ٹی ایم سی دکانوں کا مسئلہ ......بھول کہاں ہوئی ؟! (چوتھی اور آخری قسط)۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

Bhatkallys

Published in - Other

05:14AM Mon 5 Sep, 2016
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے........... میونسپل کاونسل کی قرارداد کے بعد دن ٹلتے رہے اور خود ٹی ایم سی نائب صدر نے ایک بار اسٹانڈنگ کمیٹی چیرمین کے روبرومجھ سے کہا کہ:"ڈی سی سے میری بات ہوگئی ہے۔ اوراب یہ دکانیں سابقہ کرایہ داروں کو ہی دینی ہیں۔ البتہ جنہوں نے اپنی دکانیں زیادہ کرایے پر دوسروں کو دے رکھی ہیں ان کے خلاف اقدام ہوگا۔" اور یہ بات وہ جب بھی ہم لوگوں کے سامنے کہتے توہم فوراً ان کی حمایت کرتے اور پورے تعاون کا وعدہ کرتے رہے تھے۔ خاص بات یہ ہے کہ اس طرح دکانیں سب لیز پر اٹھانے اور گھر بیٹھ کر ہزاروں روپے ماہانہ کمانے والوں کی فہرست میں کچھ ہماری اپنی برادری کے لوگوں کے نام بھی شامل ہیں۔ (کچھ باتیں تو ضبط تحریر میں لانے سے اور مسائل پید ا ہوسکتے ہیں، اس لیے اس سے گریز کیا جاتا ہے) چیف افیسر کی ضد اور عدالت : لیکن جیسا کہ شروع میں کہا گیا ، چیف افیسر اپنی ضد پر اڑا رہا اور اپنا ریکارڈ شفاف رکھنے کے لئے تمام قانونی طریقۂ کار کو اپنایا۔ اس نے اپنی عدالت بٹھائی ، دکانداروں کی وضاحتیں اور دلائل سنے اور پھر اپنی منشاء کے مطابق اپنے ریٹائرمنٹ کے دو روز پہلے دکانوں کو بزور طاقت خالی کروانے کا نوٹس جاری کرکے یہاں سے چلا گیا۔اب دکانداروں کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اس مسئلہ کو ہائی کورٹ تک لے جایا جائے جہاں چیف افیسر کے حکم پر کم از کم اسٹے تو مل ہی سکتا تھا اور مسئلہ کچھ برسوں کے لئے کھٹائی میں پڑ سکتا تھا۔ اس تعلق سے وکلاء سے رابطہ اور کاغذی تیاریاں شروع ہوگئیں۔چند ایک دکانداروں نے اسٹے لے بھی لیا، مگر بہت بڑی اکثریت نے مفاہمت اور مصالحت کو ہی ترجیح دی۔ ڈی سی کا تبادلہ اور نئی پیشکش : انہی دنوں میں ضلع ڈپٹی کمشنر کے تبادلے کی خبریں آنے لگیں اور چند دنوں میں اس کا تبادلہ بھی ہوگیا۔ اس موڑ پر ڈی سی دفتر سے وابستہ ایک اعلیٰ افسر نے پیش کش رکھی کہ اگردکاندار" واجب الادابقایاجات"ادا کردیتے ہیں تو پھر قانونی طور پر ہی دستاویزی ضروریات پورا کرتے ہوئے کاونسل کے ریزولیوشن کی روشنی میں سابقہ دکانداروں کو ہی دکانیں محدود پیمانے پر نیلامی کرکے الاٹ کی جاسکتی ہیں۔ البتہ جو واقعتاً defaulterہیں یا پھر اپنی دکانیں زیادہ کرایے پر دوسروں کو دے رکھی ہیں، ان کے ساتھ الگ طریقے سے نمٹا جائے گا۔دکانداروں نے اس کی ہامی بھری کیونکہ انہیں ہمارے مرکزی ادارے کے اشارے پر پاس ہونے والے کاونسل کے ریزولیوشن پر اور ذمہ داران کی طرف سے کیے گئے زبانی وعدوں پر بھروسہ تھا۔ اس طرح تقریباً 110 دکانداروں نے نہ صرف 60 -70لاکھ روپوں کے قریب رقم "بقایاجات''کے نام پر کاونسل کو ادا کردی بلکہ دفتری اور کاغذی ضرورتوں کو پوراکرنے والے معاہدوں پر بھی دستخط کردئے ۔ اب یہاں سے عدالت میں جانے کاجواز اور راستہ بند ہوگیا۔ مگر ہم نے اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھا : لیکن جب نیلامی کا اعلان ہوا توہمارے ادارے اور ذمہ دارن کو اپنے وعدے کا پاس و لحاظ نہیں رہا۔ ہمارے اپنے کاونسلرس اور بعض ذمہ داروں نے کھلے عام دیگر لوگوں کو اکسایا کہ فلاں فلاں دکانوں پر بولی لگانے کے لئے میدان میں اتریں۔ ڈی سی کے دفتر کاجوافیسر اس مسئلے کو باہمی رضامندی سے حل کرنا چاہتاتھا اسے فون کرکے ہراساں کیا گیا۔کہاجاسکتا ہے کہ مرکزی ادارے نے اپنے طور پربولی لگانے یا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی کردار ادا نہیں ادا کیا۔ لیکن وعدے اور پالیسی کے طور یہ ہونا چاہیے تھااور لوگوں کو بتادیا جانا چاہیے تھا کہ کسی سے کسی دکان کوچھیننے کی کوشش نہ کی جائے۔ یا پھر جو کاونسلرس یا ذمہ داران ادارہ اس طرح کی مہم میں جٹ گئے تھے، ان پر تو روک لگائی جاسکتی تھی۔ اورخاص کر غیر مسلم دکانداروں نے آخری آخری لمحوں تک یہی آس لگارکھی تھی کہ مرکزی ادارے کی طرف سے حسب وعدہ انہیں راحت ملے گی۔ مگر بظاہر غیر جانبدار رہنے سے ایک طرف دکانداروں کا اعتماد مجروح ہوا تو دوسری طرف فرقہ پرست ذہنیت والے گروہ کو بیٹھے بٹھائے ہندو مسلم منافرت کے جذبات کو بھڑکانے کا پورا موقع مل گیا۔اور ذہن و دل میں فطری طور پرایک خلش نے جنم لے لیا۔ یہ رویہ ہمیں روا ہے کیا؟: ظاہر ہے کہ ہمارے بعض ذمہ داران کا اشارہ پاکر کچھ مخصوص نوجوانوں نے بڑے غیر خلاقی رویہ کا مظاہرہ کیا۔ جیسے بھری پری غیر مسلم دکانداروں کے سامنے جاکر ان کی دکانوں کے نمبروں کے فوٹوکھینچنا اورچیلنج کرنا کہ اس دکان کو پچیس ، تیس اور چالیس ہزار تک کرایے پر لیا جائے گا۔ کہیں خود سامنے نہ آتے ہوئے کسی اور کو یہ کہہ کر آگے بڑھانا کہ فلاں دکان والے سے مقابلہ کرکے مجھے یہ دکان دلوادو، میں تمہیں ایک لاکھ روپے تک دینے کو تیار ہوں۔ یہ اور اس طرح کی دل دکھانے والی حرکتیں اکثر و بیشتر دیکھنے کو ملیں۔پھر نیلامی ہال میں جو بڑھ چڑھ کر بولیاں لگائی گئیں،اس میں بھی حقیقی معنوں میں دکانوں کی خواہش رکھنے والے کم اور موقع سے فائدہ اٹھانے یا تماشہ کرنے والے زیادہ تھے۔ ایک طرف ایک انتہائی مجبور اور واقعتا بے بس قسم کے تاجر نے ہمارے لوگوں کے پاؤں پکڑنے کی حد تک کوشش کی کہ بھائی میری روزی روٹی مت چھینو، لیکن ذرا رحم نہیں کیا گیا، اور وہ دوسرے دن بیمار ہوکر اسپتال پہنچ گیا۔