حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (3)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

07:51PM Fri 2 Jun, 2023

ساحل پر ڈال دیے جانے كے بعد سارا سامان ٹركوں میں بھر كر كسٹم ہاؤس لایاجاتا ہے اور چشمِ زدن میں وہاں سامان كا ایك ڈھیر لگ جاتا ہے ‏، اب ہمت ہو تو اپنے عدو اس انبار میں ڈھونڈ نكالیے !۔

سامان كا یہ حشر جدے میں ہوگا اس كی سن ‏، گن ہمیں پہلے ہی مل گئی تھی ‏، ہمارے ایك رفیق عارف صاحب خیرآباردی عرف ملامیاں جو دوسری بار 28 سال بعد حج كو جارہے تھے ‏، نئے مسافروں كو اپنے سابقہ تجربے بتانے بڑی فیاضی سے كام لےرہے تھے ‏، انہوں نے ایك طرح سے آگاہی دے دی تھی اور بتایا تھا كہ اگر اپنا قلی الگ كرلیاجائے ‏، تو وہ بہ حفاظت سامان پہنچانےكا ذمہ دار ہوجاتاہے ‏، اس كو اجرت الگ دیناہوتی ہے ‏، الگ قلی نہ كریں ‏، تو خود سعودی حكومت اپنے انتظام میں سارا سامان اترواكرٹركوں میں بھرواكر كسٹم ہاؤس پہنچوادے گی ‏، یہ تو گارنٹی كی جاسكتی ہے كہ حاجیوں كا سامان جہاز سے اتروانے میں كھوئے گا نہیں ‏، لیكن یہ گارنٹی كوئی نہیں كرسكتا كہ ٹوٹے ‏، پھوٹے گا بھی نہیں ‏، ہمارے ساتھی منجی میاں نے جاجز سے اترنے سے قبل ہی ایك قلی كو آمادہ كرلاس كہ وہ ہمارے قافے  كا سارا سامان حااظت سے اتاركر كموج ہاؤس مںج بہ حفاظت ہمارے پاس پواناودے گا ‏، قلی نے ہامی بھری اور خاطر خواہ اجرت مانگی ییےہ 15 ریال (یاتسق ہندوستانی روپیہ ) سامان كی تعداد چواٹا ‏، بڑا ملاكر شاید 11‏، 12 تھی ‏، بكس ‏، بترھ اور ناشتے كے جھابے ‏، ہمںی منیی میاں كے اس اناظیم كا پتہ اس وقت چات جب كموج ہاؤس میں اس جہت جارں ہم لوگ بیےھ  تھے ہمارا سارا سامان آگیا ۔

چند سال پہلے ساحلِ جدہ تك پہنچنا ایك بڑا مرحلہ ہوا كرتا تھا ‏، ساحل سے دور جہاز لنگر انداز ہوتا ‏، كشتیاں اور موٹر كشتیاں ساحل سے جہاز تك آتی تھیں اور مسافروں كو سوار كركے خشكی تك پہونچاتی تھیں ‏، اس مرحلے میں گرنے ‏، پڑنے كے بڑے اندیشے رہا كرتے تھے اور سامان بھی غرقاب ہوجایا كرتا تھا ‏، اس وقت تك جدے كا ساحل اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا ‏، اب جہاز بالكل خشكی سے مل كر كھڑے ہوتے ہیں اورمسافر كے قدم جہاز سے اٹھ كر زمین ہی پر پڑتے ہیں ‏، سامان بھی سیدھا جہاز سے خشكی پرلاڈالا جاتا ہے ‏، ڈوبتا تو نہیں ‏، ٹوٹتا ‏، پھوٹتا ہے ‏، تو اس كو كوئی كیا كرے ۔

سامان جہاز پر چھوڑ ہم اترے ‏، آرام دہ بسوں پر بیٹھے اور كسٹم ہاؤس تك چند منٹ میں پہونچادئیے گئے ‏۔

