حج کا سفر۔۔۔ حضور خواجہ دو عالم ﷺ۔۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

09:34AM Sun 25 Jun, 2023
حیدر بھائی  کے مہمان ہو کر بالکل اپنے گھر کے ماحول میں  پہنچ گئے ، فرنگی محل میں ان کا گھر ہمارے گھر سے ملا ہوا تھا ، ہر دم آنا جانا رہتا تھا ، ان کے گھر کی خواتین یہاں بھی اس لباس میں رہتی ہیں جو لکھنؤ میں ان کا تھااور وہی زبان بولتی ہیں عورتیں بھی اور بچے بھی ، جو لکھنؤ میں ان کی تھی۔۱۵-۱۶ سال  کے قیام مدینہ منورہ کی بدولت بول چال کی عربی زبان ان سب کو آگئی ہے اور ضرورت پڑنے پر بڑی روانی سے بولتے ہیں ،مگر گھر میں سب ،مادری زبان ہی بولتے ہیں ۔
حیدر بھائی کے فلیٹ میں سامان وغیرہ منتقل کر کے اور جلدی جلدی لکھنؤ میں رہنے والے عزیزوں رشتہ داروں کی خیر خیریت وغیرہ بتا کر مسجد نبوی میں حاضری کی تیاری میں لگ گئے۔
مدینہ شریف میں اپنی گھڑی کے حساب سے کوئی گیارہ بجے دن کو پہنچے تھے ، گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ میں ٹھرنے کے بعد مراحل طے کئے اور اس حساب سے کپڑے وغیرہ بدلنے لگ گئے کہ ظہر کی نماز جو مدینہ منورہ میں ہماری پہلی نماز تھی ، مسجد نبوی میں ادا کریں ۔اگر چہ اس سے زیادہ اہتمام سے یہاں حاضری دینے کا جی چاہ رہا تھا ، جو اہتمام حرم کعبہ میں حاضری کے لیے ضروری دیا گیا ہے،یعنی حجامت بنوانا ،غسل کرنا ، احرام باندھنا اور حاضری کی نیت کا اعلان زبان سے کرتے ہوئے حاضر ہونا ،لیکن جس دربار میں اب حاضری ہونے والی تھی ،وہاں ظاہری لباس کی یکسانی کی اہمیت نہیں،اس لیے احرام کی کوئی قید یہاں نہیں ،تاہم آداب زیارت روضہ ٔ اطہر (علی صاحبها الف الف تحیة وسلام)یہی ہے کہ غسل کرکے نئے کپڑے پہن کر اور خوشبو لگا کر حاضری دی جائے اور حاضری دینے والوں میں نیت کی یکسانی ہو ، یعنی یہ سچا احساس سب کو ہو کہ اپنی جانوں پر ظلم کرکے بخشش اور درگزر پروانے لینےرحمۃ للعالمین اور شفیع المذنبین کے دربار میں آئے ہیں۔
چچا اگر جمامت اور غسل کرنے کی فکر کرتے ،تو ظہر کی نماز کے یے مسجد نبوی میں حاضر نہ ہو پاتے ،وضو کیا ،کپڑے بدلے اور بغیر کسی رہنماز کو ساتھ لیے صرف شوق کی رہنمائی میں بغیر خیال کیے کہ کس دروازے سے پہلے پہل مسجد نبوی میں حاضری دینے کا معمول علمائے امت کا رہا ہے ، کو دروازہ سامنے آیا ،یعنی باب مجیدی اسی سے ہم اور متین میاں مسجد کے اندر داخل ہوگئے ۔
ہماری قیام گاہ سے مسجد نبوی کا فاصلہ بس تین چار منٹ کا تھا، اتنا فاصلہ تھا کہ اگر اذان شروع ہوتے ہی گھرسے چل پڑیں ،تو اذان کے آخری کلمات باب مسجد پر سنیں اور دعائے اذان (اللهم رب ھذه الدعوات التامة،والصلوةالقائمة آت محمد الفضیلة)مسجد کے اندر مانگیں ،یہ فاصلہ اس سے بھی کم تھا جو مکہ میں ہماری قیام گاہ بوہرہ رباط سے حرم تک تھا ۔
مسجد نبوی میں ہم پہنچ تو گئے ، لیکن جہاں تک رسائی تمنالے کر آئے تھے ،روضۂ اطہر تک ادھر نگاہ اٹھانے کی ہمت ہو رہی تھی ، نماز کا وقت ہوچکا تھا ،نمازیوں سے مسجد شریف بھر پور تھی ، ہم باب مجیدی سے داخل ہوئے ، تو نو تعمیر حصۂ مسجد میں ہمیں جگہ نظر آئی ، وہیں ہم دونوں نے سنتیں پڑھیں اتنے میں جماعت کھڑی ہوگئی ۔
