حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۲)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

03:45PM Tue 4 Jul, 2023

حج کا سفر۔۔۔مسجد نبوی اور متبرک آثار(۲)۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

 بہرحال اس زمانے تک جب مروان مدینہ شریف کا گورنر تھا۔ بلکہ اس کے بھی تیس برس بعد تک مزار مبارک پر حاضری دینا اس طرح ممکن تھا کہ حجرہ کے اندر تک رسائی ہو جاتی تھی اگر چہ عام امتیوں کے لئے کیا خاصاں وقت کے لئے بھی آداب زیارت کا ضابطہ یہی ہے کہ زیارت کرنے والا کسی بزرگ کے مزار سے اتنا ہی قریب ہو جتنا قرب صاحب مزار کی زندگی میں اس کی محفل میں اس کو نصیب تھا۔ ولید بن عبد الملک کے عہد حکومت میں (یعنی ۸۸ھ میں) جب مسجد نبوی کی توسیع ہوئی، جس کے منتظم دلید کی طرف سے مدینہ شریف کے گورز حضرت عمر بن عبد العزیزؒ  مقرر ہوئے تو پہلی بار مزار پر انوار نگاہوں سے اس طرح پوشیدہ کر دیا گیا کہ حجرہ بی بی عائشہ کی قدیم دیوار یں شہید کر کے پختہ دیواریں نئی نیو ڈال کر اس طرح بنائی گئیں کہ حجرے کے اندر جانے کا کوئی دروازہ نہیں رکھا گیا۔ سیرت کی کتابوں میں ہے کہ جب حجرے کی بنیادوں کو پختہ دیوار میں قائم کرنے کے لئے مشرقی جانب گہرا کیا جانے لگا تو ایک قبر کی لحد کھل گئی اور ایک پاؤں نمو دار ہوگیا لوگوں میں دہشت پھیل گئی ۔ بعض جاننے والوں نے بتایا کہ اس دیوار سے متصل حضرت عمرؓ کی قبر تھی اور یہ قدم جو نمودار ہو گیا ہے وہ حضرت عمرؓ کا ہے ۔

معتبر روایت کے مطابق حجرے میں حضور انور کے مزار سے قریب حضرت ابو بکرؓ کی تدفین سپاس ادب ذرا نیچے کھسکا کر اس طرح کی گئی کہ حضرت ابوبکرؓ کاسر حضور انوؐر کے سینہ مبارک کے محاذی رہا پھر حضرت عمرؓ کی تدفین اس طرح ہوئی کہ ان کا سر حضرت ابوبکرؓ کے سینہ کے محاذی رہا۔ حجرہ مختصر تھا حضرت عمرؓ کی میت جب سپرد لحد کی گئی تو جگہ کی تنگی کی وجہ سے میت کے پاؤں دیوار کی بنیاد کے اندر رکھ دیئے گئے۔ اب جو دیوار بدلنے کے لئے نیو ہٹائی گئی تو پاؤں ظاہر ہو گئے ۔ بہر حال پختہ چہار دیواری جس میں کوئی دروازہ نہیں رکھا گیا قائم کر دینے کے بعد ایک اور حصار چاروں طرف بنا دیا گیا اس میں بھی کوئی دروازہ نہیں رکھا گیا۔ البتہ حجرے کی چھت میں ایک روشن دان بنادیا گیا تھا اس طرح پہلی صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی حضور انور کا مزار پرانوار اور حضرت ابو بکؓر و حضرت عمؓر کی قبریں  نگاہوں سے مخفی کر دی گئیں یہی وجہ ہے کہ ان خوش نصیبوں کے دور کے خاتمے کے بعد جنہوں نے ظاہر کی نکھوں سے بھی ان مزارات کو دیکھا تھا اچھا خاصا اختلاف اس بارے میں ہونے لگا کہ تینوں قبریں کسی ترتیب سے واقع ہیں اور قبروں کی کیفیت کیا ہے زمین سے کتنی اونچی ہیں اور کسی وضع کی ہیں ؟ دیکھنے والے جب نہیں رہے تو دیکھنے والوں کی زبانوں سے سننے والوں نے اپنی اپنی یاد کے موافق حجرے کے اندر کی تفصیلات بیان کیں جو جزئیات میں ایک دوسرے سے قدرے مختلف تھیں ۔

