سچی باتیں ۔۔۔ حیات دنیوی کی حقیقت ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم


قَدْخَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَاء اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا جَاء تْھُمُ السَّاعَۃُ بِغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْن اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَاء مَایَزِرُوْنَ، وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَعِبٌ وَلَھْوٌ وَلَدَارُ الْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌلِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ۔(انعام۔ع۔۴)
نھوں نے اللہ سے ملنے کو جھٹلائے رکھا وہ بڑے خسارے میں آ پڑے یہاں تک کہ جب وہ وقت مقرر آپہنچا تو کہنے لگے ہائے افسوس ہماری کوتا ہیوں پر جو اس کے بارے میں ہم سے سرزد ہوتی رہیں اور حال یہ ہوگاکہ وہ اپنی پشت پر لادے ہوں گے اور عالمِ آخرت جس کو وہ دنیوی مشاغل کے آگے بھولے ہوئے ہیں اس کے سامنے یہ دنیوی زندگی تو کچھ ہے ہی نہیں بجز لہو لعب کے اور جولوگ تقویٰ سے کام لیتے ہیں ان کے لیے تو وہی دار آخرت بہتر ہے پس اے منکرو کیا تم سمجھ سے کام نہیں لیتے؟
جن دنیوی ترقیوں پر آپ مٹے ہوئے ہیں ان کی کل کائنات آپ نے خالقِ کائنات کی نظرمیں دیکھ لی؟ وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلَّا لَعِبٌ وَلَھْو حیات دنیوی ساری کی ساری مع اپنی تمام فرع اور اپنے تمام متعلقات کے اپنے سارے کمالات اور ساری ترقیات کے کچھ وزن ہی نہیں رکھتی محض ایک کھیل تماشہ ہے ، محض ایک لہو ولعب ہے، کالج اور یونیورسٹیاں سائنس اور آرٹ ،بڑی سے بڑی ڈگریاں ، بڑے سے بڑے عہدے اور بہتر سے بہتر پیشے، کمشنری اورججی ہائیکورٹ کی ججی اور صوبہ کی منسٹری ، وکالت اور بیرسٹری ،انجنیری اور ڈاکٹری، اونچے خطابات اورمناصب ،نامور اخباروں کی ایڈیٹری اور قوم کی لیڈری ،کونسلوں میں خوش تقریری اور پبلک جلسوں میں جوش خطابت ،اس انجمن کی نظامت اور اس کی مجلس کی صدارت ، ان سب کی ’’کل‘‘ کیا وقعت نظر آئے گی؟ ’’کل‘‘ یہ سب ضائع اور برباد ، رائیگاں اور اکارت نظر آئیں گی، اگر ان کا تعلق رضائے الٰہی سے نہیں رہاہے بلکہ یہ خود مقصود رہی ہیں۔
اصل اور پائیدار شئے جو کچھ ہے وہ عالمِ آخرت ہے عقل وعاقبت اندیشی سے کام لیا جائے تو ہر کوشش، ہر جنبش قدم، ہر سعی وعمل وہیں اور صرف وہیں کے لیے ہونی چاہیئے وَلَدَارُ الْاٰ خِرَۃُ خَیْرٌلِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ۔
اگر یہ منزلِ مقصود پیشِ نظر نہیں ، تو عملاً روزِ آخرت کی تکذیب کرناہے عملاً بقائے رب سے انکارکرناہے ، اس حال میں اگر ہمیں علوم وفنون میں ’’ڈاکٹر‘‘ کی ڈگری مل گئی تو،اور ہم علّامۂ وقت تسلیم کرلئے گئے تو، سرکار دولت مدار کے خاص مقربین میں داخل ہوکر کسی صوبہ کے گورنر ہم مقرر ہوگئے تو، اور بڑے سے نیشنلسٹ لیڈر ہوکر سالہا سال کے لیے جیل میں چلے گئے تو، بہرحال وبہر صورت ہماری قسمت میں گھاٹا ہی گھاٹا اور انجام میں خسارہ ہی خسارہ ہے ۔ قَدْخَسِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِلِقَاء اللّٰہِ حَتّٰی اِذَا جَاءتْھُمُ السَّاعَۃُ بِغْتَۃً قَالُوْا یٰحَسْرَتَنَا عَلٰی مَا فَرَّطْنَا فِیْھَا وَھُمْ یَحْمِلُوْن اَوْزَارَھُمْ عَلٰی ظُھُوْرِھِمْ اَلَا سَاءمَایَزِرُوْن رضائے حق اگر پیشِ نظر نہیں ، تو آج کی ساری کامیابی کل وبالِ جان اور عذابِ جان ہی بن کر رہے گی۔ اللّٰھم احفظنا۔