Moulana Syed Muhammad Shahid Hasani

Abdul Mateen Muniri

Published in - Yadaun Kay Chiragh

11:54PM Tue 10 Oct, 2023

 انسان سوچتا کچھ ہے، اور ہوتا کچھ اور،ہے،   اگرانسان کا ہر سوچاہوا پورا ہونے لگے، اور اس کا ہر منصوبہ کامیابی سے ہم کنار ہو، تواس کے  خدائی کا دعوی کرنے میں کونسی کسر باقی رہ جائے گی؟۔

ماہ رواں  کے آغاز میں مفتی ساجد کھجناوری صاحب کے مشورے سے ۱۳/ اکتوبر کو منگلو رسے دہلی ہوتے ہوئے سہارنپور جانے کا ارادہ بن گیا تھا، اور ٹکٹ بھی لے لی تھی، جہاں حضرت مولانا سید محمد شاہد حسنی صاحب سے بھی ملاقات کرنے کی خواہش تھی، ابھی ۷/ اکتوبر کو بھٹکل کے لئے  رخت سفر باندھ ہی  رہا تھا کہ یہ خبر دل پر بجلی بن کر گری کہ حضرت مولانا نے داعی اجل کو لبیک کہا،اور اس دائمی سفر پر روانہ ہوگئے، جہاں سے کوئی اس دنیا میں پھر واپس نہیں آتا، انا للہ وانا الیہ راجعون، ان شاء اللہ اب   ہمارا مظاہر علوم جانا تو ہوگا،لیکن وہاں مولانا نہیں ہونگے،  اب وہاں اس بلبل خوش نوا کو ہم نہیں پائیں گے، جن کے پاس گھنٹوں بیٹھ کر بھی تشنگان علم کی سیرابی کیا ہوتی ، بلکہ علمی اور روحانی  پیاس اور تیز ہوجاتی تھی، جہاں گذشتہ سفر میں  آپ سے  شرف باریابی نصیب  ہوئی تھی، اب وہاں صرف آپ کی پرچھائیاں ملیں گی، اور دل میں بسی  ہوئی نشست اور میزبانی  کی وہ یا د  جو تھیں تو چند لمحات کی ، لیکن اس نے دل پر ایسا  احساس چھوڑا تھا گویا زندگی کا  کوئی طویل سفر طے کیا ہو۔  

مولانا کے فراق میں ہزاروں  آنکھیں اشک بار ہیں، اور دل دکھی، کیونکہ مولانا ان لوگوں میں سے تھے، جن سے ایک ملاقات بھی مشعل راہ بن کر راہ زندگی میں روشنی دیتی ہے، مولانا ان خوش نصیبوں میں سے تھے جن کے ساتھ صرف ان کے عظیم خانوادے کی روشن روایات اور شاندار ماضی ہی نہیں تھا بلکہ بلکہ وہ خود  بھی ان سنہری روایات کے امین اور پاسبان تھے، وہ  پدرم سلطان بود  کے منادی نہیں ، بلکہ خود  بھی ہزاروں دلوں پر بادشاہت کرتے تھے۔ان کی یادیں مدتوں  دلوں کو جلا بخشتی رہیں گی، اور ان کی زندگی ایک روشن چراغ بن کر آئندہ نسلوں کو منور کرتی رہے گی۔ دنیا میں ایسی خوش نصیب جامع شخصیات  شاذ ونادر ہی ملا کرتی ہیں، اور جب یہ دنیا سے اٹھ جاتی ہیں ، تو پھرچاروں طرف ایک خلا سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اور ان کی غیر موجودگی مدتوں تک دل میں پھانس بن کر چھب جایا کرتی ہے۔ آپ مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور کے ناظم عمومی کے منصب پر فائز تھے، اور مسلم پرسنل لابورڈ معزز رکن تھے، اور ملت سے وابستہ مختلف تعلیمی اداروں میں متحرک تھے،

