حج کا سفر۔۔۔حضوری مدینہ منوره ۔۔۔ مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

08:30PM Fri 23 Jun, 2023

جس راہ پر پہلے کبھی گزر نہ ہوا ہو اس کے مناظر خواہ دلکش ہوں یا نہ ہوں بہرحال اپنی طرف توجہ کھینچتے رہتے ہیں اور جسں منزل پر اس سے پہلے کبھی سائبان مسافرت نہ اتارا ہوا س کی اجنبیت کا تصور کسی نہ کسی عنوان سے جاری رہتا ہے ۔ لیکن جس نئی راہ پر اس وقت ہم گامزن تھے۔ مدینہ الرسول کی راہ-اس سے پہلی دفعہ گزرنے کے باوجود یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ جانی بوجھی راہ اور ایسی جانی بوجھی شخصیت کی گزر گاہ سے جس کے جلو میں ہزاروں بار تصور ہی تصور میں ادھر سے گزر ہو چکا ہے ۔اور وہ منزل جہاں اب تک رسائی نہیں ہوئی تھی اپنی جزئیات کے ساتھ تصور میں اس قدر واضح تھی کہ جیسے مسافر کی منزل نہیں بلکہ مقیم کا اپنا گھر ہے ۔اس وقت اپنے ان بزرگوں کے لئے دل سے دعائیں نکل رہی تھیں جن کی حسنِ تربیت نے اس راہ اور اس منزل سے ایسا وابستہ بنا دیا کہ نہ تو اجنبیت محسوں ہو پارہی تھی اور نہ کسی قسم کی فکر منزل دامن گیر نظر آتی تھی ۔

ذروں سے باتیں کرتے ہیں دیوار دور سے ہم

وابستہ کس قدر ہیں تری رہ گزرسے ہم

چار پانچ گھنٹے کا سفر تھا جب تک جدہ نہیں گزرا اونگھتے سوتے آگے بڑھتے رہے جس منزل پر نمازِ فجر  پڑھنے کے لئے ٹہرے اور وضو کیا تھا۔ اس منزل پر نیند اور اونگھائی نے بھی رخصت لے لی سو بھی کیسے سکتے تھے ؟ ریگستان کی صبح  ہو چکی تھی جہاں سورج نکلتے ہی گرم ہو جاتاہے ، اور نیم صبح گاہی آناً فاناً بادِ سموم کا انداز اختیار کر لیتی ہے ۔

زیادہ نہیں صرف پچاس سال پہلے کا زمانہ ہوتا تو ریگستانی علاقے کے اس سفر میں نہ معلوم کتنی بار اس بادِ سموم سے سابقہ پڑتا جو قافلے کے قافلے کو اپنی اڑائی ہوئی ریت کی چادروں میں دفن کر سکتی ہے ۔۔۔ اب تو مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ تک بہترین پختہ اور سیدھی سڑک ہے جس پر صرف موٹریں اور  اور بسیں ہی دوڑ اکر تی ہیں ۔اور اس رفتار سے دوڑا کرتی ہیں کہ اگر ذرا بھی ٹھوکر کھا جائیں تو نہ کوئی تنفس بچے نہ مشین کا کوئی پرزہ سلامت رہے ۔ اس گرم رفتاری کے باوجود کسی ستم کے خسارے کااحساس پاس میں بھٹک نہیں پارہا تھا دھن یہی تھی "کہ کسی طرح منزل تک پہنچ جائیں ........منزل مقصود وقلب جسں کے لئے اتنا لمباسفرکیا تھاوہ تو اب آنے والی تھی جہاں اب تک تھے وہ حکم کی تعمیل میں تھے ، اب جہاں جارہے تھے وہی وہ منزل ہے جس کے لئے گھرسے نکلے تھے ۔

تو فرمودی رہ بطحا گرفیتم

وگرنہ جز نہ تو مارا منزلے نیست

راستے بھر درود شریف پڑھتے رہنا ہی سب سے ضروری کام ہے جیسا کہ علما اور مشائخ نے لکھا ہے۔ حتی الوسع ہم نے بھی درود شریف کا ورد جاری رکھا اور یقین کی بدولت جاری رکھا کہ آج ہماری حاضری جو یہاں ہو رہی ہے تو صرف اسی لئے کہ مدینہ اور صاحب مدینہ کی زیارت کے شوق میں اکثر درود شریف پڑھ کر اپنے دل کو سمجھا لیاکرتے تھے کہ ۔۔۔

بے مایہ سہی لیکن شاید وہ بلا بھیجیں

بھیجی ہیں درودوں کی کچھ ہم نے بھی سوغاتیں

راستے میں دو ایک منزلیں آئیں جہاں پر پروانہ راہ داری کی جانچ ہوتی تھی۔ ڈرائیور ہمارے کاغذات لے کر جاتا اور مہریں لگا کر لےآتا تھا۔

