حج کا سفر۔۔۔جدہ میں (2)۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

02:06PM Thu 1 Jun, 2023

ابھی ساحل ہم سے دور تھا مگر آثار ساحل نظر آنے لگے تھے کہ ہمارے جہاز کی رفتار سست ہونے لگی اور ایک لمحے کے لئے تو قریب قریب رک گئی، دیکھا کہ دور سے ایک دخانی کشتی تیزی سے جہاز کی طرف آرہی ہے جس پر سعودی حکومت کا پرچم لہرا رہا تھا۔ کشتی قریب آئی اور جہاز سے لٹکی ہوئی ایک رسی کی سیڑھی کی مدد سے ایک عرب تیزی اور بے باکی سے ہمارے جہاز پر چڑھ آیا عربی لباس میں جس کی پیشوائی حاجیوں نے السلام علیک سے کی ۔

 یہ عرب رہنمائے حج پائیلٹ تھا، جہاز رانی کا یہ مقرر دستور ہے کہ جب کسی ساحل کے قریب کوئی جہاز آتا ہے تو کپتان جہاز رانی کے فرائض سے سبکدوش ہو کر اس پائلٹ کو جہاز کی باگ ڈور سپرد کر دیتا ہے، جو ساحل کی طرف سے بھیجا جاتا ہے وجہ یہ ہے کہ ساحلوں کے قریب سمندر کی تہ یکساں نہیں ہوتی ۔ کہیں بہت اوتھلی ہوتی ہے کہیں سمندر کے اندر خشکی کے تودے ہوتے ہیں کہیں کوئی اور وجہ احتیاط ہوتی ہے، کپتان سمندر کی ان مقامی کیفیتوں سے اتنا باخبر نہیں ہوتا جتنا وہیں کا رہنے والا پائیلٹ اس لئی پائیلٹ زیادہ بہتر طریقے سے جہاز کو ساحل کے قریب لا سکتا ہے ۔

یہی معاملہ بمبئی سے جہاز کی روانگی کے وقت پیش آیا تھا کہ ہمارے جہاز کو وہاں ہی ایک پائیلٹ نے ساحل سے سمندر تک پہونچا یا تھا اور یہی سمندر میں پہونچا کردہ جہاز سے اتر کر اپنی کشتی پر سوار ہو کر وا پس چلا گیا تھا ۔ صبح ۸۔۹ بجے کے درمیان جھاز جدے کے ساحل پر لنگر انداز ہو گیا۔ اب اترنے کی  تیاریاں ہونے لگیں اور بلامبالغہ نفسی نفسی کا عالم ان مسافروں میں نظر آنے لگا جن سے توقع ہونا چاہیئے تھی کہ وہ ایثار سے کام لیں گے ۔ دو مختصر سے راستے جہاز سے ساحل پر اترنے کے تھے اور دو ہزار مسافروں میں سے ہر ایک سب سے پہلے اتر نے میں غیر معمولی دل چسپی لے رہا تھا اگر چہ سب بخوبی جانتے تھے کہ جب تک ایک ایک مسافر جہاز سے اتر نہ لے گا جہا ز ساحل سے کھسکنے والا نہیں اور نہ یہ ممکن تھا کہ کوئی پہلے اتر جانے میں کامیاب ہو کہ آگے کے مراحل میں بھی اول رہے ، سب کو ایک ساتھ حجاج منزل میں جمع ہوناہے۔ وہاں پاسپورٹ وغیرہ کے اندراجات کرانا ہمیں ڈرافٹ بھنوانا ہیں ،معلم کی فیس جدے سے مکہ معظمہ تک جانے کے لئے بس کا کرایہ اور دوسرے ٹیکس  ادا کرنا ہیں۔ یہ سب مرحلے کافی وقت لیں گے پھر دھکم پیل کرکے جلدی اترنے سےحاصل شاید جلدی کی وجہ یہ ہو کہ آٹھ روز تک جہاز پر رہ کر زمین پر قدم رکھنے کے لئے ترس گئے تھے سب۔