ہم جماعت میں ا جگہ تھے جہاں سے نظریں اٹھا کر گنبد خضراء کی تو زیارت کرسکتے تھے م لیکن اس حجرۂ پاک کو نہیں دیکھ سکتے تھے ،جہاں ہم آنے والوں کو ملجا و مأوی آرام فرما ہیں ،بلکہ اس سمت دیکھے کی ہمت نہیں کرپارہے تھے ، جو نمازیوں کی صفوں کی وجہ سے ہماری نگاہوں سے اوجھل بھی تھی ۔
آداب زیارت میں لکھا ہے کہ مدینہ شریف میں حاضری ہو تو سب سے پہلے روضۂ اطہر پر حاضری دی جائے ،یہ جانتے ہوئے بھی ہمارا دل بےمحابا حاضری کے تصور سے دھڑکنے لگتا تھا ، اگر آستانے کی چوکھٹ پر رک کر اچھلنے والے دل کو تھوڑا سمجھا بجھا کر اندر نہ گئے ،پھر آستانے کے اندر ایک ایک قدم خشوع و خضوع کے ساتھ نہ رکھا اور دوری کو بتدریج قرب سے نہ بدلا تو نہیں کہہ سکتے کہ اپنا حال کیا ہوگا۔
بے شک ان کا مومالہ دوسرا ہر جو کہیں بھی ہوں ،شب وروز حضور قلب سے یہاں حاضر رہا کرتے ہیں ،اگر وہ یہاں پہنچتے ہی روضۂ مبارک پر حاضری دیں تو وہ سہارے جائیں گے ،اس مسرت کو یا اس رعب کو جو طبائع متفاوتہ پر حسب حال طاری ہو سکتا ہے ،ہم ایسے اگر گھنٹوں کیا دنوں اپنے دلی حالات کا جائزہ لیتے رہیں تو حق بہ جانب ہوں گے ۔
نماز ظہر پڑھ چکے ،سنتیں بلکہ نفلیں بھی پڑھلیں ،اگر چہ نفلوں کی کوئی خاص عادت نہیں رہی ،لیکن مسجد نبوی میں یا حرم شریف میں نفلوں کا ثواب بھی ہزاروں فرضوں کے برابر ملتا ہے ،اور ثواب کی جمع جتھااپنے پاس کہاں ؟یہاں بےحساب ثواب مل رہا تھا تو اہنی پونجی بڑھانے کی فکر کیوں نہ کرتے سچی بات تو یہ ہے کہ نفلیں بھی اس خیال سے اور پڑھنے لگے تھے کہ کچھ اور وقت دھڑکتے دل کو قرار پکڑنے کا مل جائے ، اب اس نماز کو آپ جو بھی کہیں چھپانے سے فائدہ کیا؟پوری نماز ہمارا دھیان ان ہی کی طرف رہا ،جن کے سامنے تھوڑی دیر بعد ہم کھڑے ہونے والے تھے۔
مانتے ہیں اور سچے دل سے مانتے ہیں کہ ان کے سامنے کھڑے ہونے والے تھے ،جن کی رحمت و شفقت ،معافی ودرگزر اتنا عام ہے کہ خون کے پیاسوں تک کو ان پر پوری طرح قابو حاصل ہوجانے کے بعد بھی دل سے معاف کردیا ،معاف کرنا رہا ایک طرف ،شکوہ و شکایت کا ناراضگی اور خفگی کا طنز و تشنیع کا ایک  حرف بھی اس دم زبان مبارک سے نہیں نکلا ،فرمایاتو بس اتنا فرمایا :[لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا فأمتم الطلقاء] جان کے دشمنوں سے خون کے پیاسوں سے عزت و آبرو کے درپےرہنے والوں سے بیویوں اور بیٹیوں کی ہتک کرنے والوں سے فرمایا جا رہا ہے :آج اور آج کے بعد بھی تم سے سکی بھی تمہاری حرکت کی باز پرس نہیں کی جائے گی ،جاؤ تم سب کت سب بری ہو آزاد ہو ۔
یہ بھی اذعان و یقین کے ساتھ جانتے ہیں کہ سامنا ان اک ہو نے والا ہے جنہوں نے اچھوں کے لیے نہیں بلکہ بروں کے لیے ان کے لیے جنہوں نے طغیانی اور سرکشی میں دن رات بسر کیے ہیں  اعلان عام فرمایا ہےکہ:یہ برے میر ے ہیں ۔
سلام اُس پر كہ جس نے فضل كے موتى بكھىرے ہىں
 