 پھر کئی برسوں کے بعد ایک حیرت انگیز واقعہ پیش آیا۔ ۵۵۷ھ میں سلطان نور الدین شهید محمود بن زنگی نے ایک رات تین بار خواب میں حضور انور کی زیارت کی کہ آپ دو آدمیوں کی طرف اشارہ فرما کر ارشاد فرما رہے ہیں کہ ان دونوں کی خباثت اور شر سے بچاؤ : سلطان نور الدین خواب سے بیدار ہوتے ہی فراست ایمانی سے سمجھ گیا کہ مدینہ شریف میں کوئی غیر معمولی بات اٹھ کھڑی ہوئی ہے وہ راتوں رات بیس ہمراہیوں کے ساتھ شام سے چل پڑا اور ۱۶ دن  کے اندر مدینہ منورہ پہونچ گیا ،پہونچتے ہی اس نے حکم دیا کہ تمام اہل مدینہ بڑے چھوٹے سب صلہ د انعام لینے کے لئے حاضر ہوں تعمیل حکم میں مدینہ شریف کی ساری آبادی ایک جگہ جمع ہوگئی۔ سلطان نے ایک ایک کو بنظر غور دیکھا مگردہ دوشخص نظر نہ آئے جو خواب میں دکھائے گئے تھے ۔

اس کے بہ تاکید پوچھنے پر کوئی رہ تونہیں گیا اسے بتایا گیا کہ صرف دو آدمی جو بالکل خانہ نشین ہیں اور  مال ددولت سے بے نیاز عبادت و ریاضت میں منہمک رہتے ہیں نہیں آئے ہیں سلطان نے حکم دیا کہ وہ بھی پیش کئے جائیں دونوں حاضر کئے گئے تو ہو بہو وہی تھے جن کو خواب میں سلطان شہید نے دیکھا تھا ان کی رہائش گاہ کا پتہ معلوم ہونے کے بعد سلطان ان دونوں کو اسی جگہ کھڑا چھوڑ کر وہاں پہونچا اور اندر جاکر ایک ایک چیز دیکھی سوائے کتابوں کے اور کچھ نہ پایا۔

               زمین پر جو چٹائی پڑی ہوئی تھی اسے بھی سلطان نے ہٹایا تو اس کے نیچے ایک سرنگ نظر آئی جو حجرہ شریف کی طرف اندر اندر کھودی گئی تھی دوسری طرف ایک کنواں تھا جس میں سرنگ سے مٹی نکال نکال کر ڈالی جاتی تھی سخت گرفت کرنے پر پتہ چلا کہ یہ دونوں بھیس بدلے ہوئے نصرانی تھے جو جسد اطہر کے ساتھ گستاخی کرنے کی نیت سے اندر اندر سرنگ کھود کر اس مبارک مقام تک پہنچ پانا چاہتے تھے۔ ان دونوں کو قرار واقعی سزادی گئی۔ اس کے بعد سلطان نے حجرے کے چاروں طرف اتنی گہری خندق کھدائی کہ دہ سطح آب  تک پہنچ جائے، پھر اس خندق کوپگھلائے ہوئے سیسے سے اوپر تک بھر دیا اور ایسا مستحکم بنا دیاکہ اب کسی نہج سے رسائی کا کوئی اندیشہ ہی نہیں رہا۔

 اس طرح حجرہ شریف کو ہر طرف سے محصور کر دیا گیا ہے اور دوسرے حصار کے بعد چند فٹ چاروں طرف چھوڑ کر پتیل کی جالیاں چاروں طرف بنادی گئی ہیں۔ ان میں دروازہ ہے اندرون حجرہ پہونچنا تو نا ممکن ہے البتہ مبارک جالیوں کے اندر رسائی ہو سکتی ہے۔ اور خاص خاص اشخاص کی ہوتی بھی ہے۔گنبد خضراء، اس حجرے کے اوپر دوسرے حصار پر قائم ہے  اتنے پردوں اور حجابوں کے باوجود، اہل کشف و صاحبان بصیرت کی بات نہیں عام امتیوں تک کو موجہہ شریف میں ایستادہ ہوتے ہی محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ دربار دُربارمیں حاضر ہیں اور مراحم خسروانہ سے علی حسب مراتب سرفراز ی بخشی جارہی ہے ۔