دنیا  جانتی ہے کہ آپ حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے نواسے تھے، جو اپنے دور کے ایک قطب وقت  تھے جن کے اطراف علم ، روحانیت ، دعوت وتربیت اور ملت کی رہنمائی کی ایک کہکشاں گھومتی تھی،  آپ کی فراغت اکتوبر ۱۹۷۰ء میں مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور سے ہوئی تھی، فراغت کے سال میں آپ کے اہم اساتذہ میں حضرت مولانا محمد یونس جونپوریؒ، مولانا محمد عاقل صاحب ، اور مولانا مفتی مظفر حسینؒ ، اور مولانا اسعد اللہ ؒ رہے، اس وقت تک حضرت شیخ الحدیثؒ کو نزول آب کی وجہ سے تدریس چھوڑے تین سال ہوچکے تھے، لیکن اس کے باوجود  آپ حضرت شیخ الحدیثؒ کی شاگردی سے یکسر محروم نہیں ہوئے،  بلکہ آپ کو ابتدائی سالوں میں مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی دامت برکاتھم کی رفاقت میں امام صغانی کی کتاب مشکوۃ الانوار کو آپ سے حرفا حرفا پڑھنے کا شرف حاصل ہوا۔

یہ نظام فطرت ہے کہ نواسے کو اپنے نانا کی محبت اور اعتماد سب سے زیادہ ملاکرتے ہیں ، لہذا آپ بھی اپنے عظیم نانا علیہ الرحمۃ  کی محبتوں اور اعتماد کا نمونہ تھے، خدا کا شکر ہے کہ آپ نے ان کا حق ادا کردیا اور اپنے نانا کی علمی وروحانی میراث  کی  نہ صرف حفاظت کی بلکہ  ان کی اشاعت اور افادیت کو عام کرنے کا حق ادا کردیا،یہ تفصیلات کا حق ادا کرنا اس ناچیز کا منصب ومقام نہیں ہے،ان شاء اللہ  انہیں بیان کرنے کا حق بہتر انداز میں آپ کے ساتھ رچنے بسنے والے بیسیوں دوسرے اہل علم و قلم ادا کریں، اور کوئی نہ بھی کرےتو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، آپ نے اپنی آب بیتی حیات مستعار سمیت ہزاروں صفحات پر محیط  اتنی تحریریں یاد گاریں چھوڑی ہیں جو بہت کچھ بیان کرتی ہیں۔ ہم جیسے تو دیکھی ہوئی  ایک جھلک ہی کو  بیان کرسکتے ہیں۔