ہرحال ایک ہی گھنٹے کے اندر تمام مسافرجہاز سے اتر  کر ساحل پر آچکے تھے ہاں سرکاری بسیں منتظر کھڑی تھیں اور حاجیوں کو کسٹم ہاؤس پہونچا رہی تھیں، کسٹم ہاؤس بس کے ذریعہ سات آٹھ منٹ کی مسافت پر واقع تھا کوئی مسافر اپنے طور ساحل سے روانہ ہو کر کہیں جا نہیں سکتا تھا ۔

 یہاں سامان کا معاملہ عجیب رہتا ہے۔ ہر سا فر سامان جہاز پر چھوڑ کر پا سپورت ڈرافٹ وغیرہ اور صرف اتنا سامان جو وہ ہاتھ میں لے سکے لے کر اتر آتا ہے، سامان کے قلی بعد میں جہاز سے سامان اتارتے ہیں خود نہیں، سامان کے بڑے بڑے بنڈل جہانہ کے اندر رسیاں باندھ کر تیار کرتے ہیں اور آلہ ، جر ثقیل(کرین) کے ذریعہ جہاز سے اٹھا کر ساحل پرپھینکوا دیتے ہیں۔ یہ صحیح معنوں میں سامان کی اٹھا پٹخ ہوتی ہے، وہ بڑا خوش قسمت ہوتا ہے جس کا سامان اس اٹھا پٹخ میں محفوظ رہ جائے ۔ ساحل پر ڈال دیئے جانے کے بعد سارا سامان ٹرکوں میں بھر کسٹم ہاؤس لایا جاتاہے اور چشم زدن میں وہاں سامان کا ایک ڈھیر لگ جاتا ہے اب ہمت ہو تو اپنے عدد اس انبار میں ڈھونڈھ نکالیے !

 سامان کا یہ حشر جدے میں ہو گا۔ اس کی سن گن پہلے ہی مل گئی تھی ہمارے ایک رفیق عارف صاحب خیر آبادی عرف ملامیاں جو دوسری بار ۲۸ سال بعد حج کو جارہے تھے۔ نئے مسافروں کو اپنے سابقہ تجربے بتانے میں بڑی فیاضی سے کام لے رہے تھے۔ انھوں نے ایک طرح سے آگا ہی دے دی تھی اور بتایا تھا کہ اگر اپنا قلی الگ کر لیا جائے تو وہ بحفاظت سامان پہنچانے کا ذمہ دار ہو جاتا ہے اس کو اجرت الگ دینا ہوتی ہے، الگ قلی نہ کریں تو خود سعودی حکومت اپنے انتظام میں سارا سامان اتر وا کر ٹرکوں میں بھر وا کر کسٹم ہاؤس پہنچوا دے گی ۔ یہ گارنٹی کی جاسکتی ہے کہ حاجیوں کا سامان جہاز سے اتروانے میں کھوئے گا نہیں ، لیکن ۔ گارنٹی کوئی نہیں کر سکتا کہ ٹوٹے پھوٹے کا بھی نہیں ہمارے ساتھی متین میاں نے جہاز سے اترنے سے قبل ہی ایک قلی کو آمادہ کر لیا کہ وہ ہمارے قافلے کا سارا سامان حفاظت سے اتار کرکسٹم ہاؤس میں بحفاظت ہمارے پاس پہونچا دے گا۔قلی نے ہامی بھری اور خاطر خواہ اجرت مانگی یعنی ۱۵ ریال (یا تیس ہندستانی روپے )سامان کی تعداد چھوٹا بڑا ملا کر شاید ۱۱۔۱۲ تھی، بکس ،بستر اور ناشتے کے جھابے۔  ہمیں متین میاں کے اس انتظام کا پتہ اس وقت چلا جب کسٹم ہاؤس میں اس جگہ جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے ہمارا سارا سامان آگیا۔