یہاں تک وہ خاص منزل راستے میں آئی جو مردانہ راہ داری کے لحاظ سے خاص نہ ہو مگر ہمارے تخیلات کے لئے بڑی خاص منزل تھی یعنی بدر کی منزل۔ بدر وہ نام ہے جہاں آج سے تیرہ سو چوراسی برس پہلے تین سو تیرہ اللہ کے بندے اللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے یہ ٣١٣ بندگان خدا تھے جن کے علاوہ اس وقت کوئی اور بندہ خدا ایسا نہ تھا جو صحیح طور پر اپنے پروردگار کی معرفت رکھتا ہو اللہ کا نام لینے والے ضرور ہوں گے مگراللہ کے نام کو بلند کرنے کے لئے جان دینے والے صرف یہی ٣١٣ تھے جو  صف آرا ہو گئے تھے۔ ان ایک ہزار مسلح افراد کے مقابلے میں جو صرف اس لیے سامان ضرب وحرب سے لیس ہو کر مدینے کی طرف لپکے تھے کہ اللہ کے نام کو بلند کرنے والے مٹھی بھرانسانوں کو نیست ونابود کرکےدم لیں گے۔

چشم فلک نے ایسا نظارۂ جنگ کاہے کو دیکھا ہو گا کہ ایک طرف مٹھی بھر وہ لوگ ہیں جو ہرطرح کے سامان جنگ سے محروم ہیں اور جو جنگ کے لئے نہیں بلکہ صرف یہ بتانے کے لیے بدر آئے ہیں کہ کسی دباؤ یا کسی دھمکی سے ان کو ان کے مقصد سے منحرف نہیں کیا جا سکتا دوسری طرف سہ گنی تعداد میں وہ تھے جو اس دم خم کے ساتھ آئے تھے کہ اللہ کے نور کو اپنے جھونکوں سے بجھا کے رہیں گے ۔ مقابلے کا نتیجہ یہ نکلا کہاللہ کےنور کی روشنی اور بڑھی اور بڑھی یہاں تک کہ اقصائے عالم میں پھیل گئی۔

میان بدر شمشیر عالی اس قدر چمکی

کہ اب تک روشنی پھیلی ہوئی ہے ہفت کشور میں

جب اللہ والوں کی فوج مقام بدر میں جمع ہوئی ہے تو یہاں صرف ایک کنواں تھا۔ اب کنواں ہے یا نہیں اور ہے تو کسی جگہ یہ ہم معلوم نہ کر سکے اس لیے کہ اتنی دیر ٹھہرنا نہیں ہو سکتا تھا ۔۔ بہر حال اس وقت بدر ایک اچھی خاصی بستی ہے ۔لیجئے ذو الحلیفہ آگیا یعنی اب مدینہ شریف سے صرف چھ میل کا فاصلہ رہ گیاہے ۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے لئے احرام باندھا تھا۔اہل مدینہ کی میقا ت و احرام باندھنے کی مقررہ حد یہی ہے ۔

ڈرائیور نے آگے بڑھ کر ایک نشان راہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ مدینہ شریف کی حد یہاں سے شروع ہو گئی بے ساختہ زور زور سے درود شریف کا ورد ہونے لگا۔ اسی کے ساتھ یہ خیال آنے لگا کہ ابھی تھوڑی ہی دیر میں سامنا ہونے والا ہے ان کی آرامگاہ کا جنکی عاشقی اور جنکی محبت کا دم ہر امتی کی طرح  ہم بھی بھرتے ہیں لیکن اس پوری عمر میں ایک موقعہ بھی کبھی ایسا نہیں آیا جب اس محبت و عشق کا ادنی حق بھی ادا کیا ہو قسم لے کر اگر کوئی پوچھ بیٹھتا تو ان ہی کی قسم سوائے شرمندگی کے اور کوئی جواب نہ تھا ۔

یہ بھی خیال آیا کہ خون کی شدت ہو یا خوشی کی فراوانی دونوں حالتیں کمزوریوں کے لئے بسا اوقات مہلک ثابت ہوتی ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ اپنی نا فرمانیوں سرکشیوں اور آلودگیوں کے احساس کے ساتھ اس بارگاہ عالی میں حاضری ہو اور فردجرم کے بوجھ سے دل بالکل ہی بیٹھ جائے ۔ لیکن چشم زدن میں یہ خیال دور ہو گیا۔