دسمبر ۲۰۱۹ء میں اس ناچیزکا ایک سفر ہوا تھا، جس میں ہمارے مشفق مولانا مفتی ساجد کھنجاوری مدیر صدائے گنگوہ و قدیم استاد جامعہ اشرف العلوم گنگوہ کی رہنمائی میں سہارنپور، دیوبند، گنگوہ، رائے پور، کاندھلہ، تھانہ بھون، جلال آباد ، کیرانہ وغیرہ کو ایک اچٹتی نظر سے دیکھنا نصیب ہوا، یہ وہ علاقہ ہے جس کی خاک نے  برصغیر کی عظیم روحانی ہستیوں کو اپنی بانہوں میں چھپالیا ہے، اور  یہاں کا چپہ چپہ ایک باشعور مسلمان کو دعوت دیتا ہے  کہ اپنی دینی روح کو تازہ کرنے کے لئے ان کی زیارت  کا شرف حاصل کرتا رہے،  اس سفر کا مقصد یہ بھی تھا کہ ایک گوشہ نشیں کو علم وکتاب گروپ کے ذریعہ یہاں پر جو چند قیمتی احباب ملے ہیں، ان سے غائبانہ تعارف  کےساتھ ساتھ بالمشافہ بھی ملاقات کا بھی شرف حاصل ہو۔ اس سفرکا ماحصل قحط الرجال کے اس دور میں  حضرت مولانا سید محمد شاہد حسنی رحمۃ اللہ علیہ جیسے چند گنجہائے گراں مایہ سے شرف ملاقات حاصل کرنا بھی تھا۔ مولانا سے ملنے کے بعد ایک اہم سبق ہم نے یہ سیکھا کہ کسی شخصیت کے بارے میں صرف اس کی تقریروں، کتابوں کو دیکھ کر حاصل کیا گیا تصور ہمیشہ ایک مکمل تصور نہیں ہوا کرتا، شخصیت کے بارے میں کوئی منصفانہ رائے قائم کرنے کے لئے اس سے ملنا، اس کی صحبتوں میں بیٹھنا، اس کی ذات سے فیض اٹھانا بھی ضروری ہے، تقریروں اور کتابوں سے جو تصویر ذہن میں بیٹھی ہے وہ کبھی یک طرفہ اور ناقص ہوتی ہے، دینی حمیت سے کی گئی بہت سی باتیں سن کر آپ کسی شخصیت کے اخلاق اور رویوں کے بارے میں درست رائے قائم نہیں کرسکتے، حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ جسی عظیم شخصیات پر یہ بات زیادہ صادق آتی ہے، انہیں دیکھنے والے جو ان کے دیوانہ وار عاشق  اور ان کی ذات پر فریفتہ ہیں، اور ان سے تعرض کرتی ہوئی کوئی بات سننے کے روادار نہیں ہیں، تو اس کا بڑا سبب ان شخصیات کا وہ پہلو ہے جو آپ کو کتابوں اور تقریروں میں نہیں ملتا، یہ انہیں صرف بالمشافہ اور نزدیک سے دیکھنے والوں ہی کو نظرآتا ہے، بعض شخصیات کے جمال وجلال کے بارے میں آتا ہے کہ فوٹو گرافر کی اتاری ہوئی تصویر یں ان کا ہو بہو رنگ نہیں پیش کرسکتیں، ایک استفسار پرمفکر اسلام حضرت مولانا سید ابو الحسن ندوی رحمۃ اللہ علیہ نے  اس ناچیز سے فرمایا تھا کہ الفاظ  کا دائرہ محدود ہوا کرتا ہے، اور انسان کا تاثر لامحدود، محدود الفاظ لامحدود تاثر کا احاطہ نہیں کرسکتے، حضرت مدنی رحمۃ اللہ کی شخصیت کچھ ایسی ہی تھی، انہیں دیکھنے کے بعد دل پر جو تاثر بیٹھتا تھا، اسے الفاظ میں محدود کرنا محال تھا۔

اللہ تعالی نے اس ناچیز کو گزشتہ چالیس سال کے دوران بڑے بڑوں کے پروگرام رکھنے اور ان کی تقاریر کا نظم کرنے کا موقعہ دیا، ان کی ہزاروں تقریریں سننے اور انہیں نشر کرنا نصیب ہوا، جس کا مشاہدہ آپ بھٹکلیس ڈاٹ کام پر کرسکتے ہیں، لیکن حقیقت تو یہ ہے ہمیشہ ہماری دلچسپی ان تقاریر کے بجائے ان اکابر کی نجی مجلسوں میں رہیِ۔ اور ہمیں اس کا فائدہ تقریروں سے بہت زیادہ محسوس ہوا، ہمارا خیال ہے کہ مولانا شاہد صاحب کی مجلسوں میں جس طرح تعلیم وتربیت اور تجربات کے موتی تقسیم ہوتے تھے، اس کے نمونے شاذ ونادر  ہی پائے جاتے ہیں۔