چند سال پہلے ساحل جدہ تک پہونچنا، ایک بڑا مرحلہ ہوا کرتا تھا ساحل سے دور جہاز لنگر انداز ہوتا، کشتیاں اور موٹر کشتیاں ساحل سے جہاز تک آتی تھیں اور مسافروں کو سوار کر کے خشکی تک پہونچاتی تھیں۔ اس مرحلے میں گرنے پڑنے کے بڑے اندیشے ہوا کرتے تھے اور سامان بھی غرقاب ہو جایا کرتا تھا۔ اس وقت تک جدے کا ساحل اس قدر ترقی یافتہ نہ تھا، اب جہاز بالکل خشکی سے مل کر کھڑے ہوتے ہیں اور مسافر کے قدم جہاز سے اٹھ کر زمین ہی پر پڑتے ہیں سامان بھی سیدھا جہاز سے خشکی پر لا ڈالا جاتا ہے، دو بتا تو نہیں ٹوٹتا پھوٹتا ہے تو اس کو کوئی کیا کرے ۔سامان جہاز پر چھوڑ ہم اترے، آرام وہ بسوں پر بیٹھے اورکسٹم ہاوس یک چند منٹ میں پہونچا دیئے گئے۔

پچیس پچیس تیس تیس  کی کھیپ پر پہنچ کر کسٹم ہاوس میں فورا قطار بنالیتی ہے۔ یہ نہیں کہ ایک دم سب کسٹم افسر کے سر پرپہنچ جائیں ، قطار بنانا تو اب معاشرت حاضرہ کا ایک معمول بن چکا ہے۔ اور الاول فالاول پہلے آنے والے کا کام پہلے کا فرسودہ نظر یہ نئی زندگی کا جزو لاینفک ہو گیا ہے جس کو توڑنے کی کوشش کرنے والا خود ہی اپنا نقصان کرتا ہے۔

 ہم جب کسٹم ہاؤس میں بس سے اترے اور قطار میں لگے تو کم و بیش چھ سو آدمی عورتین مرد، بچے، جوان، بوڑھے، ہمارے آگے قطار میں تھے ۔ آپ کہیں گے کہ اتنی لمبی قطار کے لئے کتنی بڑی جگہ در کار ہوگی ۔اور کسٹم ہاؤس کتنا وسیع ہوگا۔؟ وہ وسیع تو کافی ہے مگر قطاریں ایک خط مستقیم میں نہیں تھیں ایک محدود رقبے کے اندر حدوں میں پہونچ کر مڑ جانے والی قطاریں تھیں۔ ایسا ہوتا تھا کہ

ایک آدمی سے قظار میں جب تک دہ سیدھی ہے ہمارا فاصلہ مثلا پچاس قدم کا تھا۔ جب قطار مڑی اور اس نے خط مستقیم کے بجائے مربع کے دو ضلعوں کی شکل اختیار کی تو جس سے پچاس قدم کا فاصلہ تھا اس سے دیکھنے میں صرف بیس قدم رہ گیا۔ مگر یہ بیس قدم طے کر کے کوئی منزل مقصود پر نہیں  پہنچ سکتا۔ اس کی اجازت محافظین قطار نہیں دیتے، اسے پچاس قدم طے کر کے ہی اس جگہ آنا ہے جہاں پچاس قدم طے کر کے پہونچنے والا پہنچا ہے۔

ٹین کے سائبان کے نیچے ہم چیو نیٹوں کی چال سے رینگ رہے تھے اپریل کے مہینے کی پانچ تاریخ ہمارے یہاں ایسی نہیں ہوتی کہ سائیاں کے نیچے گرمی لگے۔ لیکن ریگستان کا موسم اور ہی کچھ ہوتا ہے، سائبان میں چھت  کے پنکھے بڑی تعداد میں ہوا پھینک رہے تھے گر تپش بہت سخت محسوس ہو رہی تھی اور رینگنا بہت کھل رہا تھا خدا خدا کر کے ہم اس جگہ پہنچ گئے جہاں تین چار تنگ راستے اس بڑے حاطے میں داخل ہونے کے بنے ہوئے تھے جہاں ہمارا سامان پہونچنے والا تھا۔ اور اس کی جانچ ہونے والی تھی۔ تنگ راستوں پر پولیس اور پاسپورٹ کا عملہ اپنی مہریں لئے کھڑا تھا پہونچتے ہیں پاسپورٹ دیجئے ، ایک نظر میں دیکھیں گے۔ مہریں لگائیں گے اور معلم کا نام پوچھیں گے،یہ سب ایک منٹ میں ہو جائے گا، ہم سے معلم کا نام پو چھا گیا ،ابھی مولانا عبد الہادی سکندر الفاظ ہمارے منہ سے نکلے ہی تھے کہ راستے کے اختتام پر کھڑے ہوئے لوگوں مین سے ایک نے بڑھ کر ہمارے پاسپورٹ کھینچ لئے ۔  دیکھا تو وہ شخص قطعا ہمارے معلم عبد الہادی سکندر نہ تھا ،سامان سے ہاتھ اٹھا ہی آچکے تھے لیجیے پاسپورٹ سے بھی ہاتھ دھو لئے ، تھرماس اور سادے پانی کی بوتل شانے سے لٹک رہی تھی اسی کو بغل میں دبا کر تنگ راستہ پار کر کے کسٹم ہاوس کے بڑے احاطے میں داخل ہوئے ۔ یہاں میدان بڑا دسیع تھا، اوپر بڑا سائیان نیچے پختہ زمین، اور دو ایک بڑے بڑے چبو ترے بھی ہم سے پہلے پہونچ جانے والے اس وسیع اور پختہ زمین پر چاروں طرف بڑی بے تکلفی سے بیٹھے تھے۔ہم نے بھی بیٹھنے کی جگہ اپنے خیال میں ایک کونے میں ڈھونڈھ نکالی گرچشم زدن میں وہ بیچ منجھدہار  میں نظر آنے لگی،