سلام اُس پر؛ بُروں كو جس نے فرماىا: ىہ مىرے ہىں
 
لیکن ایک برے کو بھی تو آخر سوچنے کی ضرورت ہے ،اور لدین کتنے ہی شفیق ہوں ،کتنی ہی نازبرداریاں کرتے رہتے ہوں ہر غلطی اور شرارت کی پردہ پوشی کرنا ان کا مستقل معمول ہوگیا ہو تو کیا ان سہولتوں اور ان نوازشوں کا مطلب غلطی اور شرارت کی کھلی چھوٹ سمجھا جائے گا؟
مالک کتنا ہی نرم دل اور چشم پوش ہو لاکھوں بار تجربہ ہوچکاہوکہ درگزر سے زیادہ کوئی اور چیز اسے محبوب نہیں ہوتی، بڑی بڑی عدول حکمی کو بھی سکون بخشنے والی مسکراہٹ کے ساتھ نظر انداز کرتا رہتا ہے ،تو کیا ان باتوں سے غلام کو حق حاصل ہوجائے گا کہ وہ عدول حکمی ہی کرتا رہے اور جب مالک کے سامنے آئے تو اس بےحیائی کے ساتھ آئے کہ اس کے دل میں ندامت اور خجالت لا شائبہ تک نہ پایا جاتا ہو؟
برعکس اس کو تو اور شرمندہ اور خجل ہونا لازم ہےکہ نافرمانی اور عدول حکمی کر رہا ہے ایسے مالک کی، جو کبھی سزا نہیں دیتا ،جتنی بڑی غلطی کر کے آؤ ؛وہ بس دلاسا ہی دےگا۔ایسے مالک کے لیے تو دل یہ چاہےگا کہ ہماری کسی لغزش اور غلطی کا پتہ بھی اسے نہ چلے پاداش کے ڈر سے نہیں پاداش ملے بھی تو اس کی نگاہوں سے بچ کر۔
مکن رسوا حضورخواجہؐ مارا حساب من زچشمِ او نہاں گیر
لو!نمازی  مسجد سے رخصت بھی ہونے لگے ،یہ وہی ہوں گے جو بہت پہلے یہاں آئے ہیں ، یا یہیں کے رہنے والے ہیں ،ہمای نماز بھی ختم ہوچکی تھی ۔لیکن اپنی جگہ سے اٹھنے کا حوصلہ نہیں ہو رہا تھا  چشم زدن کے لیے خیال آیا کہ ہمیں بھی مسجد سے رخصت ہوجانا چاہیے ،پھر خواجہ ہر دوعالمﷺ کے حضور میں دستور کے موافق اپنے مزور کے ساتھ جانا چاہیے ڈوپتے تنکے کا سہارا جیسے مل جائے!
مزور صاحب رہنمائی کرتے تو آداب حاضری کی ذمہ داریاں ان پر عائد ہوں گی ،ہمیں بس ان کی پیروی کرنا ہوگی اور وہ سب کچھ وہ پڑھائیں گے بھی جن کے پڑھنے کا معمول صدیوں سے چلا آرہا ہے ، کیسے کیسے صلحائے وقت کیسے کیسے اولیاء ،اتقیاء ،کیسے کیسے محدثین و فقہاء ان دعاؤں کو حاضری کے وقت پڑھ چکے ہیں ، ان کی مبارک زبانوں سے ادا ہونے والی دعاؤں میں برکت اور بڑھی ہی ہوگی اور اس برکت کا کچھ نہ کچھ ہمارے ایسوں کی قسمت میں بھی آئے گا ،جس وقت انہیں دعاؤں کو دوہرائیں گے ۔
ہم اپنی جگہ سوچ رہے تھے ، متین میاں بھی چپ تھے، وہ بھی کچھ سوچ ہی رہے ہوں گے ،اس وقت ہم دونوں ایک دوسرے کی موجودگی کو بھی جیسے نظر انداز کیے ہوئے تھے ،نہ انہوں نے کچھ کہا نہ ان سے ہم نے کچھ بولے۔
بیٹھے ہیں بزم دست میں گمشدگان حسن دوست
 