مولانا محمد شاہد مرحوم کو ہم نے ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھا، لیکن حقیقی ملاقات ایک ہی رہی  دسمبر ۲۰۱۹ءمیں  ،اور حقیقت تو یہ ہے اس ایک نشست نے ابتک ملاقات سے محرومی کا احساس اور شدید کردیا۔ قدرت کا اپنا نظام ہوتا ہے، اس نے ایک ہی ملاقات کے بعد محرومی کا احساس زندگی بھر کے لئے لگا دیا، بڑے لوگ کہا کرتے ہیں کہ علم میں طلب کی خواہش حصول علم سے زیادہ اہمیت رکھتی  ہے، جب کسی متلاشی کو اطمئنان ہو جاتا ہے کہ اب ضروری علم  حاصل ہوگیا ہے تو پھر یہاں سے علم کا زوال شروع ہوتاہے، اور جہاں محسوس ہوا کہ ابتک جو حاصل کیا  ہے وہ سمندر کا  ایک قطرہ ہے تو پھر علم میں اضافہ رکنے کا نام نہیں لیتا۔

یاد پڑتا ہے ہم نے مولانا محمد شاہد سہارنپوری مرحوم کا نام پہلے پہل ۱۹۷۶ء میں فتنہ مودودیت نامی ایک کتابچے پر مرتب اور محشی کی حیثیت سے دیکھا تھا، اور اس وقت ہم نے اپنی عادت کے مطابق اس کی عبارتوں کو ترجمان القرآن کی فائلوں سے موازنہ کرکے پڑھنے کی کوشش کی تھی، یہ ناتجربہ کاری اور  کچی عمر کا دور تھا، شعور کو بالیدگی ابھی نہیں ملی تھی، ابھی چند روز قبل فراغت کے بعد جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں تدریس سے وابستگی اختیار کی تھی،  ہم خوش قسمت تھے کہ مولانا شہباز اصلاحیؒ جیسی متبحر سرد وگرم دیکھی ہوئی شخصیت کی ہم لوگوں کو سرپرستی حاصل تھی،وہ اس وقت جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے منصب اہتمام پر فائز تھے،یہاں  مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مولانا  مولانا  شہباز اصلاحیؒ کی شخصیت کے بارے میں  حضرت مولانا  سید محمد رابع  ندوی علیہ الرحمۃ  کے الفاظ پیش کئے جائیں۔

"ان کی ایک بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کی تعلیم جماعت اسلامی کی مخصوص درسگاہ مدرستہ الاصلاح میں ہوئی تھی ، پھر وہاں وہ استاد بھی رہے تھے ، اور جماعت اسلامی کے رکن بھی تھے لیکن یہ بات ان کے لیے مانع نہیں بنی کہ صحیح تصوف وارشاد کے حامل بڑے علماء سے بھی وہ ربط رکھیں ، اور ان کی خصوصیات وارشاد و تربیت سے بھی فائدہ اٹھا ئیں، چنانچہ مشہور ربانی عالم اور بزرگ حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتحپوری رحمتہ اللہ علیہ سے فیض اٹھایا۔ اور بعد میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی صاحب  ندوی رحمۃ اللہ علیہ سے بھی ربط قائم کیا، اور جب تک صحت اس قابل رہی کہ مولانا رحمتہ اللہ علیہ کے وطن تکیہ کلاں رائے بریلی میں رمضان کے زمانے میں آ کر ر ہیں، اور رمضان کے معمولات میں آکر شریک ہوں، اس کو معمول بنائے رکھا، بلکہ رمضان میں اپنے دورانِ قیام مسجد میں ہونے والی جماعتوں کی امامت بھی کرتے رہے۔ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی  ندویؒ  دوسرے امامت کرنے والوں کی موجودگی میں انھیں کو آگے بڑھاتے تھے۔ رمضان میں ندوۃ العلماء کے طلبہ، اساتذہ اور مولانا علی میاں کے دیگر مستر شدین میں سے جو حضرات آتے علم دین کے پہلو کے لحاظ سے ان کو فائدہ بھی پہنچاتے ، اور درس کی ذمہ داری بھی
انجام دیتے ، اور یہ سلسلہ ان کی معذوری صحت تک جاری رہا(یادوں کے چراغ ۔۲۲۵)۔