اس وقت دوپہر ہو چکی تھی، کھانے پینے کی فکر بھی تھی سامان کی بھی ،اور یہ بھی فکر کہ دیکھیں یہاں کسٹم کیسے ہوگا۔

جدے کا ساحل بھی تقریبا آزاد ساحل ہے یہاں کسی قسم کے سامان لانے کی ممانعت نہیں ہے ،صرف نشہ آور اشیاء کوئی نہیں لاسکتا۔ ملکی غیر ملکی جو سامان لائے لا سکتا ہے کوئی ڈیوٹی نہیں لی جاتی ! ابھی تو صرف حاجی آئے تھے جو گھوم پھر رہے تھے سامان آیا کہاں تھا کہ اسکی جانچ پڑتال ہوتی

ہماری ریاست اتر پردیش کے حج ویلفیر آفیسر شیخ محمود الحسن (ریٹائرڈ جوڈیشنل مجسٹریٹ) جو ایک مہینے قبل یہاں پہونچ چکے تھے اپنے حاجیوں کی دیکھ بھال کے لئے کسٹم ہاؤس میں آئے، یوں کسٹم ہاؤس کے اندر باہر کا کوئی آدمی نہیں آ سکتا۔ شیخ صا کے سینے پہ ایک بیج لگا ہوا تھا جو دا خلے کا اجازت نامہ تھا، ان کے بڑے بھائی شیخ ظہورالحسن ہمارے ہی ساتھ جہاز سے اترے تھے۔ دونوں بھائیوں میں ملاقات ہوئی