قد اتيت رسول الله معتذراً

والعذر عند رسول الله مقبول

(میں تو معذرت خواہ ہوکر اللہ کے رسول کی خدمت میں حاضر ہو رہا ہوں اور معافی و عذرخواہی اللہ کے رسول کے یہاں بڑی مقبول چیز ہے )

دل ہی دل میں باتیں ہو نے لگیں کہ جن کی خدمت میں باریابی کا شرف حاصل ہورہا ہے وہ وہی ہیں جو حشر میں ہم سب گنہگاروں کے شفیع ہوں گے وہاں شفاعت کا تاج سر پر رکھنے والے یہاں گناہوں اور لغزشوں سے چشم پوشی نہ فرمائیں گے ؟ وہ ہر جگہ شفیع اور ہر وقت رحمت عالم ہیں __

غرض ہرجا شفیع و رحمت للعالمیں تو ہے

زمین میں، آ سماں میں جنت الماوی میں محشر میں

کیا یہ خبط بھی تھا کہ یہاں ایسی حالت میں بھی آنا ہوسکتا تھا کہ نامہ اعمال میں کسی قسم کا کوئی گناہ اور کوئی لغزش درج نہ ہو ؟ یہ وہم توان پاکیزہ نفوس تک کو کبھی نہیں ہوا تھا جو صحبت کی برکت سے متبرک تر اور پاکیزہ تر ہو چکے تھے۔ اے عقل کے دشمن کسی امتی کے سرتاپا گناہ ہونے سے ان کے منصب نبوت وہدایت پر کیا آنچ آجانے والی ہے ؟ انھیں آلودگیوں لغزشوں نا فرمانیوں معصیتوں کے ساتھ حاضری دے پھر دیکھ کہ تیرے حصے میں کتنی رحمت اور ستم پوشی آتی ہے ۔

گومن آلوده دانم چه عجب

ہمہ عالم گواہ عصمت او

کچھ بھی کیا ہو دیکھنا یہ ہے کہ ان سے  اپنا تعلق ۔ وہ برائےنام ہی سہی ۔ توڑا تو نہیں ہے ؟ تو خدا ہی بہتر جانے والا ہے کہ کسی بھی مرحلے میں دانستہ یہ جرات نہیں کی

إن آت  ذنباً فما عهدی فمنتقض

  من النبي والاحبلى بمنصرف

(بے شمار گناہ کیے مگر حضور انور سے  نہ اپنی وابستگی ختم کی اور نہ آپ سے امید کی رسی کا سلسلہ ٹوٹنے دیا) سن رکھا تھا اس لئے ڈرائیور سے کہا کہ جہاں سے پہلے پہل گنبد خضراء کا نظارہ نصیب ہوتا ہو، ہم اجنبیوں کو بتا دینا، کہتے ہیں کہ بیرعلی سے نظارہ نصیب ہوا کرتا ہے،لیکن مسجد نبوی کی جدید عمارت اتنی بلند ہوگئی ہے کہ کہیں سے بھی بآسانی نظام رہ نہیں ہو پاتا ہے،ڈرائیور نے اپنی زبان میں یک جگہ ہم  کو متوجہ کیا مگر  کہ ہماری نگاہ نظارہ سےقاصررہیں۔

چشم زدن میں ہماری ٹیکسی ایک آبادی کے اندر پہنچ کر ٹہر گئی کسی نے بڑھ کر پوچھا کس مزور کے یہاں جانا ہم نے شیخ بہاؤالدین رئیس المزورین  کا نام لیا۔ پوچھنے والے نے ڈرائیور سے کاغذات لے کر دیکھے اور آگے بڑھنے کی اجازت دے دی ۔

یہ مدینہ شریف تھا ہم وہاں تھے جہاں پہنچنے کے خواب ہی دیکھا کرتے تھے اب ؟ جسمانی طور پر پہنچ گئے ہیں تو ہوش حواس بجا نہیں ہیں، میری گاڑی اس شہر کی سڑکوں پر چل رہی تھی اور ہم ایک ایک عمارت کو اس طرح دیکھ رہے تھے کہ شاید اسی میں کبھی ہمارے آباء واجداد کا قیام رہا ہو  مگر کوئی قیام گاہ اس پہلو سے نگاہوں میں نہیں بسی کہ موٹر اڈے پر گاڑی آگئی یہاں بھی ڈرائیور نے کچھ کاغذات دکھائے پھر آگے بڑھا سڑکوں چوراہوں سے ہوتا ہوا ایک دفعہ اس نے ایک بریک لگایا ، ہماری نگاہوں کے سامنے مسجد نبوی کی شاندار نو تعمیر عمارت تھی .......