مولانا شہباز اصلاحیؒ کے سامنے جب ہم نے فتنہ مودودیت کے حوالوں کے بارے میں چند اشکالات کا تذکرہ کیا تو مولانا نے فرمایا کہ:

۔ یہ کوئی مستقل کتاب نہیں ہے، بلکہ ایک شیخ الحدیث کا اپنے مدرسے کے شیخ تفسیر  کے نام ۱۹۵۱ء میں لکھا گیا ایک خط ہے، شیخ التفسیر کوئی ہم جیسے طفل مکتب تھوڑے ہیں کہ ان کے سامنے کتابوں سے لمبی لمبی  عبارتیں پیش کی جائیں ، مدرسے کے ایک بڑے استاد نے دوسرے بڑے استاد کو خط لکھا، جس میں عبارتیں مکمل نقل کرنے کے بجائے مختصر عبارتوں اور اشاروں پر اکتفا کیا گیا۔

۔ حضرت شیخؒ پرانے طرز کے عالم دین  ہیں، ان کی تحریریں موڈرن انداز کی نہیں ہوسکتیں، جبکہ مولانا مودودیؒ کا انداز عصری ہے، اور آپ تحریر میں بڑی مہارت رکھتے ہیں، وہ پکڑ میں نہیں آتے، اور ان کی عبارتوں پر گرفت کرنا بہت مشکل کام ہے، آپ کی تحریروں  کی حیثیت ٹائفائڈ کی گولی جیسی ہے، اس میں سردرد ، بخار، بدہضمی  اور کئی ساری بیماریوں کا علاج ہوتا ہے، لیکن اگر کسی کو سردرد نہیں ہے، بخار اور بدہضمی ہے تو اس میں سے سر درد کی دوا الگ کرنے کو کہا جائے تو اسے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ مولانا مودودی کی تحریروں کے ایک ایک جزء کو الگ کرکے اسے غلط ثابت کرنا مشکل کام ہے، لیکن ان تحریروں کو پڑھنے والا جو عمومی تاثر اور ردعمل لے کر اٹھتا ہے، وہ وہی ہے جس پر پکڑ حضرت شیخ الحدیثؒ نے کی ہے۔

۔ ایک انسان کا مقصد تخلیق، عبادت ہے، اور نماز اس کی علامت ہے، نماز قائم کرنے کے لئے جہاد قائم کیا جائے گا، لیکن جہاد  قائم کرنے کے لئے نماز نہیں، نماز مقصد ہے اور جہاد وسیلہ، خطبات اور خاص طور پر اس کا چھٹا حصہ حقیقت جہاد پڑھنے پر ایک قاری یہ تصور لے کر اٹھتا ہے کہ نماز روزہ زکوۃ اور حج وسیلہ  ہیں اور یہ تربیت جہاد کا ذریعہ ہیں، اصل مقصود جہاد اور حکومت الہیہ ہے، حضرت شیخ الحدیثؒ نے اپنے مراسلہ میں یہی حقیقت اجاگر کی ہے کہ نماز اصل مقصود ہے ، جہاد اور حکومت الہیہ اس کے قیام کا وسیلہ، اور یہی بات درست ہے، مولانا مودودی کے اپنی تحریروں مین عبادت کے تصور کو جتنی وسعت دی  گئی ہے، درست نہیں ہے، اس کی وجہ سے جماعت کے وابستگان میں بدنی عبادتوں کا وہ اہتمام نہیں رہا ہے، جو ان بزرگان کے یہاں پایا جاتا ہے۔