و ہیں محمود صاحب نے یہ افسوس ناک خبر سنائی کہ جماعت تبلیغ کے سر براہ مولانا محمد یوسف صاحب کا لاہور میں اچانک انتقال ہو گیا، مولانا یوسف صاحب مرحوم کی دینی خدمات اور اس سلسلے میں ان کی ان تھک کوششوں سے وہ لوگ بھی متاثر رہے ہیں جو ان کی جماعت سے کوئی خاص تعلق نہیں رکھتے ہم سب کو اس سانحے کی اطلاع سے ایک دھچکا لگا۔ اس کے بعد محمود صاحب نے حرم میں غیر معمولی ازدحام کی خبر سنائی کہ طواف کرنا آسان نہیں رہا ہے اور دوسری تکلیف دہ اطلاع یہ دی کہ حرم میں دوران طواف میں حاجیوں کی جیب کٹ رہی ہیں ۔ اور کوئی یہ اطلاع دیتا تو ہمیں ایک لمحے کے لئے بھی یقین نہ آتا۔ لیکن تھوڑی ہی دیر میں یقین کیا ، ایک طرح سے تصدیق نہیں کرنا پڑی۔ اس اثنا میں حاجیوں کا سامان آنا شروع ہو گیا اور ایک جگہ لگے ہوئے ڈھیرسے حاجی اپنا اپنا سامان نکال کرکسٹم کے لئے باقاعدگی سے رکھ رہے تھے۔ متین میاں نے جو الگ انتظام کر لیا تھا اس کا بڑا فائدہ اب سامنے آیا جب ہمارا سارا سامان انھیں قلیوں نے ٹھیک اسی جگہ لاکر رکھ دیا جہاں ہم لوگ بیٹھے تھے نہ ڈھونڈھنے کی زحمت ہوئی اور نہ ڈھونڈھ نکال کر ڈھونے کی۔ ایک نوجوان ہمارے ساتھ جہاز پر تھا، تعلیم یافتہ اور انگریزی لباس پہننے والا، جو اکثر کوئی کتاب پڑھتا جہاز پر نظر آتا تھا خیال ہوا کہ جہاز کا کوئی ملازم ہوگا فرصت کے وقت کیبن کلاسوں کے برآمدے میں بیٹھ کر کتاب دیکھتا ہے۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ وہ حج کرنے جارہا ہے اور بہاری ہی ریاست کا رہنے والا ہے بہت اپٹوڈیٹ نظر آتا تھا اس کے سفر حج سے ایک گو نہ خوشی بھی ہوئی۔ مطالعے  میں انہماک بھی پسندیدہ فعل تھا۔ سامان اس کے پاس ہوائی جہازکے مسافروں سے بھی کم صرف ایک سوٹ کیس لیکن خدا جانے کیا تھا کہ کسٹم آفیسر نے اس کا پورا سوٹ کیس  زمین میں پلیٹوا کر اس کی ایک ایک چیز خوب غور و خوض سے دیکھی دواؤں کی شیشیاں خاص طور پر جانچیں۔ ہمیں ذرا برا بھی لگا کہ جس نوجوان کی اس مبارک سفر پر حوصلہ افزائی کرنا چاہئے تھی اس کی اس طرح بے عزتی ہو رہی ہے بعد میں یعنی واپسی پر جہاز کے عملے سے معلوم ہوا کہ (اسی جہاز) سے وہ ہم لوگوں کے ساتھ گیا تھا کہ وہ نشے کا عادی تھا اور ہر وقت گھٹیا ناولیں پڑھا کرتا تھا۔ بھٹی کہ احرام پوش ہونے کے بعد بھی نادل بینی سے باز نہیں رہا۔

اگر چہ حاجیوں کے جھاز پر شراب کا دور دور تذکرہ نہیں ہوتا لیکن جہاز کے نچلے عملے کے غیر مسلم ملاز مین خلاصی وغیرہ کے ذریعہ ایسی ضرورت پوری کر لی جاتی ہے اس نوجوان نے یہی راہ پالی تھی۔ اندازہ ہوا کہ کسٹم افسرنے اس کی دواؤں کی جانچ غیرمعمولی طور پر کیوں کی تھی کیسےسمجھ دار اور تاڑ لینے  والے ہوتے ہیں یہ کسٹم آفیسر اس کو دھرا اور اس جی بھر کے تلاشی لی۔

ہم اپنے سامان کے پاس کسٹم آفیسر کے انتظار میں کھڑے تھے کہ نظرہ پڑے ہمارے سفیر مقیم جدہ  مسٹر مدحت کامل قدوائی (جنھیں ہم مدد بھائی کہتے ہیں)، ہندستان کے قومی لباس شیروانی چوڑی دار پائجامہ اور ٹوپی اپنے حاجیوں کے درمیان سے ٹہلتے ہوئے ہماری طرف آر ہے ہیں ۔

۔ اے ذوق کسی ہمدم دیرینہ کا ملنا

 بہتر ہے ملاقات مسیحا د خضر سے

انھوں نے خیر سلا پوچھنے کے بعد کہا کہ میں ابھی جا کر موٹر واپس بھیجتا ہوں تم لوگ کسٹم ہو جانے کے بعد ہمارے یہاں چلے آنا۔