پچیس ‏، پچیس ‏، تیس ‏، تیس كی كھیپ پہونچ كر كسٹم ہاؤس میں فوراً قطار بنالیتی ہے ‏، یہ نہیں كہ ایك دم سب كسٹم افسر كے سر پر پہنچ جائیں ‏، قطار بنانا تو اب معاشرت حاضرہ كا ایك معمول بن چكا ہے ‏، اور ‘‘ الاول فالاول’’ ( پہلے آنےوالے كا كام پہلے ) كا فرسودہ نظریہ نئی زندگی كا جزو لاینفك ہوگیا ہے جس كو توڑنے كی كوشش كرنے والا خود ہی اپنا نقصان كرتا ہے ۔

پھر جب كسٹم ہاؤس میں بس سے اترے اور قطار میں لگے ‏، تو كم وبیش چھ سو آدمی ‏، تورتیں ‏، مرد ‏، بچے ‏، جوان ‏، بوڑھے ہمارے آگے قطارمیں تھے ۔

آپ كہیں گے كہ اتنی لمبی قطار كے لیے كتنی  بڑی جگہ دركار ہوگی اور كسٹم ہاؤس كتنا وسیع ہوگا ‏؟ وہ وسیع تو كافی ہے ‏، مگر قطار یں ایك خط مستقیم میں نہیں تھیں ‏، ایك محدود رقبے كے اندر حدوں میں پہونچ كر كڑجانے والی قطاریں تھیں ایسا ہوتا تھا كہ ایك آدمی سےقطار میں جب تك وہ سیدھی ہے ہمارا فاصلہ مثلاً پچاس قدم كا تھا ‏، جب قطار مڑی اور اس نے خطِ مستقیم كے بجائے مربع كے دوضلعوں كی شكل اختیار كی تو جس سے پچاس قدم كا فاصلہ تھا ‏، اس سے دیكھنے میں صرف بیس قدم رہ گيا ‏، مگر یہ بیس قدم طے كركے كوئی منزل مقصود پر نہیں پہونچ سكتا ‏، اس كی اجازت محافظین قطار نہیں دیتے ‏، اسے پچاس قدم طے كركے ہی اس جگہ آنا ہے ہے جہاں پچاس قدم طے كركے پہونچنے والا پہنچا ہے ۔

ٹین كے سائبان كے نیچے ہم چیونٹیوں كی چال سے رینگ رہے تھے ‏، اپریل كے مہینے كی پانچ تاریخ ہمارے یہاں ایسی نہیں ہوتی كہ سائبان كے نیچے گرمی لگے ‏، لیكن ریگستان كا موسم اور ہی كچھ ہوتا ہے ‏، سائبان میں چھت كے پنكھے بڑی تعداد میں ہوا پھینك رہے تھے ‏، مگر تپش بہت سخت محسوس ہورہی تھی اور رینگنا بہت كھل رہا تھا ‏، خدا‏، خداكركے ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں تین چار تنگ راستے اس بڑے احاطے میں داخل ہونے كے بنے ہوئے تھے ‏، جہاں ہمارا سامان پہونچنے والا تھا ‏، اور اس كی جانچ ہونے والی تھی ۔

تنگ راستوں پر پولیس اور پاسپورٹ كا عملہ اپنی مہریں لیے كھڑاتھا ‏، پہونچتے ہی پاسپورٹ دیجئے ‏، ایك نظر میں دیكھیں گے ‏، مہریں لگائیں گے اورمعلم كانام پوچھیں گے یہ سب ایك منٹ میں ہوجائے گا ‏، ہم سے معلم كانام پوچھا گیا ‏، ابھی مولانا عبدالہادی سكندر  كے الفاظ ہمارے منہ سے نكلے ہی تھے كہ راستے كے اختتام پر كھڑے ہوئے لوگوں میں سے ایك نے بڑھ كر ہمارے پاسپورٹ گونچ لیے ۔