 اور پردہ نشیں ہیں ترے اس لطف کے قربان

پنہاں مری آنکھوں سے ہویدا مرے دل میں

               دہ جو عشق نبوی کی دولت سے مالامال ہیں تو ان کا کیا کہنا! کوئی حجاب کے لئے حجاب نہیں، کوئی دوری ان کے لئے دوری نہیں ہے

در را و عشق مرحله قرب و بعد نیست

می بنییمت عیان و د عامی فرستمت

اہل دل و صاحبان نظر کی اس سرفرازی سے تاریخیں بھری پڑی ہیں کہ انھوں نے مواجہ شریف میں حاضر ہو کہ چشم ظاہر سے مشاہدہ  جمال نبوی کی سعادت حاصل کی اور بلاد اسطہ شرف تخاطب سے سرفراز ہوئے۔ علامہ جلال الدین سیوطی نے خود تحریر کیا ہے کہ ۵۶ ہار انھیں اسی طرح شرف باریابی نصیب ہوا۔

ہمارے ایک بزرگ خاندان مولانا عبد الباقی انصاری ایوبی ہجرت کر کے مدینہ شریف میں قیام پذیر ہو گئے تھے۔ تقریبا پچاس سال شرف حضوری سے شاد کام رہنے کے بعد ۱۹۴۵ء  میں وہیں ان کا انتقال ہوا اور جنت البقیع میں مدفون ہوئے۔ ان کے ایک شاگرد مولانا محمد ابراہیم الختنی نے ان کے متعلق گویا چشم دید واقعہ یہ بیان کیا کہ مولانا عبد الباقی نے جو مسجد نبوی میں بخاری شریف کا درس دیا کرتے تھے۔ ایک دن دوران درس میں ایک آواز سنی یا عبدالباقی متی تدرس البخاری ولا تدرس کتابی ، (اے عبدالباقی بخاری کا درس کب تک دیتے رہو گے اور میری کتاب کا درس دینا شروع نہ کرو گے) مولانا نے اس آواز کو سنتے ہی سبق بند کر دیا اور فورا مواجہہ شریف میں حاضر ہو کر صلوۃ و سلام پیش کرکے عرض کیا : حضور نے یہ ارشاد نہ فرمایا کہ دہ کون سی کتاب ہے جس کو حضور نے " میری کتاب سے یاد فرمایا ہے کہ براہ راست جواب ملا: الموطا امام محمد مع التعليق المجد (امام الك کی موطا (حدیث کی کتاب) جو امام محمد کی ہدایات سے مروی ہے اس لئے موطا امام محمد کہی جاتی ہے۔ اس کی شرح التعلیق الممجد کے ساتھ) التعلیق الممجد موطا امام محمد کی وہ شرح ہے جسے مولانا عبد الحئی فرنگی محلی نے تصنیف کیا ہے۔ مولانا عبدالحئی کے شاگرد مولانا عبد الباقی مہاجر مدنی تھے۔ مولانا عبدالباقی صاحب نے اسی دن سے بخاری شریف کا درس ملتوی ۔ کر کے موطا امام محمد کی شرح التعلیق الممجد  کے ساتھ پڑھانا شروع کر دیا ہے ؟ سچ ہے:

 نگاہ یار جیسے آشنائے راز کرے

 وہ اپنی خوبی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے

یوں تو مدینہ شریف کے ذرے ذرے سے ایمان ایثار، محبت، جان نثاری مواخات مواسات کی پوری پوری تاریخ وابستہ ہے لیکن اول تو حاضری دینے والوں میں ایسے کتنے کہ جریدہ عالم پر ثبت تاریخ کو پڑھ سکیں دوسرے اس سرچشمہ فیض تک پہونچ جانے کے بعد اس کا موقع کہاں کہ دوسری طرف توجہ بھی کی جاسکے

