Agar ab bhi na jage to...Urdu Article
پورے ہندوستان میں اس وقت پارلیمانی الیکشن کا موسم ہے. ہمارا ملک اس وقت بڑے نازک دور سے گزر رہا ہے. ملک کے موجودہ تشویشناک حالات کی روشنی میں ووٹ ڈالنا یہ ہمارا دستوری حق ہی نہیں بلکہ قومی, ملی, دینی,مذہبی اور انسانی فریضہ بھی ہے۔ گزشتہ 10 سالوں سے مرکز میں فاشسٹ اور فسطائی طاقت برسر اقتدار ہے۔ اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کے درمیان DIVISION پیدا کر کے ہندؤں اور مسلمانوں کو دو خانوں میں بانٹ کر، ہر روز نت نئی سازشوں کے ساتھ بڑی مکاری سے اس ہندوستانی سماج کو جو پوری دنیا میں کثیر المذاہب ہونے کے باوجود گنگا جمنی تہذیب، مذہبی رواداری،بھائی چارہ اور پیار و محبت کا گہوارہ سمجھا جاتا ہے اس میں نفرت کاما حول پیدا کرنے کی جو کوششیں کی جا رہی ہیں وہ در اصل انسانیت کو داغدار اور شرمسار کرنے والی ہیں۔ اقتدار کی ہوس اور نشہ نے اس وقت کی برسر اقتدار بھارتیہ جنتاپارٹی کو اس حد تک بے لگام اور بدحواس کر دیا ہے کہ وہ اقتدار کی کرسی کو اور ایک مرتبہ حاصل کرنے کے لیے اخلاق اور انسانیت کی تمام قدروں کو پامال کرتے ہوئے کچھ بھی کر گزرنے کے لیے تیار ہے۔ ہمارے ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے حامل سیکولر آئین کو بدلنے کی نہ صرف اس وقت بات ہو رہی ہے بلکہ اس کے لیے حکمت عملی اور میکانزم بھی تیار کیا جا چکا ہے۔نئے دستور کا ڈرافٹ بھی تیار ہے۔ اور اب کی بار 400 پار کا نعرہ اس لیے دیا جا رہا ہے تاکہ آنے والے پارلیمانی انتخابات میں تین چوتھائی اکثریت حاصل کر کے اس ملک میں نئے آئین اور منشور کو لاگو کیا جائے۔ اس لیے کہ ملک کے دستور کو بدلنے کے لیے تین چوتھائی اکثریت درکار ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں برسر اقتدار حکمران پارٹی کی طرف سے کیا کچھ نہیں کیا گیا۔تین طلاق، حلال، ذبیحہ، حجاب، یونیفارم سول کوڈ، سی اے اے،این ار سی،این پی ار وغیرہ وغیرہ نئے قوانین کو لاکر مسلمانوں پر انہیں تھوپنے کی حد درجہ کوشش کی گئی۔ ہمارے ملک کے جمہوری دستور کی روح کے خلاف کچھ بل بھی منظور کیے جا چکے ہیں۔ ہمیں گھس پیٹی اور دہشت گرد کہہ کر بار بار ہماری غیرت کو للکارا گیا۔ معصوم اور غریب خاندانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا گئے۔دہشت گرد بتا کر جھوٹے الزامات لگا کر جھوٹے گواہوں کو پیش کر کے سینکڑوں مسلم افراد کو جائیداد سے بے دخل کر دیاگیا۔ مدرسے منہدم کیے گئے۔ مسجدوں تک کو مسمار کیا گیا۔ اب ہمارے سامنے ہمارے ایمان و عقیدے کے تحفظ اور ملی تشخص کا مسئلہ ہے۔ ایک مسلمان کی شان تو یہ ہے کہ وہ ہزار بار موت کو تو بڑی خوشی سے گلے لگا سکتا ہے۔ مگر اپنے ایمان و عقیدۂ توحید پر کبھی سمجھوتہ نہیں کر سکتا۔ اس کائنات کو بنانے والے نے پوری انسانیت کو ایک کنبہ بنایا ہے۔ مذہب اسلام ایک خوبصورت طرز زندگی اور مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔خالق کائنات نے اسلام کی ہر ہر تعلیم اور اس کے ہر حکم کو انسانی فطرت کے عین مطابق بنایا ہے۔ کسی معصوم کی جان لینا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب سماج اور برادری سے ہو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ عدل و انصاف کے اصولوں پر بلا تفریق ِمذہب و ملت شہیدوں کے خون سے جب یہ زمین لالہ زار ہوئی ہے تب اُسے آزادی حاصل ہوئی ہے۔ کیا اس ملت اسلامیہ کے ہزاروں فرزندوں نے تحریک آزادی اور جنگ آزادی میں اپنی جانوں کا نذرانہ اس لیے پیش کیا تھا تاکہ اس ملک کودہشت گردوں کے حوالہ کیا جائے؟یہاں کی ہزاروں سالوں سے چلی ا ٓرہی پیار و محبت بھائی چارہ امن و آشتی کی فضا میں زہر کے غبارے چھوڑے جائیں۔ اور اس کی فضا کو اس حد تک مسموم کر دیا جائے کہ جس میں انسان اور انسانیت دم توڑتی محسوس ہونی لگے۔
جب کوئی امیدوار اسمبلی یا پارلیمان میں چن کر آتا ہے تو اس بات کی قسم کھاتا ہے کہ وہ دستور ہند کا مکمل پاس و لحاظ رکھتے ہوئے اس کا احترام کرے گا۔جب ہمارے ملک کے وزیراعظم جن کو دراصل اس ملک کے کم و بیش 140کروڑ باشندوں کے لیے ایک رول ماڈل ہونا چاہیے اگر وہ خود دستور کے احترام کے بجائے اس کی دھجیاں اڑا دیں اور اس کی حرمت کو تار تار کرنے پر اتر آئیں تو پھر ان کے ماتحت اعلیٰ سے اعلیٰ عہدوں اور منصب پر فائز لوگوں سے خیر اور عدل و انصاف کی امید کیسے رکھی جا سکتی ہے۔ سب کا ساتھ سب کا وکاس اور سب کا وشواس یہ محض زبانی جمع خرچی اور لن ترانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ ابھی حال ہی میں راجستھان کے بنسوار حلقہ میں انتخابی ریلی کے دوران ہمارے وزیراعظم نے ہندوستان کے سابق وزیراعظم شری منموہن سنگھ کے بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کرکے اخلاق کی تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے مسلمانوں کو گھس پیٹی اور دہشت گرد تک کہہ دیا۔اس طرح کی بیہودہ زبان آزادی کے بعد سے اس ملک کی 75 سالہ تاریخ میں کسی وزیراعظم نے کبھی بھی استعمال نہیں کی۔ڈاکٹر منموہن سنگھ جب وہ وزیراعظم تھے تو انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اس ملک کی مجموعی ترقی کے لیے ہندوستان کے بچھڑے ہوئے اور پسماندہ طبقات کو بھی موجودہ ان کی سطح سے اوپر اٹھانا بہت ضروری ہے۔ اور ہمارے وزیراعظم نے ان کے اس بیان کو مسلم طبقہ سے ہی جوڑ دیا جبکہ ہمارے سابق وزیرِ اعظم کا بیان حقائق پر مبنی تھا۔سوال ہندوستان کے ہر شہری سے چاہے اس کا تعلق کسی بھی سماج و برادری اور مذہب سے ہو یہ ہے کہ کیاملک کے سب سے بڑے عہدے پر رہ کر ملک کے وزیراعظم کو یہ بات زیب دیتی ہے کہ وہ اس ملک کے 15 فیصد عوام کے لیے ایسی زہریلی زبان استعمال کرے۔ جس سے پوری دنیا میں ہر ہندوستانی کا سر شرمندگی سے جھک جائے اور پوری دنیا میں ہمارے وزیراعظم اور ہم ہندوستانیوں کا مذاق اڑایا جائے۔
میرے ہندوستانی بھائیو اور بہنو کئی دہائیوں سے ہم خواب غفلت میں پڑے سوتے رہے۔ ذرا سوچئے اور غور کیجئے کہ ہندوستانی مسلمان اس وقت اس ملک میں کہاں کھڑے ہیں۔ گرتے گرتے اب ہم اس حد تک زخمی ہو چکے ہیں کہ اب ہمارا ٹھنا بھی بہت دشوار ہے۔جگر تھام کر ان اعداد و شمارپرسنجیدگی سے کچھ تو غور کیجئے۔15 فیصد آبادی میں IAS.IPS میں ہمارا تناسب تین فیصد، ہیلتھ سیکٹر میں چار فیصد، ریلوے میں ہمارا تناسب ساڑھے چار فیصد، پولیس فورس میں چھ فیصد اور ملٹری میں ایک فیصد۔ جبکہ ہمارے ملک کی سکھ برادری ہمیں ان کی ستائش کرنی چاہئے۔ہمارے اس ملک میں آبادی کے لحاظ سے 1.73 فیصد۔ اور ملٹری میں ان کا تناسب ایک فیصد۔ 25 فیصد ہمارے مسلم بچے غربت کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ (DROP OUT) ہونے پر مجبور ہیں۔