حضرت شیخ الحدیثؒ بڑے کثیر التصانیف بزرگ تھے، لیکن ان میں سے تبلیغی نصاب اور اوجز المسالک کو زیاہ شہرت حاصل ہوئی، مولانا شاہد صاحب نے اپنے نانا کے  جملہ آثار علمیہ مکاتیب، اور دوسری کتابوں کو منظر عام پر لانے کے  اور ان کے ترجمے و تعارف  کےلئے زندگی وقف کردی، اور جس طرح مظاہر علوم کے اکابر  کی زندگیوں کے نقوش اور تاریخ کو تحریری شکل میں مدون کیا ، اسے ان شاء اللہ صدیوں یاد رکھا جائے گا، یہ مواد مدرسہ مظاہر علوم کے تشخص اور روایات کی حفاظت کا امین بنے گا۔ کیونکہ جس طرح یہاں کے بزرگان کی سیرت کے نقوش محفوظ ہوگئے ہیں،ان نمونوں کی موجودگی سے ان پر آئندہ نسلوں کو چلنا آسان ہوگا۔  یہ مولانا کا ایسا کارنامہ ہے جس پر آئندہ نسلیں آپ کی احسان مند رہیں گی۔

مولانا مرحوم کو کئی بار دیکھنا نصیب ہوا، دبی میں جب آئے تھے، تو تبلیغی جماعت  اور معتقدین کے جھرمٹ میں رہتے تھے، ہم جیسے انہیں دور ہی سے دیکھ سکتے تھے، لیکن جب مولانا محمد غزالی خطیبی صاحب کی رحلت کے بعد بنگلور سے خاص طور پر آٹھ نو گھنٹے کا سفر طے کرکے صرف تعزیت کے ارادے سے بھٹکل تشریف لائے تو محسوس ہوا کہ یہ کتنے بڑے  ظرف کے لوگ ہیں، اعلی خاندانی روایات کی پاسداری  ان کے رگ وپے میں کتنی رچی بسی  ہوئی ہے، حضرت مولانا زبیر الحسن بن حضرت جی مولانا انعام الحسن کاندھلویؒ آپ کے یار غار تھے،دونوں کی اٹھان ایک ساتھ ہوئی تھی، دونوں ایک دوسرے کے برادر نسبی اور بہنوی تھے، اور سمدھی بھی، مولانا غزالی صاحب نے مولانا زبیر الحسن کے ساتھ مرکز نظام الدین میں ایک ساتھ تین عشروں سے زیادہ عرصہ گذاراتھا، اس نسبت کے ساتھ ذاتی روابط انہیں اتنا طویل سفر کرکے بھٹکل کھینچ لائے تھے۔

