10جون کو ارض فلسطین پر اسرائیل کے تسلط کو پچاس سال پورے ہوگئے۔یہ بے حد ناقابل فہم اور نا قابل یقین بات ہے کہ عالم اسلام بلکہ پوری انسانیت ، آزادء ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے علم بردار دور میں ، اتنے طویل تسلط ،پر کیوں خاموش ہے؟ تاریخ بھری پڑی ہے کہ قومیں اور ملک طویل عرصہ تک غیر ملکی تسلط میں محکوم رہے ہیں لیکن اس وقت آزادی اور انسانی حقوق کے جدید شعورکا سورج طلوع نہیں ہوا تھا۔ آج کے دور میں یہ کیوں کر ممکن ہے کہ ارض فلسطین اور فلسطینیوں کی محکومی کو برداشت کر لیا گیا اور فلسطینیوں کی آزادی ، اور ان ساڑھے سات لاکھ فلسطینیوں کی وطن واپسی کے لئے کوئی آواز کیوں نہیں بلند کی گئی جونصف صدی سے بھی زیادہ عرصہ سے مختلف ملکوں میں پناہ گزیں کیمپوں میں اپنے وطن کی مٹی کو چھونے اور اس کی خوشبو سونگنے کی آس لگائے کس مپرسی کی زندگی گذار رہے ہیں۔ فلسطینیوں کی یہ ختم نہ ہونے والی محکومی ان کی ناقابل تبدیل تقدیر کے طور پر تسلیم کر لی گئی ہے۔
پچھلے دنوں سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں امریکی صدر ٹرمپ کی طلبی پر پچاس مسلم ممالک کے سربراہ جمع ہوئے تھے ۔سب سے بڑا مسلۂ دھشت گردی کابتایا گیا تھا جس پر اس اجتماع میں غور کیا گیا۔ فلسطین پر فوجی تسلط اور یہودی بستیوں کے پھیلاو کے ذریعہ توسیع پسندی بھی مملکت کی دھشت گردی ہے، پچھلے پچاس برسوں میں اسرائیل نے فلسطین کی زمین پر ایک سو چالس سے زیادہ یہودی بستیاں تعمیر کی ہیں جن میں چھ لاکھ یہودی آباد ہیں۔ ان بستیوں کے لئے پانی کے وسائیل جبری طور پر فلسطینوں کی زمینوں سے حاصل کئے گئے ہیں ان کے علاقوں کو ان وسایل سے محروم کر کے اور ان کی زرخیز زمینوں کو ویران اور بنجر کر کے ۔ کوئی یہ ثابت کر سکتا ہے کہ یہ دھشت گردی نہیں؟۔
ان بستیوں کی تعمیر کا بنیادی مقصد عظیم تر اسرائیل قایم کرنا ہے۔ ریاض کے اجتماع میں کسی سربراہ نے اسرائیل کی اس دھشت گردی کا ذکر تک نہیں کیا ، جب کہ حال میں قایم ہونے والے اسلامی فوجی اتحاد کابنیادی مقصد ، دھشت گردی کے خلاف جنگ بتایا گیا ہے۔ یہ سمجھ سے بالا تر بات ہے کہ مسلم امہ کا ایک انگ زیر تسلط اور محکوم دھشت گردی کے عذاب میں مبتلا ہو اور اسلامی فوجی اتحاد، دور دھشت گردی کے خلاف لام بندی کا عزم کر رہا ہو۔
