Search results
Search results for ''
Translation missing en.article.articleCategories
Translation missing en.article.articleAuthors
Abdul Haleem Mansoor
Abdul Majid Daryabadi
Abdul Mateen Muniri
Abdur Raqeeb M.J Nadwi
Ahmed Hatib Siddiqui
Asif Jilani
Athar Hashmi
Bhatkallys
Dr Badrul Hasan Qasmi
Dr Haneef Shabab
Dr. F Abdur Rahim
Dr. Tahir Masud
Hafiz Naumani
Kaldip Nayar
Masoom Muradabadi
Masud Ahmed Barkati
Mohammed Mateen Khalid
Nizamuddin Nadwi
Riyazur Rahman Akrami Nadwi
Suhail Anjum
Aziz Belguami
آج علی الصبح بنگلور سے عزیز بلگامی کے اس دنیا سے رخصت ہونے کے اطلاع نے دل ودماغ کوبہت مغموم کردیا، آپ نے اس جہان فانی میں (71) سال گذارے۔ آپ کی پیدائش کرناٹک کے ضلع بلگام کے گاؤں کڑچی میں یکم مئی 1954 کو ہوئی تھی، آپ ایک ایسے خاندان سے تعلق رکھتے تھے جس نے آج سے سوا دو سو سال قبل سلطنت خداداد کے دور میں مقامی حکمران کی حیثیت سے سلطان ٹیپو شہیدؒ کا ساتھ دیا تھا، لہذا آپ کے خانوادے کے ساتھ جمعدار لقب لگتا تھا۔ اس لئے آپ کے والد ماجد محمد اسحاق مرحوم جمعدار کہ
Suhail Anjum Article
آجکل ایک ایسی خبر میڈیا میں گردش کر رہی ہے جس کو پڑھ کر بے شمار زخموں کے بند کھل گئے ہیں۔ وہ زخم جو ماب لنچنگ سے ملے اور جن کے متاثرین آج تک انصاف سے محروم ہیں۔ خبر یہ ہے کہ اترپردیش میں دادری کے بساہڑہ گاوں کے محمد اخلاق کو پیٹ پیٹ کر ہلاک کرنے والوں کے خلاف قائم مقدمات واپس لینے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ اترپردیش کی حکومت نے اس سلسلے میں عدالت میں ایک درخواست داخل کی ہے۔ ریاست کے اسپیشل سکریٹری مکیش کمار نے گوتم بدھ نگر کے ڈی ایم کو خط لکھ کر مقدمہ واپس لینے کی منظوری دی ہے۔ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ ایڈووک
Insani ijadat Ki Bay Basi
طیّارہ، یا عوامی زبان میں، ہوائی جہاز بھی اب کوئی نئی یا نامانوس چیز رہے ہیں؟ جیسے ریل، جیسے موٹر، جیسے لاری، جیسے ٹرام، جیسے موٹر سائکل، جیسے اسٹیمر، جیسے جہاز، ویسے یہ ہوائی جہاز۔ ہرروز، ہروقت اِدھر سے اُدھر اُڑتے پھرتے ہی رہتے ہیں۔ اور ہندوستان اور انگلستان کے درمیان تو ڈاک اورمسافر جہازوں کا ، ’’بادِ ہوائی ‘‘ نہیں، باضابطہ ہوائی سلسلہ مدت سے قائم ہے۔ یکم مارچ کو ایک طاقتور سرکاری ہوائی جہاز ، ہینی بال نام، ایک نہیں، چارچار پُرقوت انجن رکھنے والا، کراچی سے لندن کے لئے
Abdul Haleem Mansoor Article
؎ تو رہ نوردِ شوق ہے، منزل نہ کر قبول لیلیٰ بھی ہو نصیب تو محمل نہ کر قبول ٹیپو سلطان شہیدؒ کا نام ہندوستان کی تاریخ میں صرف ایک حکمران کے طور پر نہیں آتا بلکہ بہادری، عزتِ نفس، عدل و انصاف اور آزادی کی علامت کے طور پر جگمگاتا ہے۔ وہ برصغیر کے پہلے ایسے حکمران تھے جنہوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کی بڑھتی ہوئی طاقت کو للکارا، اپنی سلطنت کے وسائل جدید خطوط پر استوار کیے، اور آزادی کی وہ شمع روشن کی جس کی روشنی آج تک مدھم نہیں ہوئی۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سیاست نے اس عظیم شخصیت کو بھی اپنے