دیكھا تو وہ شخص قطعاً ہمارے معلم ‘‘ عبدالہادی سكندر’’ نہ تھا ‏، سامان سے ہاتھ اٹھاہی چكے تھے ‏، لیجئے پاسپورٹ سے بھی ہاتھ دھولیے ‏، تھرماس اور سادے پانی كی بوتل شانے سے لٹك رہی تھی ‏، اس كو بغل میں دباكر تنگ راستہ پار كركے كسٹم ہاؤس كے بڑے احاطے میں داخل ہوئے ‏، یہاں میدان بڑا وسیع تھا اوپر بڑا سائبان ‏، نیچے پختہ زمین اور دو ایك بڑے ‏، بڑے چبوترے بھی ‏، ہم سے پہلے پہونچ جانے والے اس وسیع اور پختہ زمین پر چاروں طرف بڑی بے تكلفی سے بیٹھے ملے ‏، ہم نے بھی بیٹھنے كی جگہ اپنے خیال میں ایك كونے میں ڈھونڈھ نكالی ‏، مگر چشمِ زدن میں وہ بیچ منجھدار میں نظر آنے لگی ‏، اس وقت دوپہر ہوچكی تھی ‏، كھانے ‏، پینے كی فكر بھی تھی ‏، سامان كی بھی اور یہ بھی فكر كہ دیكھیں یہاں كسٹم كیسے ہوگا ۔

جدے كا ساحل بھی تقریباً آزاد ساحل ہے ‏، یہاں ےكسی قسم كے سامان لانے كی ممانعت نہیں ہے ‏، صرف نشہ آور اشیاء كوئی نہیں لاسكتا ‏، ملكی ‏، غیرملكی جوسامان لائے لاسكتاہے ‏، كوئی ڈیوٹی نہیں لی جاتی ۔

ابھی تو صرف حاجی آئے تھے جو گھوم پھر رہے تھے ‏، سامان آیا كہاں تھا كہ اس كی جانچ پڑتال ہوتی ۔

ہماری ریاست اترپردیش كے حج ویلفیر آفیسر شیخ محمود ( ریٹائرڈ جودیشل مجسٹریٹ ) جو ایك مہینے قبل یہاں پہونچ چكے تھے ‏، اپنے حاجیوں كی دیكھ بھال كے لئے كسٹم ہاؤس میں آئے ‏، یوں كسٹم ہاؤس كے اندر باہر كا كوئی آدمی نہیں آسكتا ‏، شیخ صاحب كے سینے پر ایك پیج لگاہوا تھا جو داخلے كا اجازت نامہ تھا ‏، ان كےبڑے بھائی شیخ ظہور الحسن ہمارے ساتھ جہاز سے اترے تھے ‏، دونوں بھائیوں میں ملاقات ہوئی ‏، وہیں محمود صاحب نے یہ افسوس ناك خبر سنائی كہ جماعت تبلیغ كے سر براہ مولانا محمد یوسف ؒ كا لاہور میں اچانك انتقال ہوگیا ‏، مولانا یوسف صاحب مرحوم كی دینی خدمات اور اس سلسلے میں ان كی انتھك كوششوں سے وہ لوگ بھی متاثر رہے ہیں جو ان كی جماعت سے كوئی خاص تعلق نہیں ركھتے ‏، ہم سب كو اس سانحے كی اطلاع سے ایك دھچكا لگا ‏، اس كے بعد محمود صاحب نے حرم میں غیرمعمولی ازدحام كی خبر سنائی كہ طواف كرنا آسان نہیں رہا ہے اور دوسری تكلیف دہ اطلاع یہ دی كہ حرم میں دورانِ طواف میں حاجیوں كی جیبیں كٹ رہی ہیں ‏، اور كوئی یہ اطلاع دیتا تو ہمیں ایك لمحے كے لیے بھی یقین نہ آتا ؛ لیكن تھوڑی ہی دیر میں یقین كیا ‏، ایك طرح سے تصدیق ہمیں كرنا پڑی ۔