خود ہماری برقعہ پوش مسلم عورتوں کے نام پہلے سے جو دکان تھی، اس پر ہمارے ہی نوجوانوں نے بڑھ چڑھ کر بولی لگائی اورجو دکان تین چار ہزارروپے کرایے میں ان خواتین کو مل سکتی تھی، اسے چالیس ہزار سے آگے لے گئے۔ اس سے ہٹ کر بولیاں لگانے کے لئے میدان میں اترنے والے ہمارے بعض نوجوانوں نے مقابلے سے ہٹنے کے لئے مسلم اور غیر مسلم دونوں دکانداروں سے پچیس ہزار رپوں سے لے کر ایک لاکھ روپے کی مانگ تک رکھنے میں بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔مصدقہ بات یہ ہے کہ کچھ دکانداروں نے اپنی دکانیں بچانے کے لئے ایسے مطالبات کو پورا بھی کردیا۔ ہم نے سنہرا موقع گنوادیا: البتہ ایک غیر مسلم بیوہ اور اس کی جوان بیٹی کے ساتھ رواداری دکھانے کا اوراس کی دکان پر بولی لگانے سے ہمارے کچھ نوجوانوں کے پیچھے ہٹنے کا واقعہ بھی دیکھنے کو ملا اور اس سے وہاں پر موجود تمام لوگ متاثر بھی ہوئے۔ مگر یہ ایک تنہا واقعہ ہے ۔یہی رویہ اور ذہنیت عام ہوتی اور آپسی بھائی چارگی کو فروغ دینے کے لئے اس موقع کا استعمال کیا جاتا تو یقیناًآنے والے دنوں میں بھٹکل میں امن و امان بحال رکھنے کے لئے بڑی فائدہ مند بات ہوتی۔ پورے بازار میں اگر سو سے زائد دکاندار ہمار ے اخلاق و کردار اور مروت و رواداری کے مرہونِ منت ہو جاتے تو کوئی شک نہیں کہ یہ ہمارے لئے مستقبل کی بہت بڑی طاقت ہوتی۔ اور اس میں دو رائے ہوہی نہیں سکتی کہ فرقہ پرستوں سے نمٹنے میں کسی نہ کسی حدتک اس سے تعاون ضرور ملتا۔ کیونکہ شہر میں امن و امان قائم رکھنا صرف ہماری ذمہ داری نہیں ہے بلکہ اس میں ہر طبقے اور فرقے کا باہمی تعاون ضروری ہے۔ اس قسم کے تعاون کے لئے باہمی اعتماد ضروری ہوتا ہے۔ اور اگر ایسا اعتماد پیدا کرنا ہے تو پھرہماری کوشش بقول شاعر یہ ہونی چاہیے کہ: اک شجر ایسا محبت کا لگایا جائے جس کا ہمسایے کے آنگن میں بھی سایہ جائے مگر افسوس ہے کہ ہم نے یہ موقع ضائع کردیا۔عام غیر مسلم برادران وطن کو ہم یہ پیغام دینے میں ناکام رہ گئے کہ انسانی بنیادوں پر ان کے ساتھ برادرانہ اور خیر سگالی کے جذبات میں ہم واقعتا مخلص ہیں۔ اب چاہے ہم اس کی جوبھی توضیح اور توجیہہ کریں۔ لیکن دیکھنے والی آنکھیں دیکھ رہی ہیں کہ ہم سے بھول ہوئی ہے اور بڑی بھول ہوئی ہے۔ ہم نے سنہرے موقع کو جانے انجانے میں گنوا دیا ہے۔ اورخدا نہ کرے کہ اس پس منظر میں مستقبل میں قیام امن کے لئے کی جانے والی جد وجہد کے دوران ہمیں اس بھول کا حساب چکانا پڑ جائے۔ میرا اپنا احساس بقول شاعر یہ ہے کہ: کتنے موسم سر گرداں تھے مجھ سے ہاتھ ملانے میں میں نے شاید دیر لگا دی ، خود سے باہر آنے میں ******************************* haneefshabab@gmail.com