبل مکہ معظمہ سے اس طرح روانہ ہو کر منی،جو چار میل دور ہے، جانا چاہئے کہ پانچ وقت کی نمازیں وہاں پڑھ کر دوسرے دن کوئی دس میل دور اور آگے عرفات روانہ ہواجائے۔ جانے کے لئے سواریوں کا انتظام ہے،بسیں ٹیکسیاں(اور آج سے پہلے اونٹ اورگدھا گاڑیاں تھیں) حاجیوں کو منی اور عرفات پہنچا

سچی باتیں (۲۹؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ دین نہیں تخریب دین۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi Sachchi Batain

پولیس کا سب انسپکٹر اپنے تھانہ میں لاکھ بااختیار سہی، لیکن صوبہ کے گورنر کو اگر آپ ’’داروغہ جی‘‘ کہہ کر مخاطب کریں، تو یہ اس کی تعظیم ہوئی یا توہین؟ ڈپٹی مجسٹریٹی بجائے خود ایک معزز عہدہ ہے، لیکن وائسرائے بہادر کو ’’ڈپٹی صاحب‘‘ کہہ کر دیکھئے تو! سپہ سالار (کمانڈر انچیف) افواجِ ہند کو کبھی ’’اجی جمعدار صاحب‘‘ کہہ کر آواز دینے کی ہمت آپ کی پڑے گی؟ کسی بادشاہ کے وسعتِ اختیارات کے بیان میں یہ کہہ ڈالنا، کہ اُسے ہر کانسٹبل، ہر

    حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (4)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

ہمیں مكہ معظمہ میں دو ہی چار ہندوستانیوں سے ملاقات كا موقع ملا ‏، ان میں سے ایك تو ہمارے لكھنؤ كے سید نیاز علی ساویكار تھے جو یہاں معلوم ہوا كہ ہمارے شاگرد ہیں جب ہم مدرسہ نظامیہ (فرنگی محل)میں معلمی كرتے تھے ‏، تو وہ ابتدائی درجوں میں وہاں پڑھتے تھے اور ہم سے بھی پڑھا تھا ‏، بلكہ ان ہی كے بیان كے مطابق ہمارے ہاتھ ماربھی كھائی تھی ‏، انہوں نے خوب یاد ركھا اور ہمیں اس وقت یہ بات انہوں نے یاد دلائی جب ہم ایك پر تكلف دعوت ان كے یہاں سے كھاكر رخصت ہورہے تھے ۔ مرزا غالب كے ایك شاگرد تھے سید صاحب انہ

حج کا سفر ۔۔۔ حرم کعبہ میں(3)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

ہمارے ملك كے حاجیوں كی تو غالب اكثریت ان پڑھ اور نچلے طبقے كے دیہی افراد پر مشمل ہوتی ہے ‏، شوقِ حج و زیارت انہیں كشاں ‏، كشاں پہونچادیتا ہے مكہ معظمہ اور مدینہ منورہ ! جو بركتیں ان مقدس مقامات كی حاضری سے حاصل ہوناچاہیئں وہ حاصل بھی ضرور ہوجاتی ہیں ‏، ان سب حاضری دینے والوں كو خواہ وہ ان پڑھ ہوں یا گنوار ‏، عالم ہوں ‏، یا جاہل ‏، مگر ‘‘ یشہدوا منافع لہم ’’ میں جو حقیقت پوشیدہ ہے وہ منكشف ہوجانے سے بلاشبہ رہ جاتی ہے ۔ جوخالص اسلامی ملك ہیں ان كے عوام نہیں خواص بلكہ حكومتوں كے اسلامی سربراہ تك م

حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں(۲)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

یہاں بہت سے حضرات و احباب مل گئے جو ہوائی جہاز سے آگئے تھے ‏، شیخ ظہیر حسین (ركاب گنج) سید اكرام الحق (لاٹوش روڈ) سعید الظفر ‏، چودھری عظیم الدین اشرف (پیار ‏، بارہ بنكی ) مولانا مفتی محمد عتیق فرنگی محلی ‏، مولانا محمد میاں فاروقی الہ آبادی ‏، مولانا سید ابوالحسن علی ندوی‏، مولانا محمد منظور نعمانی اور بہت سے حضرات ‏، ہمیں مولانا علی میاں كے پاس فوراً جانا تھا كہ ان سے شیخ التبلیغ مولانا محمد یوسف مرحوم كی تعزیت كریں ‏، معلوم ہوا وہ بہت ہی قریب فندق عرفات میں مقیم ہیں ‏، یہ ہمارے ایك دوست مولان

حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (۱)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

*حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (۱)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی سرزمینِ حجاز میں پہلی منزل جدہ تھی اور دوسری منزل مكہ معظمہ ‏، جدے كے بارے میں ہم جانتے تھے كہ اسلام اور آعازِ اسلام كی تاریخ سے اس كا كوئی خاص تعلق نہیں رہا ہے ‏، یہ بھی ثابت نہیں كہ پیغمبرِ اسلام ﷺ كے مبارك قدموں سے جدے كی زمین كبھی مشرف ہوئی ہے ‏، اس لیے جدے پہنچ كر بھی كسی خاص قسم كا جذباتی اثر طبیعت نے محسوس نہیں كیا ‏، اس كے برعكس یہاں كی عالی شان اور سربہ فلك عمارتوں كو دیكھ كر یہ امتیاز كرنا بھی مشكل تھا كہ یہ وہی سرزمینِ حجاز

ذکی حسین۔۔۔ اللہ حافظ۔۔۔ تحریر: عبد المتین منیری

Abdul Mateen Muniri Yadaun Kay Chiragh

 اس کا چہرہ کتنا دمک رہا تھا، چہرے پر سیاہ سنت ڈاڑھی گویا نور برسا رہی تھی،  اس پر عجیب سی رونق چھا گئی تھی،  ۶/ جون کو جب سائے دراز ہورہے تھے، قصر حافظ میں مسہری پر رکھا ہوا اس کا جسد خاکی ایسے نظر آرہا تھا جیسے تھکے ماندے مسافر نے منزل مقصود پالی ہو،اور اب اسے آرام مل گیا ہو، دائمی آرام، جس کے لئے وہ مدت سے تڑپ رہا تھا، اور اب جو آنکھ لگی تو سامنے جنت کا پھاٹک اسے کھلتا ہوا   نظرآئے، جس میں فرشتے اس کے استقبال میں مرحبا مرحبا کی صدائیں بلند کررہے ہوں۔ دنیائے فانی

سچی باتیں (۲۲؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ ماں کی قدر وقیمت۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi Sachchi Batain

  قدرت کا انتظام بھی عجیب ہے۔ جو چیزیں سب کے کام آنے والی، اور سب سے زیادہ ضروری ہیں، اُنھیں خزانۂ قدرت نے بالکل عام کرکے لُٹا رکھاہے، اُن کی نہ کوئی قیمت ہے ، نہ اُن  کے ملنے میں کوئی دشواری ، نہ اُن کے لئے کسی زبان ومکان، موسم ومقام کی قید۔ ہَوا پر زندگی کا دار ومدار ہے، ہوا کسی قدر عام ہے۔ گرمی اورسردی، صبح وشام، یہاں اور وہاں، ہرجگہ، ہروقت، بوڑھے، بچّے، امیر،غریب، شریف، رذیل، سب ہی کوملتی رہتی ہے۔ دوسرے نمبر پر ضروریاتِ زندگی میں پانی ہے۔ اکثر مقامات پر اس کی بھی افراط، اور اس

حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (3)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari Other

ساحل پر ڈال دیے جانے كے بعد سارا سامان ٹركوں میں بھر كر كسٹم ہاؤس لایاجاتا ہے اور چشمِ زدن میں وہاں سامان كا ایك ڈھیر لگ جاتا ہے ‏، اب ہمت ہو تو اپنے عدو اس انبار میں ڈھونڈ نكالیے !۔ سامان كا یہ حشر جدے میں ہوگا اس كی سن ‏، گن ہمیں پہلے ہی مل گئی تھی ‏، ہمارے ایك رفیق عارف صاحب خیرآباردی عرف ملامیاں جو دوسری بار 28 سال بعد حج كو جارہے تھے ‏، نئے مسافروں كو اپنے سابقہ تجربے بتانے بڑی فیاضی سے كام لےرہے تھے ‏، انہوں نے ایك طرح سے آگاہی دے دی تھی اور بتایا تھا كہ اگر اپنا قلی