عشق ہے اور طلب نہیں ،نغمہ ہے اور صدا نہیں
 
جہاں ہم بیٹھے تھے وہاں سے اس متبرک ترین مقام تک جو ہمارے سفر کا مقصد اور ہماری منزل مقصود ہے ، بس دو والان کا فاصلہ تھا ،جو اگر چہ خوب وسیع وعریض تھے،پھر بھی چار پانچ منٹ میں طے کیے جا سکتے تھے ،اور یہی چند قدم ایسے تھے جو جوئے شیر لانے کے برابر کار مشکل بن گئے تھے ۔
مزور صاحب کی رہنمائی میں حاضری دینے کا خیال جیسے آیا تھا ،ویسے ہی چلا گیا ،اچانک ہم نے متین میاں سے کہا :”چلو ! اب حاضری دیں “ ایسا محسوس  ہوا کہ وہ بھی اپنے دل میں وہی فیصلہ کرچکے تھے اور جیسے اسی گھڑی فیصلہ انہوں نے کیا تھا ۔
اٹھ کھڑے ہوئے ۔بڑھنے کے لیے اور کافی ہمت کے ساتھ اٹھے ،ہائیں! یہ کیا ؟ قدم لڑکھڑا کیوں رہے ہیں ؟دل اتنی زور زور سےدھڑک کیوں رہاہے؟اتنی دیر میں تو سب نشیب و فراز اچھی طرح سوچ سمجھ لیے تھے کیا نئی بات پیش آگئی کہ آواز گھٹی جا رہی ہے ،زبان خشک ہوئی جارہی ہے چہرے کا رنگ بھی اڑا جا رہا ہوگا،نئی بات کیوں نہیں ہوئی ؟اب تک جو کچھ تھا وہ سب خیالات اور تصورات کی دنیا میں تھا ۔اب عمل کا مرحلہ آرہا ہے نظریاتی اور تصوراتی دنیا کے بڑے سے بڑے شہسوار بھی جب عمل کے میدان میں قدم رکھتے ہیں تو بچوں کی طرح انگلی پکڑنے والوں کا سہارا چاہتے ہیں ، عمل کی دنیا میں قدم رکھنے کی ہیبت ہی دوسری ہوےی ہے ،پھر قدم اٹھ رہے ہیں ،کسی کی طرف؟اس کی طرف :
جس کے قدم پی جبہ ساروم و عجم کی نخوتیں
 
جس کے حضور سجدہ ریز چین و عرب کی خود سری
 
 
 
خیر! جو کچھ بھی ہوا ہم کسی اور کا سہارا لیے بغیر ہی دنیا و آخرت میں اپنے آخری سہارے کے پاس جائیں گے، دل پر کچھ بھی بیت کیوں نہ جائے ہم خود اپنا نامۂ سیاہ اپنے ہاتھوں میں لیے آپ کے دربار میں حاضری دیں گے ،یا رسول اللہ ﷺ ! اور یہ کہتے ہوئے حاضر ہوں گے
ننا لم  از کسے می نالم از خویش
 
کہ ماشایانِ شان تو نہ بودیم
 
ہم  نو واردوں کو کوئی یہ بھی بتانے والا اس وقت نہ تھا کہ کس سمت سے حاضری دینے جائیں، مواجہ شریف میں کس مقام پر کھڑے ہو کر صلوۃ وسلام عرض کریں اور کس جگہ نگاہوں کو مرکوز کرکے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کریں مگر کیا اس سلسلے میں کسی رہنما کی بھی حاجت تھی؟ بھاگا ہوا غلام جانتا ہے اور خوب جانتا ہے کہ دل میں اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے اپنی نگاہیں نیچی کئے ہوئے دست بستہ اس مالک کے حضور ہونا چاہیے ،جس نے ہر بھاگے ہوئے کے لیے ایک ہی انداز رکھا ہے،یعنی بخشش و درگزر عفو اور مہربانی کا ۔
دونوں والان کو اس طرح طے کرتے ہوئے جیسے بری ہونے کا فیصلہ سننے نہیں بلکہ پھانسی کی سزا کے لیے کوئی مجرم جائے ،ہم اس مقام پر پہنچ گئے جہاں پہنچ جانے کے بعد جنت میں پہنچنے کا خیال بھی دل میں لانا گستاخی نظر آتا ہے ،ہائیں ! دل کی دنیا ہی بدلی نظر آنے لگی۔ارے! وہ ہرس ،وہ اندیشہ ،وہ ڈر و خوف یہ سب کہاں چلے گئے ،اچھا !تودل کو اترانے کی سوجھنے لگی ہے؟
تصور عرش پرہی وقف سجدہ ہو جبیں میری     مرا اب پوچھنا کیا؟آسماں میرا زمیں میری!!
تو یہ دم خم ہوگئے ہیں ،اس دل کے جوچند منٹ پہلے بیٹھا جا رہا تھا ! صرف دو والان کو طے کرتے کرتے یہ انقلاب یا ہیبت !
اور ہونا بھی یہی تھا ! مجرم اور گنہگار تو تھا ہی یہاں پہنچ کر بھی خوش نہ ہوتا تو بدبخت اور کم نصیب بھی کہلاتا ،باریابی کا شرف مل جانا کوئی معمولی بات تھی؟استطاعت مالی وجسمانی کے چکر میں رہے مدعی عقل و خرد ! ہزاروں لاکھوں مستطیع ومتمول صحت مند اور ہٹے کٹے ہیں جو اگر چاہیں تو سینکڑوں پھیرے یہاں کے کرسکتے ہیں مگر دیکھ لیا تو نے کہ وہ یہاں نظر نہیں آرہے ہیں اور تو اور تیرے ایسے بہت سے اردگرد یہاں ہیں جو خواب میں بھی یہاں پہنچ پانے کا خیال نہیں کرسکتے تھے ،ان ہی کا کرم نہیں تو اور کیا ہے؟جو اپنی تمام کوتاہیوں اور خامیوں ۔۔۔۔اور بےاستطاعتیوں کے ساتھ یہاں بلایا گیا ۔
یہ آنسو بہانے کا کون سا موقع ہوا ؟ اچھا !فرط مسرت سے آانسو نکل آئے ہوں گے ،تو ٹھیک ہے یا افراط انفعال سے آنسو بہنے لگے ہوں تو ان آنسوؤں کا کیا کہنا ،لیکن کہیں اپنی خوش انجامی کے بارے میں ادنی سا شک میں آیا یازرا سا بھی یہ تردد لاحق ہوا کہ دیکھئے ہمارا سلام قبول بھی ہوتا ہے تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ قرآن کی صریح نص کا انکار کرنا ہوا یہ گناہ نہیں کفر ہوا۔
دو عالم بكا كل گرفتار وارى
بہر سو ہزاراں سىہ كار وارى
 
ز سر تا بپا رحمتى ىا محمدؐ
نظر جانب ہر گنہ گار وارى