اتنے میں کسٹم آفیسر بھی عبا پہنے عقال باندھے سگریٹ پیتا ہمارے سامان کی طرف آگیا۔ کیا دیکھا کیا نہیں دیکھا اور کیا دیکھنا چاہتا تھا یہ سب اسی کو معلوم ہوگا شاید دس بارہ منٹ لگے ہوں گے کہ ہماری گلو خلاصی ہوگئی اور ہم لوگ سامان وہیں چھوڑ کر باہر آگئے سامان ہمارے ساتھ نہیں جا سکتا تھا۔ سب حاجیوں کا سامان پھر اسی طرح ٹرکوں میں لاد کر حجاج منزل (حاجیوں کی قیام گاہ )کے سامنے سڑک پر ڈلوادیا جائے گا جہاں سے آپ خود اپنا سامان نکالئے گا۔

ہم لوگ مدد بھائی کے گھر پہونچے منہ ہاتھ دھویا کھانا کھایا۔ یہاں ہمارے ایک محترم میاں سید محمد یوسف مہاراج اجمیری ملے ،ان کے ساتھ فورا ہی سامان تلاش کرنے حجاج منزل آئے ۔

 اب ان صاحب کی بھی تلاش ہوئی جنھوں نے کسٹم ہاؤس میں ہم لوگوں کے پاسپورٹ لے لئے تھے۔ وہ معلم تو نہ تھے معلم کے وکیل تھے۔ مولانا عبد الہادیاسکندر یا کسی دوسرے معلم کے جتنے حاجی آئے ان کے وکیلوں نے ان کے پاسپورٹ لیے لئے تھے، حجاج منزل میں سعودی حکومت کا دفتر ہے جہاں پاسپورٹ کے اندراجات ہوتے ہیں وکیلوں نے اندراجات کرائے ہم نے اپنے ڈرافٹ وہیں بنھوائے سامان اکٹھا کیا یعنی سڑک کے کنارے یکجا کر دیا۔

یہاں جدے میں ہمارے بعض اعزادہ رہتے ہیں۔ حکیم وہاج الحق صاحب مرحوم  فرنگی محلی کے نواسے مصطفے علی قدوائی مظفر علی قدوائی مجتبی علی قدوائی اور ناظر علی قدوائی ان کا گھر حجاج منزل سے بہت قریب تھا ٹہلتے ہوئے وہاں بھی گئے۔

 ایک رات قبل آنے والے اسلامی جہاز کے حاجیوں کے پاسپورٹوں کا اندراج بھی مکمل نہیں ہوا تھا۔ ہماری باری اور بعد میں آنے والی تھی لیکن ہمارے معلم کے ایک صاحبزادے عبدالوالی کی کوشش اور ہمارے سفارتخانے کے ایک سکریٹری مسٹر د باج الحق کی توجہ سے ۸ بچے رات تک ہمارے پاسپورٹ اندراجات کے بعد ہمیں واپس مل گئے اور معلم کی فیس اور جدہ سے مکہ معظمہ تک سرکاری بس پر جانے کا کرایہ داخل کر کے ہم نے تنازل لے لیا۔

تنازل کا مطلب یہ کہ ہم سرکاری مطالبات ادا کرنے کے بعد بھی سرکاری گاڑیوں سے جانا نہیں چاہتے۔ اجازت دیجئے کہ ہم اپنی گاڑی الگ کر کے چلے جائیں، یہ اجازت نامہ بھی مل گیا۔ وہیں پانچ آدمیوں کی ایک ٹیکسی چالیس   ريال میں مکہ معظمہ کے لئے کی سب سامان اس میں سما گیا اور آرام سے بیٹھ کر ہم لوگ مکہ معظمہ کے لئے روانہ ہوگئے۔

ہمارے پاسپورٹ اور اجازت نامے ہمارے ڈرائیور کے پاس رہے وہ ہر ہر چوکی پر اتر کر ان پر مہریں لگواتا رہا۔

اپنی گھڑی کے حساب سے ہم لوگ رات کے ۱۱ بجے  مکہ معظمہ میں داخل ہوئے سامان بو ہرہ رباط میں رکھوا کر عمرہ کرنے اپنے معلم کے ایک مددگار کے ساتھ حرم محترم کی طرف چل دیئے ابھی تک ایسا کوئی قوی احساس نہم میں سے کسی کو نہیں ہو پایا کہ ہم اپنی خوش قسمتی سے کہاں سے کہاں آگئے ہے۔

میں اور حظ وصل ؟ خدا سا ز بات ہے

 جاں نذر دینی بھول گیا اضطراب میں

 http://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/