غلطی ہائے مضامین۔۔۔ ارضِ خیرآباد تیری خیر ہو۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

Ahmed Hatib Siddiqui Other

پچھلے دنوں ہمارے پیارے وطن کی ایک پیاری پارٹی کے پیارے پیارے پیڑ سے اس کے پُرانے پُرانے پنچھی پرواز کرگئے۔ پُرانے ہی نہیں، مارے ڈر کے اُس کے پَپُّو پرندے بھی بھرّا مار کر اُڑ گئے۔ ہُش ہُش کرکے اُڑاتے وقت جس ’پا، جی‘ نے ان سیاسی پرندوں کو پروانۂ پرواز تھمایا تھا، اُس نے سب اُڑنچھوؤں کو ایک ہی مضمون کا منقول بھی تھما دیا۔ سو، ہر رٹُّو توتا یا توتی، ٹی وی پر آتا یا آتی، اپنی رٹی رٹائی سناتا یا سناتی، پھر آخر میں یہ اعلان بھی فرماتا یا فرماتی کہ ’’میں نے آج سے پارٹی اور

حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (2)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari Other

ابھی ساحل ہم سے دور تھا مگر آثار ساحل نظر آنے لگے تھے کہ ہمارے جہاز کی رفتار سست ہونے لگی اور ایک لمحے کے لئے تو قریب قریب رک گئی، دیکھا کہ دور سے ایک دخانی کشتی تیزی سے جہاز کی طرف آرہی ہے جس پر سعودی حکومت کا پرچم لہرا رہا تھا۔ کشتی قریب آئی اور جہاز سے لٹکی ہوئی ایک رسی کی سیڑھی کی مدد سے ایک عرب تیزی اور بے باکی سے ہمارے جہاز پر چڑھ آیا عربی لباس میں جس کی پیشوائی حاجیوں نے السلام علیک سے کی ۔  یہ عرب رہنمائے حج پائیلٹ تھا، جہاز رانی کا یہ مقرر دستور ہے کہ جب کسی ساحل کے قریب کوئی جہ

حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (۱)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

صرف ایك تہبند اور ایك چادر میں ملبوس اور برہنہ سر ہونے كا وقت آگیا ‏، شیروانیاں ‏، سوٹ اور كوٹ ٹررین كی بش شرٹیں اور پتلون پائجامے غرض تمام الباس فاخرہ چشمِ زدن میں غائب ہوگئے ‏، ہرجوان و پیر غلاموں كی وردی زیب تن كیے مالك كے دربار میں حاضر ہونے كے لیے مستعد ہونے لگا ۔ اب تك لباسوں كے ذریعے كشمیری ‏، مدراسی ‏، لكھنوی ‏، دہلوی ‏، بنگالی ‏، افغانی اور دوسرے مختلف باشندوں كو بآسانی پہچانا جاسكتا تھا ‏، اچانك یہ تمام امتیازات اور اعتبارات مفقود ہوگئے ‏، امیر ‏، غریب ‏، چھوٹے ‏، بڑے ‏، مالك اور خادم

سچی باتیں (۱۵؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ کار آمد مشغلہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Abdul Majid Daryabadi Sachchi Batain

 سچی باتیں (۱۵؍جنوری ۱۹۳۲ء)۔۔۔ کار آمد مشغلہ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادی میر تقی میرؔ، اُردو کے کتنے زبردست شاعر ہوئے ہیں۔ ذوقؔ، غالبؔ، ناسخؔ سب ہی اُن کو اُستاد مانتے آئے ہیں۔ لیکن آج اگر کوئی اُن کی زبان، تحریر یا تقریر، نثر یا نظم میں استعمال کرنے لگے، تو لوگ اُس پر ہنسنا شروع کردیں۔ ’’ٹک‘‘ اور ’’تلک‘‘ اور ’’تِس‘‘ اور ’’کسو‘‘ اور خدا معلوم کتنے اور الفاظ، اُن کے زمانہ میں جانِ فصاحت تھ

حج کا سفر ۔۔۔۔ جہاز کا نظم کار (6)۔۔۔   مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