 اسی اثنا میں حاجیوں كا سامان آنا شروع ہوگیا اور ایك جگہ لگے ہوئے ڈھیر سے حاجی اپنا اپنا سامان نكال كر كسٹم كے لیے باقاعدگی سے ركھ رہے تھے ‏، متین میاں نے جو الگ انتظام كرلیا تھا اس كا فائدہ اب سامنے آیا ‏، جب ہمارا سارا سامان انہیں قلیوں نے ٹھیك اسی جگہ لاكرركھدیا جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے ‏، نہ ڈھونڈ ھنے كی زحمت ہوئی اور نہ  ڈھونڈھ نكال كر ڈھونے كی ‏، ایك نوجوان ہمارے ساتھ جہاز پر تھا ‏، تعلیم یافتہ اور انگریزی لباس پہننے والا ‏، جواكثر كوئی كتاب پڑھتا جہاز پر نظر آتا تھا ‏، خیال ہوا كہ جہاز كا كوئی ملازم ہوگا ‏، فرصت كے وقت كیبن كلاسوں كے برآمدے میں بیٹھ كر كتاب دیكھتا ہے ‏، پوچھنے پر معلوم ہوا كہ وہ حج كرنے جارہا ہے اور ہماری ہی ریاست كا رہنے والا ہے ‏، بہت اپٹوڈیٹ نظر آتا تھا ‏، اس كے سفرحج سے ایك گونہ خوشی بھی ہوئی ‏، مطالعے میں انہماك بھی پسندیدہ فعل تھا ‏، سامان اس كے پاس ہوائی جہاز كے مسافروں سے بھی كم صرف ایك سوٹ كیس لیكن خدا جانے كیا تھا كہ كسٹم آفیسر نے اس كا پورا سوٹ كیس زمین میں پلٹواكر اس كی ایك ‏، ایك چیز خوب غور و خوض سے دیكھی ‏، دواؤں كی شیشیاں خاص طور پر جانچیں ‏، ہمیں ذرا برا بھی لگا كہ جس نوجوان كی اس مبار ك سفر پر حوصلہ افزائی كرنا چاہیے تھی ‏، اس كی اس طرح بے عزتی ہورہی ہے ‏، بعد میں واپسی پر جہاز كے عملے سے معلوم ہوا كہ (اسی جہاز سے وہ ہم لوگوں كے ساتھ گیا تھا ) كہ وہ نشے كا عادی تھا اورہر وقت گھٹیاناولیں پڑھاكرتا تھا ‏، حتی كہ احرام پوش ہونے كے بعد بھی ناول بینی سے باز نہیں رہا ۔

اگرچہ حاجیوں كے جہاز پر شراب كا دور ‏، دور تذكرہ نہیں ہوتا ‏؛ لیكن جہاز كے نچلے عملے كے غیر مسلم ملازمین خلاصی وغیرہ كے ذریعہ ایسی ضرورت پوری كرلی جاتی ہے ‏، اس نوجوان نے یہی راہ پالی تھی ‏، اندازہ ہوا كہ كسٹم افسر نے اس كی دواؤں كی جانچ غیرمعمولی طور پر كیوں كی تھی ‏، كیسے سمجھ دار اور تاڑلینے والے ہوتے ہیں یہ كسٹم آفیسر اسی كو دھرا اور اس كی جی بھر كے تلاشی لی ۔

ہم اپنے سامان كے پاس كسٹم آفیسر كے انتظار میں كھڑے تھے كہ نظر پڑی ہمارے سفیر مقیم جدہ مسٹر فرحت كامل قدوائی ( جنہیں ہم مدد بھائی كہتے ہیں ) ہندوستان كے قومی لباس شیروانی چوڑی دار پائجامہ اور ٹوپی پہنے حاجیوں كے درمیان سے ٹہلتے ہوئے ہمار ی طرف آرہے ہیں ۔

اے ذوق كسی ہمدم دیرینہ كا ملنا

بہتر ہے ملاقات مسیحا و خضر سے

انہوں نے خیر سلا پوچھنے كے بعد كہا كہ میں ابھی جاكر موٹر واپس بھيجتا ہوں ‏، تم لوگ كسٹم ہوجانے كے بعد ہمارے یہاں چلے آنا ۔

اتنے میں كسٹم آفیسر بھی عبا پہنے ‏، عقال باندھے ‏، سگریٹ پیتا ہمارے سامان كی طرف آگیا ‏، كیا دیكھا ‏، كیا نہیں دیكھا اور كیا دیكھنا چاہتا تھا ‏، یہ سب اسی كو معلوم ہوگا ‏، شاید دس بارہ منٹ لگے ہوں گے كہ ہماری گلوخلاصی ہوگئی ‏اور ہم لوگ سامان وہیں چھوڑ كر باہر آگیے ‏، سامان ہمارے ساتھ نہیں جاسكتا تھا ‏، سب حاجیوں كا سامان پھر اسی طرح ٹركوں میں لادكر حجاج منزل (حاجیوں كی قیام گاہ ) كے سامنے سڑك پر ڈلوادیا جائے گا ‏، جہاں سے آپ خود اپنا سامان نكالیے گا ۔

