حج کا سفر۔۔۔ کوچ کی تیاریاں۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا  انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

08:20PM Thu 22 Jun, 2023

تمام ملکوں کے سفارت خانے جن میں ہمارا سفارت خانہ بھی شامل ہے ، جدّے ہی میں ہیں   اگر چہ عام دستور یہ ہے کہ ملک کی راجدھانی میں سفارتی نمائندے  ہوتے ہیں ، مگر سعودی حکومت کی راجدھانی ریاض میں نہیں، بلکہ ساحلی مقام جدّےمیں تمام ملکوں کے سفرا ءقیام رکھتے ہیں ۔

زمانۂ حج میں سفارت خانوں کے عارضی دفاتر مکۂ معظمہ اور مدینہ منورہ میں بھی کھل جاتے ہیں ،چوں کہ ہر ملک اپنے حاجیوں کے لیے خصوصاً اور عام حاجیوں کے لیے عموماً، مکۂ معظمہ ، منیٰ اور مدینہ منورہ میں شفا خانے بھی کھولتا ہے ۔ اور اس میں اچھی خاصی مسابقت بھی ہر ملک کے پیش نظر رہتی ہے ۔ اس لیے سفارت خانے کے عارضی دفاتر بھی انہیں شفاخانوں میں قائم کردیے جاتے ہیں ، ہمارے سفیر ہر جمعہ کو حرم شریف میں نمازِ جمعہ ادا کرنے آتے ہیں ۔ دوسرے ملکوں کے سفیر بھی یہی کرتے ہوں گے ۔ نماز جمعہ کے بعد ہی ہمارے سفیر” المستشفی الہندی“ (ہندوستانی شفاخانے)میں اپنے عارضی دفتر میں چلے جاتے ہیں ، ہسپتال میں داخل مریضوں کی مزاج پرسی وغیرہ  کے علاوہ حج کے  بعد ان کا کام جلدی واپس جانے والوں کی درخواستوں پر غور کرنا بھی ہو جاتا ہے،اور یہ بڑاسخت کام ہوتا ہے ۔

ہزاروں درخواستیں آجاتی ہیں ، بلکہ منیٰ ہی میں جب کہ مناسکِ حج کا سلسلہ ہنوز جاری ہوتا ہے خواہش مند حضرات درخواستیں پیش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

وہ  لوگ  جوملازم ہیں اور چھٹی لے کر حج کرنے گئے ہیں ، ان کی درخواستیں عموماً منظور ہو جاتی ہیں یا کوئی حاجی سخت بیمار ہو جائے ، تو اس کو واپسی میں ترجیح بآسانی مل جاتی ہے ، لیکن زیادہ تر درخواست دینے والے وہ ہوتے ہیں، جن کو اِن دونوں میں سے کوئی عذر نہیں ہوتا ، بس جلدی واپس ہونا چاہتے ہیں اور اکثر حضرات عذر یہ کرتے ہیں کہ روپیہ خرچ ہو گیا ، یا جیب کٹ گئی ہے۔

سن کر تعجب ہوگا کہ مکہ معظمہ میں بھی جیب کترے ہوتے ہیں؟ جی نہیں !، یہ شاطر گرہ کٹ خطۂ عرب کے نہیں ہوتے ،باہر سےآئےہوئے ہوتے ہیں ، جو حاجی  کے بھیس میں گھومتے رہتے ہیں خدا کا شکر ہے کہ ہمارے ملک کا کوئی حاجی، اس قسم کے معاملات میں نہ تو ماخوذ ہوا اور نہ یہ شہرت سنی کہ ہندوستان سے ایسے جرائم پیشہ آئے ہیں۔ایک خاص ملک کے باشندوں کے بارے میں وہاں یہ شہرت عام تھی !ساحل پر اسی ملک کے ایک باشندے کے قبضہ سے کسٹم والوں نے دس سیر گانجا برآمد کیا تھا حاجیوں کی قیام گاہوں سے اُسی ملک کی عورتیں سامان چوری کرتے پائی گئیں۔ اور اسی ملک کے ایک گردہ کے بارے میں سننے میں آیا کہ وہ عرفات اور منیٰ کے راستے میں گم کردہ راہ حاجیوں کو لوٹنے اور قتل کرنے کا بھی ذمہ دار ہے۔ واللہ اعلم

یہ ضرور ہوا کہ بعض حاجی عرفات کے بعد لاپتہ ہوگئے ، لاپتہ حاجیوں کو عام طور پر ہسپتالوں میں ڈھونڈا جاتا ہے کہ شاید راستے میں بیمار ہو گئے ہوں اور ایمبیولنس گاڑیوں نے انہیں کسی ہسپتال پہونچا دیا ہو یاراستے میں کوئی حاجی فوت ہو گیا ہو،بہرحال ہسپتال  میں داخل یا راستے میں وفات پانے والے گم شدہ حاجیوں کے فوٹو اخباروں میں شایع  کردیے جاتے ہیں، اس طرح ان کا سراغ مل جاتا ہے۔