اس وقت جب کہ فلسطین اپنی زندگی کے نہایت خطرناک دور سے گذر رہا ہے ، یہ کس قدر اذیت ناک اور تشویش ناک صورت حال ہے کہ مسلم ممالک ، امریکا کی شہہ پر ایک دوسرے سے دست بگریبان ہیں۔ قطر کے محاصرہ کے بحران سے ، جو عین 5جون کو 67کی جنگ کی پچاسویں سالگرہ پر شروع ہوا ہے ، اسرائیل بے حد خوش ہے کہ اس کے نتیجہ میں اسے فلسطین پر اپنے تسلط کو برقرار رکھنے اور اسے اور مضبوط کرنے کا رزین موقع ملا ہے ۔ اسرایل خوشی کے مارے پھولا نہیں سماتا کہ قطر کے بحران کا زور غزہ کی حکمران تنظیم حماس کے خلاف ہے اور سعودی اتحاد نے صاف صاف کہا ہے کہ جب تک قطر حماس سے قطع تعلق نہیں کرتا اور اس کی مالی اور سیاسی حمایت بند نہیں کرتا اس وقت تک قطر سے سعودی اتحادیوں کے تعلقات بحال نہیں ہو سکتے۔ اسرائیل کے لئے اس سے بہتر بات کیا ہوگی کہ حماس عرب ممالک سے مکمل طور پر تنہا ہو جائے اور یوں اسرائیل حماس کو کچلنے میں کامیاب ہو جائے گا اور اس کی مزاحمتی تحریک کا قلع قمع کردے گا۔فلسطین میں اس وقت اسرائیل کو سب سے زیادہ حماس سے خطرہ ہے اور غزہ پر تابڑ توڑ حملوں کے بعد بھی اسرائیل حماس کی کمر نہیں توڑ سکا ہے ۔ بیشتر مبصرین کو اس بات پر سخت تشویش ہے کہ اسرائیل ، قطرکے بحران کے نتیجہ میں جس سرعت اور جس انداز سے سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کے قریب آرہا ہے اور ان کے مفادات اور اہداف مشترک ہوتے جارہے ہیں اس کی بدولت اس علاقہ میں نیا نقشہ ابھر سکتا ہے ، جس کے نتیجہ میں اسرائیل کے ہاتھ اس حد تک مضبوط ہوجائیں گے کہ فلسطین پر اس کا تسلط نا قابل متزلزل ہو جائے گا۔
ارض فلسطین پر اسرائیل کے تسلط کا آغاز 5جون19677 کو چھ روزہ جنگ سے ہوا تھا۔ اس جنگ کے جواز کے لئے اسرئیل نے جھوٹ کی بنیاد پر شور مچایا تھا کہ مصر ، جنگی تیاری کر رہا ہے اور اسرائیل پر حملہ کرنے والا ہے۔ جنگ کے پہلے ہی دن اسرائیل نے اچانک حملہ کر کے مصر کی پوری فضایہ تباہ کردی۔ مصر نے اپنی مدد کے لئے شام، اردن ، عراق اور لبنان کو بلایا لیکن ان ملکوں کی افواج بھی اسرائیل کو غرب اردن، غزہ اور یروشلم پر قبضہ کرنے سے نہ روک سکیں اور یہ جنگ چھ دن سے زیادہ جاری نہ رہ سکی۔ ایک عرصہ کے بعد اسرائیلی جرنیلوں نے یہ اعتراف کیا تھاکہ اس جنگ کی منصوبہ بندی بہت پہلے کی گئی تھی اور اس کا مقصد عظیم تر اسرایل قایم کرنا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نومبر 1967میں اقوام متحدہ کی سلامتی کاونسل کی 242قرارداد کے بعد جس میں اسرائیل سے جنگ سے پہلے کی سرحدو ں پر واپس جانے کے لئے کہا گیا تھا ، ابھی تک اسرائیل نے عمل نہیں کیا ہے ، حتی کی تین دہائیوں قبل، امن کے عوض زمین واپسی کے اصول کے تحت فلسطینی سربراہ یاسر عرفات نے اسرائیل کو تسلیم کر کے امن کا سمجھوتہ طے کیا تھا، اسرائیل نے مقبوضہ فلسطین کی ایک انچ بھی زمین فلسطینیوں کو واپس نہیں کی ہے بلکہ ارض فلسطین پر مستقل تسلط جمانے کے لئے بڑے پیمانہ پر یہودی بستیوں کی تعمیر کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ اقوام متحدہ نے ان بستیوں کی تعمیر غیرقانونی قرار دی ہے لیکن امریکا کی حمایت اور مدد سے بستیوں کی تعمیر برابر جاری ہے۔ موجودہ امریکی صدر ٹرمپ کے داماد کوشنر اور اسرایل میں ان کے سفیر فریڈمین کا ان یہودیوں بستیوں کی تعمیر میں بڑے پیمانہ پر سرمایہ کاری ہے۔ اگر کوئی ٹرمپ کے داماد اور سفیر کے مالی مفادات کے بارے میں کچھ کہنے کی جرات کرے گا تو بلا شبہ ٹرمپ یہی کہیں گے کہ یہ ’’فیک نیوز‘‘ جھوٹی خبر ہے۔
متعد امریکی صدور نے اسرایل اور فلسطینوں کے درمیاں امن سمجھوتہ کی کوشش کی ہے لیکن یہ محض دکھاوے کی کوششیں تھیں کیونکہ اسرایل اس کے لئے قطعی آمادہ نہیں تھا۔اسرایل کسی صورت میں فلسطین پر اپنا تسلط ختم کرنا نہیں چاہتا۔خاص طور پر جولان کی پہاڑیوں پر جو دریائے اردن کے پانی کا منبع ہے ۔ پچھلے دنوں صدر ٹرمپ بڑے طمطراق سے ریاض کی سربراہ کانفرنس کے بعد اسرائیل اور فلسطین گئے تھے لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔اس کے بعد انہوں نے امن کی کوششوں کے بارے میں یکسر خاموشی اختیار کر لی۔
یہ کس قدر ظلم ہے کہ گذشتہ اپریل میں اسرائیل کی جیلو ں میں پابند سلاسل ایک ہزار پانچ سوفلسطینیوں نے احتجاجا بھوک ہڑتال کی تھی ، پاکستان یا کسی مسلم ملک میں کہیں بھی ایک شخص نے ان اسیروں سے یک جہتی کے لئے ایک دن تو کیا آدھے دن کی بھی بھوک ہڑتال نہیں کی۔ عالم اسلام نے اسرایل کے زیر تسلط فلسطینیوں کو ایسے بھلا دیا ہے کہ جیسے ان کا کوئی وجود نہیں اور نہ ان کا کوئی وارث ہے۔ دوسری جانب مسلم ممالک سے دور بہت دور، جمہوریہ آیر لینڈ کے دار الحکومت ڈبلن میں ان فلسطینی بھوک ہڑتالی قیدیوں کے حمایت میں ٹاون ہال کی عمارت پر فلسطینی پرچم لہرا یا گیا تھا۔ اور 10جون کو فلسطین پر اسرایل کے تسلط کو پچاس سال ہونے پر ڈبلن کے تاریخی اسپایر چوک سے اسرایلی سفارت خانہ تک ہزاروں افراد نے جلوس نکالا اور مظلوم فلسطینیوں سے یک جہتی کا اظہار کیا۔ پاکستان میں لوگوں کو پاناما کیس سے فرصت نہیں اور نہ انہیں کوئی فکر اور تشویش ہے کہ ارض فلسطین اور اس کے عوام کس عذاب سے گذ رہے ہیں۔ 10 جون کو اسرائیلی فوج نے محصور غزہ میں اپنی آزادی کے لئے مظاہرہ کرنے والے فلسطینیوں پر اسرائیل علاقہ سے فایرنگ کر کے ایک فلسطینی نوجوان کو ہلاک کردیا یہ ثابت کرنے کے لئے کہ پورا فلسطین ان کے تسلط میں ہے اور محکوم فلسطینیوں کو اپنی آزادی کیلئے آواز بلند کرنے کا کوئی حق
نہیں ہے۔