Riyazur Rahman Akrami Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر" عیدالفطر کے دن عصر کی نماز کے بعد خاندانِ فقی احمدا (عرف جاکٹی) کے تمام افراد اپنی قدیم و تاریخی رہائش گاہ، *"جاکٹی ہاؤس"* (سلطان محلہ میں جناب جاکٹی عصمت صاحب کی رہائش گاہ ان کے فرزندوں میں جناب سرفراز ،مزمل ،سعود مولوی ابوبکر سیان فقی احمدا ندوی ) میں جمع ہوتے ہیں۔ یہ ایک دل کش اور روح پرور منظر ہوتا ہے جہاں محبت، عقیدت اور خاندانی اتحاد کے رنگ نمایاں نظر آتے ہیں۔ بڑے ہوں یا بچے، سب ایک دوسرے کو گرم جوشی سے عید کی مبارک بادیاں ب
Riyazur Rahman Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار ودر" پرانے زمانے میں جب مائیک یا لاؤڈ اسپیکر نہیں ہوتے تھے، اذان دینے کے لیے مساجد میں ایک مخصوص بلند جگہ بنائی جاتی تھی۔ مؤذن وہاں چڑھ کر پورے جذبۂ ایمان کے ساتھ اذان دیتے، جس کی آواز گلی کوچوں میں گونجتی اور لوگ اپنے کام چھوڑ کر مسجد کی طرف روانہ ہو جاتے۔ نماز کے اوقات میں محلہ عبادت کی روشنی سے جگمگا اُٹھتا۔ اسی طرح سلطانی مسجد میں بھی اذان کے لیے ایک بلند مقام موجود تھا جہاں سے مؤذن کی پرجوش آواز پورے علاقے میں گونجتی، اور لوگ جوق در جوق نما
Azadi Niswan ka Namuna
آج سے قبل، بہت قبل، دوہزار سال سے بھی قبل، کہتے ہیں، کہ خطّۂ حکمت ودانش، یونان تمدن نشاں کے مضافات ہیں، علاقہ کیپڈوسیاؔ یا ایشیائے کوچک میں، بحراسود کے قریب، دریائے تھرموڈانؔ کے کنارے کنارے، ایک جنگجو قوم آباد تھی۔ کام ہی لڑنا بھڑنا، مارنا اور مرناتھا۔ ایک ایک فنون سپہ گری میں طاق، تیراندازی میں مشّاق، نیزہ بازی میں شہرۂ آفاق، ہمت ومردانگی کی دھاک دُور دور بیٹھی ہوئی، نزدیک ودُور کی ہرقوم اس کے نام سے لرزتی ہوئی……مرداِس ’’جواں مرد‘‘ قوم میں ایک نہ تھا ج
Abdur Rahman Akrami Nadwi Article
"دوبارہ جئیں گے یہ دیوار و در" سلطانی محلہ شہر بھٹکل کا ایک تاریخی محلہ ہے۔ وہ محلہ جہاں ایک زمانے میں علم و ادب کی روشنی پھیلی، بڑے بڑے ادباء شعراء اور دین و ملت کے خدمت گزار پیدا ہوئے اور قوم کے وقار کو دنیا بھر میں عام کیا۔ چند سال قبل تک یہاں کی گلیاں رونق افزا تھیں، ہر گھر میں زندگی کی حرارت تھی اور سلطانی مسجد کی عظمت نے پورے علاقے کو ایمان و تقویٰ کی خوشبو سے معطر کر رکھا تھا۔ بھٹکل کی قدیم عیدگاہ پر شہیدِ ملت حضرت ٹیپو سلطان نے اپنے دورِ حکومت میں ایک شاند
Shukran Bhatka (03)
تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ *جامعہ کے تحت چلنے والے مدارس و مکاتب* جامعہ کے کئی ذیلی ادارے اور مکاتب بھی ہیں جن کو جامعہ ہی سے فارغ نوجوان چلا رہے ہیں انہوں نے ان مدارس و مکاتب کے لیے خود اپنا نصاب تعلیم بھی تیار کیا ہے ان میں سے بعض مکاتب میں ہائی ٹیک(Hightec) سہولتوں سے آراستہ کلاس روم ہیں، ایک بڑی خوش آئند بات یہ ہے کہ کئی ندوی فضلاء اپنے ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر ایک ٹیم کی شکل میں
Shiran Bhatkal (02)
تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ *جنت نشاں شہربھٹکل *! اہل بھٹکل کے درمیان میں تقریبا نصف صدی سے کسی نہ کسی شکل میں رہ رہا ہوں، ندوۃ میں طالب علمی کا زمانہ ہو کہ دبی میں بغرض ملازمت چالیس سال سے زائد قیام، دوست اور احباب برابر بھٹکل آنے کی دعوت دیتے اور اصرار کرتے مگر اب تک یہ سعادت حاصل نہ ہوسکی تھی۔ اتنے سالوں بعد آج پہلی بار سر زمین بھٹکل میں قدم رکھا ہے۔ &
Maghrib Ki Islam Dushmani
بات کچھ ایسی بہت زمانہ کی نہیں، ابھی 1924ء ہی کی توہے، کہ ٹرکی میں ’’اسلامی‘‘ حکومت تھی، غیروں کی زبان پر نہیں، خود اپنی نظر میں۔ ’خلافت‘ مِٹی تو مِٹی، یہ کچھ کم تھا کہ ترکیہ اپنے کو ’’اسلامی‘ ‘ حکومت کہہ رہی تھی۔ 24؍اپریل 24ء کو مجلس ملّی نے جودستور اساسی منظور کیا۔ اُس کی دفعہ 2تھی:- ’’حکومتِ ترکیہ کا مذہب اسلام ہے‘‘۔ اسی قانون کی دفعہ 26تھی:- ’’مجلسِ ملّی ذمّہ دار ہے قانونِ شریعت کے نفاذ ک
Shukran Bhatkal (01)
تحریر: مولانا نظام الدین ندوی۔ رانچی۔ جھارکنڈ اپریل کے دوسرے ہفتے میں دبی سے وطن واپسی لکھنو کے راستے ہوئی، حسن اتفاق ان ہی دنوں میرے دیرینہ رفیق و ہمدم آفاق منظر ندوی رانچوی مہاجر گیاوی کا بھی لکھنؤ آمد کا پروگرام بن گیا ان ہی دنوں ہم سب کے محبوب عمیر بھائی یعنی عمیر الصدیق دریا بادی ندوی رفیق دارالمصنفین کئی مؤقر اداروں اور انجمنوں کے ممبروعہدیدار،علمی و ادبی جرائد و مجلات کے ایڈیٹر اور کالم نگار بھی تشریف فرما ہوئے،
Nay Dour Ka Hasraria
سچی باتیں (18؍نومبر 1940ء)۔۔ نئے دور کا ہسٹیریا تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ بھوت ، پریت، خبیث، آسیب، چڑیل، کے آپ قائل ہوں یا نہ ہوں، واقف توبہرحال ان کے ناموں سے اور کارناموں سے ہوں گے۔ فلاں پر ’’شیخ سدّو‘‘ آگئے، اور وہ کھیلنے لگا۔ فلاں پر ’’لونا چماری‘‘ کا اثر ہوگیا۔ فلاں کو’’ کلوابیر‘‘ نے دبالیا۔ فلاں کو آسیبی خلل ہوگیا۔ فلاں پر جنّات آگئے، فلاں پر پریوں کا سایہ ہوگیا۔ یہ چیزیں کس کے علم میں نہی
Roshan Khayali
’’اگر بروقت روک تھام نہ ہوئی، تو اس صدی کے ختم ہوتے ہوتے دُنیا پھر دَور غارنشینی کی طرف لوٹ جائے گی، اور لوگ پھر غاروں اور کھوہوں کے اندر رہنا شروع کردیں گے‘‘۔ تہذیب وتمدن کے مستقبل کی یہ نقشہ کشی قدامت پرست مُدیر صدق کے قلم سے نہیں، جدت نواز وتجدد دوست مسٹر ایڈن کی زبان سے ہے، جو ابھی کل تک برطانیہ کے وزیرِ خارجہ تھے، اور آج بھی ان کا شمار ’’عقلاء‘‘ فرنگ میں ہے!……ایک اکیلے مسٹر ایڈن؟ چھوڑئیے اُنھیں۔ دیکھئے ، مشہور مفکر برطانی