ان کے معلم نے بڑی جستجو کی ،بالآخر ان میں کا ایک حاجی عرفات سے منیٰ آنے والی عام شاہ راہ سے دور ایک سُنسان راستے پر زخمی ملا، اور اس نے بتایا کہ فلاں ملک کے ایک گروہ نے اُس کو اور اُس کے ساتھیوں کو گمراہ کر کے عام راستے سے الگ لے جا کر لوٹ مار کی اور حاجیوں کےسپرنہ ڈالنے  پر ان پرقاتلانہ حملہ کیا ،ایک زخمی ملا ،باقی خدا جانے کیا ہوئے ، جب تک ہم لوگ مکہ معظمہ میں رہے ان بیچاروں کا سراغ نہیں مل پایا تھا۔

ایک دن اپنی آنکھوں سے ایک دہشت ناک منظر دیکھ لیا ،حرم شریف میں ظہر کی نماز سے ایک گھنٹہ قبل افاق سے پہنچ گئے تھے اور خانہ کعبہ کی طرف جانا چاہتے تھے، مگر وہاں خلافِ معمول بڑا مجمع نظر آیا ، مجمع کا انداز ایسا تھا ،جیسےکسی حادثے کے وقت اکٹھا ہوجانے والوں کا ہوتا ہے ، ہم دور ہی ٹھہر گئے ، دیکھا کہ وہی مجمع ایک شخص کے پیچھے پیچھے ایک سمت چلا جا رہا ہے ،جیسے کسی مجرم کے ساتھ تماشائی ہوتے ہیں، بعض تماشائیوں سے پوچھاگیا کہ معاملہ کیا ہے ؟ معلوم ہوا کہ ایک آدمی نے طواف کرتے کرتے خانہ کعبہ کے دروازے پر جھپٹا مارا اور چاندی کا وزنی قفل جو دروازے میں لگا ہوا تھا ،نکال لے بھاگا اس کی اس حرکت کو جن حاجیوں نے دیکھا ،انہوں نے اسے پکڑ لیا ،پھر وہ حوالۂ پولیس کردیا گیا ۔

بڑا دھوکا تھا نفس العین کو ! جو مقبول اور پسندیدہ ہوتا ہے ،وہی بلایا جاتا ہے !یہ اور ایسے  ہی دوسرے واقعات ہوش کی آنکھیں کھول دیتے ہیں، اے بر خود غلط!اس پر اترانے نہ لگنا کہ اتنے بڑے دربار میں تجھے رسائی حاصل ہوگئی ہے ،تو کم از کم ان سے ضرور افضل اور برتر ہے،جنہیں یہ سعادت حاصل نہیں ہوپائی ہے ، دیکھ لے اے فریب میں مبتلا بندے !کہ یہاں دربار عام ہی ہر اچھےبرے کو بار مل رہا ہے ،تجھے حق نہیں پہنچتا کہ یہاں پہنچ جانے کو اپنی ذاتی فضیلت سمجھ لے کہ دوسروں کو اس فضیلت کی بنیاد پر حقیر سمجھنے لگے۔

البتہ یہ شرف جو تجھے نصیب ہوا ہے بلانے والے کے بے پایاں کرم اور بے حساب بخششوں کی ایک نمود ہے اور اس کی غفاری کی ایک جھلک !یہ اترانے کا نہیں ،انابت اور استغفار کا ایک موقعہ تجھے دیا گیا ہے ، شکر ادا کر کہ کتنی بڑی چھوٹ اب تک ملی ہوئی تھی کہ نافرمانیوں اور مصیبتوں کے وبال سے اب تک دوچار نہیں ہوا تھا ،اس کےفضل کو دیکھ، کتنا بڑا موقعہ ہاتھ آگیا ہے ، آج اپنی لغزشوں اور کوتاہیوں پر گڑگڑا لے۔

یہ رحمۃ اللعالمین ہی کاصدقہ کہ بھاگے ہوئے غلام کو لوٹ آنے کا موقعہ ہر وقت دے رکھا ہے لوٹ کر آنے والا سو بار بھاگے اور شرمندہ ہو کر سوبار لوٹے ،تو بھی اسے معافی نصیب ہوگی ۔

ایں درگہ ما درگہ ناامیدی نیست

صدبار اگر توبہ شکستی باز آ!