مولانا سید محمد شاہد صاحب سے مختصر سی ملاقات میں محسوس ہوا کہ اختلاف اور مخالفت کا جو باریک فرق عموما ہمارے حلقوں میں مفقود ہوتا جارہا ہے، یہ فرق آپ کے یہاں بہ اتم پایا جاتا  تھا، کسی مصنف کی کتاب عام ہوجائے، تو اس سے اختلاف اور تنقید کبھی کبھار  ایک فرض منصبی بن جاتا ہے، لیکن  ساتھ ہی ساتھ یہ اختلاف دشمنی اور اس مصنف سے محبت کرنے والوں سے نفرت کا ذریعہ نہ بنے، اور بلا ضرورت ان تمام قابل اعتراض باتوں کو ان مصنفین سے کسی وجہ سے محبت کرنے والوں پر چسپان نہ کیا جائے،اور  ملنے جلنے کی راہوں کو مسدود نہ کیا جائے تو یہ بھی ایک اہم ضرورت بن جاتے ہے، مولانا شاہد صاحب کی باتوں سے  ان نزاکتوں کی جان کاری کا ااحساس ہوا ،یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان کی باتوں میں  تکلف اور تصنع کی گنجائش نہیں پائی جاتی تھی ، ان کا ظاہر وباطن ایک  محسوس ہوتا تھا ، تحریک آزادی میں علمائ مظاہر علوم کے کردار پر ان کی کتاب کے سلسلے میں بڑی بے تکلفی سے  وہ بیان کررہے تھے کہ اس کے رسم اجراء میں سبھی مکاتب فکر کے علماء کو دعوت دی گئی تھی، جماعت اسلامی کے لوگ بھی آئے تھے، مولانا رفیق احمد قاسمی مرحوم نے بھی اسٹیج پر آکر  بڑی اچھی تقریر کی تھی۔مولانا نے تو نہیں کہا لیکن ہمیں شدت سے اس بات کا احساس ہوا کہ نہ صرف ہماری بعض دینی جماعتیں، بلکہ ہمارے اہل علم بھی بہت دفعہ  اس بات کا ادراک نہیں کر پاتے کہ مسلمانوں کا سواد اعظم چاہئے وہ عوام الناس پر مشتمل ہو چاہے دانشوروں پر، دینی امور میں مرجعیت  کا جہاں تک تعلق ہے تو  اس میں وہ کسی روایتی دارالعلوم کے فارغ التحصیل، اور مستند علماء  ، مسجد و مدرسے سے وابستہ شخصیت  ہی کی قبول کرتاہے، یہ بات صرف برصغیر تک محدود نہیں ہے، بلکہ سعودی عرب ، عراق و شام ، مراکش، مصر، سوڈان وغیرہ اسلامی ممالک میں یہی صورت حال ہے، صحافت ، میڈیا  اور کتابوں میں جو بھی مشہور  نام ہوں ، زمینی حقیقت تو یہی ہے محلوں محلوں او ردیہاتوں میں انہی کا ڈنکا بجتا ہے، آپ جامع ازہرمیں  لاکھ نقص نکالیں، مصر کے عوام کی جذباتی وابستگی ابتک اس ادارے سے نہیں ٹوٹی، اس کا تقدس ابتک دلوں میں باقی ہے، آج  بھی وہاں کوئی دینی تحریک اس ادارے سے وابستہ نہ ہو، عامۃ الناس اور دانشوروں میں اس کی پذیرائی نہیں ہوپاتی، چاہے آپ اپنے چند چاہنے والوں کی زبان پر یا اخبارات ورسائل پر مقبولیت کی بھی کہانیاں سنیں،  اس وقت برصغیر میں بھی کئی ایک تنظمیں اسلام اور مسلمانوں کی قابل قدر خدمات انجام دے رہی ہیں، لیکن سواد اعظم میں مستند مانے جانے والے دینی تعلیمی اداروں سے قیادت کے روابط اور وابستگی میں کمی اور ان میں مسجد ومحراب کو سنبھالنے والی شخضیات کے فقدان کی وجہ سے وہ نہیں کرپارہی ہیں جن کی انجام دہی کا وہ خواب دیکھا کرتی ہیں۔

حضرت مولانا سید محمد شاہد صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے، ان کی یاد انہیں دیکھنے والوں کو بہت آئے گی، وہ خوش قسمت تھے جو اپنے پیچھے انہیں یاد رکھنے کے لئے بہت سا راقیمتی سرمایہ چھوڑ گئے، انہوں نے اپنے پیچھے ذریت صالحہ  بھی چھوڑی، جو ان کے مشن کو ان شاء اللہ آگے بڑھائے گی، آپ کے جانشین مولانا سید محمد صالح  صاحب سے بڑی توقعات وابستہ ہیں، ہمیں یقین ہے کہ ان شاء اللہ  وہ شبل میں ذلک الاسد کے مصداق ثابت ہونگے، اور چراغ سے چراغ جلتا رہے گا، اور نسلہا نسل تک اس خانوادے کے فیوضات سے دنیا رہنمائی پاتے رہے گی، اللہ تعالی آپ کے درجات بلند کرے، رہے نام اللہ کا، وہی باقی اور دائم ہے۔

 2023-10-10