Suhail Anjum Article
ایسا لگتا ہے جیسے بی جے پی کسی بھی قیمت پر مرکزی اقتدار سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس نے تہیہ کر لیا ہے کہ وہ اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے کچھ بھی کرنے سے گریز نہیں کرے گی۔ خواہ اس کے لیے آئینی و جمہوری اقدار پر حملہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ حکومت نے ابھی حال ہی میں انسداد بدعنوانی کے نام پر جو بل پیش کیا ہے وہ قانونی ماہرین کے مطابق آئینی و جمہوری اقدار کے منافی ہے اور اس کا مقصد اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ اور وزرا کو اقتدار سے باہر کرنا ہے۔ اس بل کا نام ’کرپٹ نیتا ریموول بل&lsquo
Suhail Anjuma on Gaza
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ حکومت ہند نے فلسطین اور بالخصوص غزہ کو فراموش کر دیا اور کانگریس نے یاد رکھا۔ وزیر اعظم نریندر مودی ہر جگہ جنگ بند کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور یہ اچھی بات ہے لیکن انھوں نے غزہ کو کیسے بھلا دیا۔ وہ اپنے دوست اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو پر فلسطینیوں کی نسل کشی بند کرنے کے لیے دباؤ کیوں نہیں ڈالتے۔ وہ تو ان کے ’مائی ڈیئر فیرنڈ‘ ہیں۔ وہ اگر ان سے کہیں کہ بھائی بہت ہو گیا اب تو یہ ظلم و جبر بند کرو تو ممکن ہے کہ قتل و غارت کا سلسلہ بند ہو جائے۔ لیکن ان
Teri Yad Aai Teray janay kay baad . Yaseen Mohtisham
آج مورخہ یکم اگست ۲۰۲۵ء علی الصبح خبر آئی کہ یاسین محتشم صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، انہیں لو شوگر ہوگیا تھا، جس سے وہ جانبر نہ ہوسکے،اور ٓنا فانا اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کی عمر (۴۳) سال تھی۔ ایک ایسی عمر جس میں انسان ایک منزل پر آکر ٹہر جاتا ہے، اور مستقبل کے نقشوں میں رنگ بھرنے لگتا ہے، وہ اپنے اور اہل وعیال کے روشن مستقبل کے منصوبے بناتا ہے، اور اپنی زندگی کے ایک متعین نصب العین کی راہ پر چل نکلتا ہے۔ لیکن جب داعی اجل آتا ہے تمام ارادےاور منصوبے دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں، ن
jadeed Jahiliyat
وَما کانَ صَلاتھم عِند البَیتِ الَّا مُکائً وَتصدِیۃً (سورۂ انفال ، آیت 35) ایک چَوکور مکان کی گِرد اُچھلتے ، کودتے، زمین پر پَیر پٹختے چلے جارہے ہیں۔ سیٹیوں پر سیٹیاں بج رہی ہیں، ہاتھوں سے تال دیتے جاتے ہیں۔ یوں سمجھئے ، کہ ناچ کی جگہ ناچ، باجے کی جگہ باجہ! اور ہیں کون کون؟ مرد بھی اور عورتیں بھی، لیڈیز بھی جنٹلمین بھی، باپ بھی بیٹیاں بھی، مائیں بھی لڑکے بھی۔ آج کی اصطلاح میں مجمع پوری طرح ’’مخلوط‘‘ ۔ آزادانہ اختلاط کامکمل مرقع۔ چہرے نقاب سے ڈھکے ہوئے نہیں،