یاد آیا کہ ایک بغدادی درویش نے ایک ہندی حاجی سے آج سے پونے دو سو برس پہلے بڑی تسلی بخش بات کہی تھی، مولانا حاجی رفیع الدین فاروقی مراد آبادی ۱۲۰۱ ھ میں حج کو گئے تھے انہوں نے ایک سفر نامہ بھی فارسی میں لکھا تھا جسے ہندوستان کا سب سے پہلا سفر نامہ حج کہا جاتا ہے، ان کا بیان ہے۔۔ "مطاف میں (خانہ کعبہ کے سامنے) ایک درویش علی نام جو بغداد کے رہنے والے ہیں میرے پاس بیٹھے ہوئے تھے، مرد صالح اور عالم ہیں، بعد مکالمہ وحصول تعارف میں نے ان سے کہا کہ تم مرد صالح ہو میرے لئے دعا کرو کہ حق تعالی میری مغفرت

حج کا سفر ۔۔۔۔ جہاز کا نظم کار (5)۔۔۔   مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

پانچوں وقت باجماعت نماز کا انتظام بھی جہاز کی کسی کھلی جگہ پر کیا جاتا ہے، اگر نہ کیا گیا تو امیرالحج کپتان سے تقاضا کر کے یہ بندوبست کراتا ہے، جماعت کے لئے امام اور اذان کے لئے مؤذن کا بندوبست بھی امیرالحج کرتا ہے، زری والا اگر حج سے پہلے بھی داڑھی رکھے ہوتے تو شاید مولانا شاہد فاخری انہی کو امامت بھی تفویض کر دیتے، مگر لاچار تھے خودہی یہ منصب سنبھالنا پڑا، پھر بھی کبھی کبھی دوسروں کو نماز پڑھانے پر مجبور کر دیتے تھے، مؤذن بھی ایک خوش الحان نوجوان مل گیا لکھنو میں مولوی گنج کے رہنے والے حاجی عب

حج کا سفر ۔۔۔۔ جہاز کا نظم کار (4)۔۔۔   مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys Other

*ماہنامہ "البلاغ” کے ایڈیٹر مولوی محی الدین منیری (ممبئی) بھی اس جہاز پر تھے جن سے بالکل اچانک جہاز پر تعارف ہوا، ایک تعارفی خط جو ہمارے دوست حکیم عبدالقوی دریابادی نے ان کے نام بمبئی میں کام آنے کے لئے دیا تھا، وہ تعارف کے بعد ان کو جہاز پر حوالے کیا، منیری صاحب ہی ایک ایک کو تقریر کے لئے اکسایا کرتے تھے، جب ان کو یہ نسخہ بتادیا کہ کسی کتاب سے مسائل حج سنا دیا جایا کرے تو وہ ہی بچارے یہ خدمت روزانہ انجام دیتے رہے*۔ ہمارے ساتھی متین میاں نائب امیرالحج تھے ان کا خاص کام جہاز کے مریضوں کو ڈاکٹر ک

 غلطی ہائے مضامین۔۔۔ہُکّا ہُواں … ہُکّا ہُواں۔۔۔۔ احمد حاطب صدیقی

Bhatkallys Other

پروفیسر ڈاکٹر محمد سلیم صاحب (رابغ، سعودی عرب) نے ہدیہ فرمایا ہے، شوقؔ بہرائچی کا یہ دلچسپ مطلع:۔ اگر تاراج یوں ہی بُلبلوں کا آشیاں ہو گا چمن میں ایک دن ’’ہُکّا ہُواں، ہُکّا ہُواں‘‘ ہو گا ’تاراج کرنے‘ کے معنی تو خیر پچھلے دنوں سبھی جان گئے کہ ’تباہی و بربادی پھیر دینے‘ کے ہیں۔ مگر یہ ’ہُکّا ہُواں‘ کیا ہے؟ یہ لفظ تو کسی لغت میں ملتا ہے نہ ایسی آواز کسی شہر میں سنائی دیتی ہے۔ جدید شہروں کی نئی نسلوں کے لیے نامانوس آواز۔ مگر اب تو صاحب گاؤں بھی شہر ہوتے جارہے ہیں۔ گاؤں جب گاؤں ہوا کرتے تھے