7 سال سے اوپر ہمارے بچوں کی خواندگی کا تناسب تمام مذاہب میں سب سے کم مسلمانوں کا ہے۔ (GROWTH RATE)میں ہم سب سے پیچھے۔ جہاں سے نکلنا اب ہمارے لیے بہت مشکل ہے۔ اعلی تعلیم(Higher Education)میں مسلمانوں کا تناسب مزید گھٹ کر پانچ سے چھ فیصد پر آگیا ہے. جیلوں میں سب سے زیادہ ہم مسلمان 25 فیصد۔ بھیک مانگنے والوں میں سب سے آگے ہم مسلمان 25 فیصد۔ ان سب کے باوجود ہماری مرکزی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ ہم مسلمانوں کے بچے جن کے ہاتھوں میں اس وطن کے مستقبل کی قیادت و سیادت ہے تعلیم یافتہ ہو کر خود مضبوط ہوں اور اس ملک کو مضبوط کریں۔ ہم مسلمانوں کی اس حالت زار کے باوجود اقلیت کے بجٹ میں حکومت کی طرف سے 40 فیصد تک مزید کٹوتی کی گئی۔یہ ہے روےّہ ہماری حکومت کا مسلمانوں کے ساتھ۔اگر اب بھی ہم نہ جاگیں اور خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوں اور Comfort Zoneسے نکل کر اپنے ملک کے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے قوم و ملّت کے لئے کچھ کر دکھانے کا جذبہ کے ساتھ جنگی پیمانے پر ہم نے اگر قدم آگے نہیں بڑھایا تو پھر یقین کیجئے آئندہ ہماری مذہبی اور ملی شناخت کا مسئلہ ہوگا۔ حالات کا مقابلہ کرنے کے لیے آج ہم یہ طے کریں کہ ہماری قوم کے درمیان جتنا ممکن ہو پیار و محبت کی فضا پیدا کرنے کی ہم پوری کوشش کریں گے۔ ہم بٹے ہوئے ہیں، اختلافات کے شکار ہیں، اس لیے ہمارے ملک میں ہماری کوئی حیثیت نہیں۔ ہم بے وقعت ہو چکے ہیں، قومی و ملی اتحاد کے لیے ہمارے تھوڑی سی سُبکی ہو جائے تو اس کو ایک ملی وسیع مفاد کی خاطر برداشت کیجئے۔
ملک کے حالات بڑی تیزی کے ساتھ کس طرف جا رہے ہیں اس حقیقت سے ہم واقف نہیں۔ جب تک ہمارا اللہ ہم سے راضی نہ ہو ہم کامیاب نہیں ہو سکتے۔اس وقت کا اوّلین تقاضہ ہے کہ ملی درد رکھنے والے احباب مختلف مکاتب فکر کے ذمہ دار اپنے اپنے اختلافات پسِ پشت ڈالتے ہوئے ہمارے ملّی بنیادی مسائل کے حل کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں۔ تعلیم، نوجوانوں کی بے راہ روی، بالخصوص ہمارے سماج کی وہ تمام برائیاں جن کا اثر افراد ہی پر نہیں بلکہ پوری ملت پر ہوتا ہے سنجیدگی سے ان مسائل پر غور کر کے ان مسائل کو حل کرنے کے لیے بہترین حکمت عملی کے ساتھ ایک مشن کے طور پر آگے بڑھیں۔
اس بات کو یاد رکھیں کہ اپنے رب کی بندگی اور خدمت خلق ہی سے انسان دنیا و آخرت میں سرخرو اور کامیاب ہوتا ہے۔ اس بات کو ذہن نشین کر لیں کہ اس وقت پورے ملک میں پارلیمانی الیکشن کا موسم ہے۔ ووٹنگ کے دو مرحلوں کے بعد اب07مئی2024 بروز منگل انتخابات کے تیسرے مرحلے میں ووٹ ڈالے جائیں گے۔ماہ مئی کے آخر تک جملہ انتخابات کے اور چار مرحلے باقی ہیں۔ اس ملک کی اب بھی بہت بڑی تعداد اس ملک میں بھائی چارہ اور ایک دوسرے کے ساتھ پیار و محبت کے فضا میں رہنا چاہتی ہے۔ ملک کے آئین کے سیکولر ڈھانچے میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کے حق میں وہ نہیں ہیں۔ معذرت کے ساتھ مجھے یہ کہنے دیجیے کہ خواب غفلت میں پڑی ہوئی ہماری قوم اب تھوڑی سی بیدار ہوئی ہے۔ اب ہمیں تھوڑا سا احساس ہونے لگا ہے کہ ملک کے حالات اگر اسی طرح اسی رخ پر آگے بڑھتے رہے تو پھر ہماری آئندہ نسل کا کیا ہوگا۔ اس وقت جاٹ،ٹھاکُر، راجپوت،کسان،مزدور سماج غرض یہ کہ برادران وطن کی بہت بڑی تعداد اس موجودہ حکومت کے آمرانہ طرز حکومت اور رویہ سے سخت ناراض ہے۔ ان کو بھی پتہ ہے کہ ملک کی ترقی کے اس حکومت کے تمام نعرے اور وعدے کھوکھلے،جھوٹے اور فرضی ہیں۔ ہمیشہ کی طرح اور ایک بار ہندو اور مسلمان کا نفرتی ایجنڈا چلا کر موجودہ حکومت اقتدار پر قبضہ جمانا چاہتی ہے۔