جب مہر نمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے

تو مجھ کو بھری بزم میں تنہا نظر آیا

مواجہہ شریف یا مسجد شریف سے اٹھ کر کوئی جائے تو کہاں جائے ؟ دیکھے تو کیا دیکھے ؟

محبوبی ہر عشوه گری را چه کند کس

 آنجا که تو باشد دگر را چه کند کس؟

               بجا کہ ان کی رہگزاروں پر بھی سرکے بل چلنے کا جی چاہتا ہے بلک ان کے جان نثاروں کی خاک پا کو آنکھوں سے لگانے کے لئے بھی بے چین ہو جاتا ہے ان راہوں میں پھرنے کا شوق بھی کروٹیں بدلتا ہے۔ جن راہوں سے عشق و سرفروشی کے قافلوں کی صبح و شام آمد رفت ، بہتی تھی لیکن ابھی کا مواجہہ شریف کی حاضری سے سیری کہاں ہوئی؟ر وضہ جنت میں بھی ابھی حاضری نہیں دی ستون ابی لبابہ سے لپٹ کر توبہ واستغفار ابھی کہاں کیا ؟ مواجہہ شریف سے اجازت لے کہ ہم اصل مسجد نبوی کی طرف بڑھے اور روضہ جنت کی طرف رخ کر لیا۔

روضہ جنت ہے کیا ؟ حجرہ بی بی عائشہ اور منبر مسجد کے درمیان جو جگہ ہے اس کو حضور انور نے روضتہ من ریاض الجنۃ جنت کے باغیچوں میں کا ایک باغیچہ فرایا ہےاور یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اس میں ایک ایسی جگہ بھی ہےجہاں نماز پڑھنے کے اجر کا انداز اگر لوگوں کو ہو جائے تو اس جگہ کے حصول کے لئے قرعہ اندازی کی جانے لگے ، عرصہ تک یہ متعین جگہ نامعلوم رہی پھر حضرت بی بی عائشہ نے اپنے بھانجے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سے اس متعین مقام کی نشان دہی فرمادی۔ اب اس متعین مقام پہ جو ستون ہے اُتنے ستون عائشہ  کہتے ہیں۔ ستون ابی لبا بہ حضرت ابولبابہ انصاری سے منسوب ہے اور ستون تو یہ بھی کہلاتا ہے حضرت ابو لبابہ نے یہودی قبیلہ بنی قریظہ سے جن سے ان کے گہرے مراسم تھے اس وقت جب بنی قریظہ کا محاصرہ مسلمانوں نے کر لیا تھا یہو دیوں کے مشورہ طلب کرنے پر غلطی سے ایسا اشارہ کر دیا تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ تم اگر اپنے کو سپرد کرد و گے تو قتل کر دیئے جاؤ گے ۔ اس طرح غیر ضروری بات کہنے پر بعد میں ان کو سخت ندامت ہوئی اور انھوں نے مسجد نبوی میں اگر ایک کھنبے سے اپنے کو باندھ لیا اور طے کر لیا کہ اب اسی وقت اپنے کو ستون سے کھلوائیں گے جب ان کی توبہ قبول ہوگی ۔ اور رسول انور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اپنے دست مبارک سے ان کی بندشیں کھولیں گے ۔ ابو لبابہ کی صاحبزادی پانچوں وقت آکر نماز کے لئے ان کی رسیاں کھول دیتی تھیں نماز کے بعد پھر کھنبے سے باندھ دیتی تھیں یا حوائج ضروریہ کے لئے کھولتی تھیں پھر باندھ دیتی تھیں۔

 حضور انور صلی الہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر ابو لبابہ  پہلے ہی میرے پاس آجاتے، تو میں ان کے لئے دعائے مغفرت کرتا مگر اب جبکہ انھوں نے اپنا معاملہ خدا کے حوالے کر دیا ہے کہ جب تک وحی کے ذریعہ تو بہ کی مقبولیت معلوم نہ ہو جائے گی اس وقت تک وہ اپنے کو باندھے رکھیں گے تو اب جب تک خدا کا حکم نہ ہوگا۔ میں انھیں نہیں کھولوں گا ۔ ابو لبابہ بھوک و پیاس کی شدت اور توبہ کے لئے الحاح وزاری سے بے حال ہو گئے یہاں تک کہ ان کی قوت سماعت جواب دے بیٹھی اور بصارت بھی جواب دے جاتی کہ ایک دن سحر کے وقت جبکہ حضورا نور حضرت بی بی ام سلمہؓ کے حجرے میں تھے قبولیت تو بہ کے سلسلے میں وحی نازل ہوئی اور آپ نے اسی وقت اپنے دست مبارک سے ابو لبابہ  کی بندشوں کو کھولا ہے