یہ نصیب اللہ اکبر!! لوٹنے کی جائے ہے ۔

اتر پڑے اور حیرانی سے متبرک عمارت کی طرف دیکھتے رہے ایک عربی لباس والے نے دریافت کیا کہ کہاں جانا ہے ۔ ہم نے کہا" اصطفامنزل" یا  "احمد منزل "۔آپ لوگوں کے پاس ان مکانوں میں ٹھہرنے کا اجازت نامہ ہے ؟ اجازت نامہ تو نہیں لائے ہیں اس لیے کہ ضرورت نہ تھی بہاؤ الدین صاحب کہاں ہیں ؟“

 وہ بھی آتے نظر آئے ۔ یہ معلوم ہوتے ہی کہ یہ سواریاں فرنگی محل سے آئی ہیں انھوں نے خندہ پیشانی کے ساتھ ہمارا استقبال کیا اور کہا کہ دونوں منزلوں میں سے جہاں آپ چاہیں شوق سے ٹہر سکتے ہیں ۔متین میاں نے کہا کہ مدینہ شریف میں آکر سید صاحب کے گھر میں ( سید حسین رضوی مرحوم کے مکان کا نام احمد منزل ہے) ٹھہریں گے ۔ان کی اس وجہ انتخاب نے دل کی عجیب کیفیت کردی ۔

ہمارے شہر لکھنؤ کے دو مخیر رئیسوں حاجی محمد اصطفا خاں مرحوم اور خان بہادر حاجی سید حسین رضوی مرحوم نے زائرین کے قیام کے لئے مدینہ شریف میں مسجد نبوی کے روبرو عالی شان عمارتیں خرید کر وقف کر دی ہیں زاصطفا منزل بالکل ہی سامنے ہے اور احمد منزل کا ایک حصہ سامنے ہے اور ایک گلی کے اندر۔ احمد منزل کا پورا ایک کمرہ بہاء الدین صاحب نے ہم لوگوں کو دے دیا۔جس میں بجلی پنکھا سب کچھ تھا ۔ اور ایک بڑا قالین پورے کمرے میں بچھا ہوا تھا۔ ہم لوگوں کا سامان کمرے میں پہنچنے بھی نہیں پایا تھا کہ بہاء الدین صاحب ناشتہ بلکہ کھانالے کر آگے منہ ہاتھ دھو کر کھانا کھایا ۔

ہمارے خاندان کے ایک بزرگ مولانا محمد حیدر عبدالقدیر یہاں ۱۵۔۱۶ سال سے مع اہل و عیال ہجرت کر کے چلے آئے ہیں ، کھانے کے بعد ہم ان سے ملنے چلے۔ان کے ایک لڑکے کی دوکان اصطفا منزل ہی میں ہے ۔ دوسرے کی دوکان ذرا بڑھ کر رباط بھوپال سے متصل ہے ۔ اس کی دکان پر نام کا سائن بور ڈ بھی لگا ہوا تھا: علی محمد الایوبی یہ بچے فرنگی محل ہی میں  پیدا ہوئے اور پلے بڑھے تھے۔ وضع قطع بدل گئی ہے۔ بہرحال علی سلمہ کو پہچان لیا اس کو بتایا کہ ہم کون ہیں  علی محمد نے خالص عربی لہجہ میں کہا اچھا رضا صاحب ہیں بلکہ رضا بھائی ہیں ، اس کی رہنمائی میں حیدر بھائی کے گھرگئے جو بالکل قریب تھا۔ وہاں ان کی بیوی اور بہن سے ملاقات کی۔ ان بیویوں کو امی اور پھو پھو جان وغیرہ کی آمد کی اطلاع تھی۔ پوچھا وہ کہاں ہیں ہم نے احمد منزل کا پتہ دیتے ہوئے پوچھا، حید ر بھائی کہاں ہیں؟

ایک لڑکے کے ساتھ حیدر بھائی کی دوکان پر گئے جو مسجد نبوی کے باب السلام سے آگے بڑھ کر ایک گلی میں تھی حیدر بھائی کوصاف پہچان لیا وہ ہمیں پہچان نہ سکے۔ جب پہچانا تو انھوں نے بھی امی اور پھوپھی جان کو دریافت کیا یہ سن کر کہ احمد منزل میں ہیں انھوں نے ایک ڈانٹ پلائی ہم نے کہا آپ کا گھر اس قت تک معلوم نہ تھا اس لیے سامان وہاں رکھ دیا ہے اور ان کو بٹھا دیا ہے، وہ اسی وقت اٹھے اور احمد منزل پر پہنچ کر  صاف صاف کہا آپ لوگ کہیں اور نہیں ٹھر سکتیں، سامان باندھو!!  سامان باندھا اور حیدر بھائی کے مکان سے ملے ہوئے حیدر بھائی کے تعمیر کر وہ دو فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں ہمارا قیام ہوگیا ۔