Malikah Husn... Abdul Majid Daryabadi

Abdul Mateen Muniri

Published in - Sachchi Batain

12:17AM Mon 29 Apr, 2024

’’صاحب‘‘ اور ’’میم صاحب‘‘ کی تراشی ہوئی نئی اصطلاحوں میں ایک خاص اصطلاح ’’ملکۂ حسن‘‘ (Beauty Queen) کی ہے۔ شہر بھر کی نہیں، سارے مُلک کی حسین وجمیل ، نوعمر ونوخیز، بِن بیاہیاں، بَن سنور کر، آرائش ونمائش کے سارے اسلحہ سے از سرتاپاسرمسلّح ہوکر، سیکڑوں کی تعداد میں اکٹھی ہوتی ہیں، اور اپنے کو ایک کمیٹی کے سامنے انتخاب کے لئے پیش کرتی ہیں۔ یہ کمیٹی صرف عورتوں ہی کی نہیں ہوتی، مرد بھی اس میں شامل ہے۔ وہ عورت ہی کیا، جس کا حُسن صر ف عورتوں کو پسند آئے، عورت تو وہ ہے جس کے حُسن وجمال پر مرد صاد کریں! یوسف صدیق علیہ السلام کے زمانہ میں، مصر کی فیشن ایبل لیڈیوں نے بڑی ہمت کرکے اپنے کو صرف ایک مرد کے سامنے پیش کیاتھا، شوخ وچنچل فرنگنیں اپنے کو خدامعلوم کتنے مَردوں کے سامنے، بے حجاب اور بے محابا، پیش کرتی ہیں، اور اُن کے حُسن کا انتخاب ہوتاہے۔ رنگ، نزاکت، تناسب اعضاء ، ہر چیز کے نمبر ملتے ہیں، اور جو اوّل آتی ہے، اُسے اُسی کے مُلک سے منسوب کرکے مِس فلاں کالقب مل جاتاہے، مثلًا ’’مِس فرانس‘‘ ، ’’مِس بلجیم‘‘ وغیرہا۔ پھر اُن سب میں باہم مقابلہ ہوتاہے، اور اس آخری مقابلہ میں اول آنے والی ’’مس عالم‘‘ (Miss Universe)کے لقب سے مشرف ہوجاتی ہے!……اب اس کی شہرت کا کیا پوچھنا ، شہر شہر اس کا شہرہ، گلی گلی اس کا چرچا، ہر ہر اخبار میں اس کا فوٹو، بچہ بچہ کی زبان پر اس کا نام۔ دن رات عیش ونشاط ، ہر وقت سرمستیاں عشرت پرستیاں!

’آغاز‘ یوں ہوتاہے۔ اب ذرا ’انجام‘ بھی ملاحظہ ہو۔ ان ساری مدہوشیوں کی زندگی کُل ایک سال رہتی ہے۔ سال کے ختم ہوتے دیر کیالگتی ہے، بات کہتے کٹ جاتاہے۔ اور سال کے خاتمہ کے ساتھ دیارِحُسن سے بہار ہمیشہ کے لئے رخصت ہوجاتی ہے۔ اب بازار میں تلاش کسی نئی جنس کی شروع ہوتی ہے، اور پروانے اس جدید شمع بزم پر فداہونے لگتے ہیں۔ چہرہ کا پوڈر ابھی تازہ، اور ہونٹوں کی مصنوعی سرخی ابھی نم ہی ہوتی ہے، کہ کسمپرسی کا دَور دَورہ شروع ہوجاتاہے، او ر دیکھتے ہی دیکھتے یہ حال ہوجاتاہے، کہ دو سال اُدھر جو نازنین شہرت کے آسمان پر آفتاب تھی، آج گمنامی اور بے نشانی کے قعر میں پڑی ہوئی،مفلسی اور ناداری میں ایڑیاں رگڑ رگڑ زندگی کے دن پورے کررہی ہے! پچھلے دنوں عین جس زمانہ میں ’’مِس پیرس‘‘ پیرس وارد ہوئی ہیں، عین اُسی ہفتہ میں خبر آئی، کہ ایک سابق ملکہ حُسن نے زہر کھاکر مالدیویاؔ میں خودکشی کرلی۔ سِن کُل ۲۰سال کا تھا! چند سال اُدھر کا واقعہ ہے، کہ وارساؔ میں مقابلۂ حُسن منعقد ہورہاہے۔ سب سے زیادہ توقع مس وائرزبکس ؔ کو ہے۔ قسمت یاوری نہیں کرتی، فیصلہ ایک دوسری ’’خوش نصیب‘‘ کے حق میں ہوتاہے۔ ہزارہا کا مجمع ہے۔ مس وائرزبکس صفیں چیرتی ، دوڑتی ہوئی ہال سے باہر نکلی ۔چند منٹ کے بعد پاس کے کمرہ سے بندوق کے فَیر کی آواز آتی ہے، مس صاحبہ خون میں نہائی ہوئی پڑی ہیں، اور اسپتال جاتے جاتے ختم ہوجاتی ہیں!

مس بارکلےؔ ۲۶ء میں ، آسٹریلیا میں، ملکۂ حُسن قرار پائیں، ۲۹ء میں زہر کھاکر ہمیشہ کے لئے آنکھیں بند کرلیں! مِس ڈیوسؔ کا ستارۂ حُسن امریکہ میں چمکا۔ چندروز کے بعد، دریا میں کود پڑیں، اور موٹر پر ایک پرچہ لکھاہواملا، کہ ’’اب جینے کی ہوس نہیں‘‘۔ کنگسٹن کے ایک مشہور درزی خانہ میں ایک میم صاحب ملازم تھیں، تین سو پونڈ کی قیمتی پوشاک کی چوری کی علت میں گرفتا رہوئیں، معلوم ہوا، چھہ سال قبل یہ ’’ملکۂ حُسن‘‘ رہ چکی تھیں! اور اب شہرتِ حُسن کو قائم رکھنے کے لئے چوری کی پوشاک پر گزارہ تھا!……یہ گڑھی ہوئی ، اور فرضی داستانیں نہیں، واقعات ہیں، جو ایک انگریز خاتون مارگیرٹؔ کرے، کے قلم سے ۲۸؍ستمبر ۳۲ء کے ڈیلی اکسپریسؔ میں عبرت کی غرض سے شائع ہوئے ہیں، اور مضمون کا خاتمہ اِن الفاظ پر ہوا ہے:-

’’اُمید ہے اس سے میری ہی لڑکیاں نہیں، ہرماں کی بیٹیاں سبق لیں گے‘‘! خدا معلوم ہمارے مُلک کی لیڈیز کانفرنسیں بھی کبھی آغاز کے انجام پر غورکریں گی!