 چہ مبارک سحرے بود چه فرخندہ ہے

ومین شب قدر که این تازه به اتم دارند

               اس طرح یہ ستون تو بہ بھی کہا جاتا ہے اور یہاں گنہگاروں کی تو بہ آئندہ بھی قبول ہوتی رہے گی اس لئے کہ یہ مقام نزول رحمت کا محل ہے ۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں نماز فجر کے بعد حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہو جاتے اور وہ اصحاب جن کا مسجد کے علاوہ کوئی اور ٹھکانا نہ تھا یا اصحاب صفہ آپ کے اردگرد بیٹھ جاتے تھے اس وقت حضو ر انور ان کی تعلیم وتربیت فرماتے تھے اورات کو جو کچھ قرآن نازل ہوا ہوتا وہ ان حضرات کو سناتے اور یاد کراتے تھے طلوع آفتاب کے بعد دوسرے اصحاب جو گھر باہر والے تھے۔ حاضر خدمت ہوتے اور اسی جگہ انھیں فقراء ومساکین کے درمیان بیٹھ جاتے اور دینی امور کے بارے میں انتصارات کرتے ہیں وہ جگہ بھی ، یہ جہاں اعتکاف کے زمانے میں کبھی کبھی حضور انور کا تکیہ بچھونا بچھا دیا جاتا تھا اور آپ اسی ستون سے ٹیک لگا کر بیٹھے تھے ۔ اگر چہ اس کے قریب ایک دو ستون بھی ہے جسے ستون سریہ کہتے ہیں اس ستون کے پاس چٹائی (سریر)سے ایک آڑ کھڑی کر دی جاتی تھی جس کے اندر حضور انور اعتکاف کے دن گزارنے تھے ۔ اسی قدیم مسجد نبوی میں ایک ستون حرس ، نگہبانی کا کھنبا بھی ہے جسے ستون علیؓ بھی کہتے ہیں جہاں رات کے وقت عموما حضرت علیؓ اور کبھی کبھی دوسرے صحابہ حجرہ مبارک کی پاسبانی کرتے تھے حضرت علیؓ پاسبانی کے دوران بات بھر اسی جگہ نفلیں پڑھا کرتے تھے اسی لئے یہ ستون حرس بھی کہلاتا ہے اور ستون علی بھی۔ ستون حرس کے بعد ستون وفود ہے جو حجرۃ بی بی عائشہؓ ہے اور حجرہ بی بی فاطمہؓ کے درمیان ہو۔ باہر کی جماعتیں اور وفود جب حضور انور سے شرف نیاز حاصل کرنے           یا سمجھوتے کرنے یا دینی امور پر تبادلہ خیال کرنے حاضر ہوتے تو اسی ستون کے پاس حضور انور انھیں شرف بار یا بی بخشتے اس وقت آپ کے اردگرد بڑے بڑے صحابہ بھی ہوتے تھے۔

اسی ستون وفود کے پاس سے حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضر بی بی فاطمہؓ حضرت علیؓ اور حضرات حسنین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو مخاطب فرما کر السلام علیکم یا اهل البيت" فرمایا کرتے تھے ۔

ستون حرس ستون وفود اور ستون سریر بھی موجود ہیں مگران کے ارد گرد کی زمین کا بیشتر حصہ روضہ اطہر کے گرد کھینچی ہوئی جالیوں کے اندر آ گیا ہے اس لے یہاں نماز پڑھنے کی گنجایش نہیں نکل پائی۔ البتہ ستون عائشہ اور ستون تو بہ کے آس پاس کئی کئی آدمیوں کے نماز پڑھنے کی جگہ ہے اور یہ جگہ ہر وقت بھری رہتی ہے ۔ ( جاری)

http://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/