Sachchi Batain ( 1933-02-17) Talaq

Abdul Majid Daryabadi

Published in - Sachchi Batain

12:18AM Mon 6 May, 2024

اسی فروری کے مہینہ میں ، ہندوستان کی سب سے اونچی قانون ساز مجلس میں ایک نامور ہندو بیرسٹر اور مقنن نے تجویز پیش کی، کہ ہندو مذہب میں طلاق کو قانونًا تسلیم کرلیاجائے۔ اور بحث ومباحثہ کے بعد، ہندو ہی ارکان کی اکثریت سے تجویز منظور ہوکر سلیکٹ کمیٹی کے سپرد ہوگئی۔ برودہ وغیرہ بعض ہندو ریاستیں اس باب میں کچھ روز پہلے ہی قدم اُٹھا چکی تھیں، اب ہندو رعایائے ہند بھی اسی مرکز پر جمع ہوگئی، ابھی کل کی بات ہے، کہ کوئی ہندو، ہندو رہ کر، طلاق کا نام بھی زبان پر نہیں لاسکتا تھا۔ یہ ’’ملیچھ‘‘ مسلمانوں ہی کا مذہب تھا، جس کے قانون میں طلاق کی آزادی موجود تھی۔ہندوؤں کا ’’مقدس‘‘ دھرم اس ’’گندی‘‘ چیز سے ماورا تھا! طلاق ایک خالص اسلامی تعلیم تھی، اور ’’صاحب‘‘ اور برہمن، دونوں کے نزدیک یہ تعلیم لغوتھی، مُضر تھی، خلافِ عقل تھی، خلافِ حیاتھی، انسانیت سوز تھی، تحقیر کے قابل تھی، مضحکہ کے لائق تھی۔ پُرانی طرز کے ٹھیٹھ ہندو الگ رہے، ’’روشن خیال‘‘ ہندوؤںکے سرخیل وسرتاج، سوامی دیانند سرسوتی نے ستیارتھ پرکاش میں اس اسلامی تعلیم پر ٹھیک بازاریوں کے لہجہ میں جو ٹھٹھے لگائے ہیں، کیا مسلمانوں کے دل سے اُن کی تلخیاں محو ہوچکی ہیں؟ ……یہ اللہ کی قدرت، اور اللہ کے دین کی صداقت نہیں، تو اور کیاہے، کہ آج وہی ٹھٹھے لگانے والے ، نیچی نظروں اور خاموش سرگوشیوں کے ساتھ، اسی تمسخر ومضحکہ والی رسم کو اپنی اصطلاح کے لئے ضروری سمجھنے لگے ہیں، اور اسے اپنی معاشرت وقانون کا جزء بنالینے پر مُصِر ہیں!

طلاق کو بھی چھوڑئیے ۔ یہ جو کروروں اچھوتوں کو اپنے میں ملانے، ان کروروں انسانوں کو انسان سمجھنے ، انھیں ابتدائی انسانی حقوق عطاکرنے کا جو زبردست چرچا آپ مہینوں سے سُن رہے ہیں، یہ جو گاندھی جی نے ساری ہندودنیا میں ایک زلزلہ کی حرکت پیداکردی ہے، یہ جو بڑی بڑی اونچی ناک والے ہندوؤں کے مندر، اچھوتوں کے لئے کھُلتے جارہے ہیں، یہ خود آخر کیاہے؟ جو نور، عرب کے افق سے ساڑھے تیرہ سو سال ہوئے طلوع ہواتھا، یہ اُسی کا ہلکا سا پرتَو نہیں، تو اور کیاہے؟ ہندو دھرم نے، اس میں شک نہیں ، کہ اس باب میں اسلام کی تعلیمات کامقابلہ صدیوں تک کیا، لیکن آخرکار اب تو اسے، طوعًا نہ سہی، کرہًا ، اور دوڑ کر اور لپک کر نہ سہی، ہارکر اور تھک کر، پوری طرح نہ سہی، کسی حد تک ، اُسی طرف آنا پڑا جدھر اللہ کا قانون لانا چاہتاتھا! لوگ کہتے ہیں ،کہ عجائباتِ قرآن کبھی ختم نہ ہوں گے، بیشک الفاظ ومعانی قرآن کے عجائبات کا سلسلہ تو غیر محدود ہے ہی، اثرات قرآن کے عجائب کچھ کم ہیں؟ اور جو انقلابات قرآنی تعلیم نے برپا کردئیے، اور برابر برپا کرتی جاتی ہے، اُن کا سلسلہ بھی کسی منزل پر کہیں ٹوٹنے والاہے؟

خوش اعتقادی کو چھوڑ کر محض خلوئے ذہن کے ساتھ سوچئے، کہ آخر یہ کیا ہے۔ آج نہ غوری کی تلوار ہے، نہ غزنوی کے حملے ہورہے ہیں، اسلام خود ہی ہر طرف نحیف وزار، محکوم ومغلوب، شکستہ ومضمحل نظرآرہاہے، پھر بھی لاکھوں دماغ ہیں کہ اُس کی شریعت وقانون کے آگے جھکتے، اور کروروں دل ہیں کہ اُس کی ہدایات وتعلیمات کے سامنے پگھلتے جارہے ہیں؟ حالیؔ نے کہاہے، کہ اللہ سے انکار، تشریعی طور پر نہ سہی، تکوینی طور پر کسی سے بھی ممکن نہیں  ؎

مانا نہیں جس نے تجھ کو جانا ہے ضرور

انکار کسی سے بَن نہ آیا تیرا

یہی حال شاید اللہ کے دین وشریعت کا بھی ہے۔ بندوں کے بنائے ہوئے قانون کسی ہی حکمت، دُور اندیشی واحتیاط سے بنائے گئے ہوں، زندگی کی کسی منزل اور معاشرت کے کسی نہ کسی پہلو پر پہنچ کر، بہرحال ٹوٹ ہی کر رہتے ہیں۔ انسان کی عقل آخر کہاں تک ہر پہلو ، ہر موقع ، ہرضرورت، کا احاطہ کرسکتی ہے؟ یہ لچک، یہ وسعت، یہ جامعیت، تو صرف حکم مطلق ہی کی تجویز کی ہوئی شریعت کے ساتھ مخصوص ہے، کہ ہرزخم کا مرہم موجود، ہر ضرورت کا سامان تیار، ہر درد کی دوا حاضر……اسلام اس دورِ دجل ودجالیت میں اپنے ضعف وناتوانی کے باوجود، یہ سارے منظر اپنی فتح مندیوں کے دیکھتاجاتاہے، اور اُس کے لبوں پر ’’خاموش تبسم‘‘ ہم آپ سب پڑھ سکتے ہیں!