رحمتِ عالم ﷺ ہی کا دامنِ کرم ہے، جوتقی سے کہیں زیادہ عاصی اور گنہگار کو پناہ میں لینے کے لیے فضلِ ِ خداوندی نے  پھیلا رکھا ہے ، ایک خطاکار کے لئے محمد ﷺ کے لائے ہوئے دین میں بہت بڑی پناہ ہے۔

دنیا کا دستور ہوگا کہ خطاکار کو ایسا ذلیل کرو کہ وہ خود اپنی نظروں میں حقیر ہوجائے ، جب وہ  اپنی نظروں میں ذلیل و حقیر ہوجائے گا،تو کیا اصلاح کی توقع اس کے بارے میں رہ جائے گی ؟وہ تو سماج کا ٹھکرا یا ہوا بن ہی چکا،اب اگر درست بن کر سماج کا صالح جزو بنے بھی ،تو دوم نمبر کا فرد ہمیشہ سمجھا جائے گا ،لیکن اسلامی معاشرے میں جب وہ  درست ہو کر شامل ہو، تو برابر کا بن کر شامل ہوگا ، بلکہ سچی انابت کے ساتھ شامل ہونے والا اس لحاظ سے برترہوگا ،کہ وہ معصیت کی لذتوں سے آشنا ہو کر اس کا تارک ہوا ہے۔ہمارے معاشرے میں یقینا ًوہ اس سے افضل ہے ،جو اس لذت سے آشنا ہوئے بغیر اس کا تارک ہے۔

حضرت نظام الدین اولیاءؒ(دہلی)کی محفل مبارک میں ایک دفعہ یہ بحث نکل آئی کہ متقی افضل ہے کہ تائب؟ (یعنی گنہگار جو توبہ کر کے نیک بن گیا ہے)مریدوں نے حضرت نظام الدین اولیاء سے فیصلہ کرانا چاہا ، انہوں نے اپنے عام دستور کے مطابق ایک حکایت بیان فرمادی کہ: ایک دفعہ بنی اسرائیل کے ایک نبی کے سامنے یہی سوال آیا اور لوگوں نے ان کی رائے کو معلوم کرنا چاہی ،نبی نے فرمایا کہ:خدا کی وحی سے ان نزاع کاا نصاف ہو سکتا ہے۔

نبی پر وحی نازل ہوئی کہ آج رات فلاں سرائے میں تم رہو اور پَو پھٹتے ہی  پہلا شخص سرائے میں داخل ہوگا ، اس سے یہ سوال پوچھو ،جو اُس کا جواب ہوگا،وہی ہمارا جواب ہے۔حکم ِخداوندی کے تحت بنی اسرائیل کے اس نبی نے سرائے میں رات گزاری ،صبح ہوتے ایک شخص کپڑوں کی ایک گھٹری سر پر لادے ہوئے سرائے میں داخل ہوا ، نبی نے اس سے پوچھا کہ: متقی افضل ہے یا تائب ؟اس نے جواب دیا کہ میں تو ایک جلاہا ہوں (”من مرد جلاہا ہستم“) اس قسم کے جوابات کیا دے سکتا ہوں، البتہ اپنی دستکاری کے تجربے سے ایک بات کہتا ہوں کہ: ہم دھاگے سے کپڑے بُنتے  ہیں، اور اکثر دھاگا ٹوٹ جایاکرتا ہےاور اس کو گنٹھا لگا کر جوڑدیتے ہیں ، وہ دھاگا پھر اس جگہ سے کبھی نہیں ٹوٹتا ،دوسری جگہ سے ٹوٹے تو ٹوٹے ۔

تو سچی توبہ ایسی ہی مضبوط گنٹھا ہوتی ہے، وہ کبھی نہیں ٹوٹتی !یہ افضل و مفضول کی بحث یوں ہی کی بحث نہیں،بلکہ ایک بڑا سنجیدہ نفسیاتی معاملہ ہے۔اگر خطاکار یا غلط کار کویہ سہارا دیا جائے کہ وہ اچھا بن کراچھوں سے افضل ہوجائے گا ،تو اس کے کردار کا رخ ہی بدل جائے گا ۔ بر عکس اس کے کہ اسے یہ کہہ کہہ کر”تو تو بدمعاش ہے“اورمعصیت کے گڑھےمیں ڈھکیل دیا جائے۔

نشہ پلا کے گرانا تو سب کو آتا ہے                 مزہ تو جب ہے کہ گرتوں کو تھام لے ساقی

تو یہ جو اچھے برے ،جیب کترےاور آچکے نظر آتے ہیں ، کسی کو حق نہیں کہ ان کو دوزخی ٹھہرادے، کیا معلوم کس کا خاتمہ کس طرح ہوتا ہے ، دوزخی جنتی کا فیصلہ تو خاتمہ پر ہی رکھا گیا ہے ۔

خدا معلوم پروردگار کی مشیت نے ایسوں کو یہیں نوازنا چاہا ہو اور یہاں سے اس طرح رخصت کیا ہو، جیسےماں کے پیٹ سے بچہ معصوم اور بے گناہ پیدا ہوتا ہے ۔

واقعی حرم کے اندر لوگوں کی جیبیں کٹی تھیں، بعضوں کی تو جیب کٹنے کے بعد یہ حالت ہو گئی کہ ہمارے سفارت خانے کو ان کی مالی امداد کرنی پڑی ، امداد کے ان مستحقوں کو بھی واپسی میں ترجیح دے دی گئی۔