Khayal E Aakhirat - Abdul Majd Daryabadi
یعلمون ظاہرًا من الحیاۃ الدنیا وہم عن الآخرہ ہم غافلون۔ أو لم یتفکّروا فی أنفسہم ما خلق اللہ السماوات والأرض ومابینہا الّا بالحقّ وأجل مسمیٰ، وان کثیرًا من الناس بلقاء ربہم لکافرون۔ أو لم یسیروا فی الأرض فینظروا کیف کان عاقبۃ الذین مِن قبلہم کانوا أشدُّ منہم قوّۃًوأثاروا الأرض وعمروہا أکثر مما عمروہا وجاء ہم رسلہم بالبینات فما کان اللہ لیظلمہم ولکن کانوا أنفسہم یظلمون۔ (روم۔ ع۴)
یہ لوگ صرف دنیوی زندگی کی ظاہری حالت کو جانتے ہیں، اور آخرت سے بالکل بے خبر ہیں۔ کیا انھوں نے اپنے اندر غورنہیں کیا۔ اللہ نے تو آسمانوں کو اور زمین کو، اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے، ان سب کو کسی حکمت ہی سے، اور ایک میعادِ معیّن ہی کے لئے پیداکیاہے، اور بہت سے لوگ اپنے رب سے ملنے ہی کے منکر ہیں۔ کیا یہ لوگ زمین میں چلے پھرے نہیں، کہ دیکھتے بھالتے، کہ جو (منکرین) ان سے پہلے گزرے ہیں، اُن کا کیا انجام ہواہے، وہ ان سے قوّت میں بھی بڑھے ہوئے تھے، اور اُنھیں نے زمین کو بھی (ان سے بڑھ کر)بویاجوتاتھا، اور جتنا اِنھوں نے زمین کو آباد کررکھاہے، اس سے زیادہ اُنھوں نے آباد کررکھاتھا، اوراُن کے پاس بھی اُن کے پیمبر کھُلے ہوئے دلائل لے کرآئے تھے۔ سو اللہ تو ایسا نہ تھا کہ اُن پر ظلم کرتا بلکہ وہ خود ہی اپنے اوپر ظلم کررہے تھے۔
منکرین حق کی اصلی سایکالوجی بیان ہورہی ہے، ذہنیت بے نقاب ہورہی ہے کہ انھیں اپنے علم اور معلومات پر غرّہ ہے، سو اس کی بساط ہی کیاہے!اِن کے سارے علوم اور سارے فنون کی کائنات بس یہی حسّی اور مادّی دُنیا، اور اسی کے احوال تو ہیں، بہت بڑا اور بے حد وسیع عالَم جو اس کے بعد آنے والا ہے، وہ ، جس طرح ان کی ظاہری آنکھوں سے اوجھل ہے، اُسی طرح اُس کی طرف سے یہ اپنے دل کی آنکھیں بھی بند کئے ہوئے ہیں! یہ ذر ا غوروتامل سے کام لیتے تو انھیں نظرآجاتاکہ، یہ تو یہ، یہ زمین اور آسمان، اور جتنی بھی مخلوق ہے، سب کی خلقت کسی مقصد ہی سے ہوئی ہے(اس لئے بے مقصد اور غیر ذمہ دار کوئی بھی ہستی نہیں)اور سب کی زندگی ایک وقت مقرر تک ہی کے لئے رکھی گئی ہے۔ اس لئے فناومَوت تو لازمۂ حیات ہے، اور یہ سبق کسی طرح بھولنے والانہیں۔ مگر یہ لوگ ایسے احمق اور نافہم ہیں کہ اسی مرکزی اور بنیادی حقیقت سے غافل ہیں! اور ذرا یہ لوگ گھروں سے باہر نکل نکل دیکھتے، کہ پُرانے منکروں کا کیا انجام ہوا؟ ہلاکت وبربادی سے کسی طرح اپنے تئیں بچاسکے؟ انھیں اپنی تہذیب وتمدن، قوت وشوکت پر ناز ہے؟ پُرانی قوموں کی تہذیب وتمدن کی تاریخ کا پتہ لگائیں۔ بہت سے امور میں تواُن کی قوت وشوکت اِن سے کہیں بڑھی ہوئی تھی، علیٰ ہذا آراستگی ونفاست، شائستگی ونزاکت کی بہت سی فردوں میں بھی وہ ان سے کہیں آگے تھے۔ لیکن تکذیب وانکارِ حق کا نتیجہ کیاہوا؟ ایسے غارت ہوئے کہ آج پتہ اور نشان تک باقی نہ رہا۔ ظالم، سب کچھ سُن سناکر بھی اپنی عاقبت اور اپنے انجام کو بھلائے رہے، اور اپنے ہاتھوں اپنے کو مصیبت میں ڈالے رہے۔
نقشہ ساڑھے تیرہ، چودہ، سوسال قبل کے منکرین ومتکبرین کاہے، لیکن آج بھی کس قدر صحیح اور حرف بحرف صحیح ہے، خلاصہ ساری سرکشی اور تمرد ، نافرمانی اور کفر شعاری کا کیا ارشاد ہوا؟ صرف ایک شے، یعنی سامان دنیوی میں پڑکر یادِ آخرت سے غفلت! اگر صرف یہ یاد رہے، اگر اپنی مَوت، اور اپنا انجام، یاد رہ جائے، تو بس پھر سارے بگڑے ہوئے کام بن سکتے ہیں، اور ساری گمراہیوں کی تاریکی دُور ہوسکتی ہے۔ لیکن آج ہم نے بھی انھیں بے بصروں کی تقلید میں سب سے زیادہ بھُلا کس چیز کو رکھاہے، سب سے زیادہ پس پشت کس شے کو ڈال رکھاہے؟اسی یادِ آخرت کو، اسی خیال موت کو۔ آج طرح طرح کی کمیٹیاں بنیں گی، قسم قسم کی کانفرنسیں قائم ہوں گی، قوم کی فلاح وترقی کے لئے کالج تیار ہوں گے، اسکول کھُلیں گے، کفایت شعاری کے طریقے بنائے جائیں گے، اشاعت تعلیم پر لکچر ہوں گے، اور طریق نمائندگی وانتخاب پر تو جھگڑ جھگڑ کر ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچ لی جائیں گی، لیکن جو چیز قلم، اور زبان پر اشارۃً بھی نہ آئے گی، وہ یہی یادِ آخرت، اورخیالِ موت ہے!