ہم لوگ مدد بھائی كے گھر پہونچے ‏، منہ ‏، ہاتھ دھویا ‏، كھانا كھایا ‏، یہاں ہمارے ایك محترم میاں سید محمد یوسف مہاراج اجمیری ملے ‏، ان كے ساتھ فوراً ہی سامان تلاش كرنے حجاج منزل آئے ۔

 اب ان صاحب كی بھی تلاش ہوئی جنہوں نےكسٹم ہاؤس میں ہم لوگوں سے پاسپورٹ لے لیے تھے ‏، وہ معلم تو نہ تھے ‏، معلم كے وكیل تھے ‏، مولانا عبدالہادی سكندر ‏، یا كسی دوسرے معلم كے جتنے حاجی آئے ان كے وكیلوں نے ان كے پاسپورٹ لے لیے تھے ‏، حجاج منزل میں سعودی حكومت كا دفتر ہے جہاں پاسپورٹ كے اندراجات ہوتے ہیں ‏، وكیلوں نے اندراجات كرائے ‏، ہم نے اپنے ڈرافٹ وہیں بھنوائے ‏، سامان اكٹھا  كیا ‏، یعنی سڑك كے كنارے یكجا كردیا ۔

یہاں جدے میں ہمارے بعض اعزاء رہتے ہیں ‏، حكیم وہاج الحق صاحب مرحوم فرنگی محلی كے نواسے مصطفےٰ علی قدوائی ‏، مظفر علی قدوائی ‏، مجتبٰی ‏علی قدوائی ‏، اور ناظر علی قدوائی ان كا گھر حجاج منزل سے بہت قریب تھا ‏، ٹہلتے ہوئے وہاں بھی گئے ۔

ایك رات قبل آنے والے اسلامی جاز كے حاجیوں كے پاسپورٹ كا اندراج ابھی مكمل نہیں ہوا تھا ‏، ہماری باری اور بعد میں آنے والی تھی ؛ لیكن ہمارے معلم كے ایك صاجزادے عبدالوالی كی كوشش اور ہمارے سفارتخانے كے ایك سكریٹری مسٹر وہاج الحق كی توجہ سے 8 بحے رات تك ہمارے پاسپورٹ اندراجات كے بعد ہمیں واپس مل گئے  اور معلم كی فیس اوز جدے سے مكہ معظمہ تك سركاری بس پرجانے كا كرایہ داخل كرے ہم نے ‘‘ تنازل ’’ لے لیا ۔

تنازل كا مطلب یہ كہ ہم سركاری مطالبات اداكرنے كے بعد بھی سركاری گاڑیوں سے جانا نہیں چاہتے ‏، اجازت دیجئے كہ ہم اپنی گاڑی الگ كركے چلے جائیں ‏، یہ اجازت نامہ بھی مل گیا ‏، وہیں پانچ آدمیوں كی ایك ٹیكسی چالیس ریال میں مكہ معظمہ كے لیے كی سب سامان اس میں سماگیا اور آرام سےبیٹھ كر ہم لوگ مكہ معظمہ كے لیے روانہ ہوگیے ۔

ہمارے پاسپورٹ اور اجازت نامے ہمارے ڈرائیور كے پاس رہے ‏، وہ ہر‏،ہر چوكی پر اتركر ان پر مہریں لگواتا رہا ‏۔

اپنی گھڑی كے حساب سے ہم لوگ رات كے 11 بجے مكہ معظمہ میں داخل ہوئے ‏، سامان بوہرہ رباط میں ركھواكر عمرہ كرنے اپنے معلم كے ایك مددگار كے ساتھ حرم محترم كی طرف چل دیئے ‏، ابھی تك ایسا كوئی قوی احساس ہم میں سےكسی كو نہیں ہوپایا كہ ہم اپنی خوش قسمتی سے كہاں سے كہاں آگئے

میں اور حظِ وصل ؟ خدا سازبات ہے

جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں