حج کا سفر۔۔۔ آداب باریابی۔۔۔ تحریر: مفتی محمد رضا فرنگی محلی

Mufti Mohammed Raza Anasari

Published in - Other

02:44PM Sun 25 Jun, 2023

ادب کا تقاضا تھا کہ پائیں مبارک سے حاضر ہوکرمواجہہ شریف (ر وبروئی)  میں باریابی حاصل کی جائے لیکن جسے خود اپنے سرو پا کا ہوش نہ رہا ہو اس سے کسی قسم کا تقاضا کرنا تقاضائے ہوش مندی کے خلاف ہو گا۔

آسان بات یہ تھی کہ جس سمت سے لوگوں کو دربار میں حاضر ہونے کے لئے جاتے دیکھتے اسی سمت چل پڑتے مگر ہم اس وقت جانے کے لئے اٹھے تھے جب مسجد نبوی سے لوگ رخصت ہو رہے تھے۔ رخصت ہونے والوں کا ساتھ دیتے تو جس طرح دروازے سے داخل ہوئے تھے اسی طرح باہر نکل جاتے،

میں کب چونکا ؟ کہ اس محفل میں جب رخصت کا سامان تھا ؟

یہ لب پر تھا کہ کیا میں بھی شریک بزم جاناں تھا ؟

 مسجد نبوی میں داخل ہونے کے کئی دروازے ہیں قدیم بھی اور جدید بھی باب السلام، باب الرحمۃ ، باب جبرئیل ، باب مجیدی باب النساء، وغیرہ ۔باب جبرئیل سے داخل ہونے والا پائیں شریف سے حاضری دینے والا ہو گا،باب السلام اور باب الرحمہ سے داخل ہونے والا سرہانے سے حاضر ہونے والا ہو گا، دوسرے ابواب سے اگر کوئی حاضر ہو تو گویا پشت مبارک سے وہ رو بروئی کا شرف حاصل کرنے جارہا ہے۔

ہم لوگ مسجد نبوی میں باب مجیدی سے ، جو سابق خلیفہ المسلمین سلطان عبد المجید کے نام سے منسوب ہے، عجلت میں حاضر ہوئے تھے اور بعد نما زپشت مبارک کی سمت سے بڑھتے ہوئے مواجہہہہ شریف میں پہونچ گئے۔ اگر پہلے سے جانتے ہوتے تو پشت مبارک سے پائیں مبارک تک جا سکتے تھے اور امت کے معمول کے مطابق پائیں مبارک سے مواجہہہہ شریف تک رسائی حاصل کر سکتے تھے۔ زہے نصیب! مواجہہہہ شریف میں ہم نے اپنے کو حاضر پایا۔ درود شریف پڑھتے۔ اس لئے کہ اس وقت کوئی اور چیز یاد نہیں رہی تھی۔ آگے بڑھے اور روبرو ہوتے ہی زبان سے بے ساختہ السلام علیک یا رسول الله کے الفاظ نکلے پھر بے اختیار ورود شریف پڑھنے کی بلند آواز نکلنے لگی۔ اگر چہ صلوۃ و سلام پیش کرنے والوں کی بلند آوازوں کے مقابلے میں ہماری آواز کو بلند کہنا موزوں نہیں پھر بھی رفع صوت کی غلطی کے ہم اپنے کو مرتکب پا رہے تھے دار الھجرة - مدینہ منورہ کے محدث اور امام حضرت امام مالک کے بارے میں روایت ہے کہ شروع شروع وہ مسجد نبوی میں بیٹھ کر درس حدیث دیتے تھے بعد میں انھوں نے مسجد میں درس دنیا بند کر دیا۔ لوگوں کے استفسار پر امام مالک نے جواب دیا کہ طلبا کی تعداد زیادہ ہو جانے کی وجہ سے قدرے بلند آواز سے درس دینا ناگزیر ہوگیا تھا اور مسجد نبوی میں جہاں سرکار دو عالم آرام فرما ہیں سن کر سر نگوں ہو گیا !

تو جو حکم صحابہ کرام کو، جو آپ کی محفل پاک میں حاضری کی فضیلت سے مشرف تھے آداب محفل کے سلسلہ میں قرآن نے دیا ہے وہی حکم ان لوگوں کے لئے بھی ہو جو روضہ اطہر پر حاضری دیں۔ یعنی چیخ کر بولنے یا آواز بلند کرنے کی بے ادبی نہ کرو ایسا نہ ہو کہ بے ادبی پر تمھاری تمام نیکیاں رائیگاں ہو جائیں اور تم کو پتہ بھی نہ چلے ﴿أَنْ تَحْبَطَ ‌أَعْمَالُكُمْ وَأَنْتُمْ لَا تَشْعُرُونَ ﴾

افسوس کہ اس صاف اور صریح حکم اور اس واضح اور غیر مہم شرعی کلیہ کے باوجو دمسجد نبوی ہی میں ٹھیک روضہ اطہر کے سامنے اور خاص مواجہہہ شریف میں بیس پچیس آدمیوں کی ایک نہیں کئی کئی ٹولیاں ایک ساتھ بلند آواز سے صلوۃ و سلام پیش کرتی نظر آتی ہیں اور جہاں زور اسی آواز بلند کرنا نیکیوں کو رائیگاں کر دینا ہے وہاں سینکڑ وں آواز یں  ٹکرا کر چیخ پکار کا وہ منظر پیش کرتی رہتی ہیں کہ اگر صاحب روضہ اطہر کی شفاعت و سفارش کا یقین نہ ہوتا تو کسی کے بھی خاتمہ بخیر ہونے کی طرف سے اطمینان نہیں ہو سکتا ہے۔

منادی فرو میری داور محشر نے یہ کہہ کر

 کریں کیا ! شافع محشر نے اس میں لکھ دیا کچھ ہے

حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ سلم نے فر یا ہو کہ‌(من ‌جاءنى ‌زائر الايهمه الا زيارتى كان حقا على الله أن أكون له شفيعا يوم القيامة )جو شخص میری زیارت کو صرف میری زیارت کی نیت سے آیا قیامت کے دن اس کی شفاعت کرنا میری ذمہ داری ہے.

اس ارشاد نبوی کے بعد قبر شریف کی زیارت کرنے والے کے انجام بخیر ہونے میں شبہ کرنا بھی من جملہ معصیت ہے ۔

مواجہہ شریف میں شوروں کا ہونا اب ایسا معمول بن گیا ہے کہ اس  پر کسی  طرح کی خلش بھی لوگ محسوس کرنے سے محروم ہو گئے ہیں۔ پھر ایک مجبوری بھی ہےزائرین حاضر ہوتے ہیں۔ مزورین کے نمائندے ان کو مواجہہ شریف تک لے جاتے ہیں اور اس طریقے سے عربی میں صلوۃ وسلام پڑھاتے ہیں جو طریقہ صدیوں سے معمول بنا ہوا ہے مزدور کا آدمی ایک جملہ کہتا ہے اس کے ساتھ کے تمام زائرین اس جملے کو دھراتے ہیں زور زور سے نہ دھرائیں تو پڑھانے والے کو کیسے معلوم ہو کہ اس کا کہا ہوا جملہ سب کی زبانوں سے ادا ہو چکا اب آگے کا جملہ ہے۔ مزورین سینکڑوں اور ایک ایک کے پاس زائر ین ہزاروں ان سب کے نمائندے اپنے اپنے زائرین کولے کر ایک وقت میں جب صلوۃ و سلام پیش کرنے کی تلقین کرتے ہیں تو کس حد تک شور کی کیفیت پیدا ہوگی اس کا اندازہ کیا جا سکتا جن کی واحد تمنا ہی ہو کہ حشرمیں سرکار دو عالم کی شفاعت نصیب ہو جائے وہ مدینہ شریف کی حاضری میں صرف زیارت روضہ اطہر کی نیت نہ رکھیں تو اور کیا نیت رکھیں گے ؟

 گرچه در فر دوس نعمتها بے ست

 وصل او، از هر چه دانی ، خوشتر ست

یہاں پہونچ کر سو سال پرانی ایک نعت کی یاد آگئی موضوع بحث تھا کہ مدینہ منورہ کی حاضری دینے والوں کے سفر کا مقصد اصلی کیا ہونا چاہئیے مسجد نبوی میں حاضری اور ضمنا روضہ اطہر کی زیارت یا اصلار روضہ اطہر پر حاضری ۔

سہسرام کے ایک عالم حج کو گئے اور مدینہ منورہ میں حاضر ہوئے بغیر واپس آگئے۔ جب اس کا شہرہ ہوا تو ان پرطعنہ زنی ہونے لگی کہ دیکھو یہ روضہ اطہر پر حاضر ہوئے بغیر پہلے آئے حالانکہ علماء زیارت قبر نبوی صلی اللہ علیہ سلم کو قریب واجب قرار دیتے ہیں۔ مولانا صاحب نے ہر طرف سے جو یہ لعن طعن سنی تو ایک رسالہ لکھ کر یہ ثابت کرنا چاہا کہ زیارت روضہ اطہر کوئی ضروری امر نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ فعل جائز ہے۔ اس رسالے کا نام القول الحکم فی زیادہ قبر الحبیب الاکرم " تھا۔ مولانا کے دلائل کا جواب مولانا عبد الحئی فرنگی محلی) کے ایک شاگرد محمد عبد الجبار نے ایک رسالے کے ذریعہ دیا جس کا نام تھا۔ الکلام المبرم في نقض القول المحكم۔

کچھ عرصے کے بعد مولانا سہسرامی  صاحب نے الکلام المبرم کا جواب "القول المنصور في زيارة سید القبور" نامی ایک رسالے کے ذریعے دیا جس میں یہ بحث بھی چھیڑی کہ ثواب کی نیت سے صرف تین جگہوں مسجد الحرام (مکہ ) بیت المقدس اور مسجد نبوی کا سفر کرنا جائزہے ۔ یعنی روضہ اطہر کی نیت سے مدینہ شریف کا سفر کرنا کوئی شرعی فعل نہیں ہے ۔ در اصل یہ نقطہ نظر علامہ ابن تیمیہ نے پہلے پہل (آٹھویں صدی ہجری میں پیش کیا تھا جس پر اس وقت بھی بڑا ہنگامہ ہوا تھا۔ بہر حال مولانا عبدا لحی فرنگی محلی کے ایک دوسرے شاگرد محمد عبد العزیز کی طرف سے مولانا سہسرامی کے دوسرے رسالے کا جواب "الکلام المبرور فی دا لقول المنصور" کے نام سے دیا گیا، یہ بحث ومباحثہ کتاب کے ڈھائی سو مطبوعہ صفحات سے زیادہ پر پھیل گیا تھا۔ مولانا سہسرامی نے اپنی مدافعت میں تیسرا رسالہ "اتمام الحجة على من اوجب الزيارة مثل الحجۃ" (اس شخص پرا تمام حجت جس نے زیارت قبرنبوی کو مثل حج کے واجب و فرض قرار دیا ہے) کے نام سے تحریر کیا۔ اس رسالہ کا لقب رکھا گیا۔ "المذ ہب الماثور نی زیارۃ سید القبور" یہ کافی ضخیم تھا اور اس میں بہت سی ضمنی بحثیں علم و فن کی اٹھ کھڑی ہوئی تھیں، اب خود مولانا عبد الحی فرنگی محلی نے مولانا سہسرامی کے تیسرے رسالے کے جواب میں ایک ضخیم رساله "السعى المشكور في ردالمذهب الماثور ملقب به واضح الحجة في ابطال اتمام الحجۃ تحریر کیا۔ یہ رسالہ چار سو سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہے۔ ساری بحث اردو میں رہی اور خوب رہی ۔ جس وقت ہماری حاضری مسجد نبوی ہوئی اس وقت بھی اور جس قت موجہہ شریف کی طرف ہمارے قدم اٹھ رہے تھے اس وقت بھی ہماری نیت بالکل صاف تھی۔ نیت نہیں بلکہ عرض بلکہ خود غرضی ہماری بالکل آشکارا تھی جو مہائے سیاہ کے مرتکب کو عفو بندہ نواز کا سا دامن در کار تھا اور اسی سایہ کی تمنا میں کڑے کو س طے کرتا ہوا یہاں آ کھڑا تھا ۔

 سیدی انت جیسی : طبیب قلبی

پیش تو آمده قدسی پے درمان طلبی

موجہہ شریف کی طرف رخ کر کے کھڑے ہوں تو قبلہ کی طرف پیٹھ ہو جاتی ہو اپنی نجات کی دعا مانگتا ہے تو آخر کسی رخ منھ کر کے دعا مانگنے والا دعا مانگے ؟ خلیفہ منصور نے یہی الجھن محسوس کر کے امام مالک سے پوچھا تھا ۔ يا ابا عبد الله استقبل القبلة وادعو،ام استقبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔اے امام مالک ( جن کی کنیت ابو عبد اللہ تھی )قبلہ کی طرف رخ کروں پھر دعا مانگوں یا حضور انورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف رخ کروں ؟ محدثین کے سرتاج امام مالک کو اس سوال پر حیرت ہوگئی اور اسی حیرت کے عالم میں انھوں نے خلیفہ سے پوچھا آخر حضور انور کی طرف سے منہ پھیر کر دعا مانگنے کا خیال کیسے آگیا حالانکہ حضورا نور ہی قیام قیامت تک تیرے ہی نہیں تیرے (اور ہم سب کے باپ آدم علیہ السلام کے بھی وسیلہ اور ذریعہ ہیں)۔اس کے بعد امام صاحب نے اسے حکم دیا۔ قبلہ کی طرف نہیں بلکہ مواجہہ شریف  کی طرف رخ کر اور ان کے وسیلے سے دعا مانگ تب اللہ تعالیٰ تیری دعا قبول کرے گا"

علامہ سبکی نے لکھا ہے کہ مستحب طریقہ یہ ہے کہ جب قبر شریف پر حاضری ہو تو روضہ اطہر کی طرف رخ اور قبلہ کی طرف پیٹھ کر کے تقریبا چار گز پیچھے کھسک کر مواجہہ شریف میں کھڑا ہو اور صلوۃ و سلام عرض کرے پھر ذرا کھسک کر حضرت ابو بکر پر اور پھر کھسک کر حضرت عمر پر سلام پیش کرے پھر اپنی جگہ آجائے یعنی مواجہہ شریف میں جہاں پہلے کھڑا ہوا تھا آکر کھڑا ہو اور جو چاہے دعائیں مانگے ۔ مواجہہ شریف سے چار گز دور کھڑا ہونا ادب ہے اور یہ بڑی بے ادبی ہے کہ روضہ اطہر کی جالیوں والی دیوار کو چھونے کے لئے قریب پہونچ جائے یا انھیں چھوئے،

ہاں ! پاس ادب !! اے شرف اندوز زیارت !

ہٹ کر در اقدس سے ذرا چند قدم اور ! !

یہی بہت ہے کہ با ایں آلودگی او بہ کثافت در اقدس کے رو برو کھڑے ہونے کی سعادت نصیب میں آ جائے۔ اس کے بعد اگر کوئی جسارت کرے اور اپنی آلودگیوں اور کثافتوں سمیت مبارک جالیوں سے متصل ہو جائے یا انھیں مس کرنے کی کوشش کر تو بڑی جرات اور بڑی ہمت کی بات ہے۔

 نسبت خود بسکت کردم و بس منفعلم

زانکه نسبت بسگ کوئے تو شد بے ادبی

اور توا ور حضرت امام جعفر صادق تو اولاد رسول اور راہلبیت رسول میں تھے امام مالک نے ان کے متعلق بیان کیا کہ میں نے امام جعفر بن محمد صادق کو دیکھا ہے وہ عمو گا ہنستے رہتے اور دلچسپ باتیں کرتے رہتے تھے لیکن جہاں حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی لیتے تو حضور انور کے احترام اور جلالت شان کے خیال سے ان کا رنگ زرد ہو جاتا تھا اور امام جعفر صادق بغیر وضو حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کا نام نامی بھی نہیں لیتے تھے ۔ یہ حال تھا اولیا اتقیا اور خیر امت کا حضور انورا نور٘ کے احترام اور توقیرکے سلسلے میں۔ اب اگر ہر امتی اتنا جری ہو جائے کہ نام نامی لینا تو ایک طرف بے محابا ان مبارک جالیوں کو چھونے لگے جو آرام گاہ نبوی صلی الہ علیہ و آلہ وسلم کے چاروں طرف ہیں تو آپ اس امتی کو کیا کہیں گئے ؟ یہ کوئی اظہار عقیدت ہے ؟ یااسے کوئی شوق کی بے تابی سے تعبیر کر سکتا ہے ؟

ادب کا ہو یہ تقاضا کہ تیرے شوق کی بات سنے

 نہ کوئی ! مرے دل میں یاد ہن میں رہے !

سین کر دوں زائرین مواجہہ شریف کے روبرو ایستادہ تھے اور صلوۃ وسلام عرض کر رہے تھے ان میں ہر خطے اور ہر اقلیم کے باشندے تھے جو سر نیاز جھکائے اپنی رسائی قسمت پر ناز کر رہے تھے جو صلوۃ و سلام سے فارغ ہو چکے تھے وہ بھی مجسم عقیدت بنے اپنی بگڑی بنانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں نظر آرہے تھے

بر در پاک تو ایستاده بعد عجز و نیاز

رومی و طوسی و هندی حلبی و عربی

ان ہی فکر مند دل میں ایک وہ بھی تھا جو بگاڑ کر ہی نہیں بلکہ اپنی دنیا و آخرت اجاڑ کہ جو مریض ہو کر نہیں بلکہ ہلاک ہو کر وفا داری میں زندگی بسر کر کے نہیں نہایت اور نا فرمانی میں صبح و شام کرنے کے بعد اور بروں میں رہنے کے نتیجے میں برا ہو کر نہیں بلکہ اچھوں اور نیکو کاروں کے درمیان رہ کر نیکیوں اور اچھائیوں سے انحراف کر کے نہیں بلکہ ان کا تمسخر اور مضحکہ اڑا کر منزل مراد تک پہنچ گیا تھا اور صلوۃ و سلام عرض کرنے کی جرات کر رہا تھا۔ علما کی تصریحات کے مطابق مواجہہ شریف میں حاضر ہو کر اس احساس کے ساتھ صلوۃ و سلام عرض کرنا چاہئے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سامنے ہی تشریف فرما ر ہے ہیں اور اس یقین کے ساتھ کہ ہر سلام پیش کرنے والے کو بنفس نفیس جوار عنایت فرما رہے ہیں

 مجروح لکھ رہے ہیں وہ اصل وفا کا نام

 ہم بھی کھڑے ہوئے ہیں گنہگا ر کی طرح

 حدیث کی مستند ترین کتابوں بخاری و مسلم میں حضور انور ﷺکا  فرمودہ ایک واقعہ ملتا ہے۔ ایک جلیل القدر صحابی حضرت ابو سعید الخدریؓ نے بیان کیا کہ آں حضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ نبی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے 19 افراد کو( مختلف اوقات میں یا ایک ہی وقت میں )قتل کر ڈالا تھا، جب اسے ہوش آیا اور احساس ہوا کہ اس نے اتنا بڑا گناہ کیا ہے تو ، پھر دہ لوگوں سے یہ پوچھتا ہوا نکلا کہ کیا میرے ایسے کی تو بہ بھی قبول ہوسکتی ہے ، حالا نکہ میں نے ۹۹، آدمیوں کو ہلاک کر ڈالا ہے؟) ایک عیسائی درویش کے پاس آیا اور اس سے یہی استفسار کیا کہ کیا میری تو بہ بھی قبول ہوگی ؟

 ظاہر ہے کہ جس شخص نے بے قصور اتنے آدمیوں کی جان لی اس کی سنگدلی کا کیا حال ہوگا اور ایسے سنگدل کی تو بہ کا کیا اعتبار ہوگا ہے عیسائی در ویش نے اس کے ظاہری حالات کے پیش نظر حکم دیدیا کہ نہیں ؟" تیرے ایسے آدمی کی توبہ قبول ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ، مایوسی کا یہ جواب سن کر اس خوں خوار آدمی کو جو غصہ آیا تو اس نے عیسائی در دیش کو بھی قتل کر ڈالا، اور اب اس کی گردن پر سو جاناں کا خون ہو گیا، پھر بھی یہ قاتل نجات کی تلاش سے دست بردار نہ ہوا اور جن لوگوں سے ملتا یہی پوچھتا کہ کیا میری تو ب ۰بھی (جب کہ سو خون میری گردن پر ہیں)قبول ہوسکتی ہے، ایک اور آدمی سے جب اس نے یہی سوال کیا تو اس نے کہا تو فلاں بستی میں جا" محدثین کی توضیح کے مطابق اس شخص نے جس بستی کا پتہ دیا تھا وہاں کوئی بزرگ رہتے تھے اور وہ بستی ان بزرگ آدمی کے قیام کی وجہ سے نزول رحمت کا محل بن گئی تھی ۔ بتائے ہوئے پتے کے مطابق سو انسانوں کے خون کا بار لا دے اپنی نجات کی تلاش  میں یہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا اور یقینا اپنے سیاہ جرموں کے احساس سے وہ دل شکستہ ہوگا یا نجات کی جستجو میں دوڑ وہ ڈر کر بے دم ہو چکا ہوگا یا پھر اس کامقررہ وقت آگیا تھابہر حال ) ابھی بستی تک پہنچا نہیں تھا کہ اس کو محسوس ہوگیا کہ اس کا وقت آخر آگیا ہے موت اس کے سر پر آ کھڑی ہوئی تھی اور وہ بستی جہاں سے اسے نجات اور مغفرت ملنے کا آسرا تھا ابھی دور تھی ، عالم نزع میں چل تو کیا پاتا پھر بھی مرنے سے پہلے اس بستی میں پہنچ جانا چاہتا تھا۔ اس نے کھسک کھسک کر اپنے کو اس بستی سے قریب کرنے کی کوشش کی یہاں تک کہ اسے موت نے آلیا اور اس نے بستی کی طرف اپنا سینہ بڑھانے کی کوشش کرتے ہوئے جان دیدی۔ حضور انور صل اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عذاب کے فرشتوں اور رحمت کے فرشتوں میں اس شخص کے بارے میں جھگڑا ہوا کہ یہ مرنے والا کس کے قبضے میں جائے تو بے قصور انسانوں کا قاتل ہے اس لئے عذاب کا مستحق اور عذاب کے فرشتوں کے قبضے میں جانے والا ہوا، دوسری طرف گناہوں سے تو بہ کی نیت کر کے وہ ایک باخدا ہستی کی طرف تلاش نجات میں جا رہا تھا جب اسے موت نے آگھیرا۔ ایک نیک کام کے دوران میں مرا اس لئے رحمت کے فرشتوں کے قبضے میں اسے جانا چاہیئے ۔ خداوند تعالیٰ نے عذاب اور رحمت کے فرشتوں کے اختلاف کو اس طرح فصل کیا کہ جس جگہ اس شخص کو موت آئی ہے اس جگہ سے دونوں بستیوں کا فاصلہ ناپا جائے اور دیکھنا چاہئے کہ وہ بستی قریب ہے جہانی یہ سرکشی اور قتل و غارت گری میں مبتلا رہا یا اس کی موت کی جگہ سے وہ بستی قریب ہے جدھر وہ نجات کی تلاش میں جا رہا تھا پھر پر ور دگا یہ عالم نے اپنی قدرت سے اس بستی کو جہاں عیسائی درویش قیام پذیر تھا  حکم دیا کہ ہ اس شخص کی لاش سے قریب ہو جائے اور اس بستی کو جہاں اس شخص نے گناہوں کی زندگی بسر کی تھی حکم دیا کہ لاش سے اور دور ہو جا ،اب عذاب اور رحمت کے فرشتوں نے فاصلہ نا یا تو درویش والی بیتی اس شخص کی بستی سے بقدر ایک بالشت کے قریب نکلی، بس اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی مغفرت کر دی اور رحمت کے فرشتوں کے حوالے یہ سوبے قصور انسانوں کا قاتل ہو گیا) ایک باخدا بزرگ تک پہنچنے کی کوشش کے نتیجے میں اگر چہ وہ کوشش کا میاب نہیں ہو پائی مغفرت کا ملہ نے اس کو اپنے سایہ میں لے لیا. وہ صرف ایک درویش کی بستی تھی یا زیادہ سے زیادہ بنی اسرائیل کے کسی نبی کی بستی ہوگی ۔ اگر چہ اس کی صراحت محدثین کے یہاں نہیں ملتی ہے پھر وہ بقعۂ ارض جہاں دونوں جہاں کے لئے رحمت لے کر آنے والا آرام فرما ہو اس سے قریب ہونے والا ہی نہیں بلکہ وہاں تک پہونچنے کی کوشش میں کامیاب ہو جانے والا رحمت کا کاملہ سے کس درجے میں سرفراز ہو گا اس کی تشریح کی کیا کوئی حاجت باقی رہ جاتی ہے۔؟ رسائی قسمت سے ہم اس بستی میں جہاں ہر وقت رحمت کا نزول رہتا ہے پہنچ گئے تھے اور اس ارفع و اعلیٰ مقام سے جہاں رؤوف رحیم تشریف فرما ہیں  ایک بالشت سے بھی کم فاصلے پر ایستادہ ہو سکتے تھے اگر چہ ادبا وہاں سے چار گز دورایستادہ تھے۔ نہ معلوم کون سا دن یاد کر کے یہ بھی آس لگائے تھے کہ صرف یہ کہ ہمارا سلام شرف قبولیت حاصل کر رہا ہو بلکہ لطف خاص کے ساتھ نگاہ بندہ پرور ہماری جانب نگراں بھی ہے ۔

اپنی زندگی میں توکوئی دن بھی ایسانہ تھا جس کو یاد کر کے لطف خاص کا آسرا لگانے کا حوصلہ ہوتا ؟ ہاں وہ دن ضرور یاد آ رہے تھے جب مدینہ شریف کے تمام رہنے والوں میں سے ہمارے جدا علیٰ حضرت ابوایوب انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ کے گھر کو حضور انور روحی فداہ کے قیام کا وہ شرف حاصل ہوا تھا جس پر دنیائے اسلام آج تک رشک کرتی ہے ۔

ترک وطن فرما کر مدینہ شریف کو اپنے قدوم میمنت لزوم سے حضور انورفداہ  ابی و امی نے سرفراز فرمایا ہو ہر ایک متمنی ہے کہ قیام آپ کا اس کے غریب خانے میں ہو کہ وہ مرکز انور ہو جائے ۔ دولت مندوں کے محل موجود تھے ۔ جاگیر داروں کے سرسبز و شاداب باغ بھی مدینہ منورہ میں تھے ایسے جاں نثاروں کی بھی کوئی کمی نہ تھی کہ اشارہ ہوجائے تو چشم زدن میں ساری دولت لگا کر آرام دہ عمل آپ کے لئے کھڑا کر دیں ۔ حضور انور کی اونٹنی نے احسان فرمایا کہ اس جگہ بیٹھ گئی جس جگہ سے حضرت ابو ایوب انصاری کا گھر سب سے قریب تھا ایک دفعہ بیٹھی پھر اٹھی پھر آکر اسی جگہ بیٹھی پھر وہاں سے نہ اٹھی۔ حضور را نور کا سامان جلدی جلدی ابو ایوب انصاری اور ان کے گھروالوں نے اتارا اور اپنے گھر پہنچایا۔ حضور انور نے بھی قیام کے لئے قدم رنجہ فرمایا۔ ابو ایوب نے دست بستہ عرض کیا کہ نچلی منزل میں قیام پسند فرمائیں گے یا اوپری منزل میں " جواب عنایت ہوا اسفل (ارفق بی)نچلی منزل ہی ہمارے لئے موزوں ہوگی، تعمیل ارشاد میں ابو ایوب اور ان کے بیوی بچے اوپری منزل میں منتقل ہوگئے اور نچلی منزل حضور انور کے لئے ہو گئی ابو ایوب انصاری کے جذبہ ادب نے خیالات کو مہمیز کیا ۔ جس چھت کے نیچے آقائے دو جہاں ہوں اس چھت پر تو چلے گا، اے ابو ایوب ! کیا اس بے ادبی کا اندیشہ نہیں کہ نیچے جہاں سرکار دو عالم کی نشست ہو ٹھیک اسی کے اوپر چھت کو تو اپنے پیروں سے روند رہا ہو ؟ " خورد حاضرخدمت ہوئے اور عرض کیا حضور ! اس چھت پر ہرگز نہیں رہسکتا جس کے نیچے حضور والا قیام فرما ہوں "

با صرار ابو ایوب انصاری نے بالائی منزل پر حضور انور کے قیام کا بند بست کیا اور خود نچلی منزل میں رہنے لگے، اور اس احساس میں مگن رہنے لگے کہ ان کو اور ان کے گھر والوں کو یہ سرفرازی حاصل ہے کہ نعلین مبارک ان کے اوپر ہیں

جو سر پہ رکھنے کو مل جائے کفش پائے حضور

تو پھر کہیں گے کہ ہاں تاجدار ہم بھی ہیں

بے شک جس دن ابو ایوب انصاری کی تاج پوشی ہوئی تھی وہ دن ان کے لئے ہی نہیں ان کی قیامت تک آنے والی نسلوں کے لئے سرمایہ شرف وکرامت ہے، تو اس وقت ابو ایوب انصاری کی نسل کا ایک فرد بد نام کننده نیکو نامے چند ،وہی تاج پوشی کا دن یا د کر کے پھولے نہیں سما رہا تھا۔ ابو ایوب انصاری کا گھر بھی یاد آرہا تھا اور مسجد نبوی میں حضور انور صل اللہ علیہ و آلہ وسلم کا منبر شریف پر وہ آخری ارشاد بھی جس کے بعد منبر شریف پر پھر کوئی دوسرا خطبہ حضور انور نے نہ دیا ،حضور انور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ مرض شدت پکڑ چکا تھا جس میں آپ نے وفات فرمائی ، انصاریوں کی پیش آنے والے سائے کے تصور ہی سے وہ کیفیت تھی کہ بیٹھے بیٹھےرویا کرتے تھے ،حضرت ابو بکر اور حضرت عباس نے دیکھا کہ انصاری بیٹھے رو رہے ہیں پو چھا کیا ہوا کیوں رو رہے ہو تم لوگ جواب ملا که نه حضور انور صلی الہ علیہ وسلم کی محفل میں ہماری جو پوچھ گچھ تھی اسے یاد کر کر کے رونا آرہا ہے۔ حضرت عباس اسی وقت حضور انور کے حجرے میں حاضر ہوئے آپ بستر علالت پر تھے۔ انھوں نے انصاریوں کی اس کیفیت کا تذکرہ آپ سے کیا، انصاریوں کی یہ بے قراری سن کر حضور انور بے چین ہو گئے ،اسی شدت علالت میں ایک چادر سے سر میں پٹی باندھ کر حضور انور بر آمد ہوئے اور سیدھے منبر شریف پر تشریف لے گئے صحابہ کا کہنا ہے کہ اس کے بعد پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ممبر پر تشریف نہیں لے گئے یہاں تک کہ دنیا سے پردہ فرما لیا ۔

ممبر پر تشریف لاکر حمد وثنا کے بعد آپ نے واضرین کو مخاطب فرمایا اور ارشاد فرمایا ۔ انصاریوں کے بارے میں تم لوگوں کو میں وصیت کرتا ہوں، انصار میرا گھر بار، مال ومتاع اور آل و اولاد ہیں ۔ ان پر جو فرائض تھے، (دین کی خدمت اور پیغمبر اسلام سے وفاداری کے وہ انھوں نے کما حقہ ادا کر دئے) لیکن ان کی خدات کے سلسلے میں جو ان کے حق امت پر لازم ہو گئے ہیں ان کی ادائیگی بھی نہیں ہو پائی ہے (تو میں وصیت کرتا ہوں کہ) انصاریوں میں جو نیک اور خیر خواہ ہیں ان کی پذیرائی کر داور جو انصاریوں میں غلط کاری میں پڑ گئے ہیں ان سے در گزر سے کرلو"

یہ وصیت کہ خطا کار اور برے کردار والے انصاریوں سے درگزر کرو، ایسی بندہ پروری ہو کہ انصاریوں کی نسل کے خراب سے خراب تر فرد کو بھی ایک ہی سہارا بس ہے، حضرت ابو ایوب ایوری نے انصاری کی سینتالیسویں پشت کا ایک خطا کار انصاری جس کا نام اس کے باپ دادرانےمحمد رضا رکھ کر اور حضور انوریا کے نام نامی کو اس کے نام کا جز بنا کر نجات کا ایک وسیلہ اور پیدا کر دیا، دربار میں کھڑا اگر لطف خاص کا متوقع بنا ہوا ہو تو آپ اسے پاگل دیوانہ نہیں کہ سکتے ۔ جس آقا نے دوسروں کو انصاریوں سے در گزر کا حکم دیا وہ خود انصاریوں سے اور ان کی آل اولاد سے کیا کچھ سلوک فرمائے گا، بس ضرورت ہے تو  اس کی کہ نسل انصار سے تعلق رکھنے والا اس تعلق کو خود اور اپنی موروثی غلامی کو سرمایہ افتخار سمجھتے ہوئے اپنے آقا کی خدمت میں حاضرہوئے۔

 در اقدس پر حاضری کے دوران جی نہیں چاہتا کہ یہاں سے ہٹ کر کہیں جایا جائے۔ بس اگر کوئی چیز خلل انداز ہوتی تھی تو وہ زائرین کی بے احتیاط آواز یں تھیں قطعا اچھا نہیں لگ رہا تھا کہ اس طرح کی صدا و شور وہاں ہو جہاں زبان سے زیادہ قلب کی حضوری درکار ہونا چاہیئے۔ جس وقت ہم لوگ حاضر ہوئے تھے یعنی بعد نماز ظہر وہ وقت تھا بھی کثرت زائرین کا یہ انداز ہ بعدمیں ہوا، دوسرے اوقات میں حاضری کافی یکسوئی سے نصیب ہوئی، حاضری میں کب تک ہم رہے یہ اس وقت پاد تھا نہ اب یاد آرہا ہے، ہر حال وہاں سے ہمیں رخصت ہونا پڑا. رات بھر کے جاگے تھے ساڑھے تین سو میل کا سفر طے کر کے آئے تھے، قیام گاہ پر واپس آکر قیلولہ کے لئے لیٹ گئے اور اس وقت نہ آنکھ کھلی جب عصر کی اذان ہو رہی تھی ۔