یاد رکھئے الیکشن کے ان فیصلہ کن ایام میں ہمیں عدل و انصاف کی بنیاد پر اپنے امیدواروں کومنتخب کرنا ہے۔ ہماری تمام مساجد کمیٹیوں کے صدور وسکریٹریز اور اراکین کی یہ ملّی ذمہ دار ی ہے کہ وہ اس سلسلہ میں فکر مند ہو کر اٹھیں۔اپنے اپنے محلہ اور علاقوں میں گھر گھر جا کر موجودہ حالات میں ووٹ کی اہمیت ان کے سامنے اُجاگر کریں۔ اور ایسا ماحول تیار کریں کہ ہمارے محلہ کا ایک بھی ووٹ ضائع نہ ہونے پائے۔ ہزاروں سالوں سے ہمارا ہندوستانی سماج ایک پریوار کی طرح یہاں رہتا آ رہا ہے۔ اور انشاء اللہ مستقبل میں بھی ہم اسی طرح رہیں گے۔جہاں تک ممکن ہو سکے اپنے محلہ اور علاقے کے برادران وطن کو بھی ساتھ لے کر عدل و انصاف کی ایک مضبوط آواز بن کر پیارو محبت کی خوبصورت فضا میں ایک مہم کے طور پر وقت کے اس اہم ترین کام کو انجام دینے کی پوری کوشش کریں۔موجودہ حالات کی روشنی میں ووٹ ڈالنا ہمارا صرف دستوری حق اور ہتھیار ہی نہیں بلکہ قومی، ملی،دینی،ایمانی و انسانی فریضہ بھی ہے۔ ہم جو بھی کریں قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنے ہر عمل کو انجام دیں۔ ووٹ ایک شہادت اور امانت ہے،یہ گواہی بھی ہے۔ اللہ کو ڈرتے ہوئے ہمیں اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنا چاہیے۔ قران کریم کی تعلیمات کی روشنی میں وہ آدمی سخت گنہگار اور مجرم ہے جو ووٹ ڈالنے میں کسی بھی طرح کے غفلت برتے یا کسی سے اپنے ووٹ کا سودا کرے اور اس کو بیچے۔ قران کریم میں اس شخص کے متعلق صاف فرمایا گیا ہے فا نّہ آثم قلبہ کہ اس طرح کے آدمی کا دل سخت گنہگار ہے۔
اس حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرنے کے لیے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے جو کچھ بھی ہم کر سکتے ہیں ہمیں کر گزرنا ہے۔تا کہ ہمارے اس پیارے ملک کو جہنم کی طرف جانے سے ہم روک سکیں۔انشاء اللہ ہمارے ایک ایک ووٹ سے نہ صرف موجودہ حکومت بدلے گی بلکہ ملک کا مقدر بھی بدلے اور سنورے گا۔ ہمارے ملک کا اقتدار صحیح ہاتھوں میں رہے۔یہ ملک انصاف اور امن کے راستے پر آگے بڑھے۔اس بات کو بھی یاد رکھیں کہ اس وقت ہمیں دینی بنیادوں پر اپنی شخصیت کی تعمیر پر بھی مکمل توجہ دینی چاہیے۔ دعاؤں کا بھی اہتمام ہو۔ کم از کم ان دنوں تہجد کی نمازوں کا بھی اہتمام کرتے ہوئے اللہ کے حضور گڑگڑا کر ملک و ملت کی ترقّی وسرفرازی کے لیے دعائیں مانگیں۔ ووٹ دینے کے لیے جب گھر سے نکلیں تو باوضو ہو کر دو رکعت صلوۃ الحاجہ (نماز)پڑھ کر دعا کر کے گھر سے نکلیں کہ اس الیکشن کے اچھے نتائج برآمد ہوں۔جس میں سب کو چین و عافیت سے رہنے کا موقع ملے۔
وما علینا الا البلاغ
(ضروری وضاحت: مضمون نگار کی کسی بھی رائے سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔پورا مضمون اور اس میں درج تمام خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ادارہ)