پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا !! (پانچویں اور آخری قسط)۔۔از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

04:12PM Sat 27 Jan, 2018
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com غالباً جیل میں وہ چھٹا یا ساتواں دن تھاجب ہمارا انتظار اور اضطراب ختم ہوگیا اور ہمیں یہ خوشخبری مل گئی کہ ہماری ضمانت ہوگئی ہے۔ بھٹکل سے ہمیں چھڑانے اور اپنے ساتھ لے جانے کے لئے ہمارے ہمدرد اور نوجوان ساتھیوں کا وفدصبح کے وقت بیلگام سنٹرل جیل پہنچا۔ چونکہ وہ اتوار کا دن تھااس لئے جیلر کے آنے اور کاغذی کارروائی انجام دینے میں کافی تاخیر ہوئی۔ ہماری جمع شدہ رقم واپس لینے کے بعد اندر قیدیوں سے لی گئی ادھار سودے کی رقم اور کچھ تھوڑی بہت بخشش وغیرہ دے کر جیل سے باہر نکلنے تک دوپہر ہوچکی تھی۔ ضمانت ہونے کی خوشخبری ملتے ہی میں نے ایک نظم کہنی شروع کی جس کا عنوان ایک مشہور نظم کے مصرعے میں ایک حرفی تصرف کے ساتھ یوں ہوا کہ:’’ہاں میں اقراری مجرم ہوں‘‘۔ اور جب کاغذی کارروائی ختم کرکے ہمیں جیل سے باہر بھیجا گیا تو اس نظم کا کلائمیکس ہو ا اور بڑا شاندار ہوا۔ دروازہ ابھی بند مت کرنا: وہ 17دسمبر93ء کی تقریباً دوپہر کا وقت تھاتمام ساتھیوں کے باہر نکلتے ہی میں نے پلٹ کردیکھاتو گارڈ جیل کا داخلی دروازہ بند کررہاتھا۔اس وقت بے اختیار میری زبان پر نظم کے اختتامی مصرعے آگئے۔ یہ نظم میرے اولین مجموعۂ کلام ’’سلگتے خواب‘‘ میں شامل ہے۔ ملاحظہ کریں نظم کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے : ’’ہاں میں اقراری مجرم ہوں /جب میں نے سلگتے گھر دیکھے / آنکھوں سے مسلسل اشک بہے / بے گور و کفن لاشیں جو ملیں / کچھ حرف لکھے، کچھ شعر کہے /بچوں کو بلکتے جب دیکھا / بیوہ کو تڑپتے جب دیکھا / انسان کو کٹتے جب دیکھا / میں کانپ اٹھا اور آنکھوں سے مری / پانی کی جگہ خوں اترا ہے / ہاں میں اقراری مجرم ہوں‘‘۔۔ ۔۔ اورپھرمزید دو بند کے بعد آگے بڑھتے ہوئے یہ نظم کچھ اس طرح کلائمیکس پر پہنچتی ہے: ’’ہاں میں اقراری مجرم ہوں / تم طوق و سلاسل تیار رکھو/ زنداں کی سلاخیں مضبوط کرو / اور اگر تم چاہو تو پھر / دارو رسن تیار رکھو /میں جبر کا پنجہ توڑوں گا / میں ظلم کا پتّا کاٹوں گا / تم اپنے صعوبت خانے کا / دروازہ ابھی بند مت کرنا/ میں پھر سے پلٹ کر آؤں گا / اک نسل کو ساتھ میں لاؤں گا/ ہاں میں اقراری مجرم ہوں!‘‘ سینئر لیڈر شپ کی بے اعتنائی: خیرسے جب ہم واپس اپنے گھروں کو لوٹے تب بھی ہمارے سینئر لیڈرس کی طرف سے کوئی خبر گیری کرنے والا سامنے نہیں آیااور نہ ہی اس معاملے پر خاطر خواہ توجہ دی گئی۔البتہ اس کے بعد تقریباً دوسال تک عدالت میں جو مقدمہ ہم پر چلا اسے فساد کے دوسرے مقدمات کے ساتھ جوڑ کر مرکزی ادارے کی نگرانی میں عدالتی کارروائی سے منسلک کیا گیا۔شہر لوٹنے پر پتہ چلا کہ ہمارے جیل جانے کے دوسرے دن کچھ اور نوجوانوں کو ہمارے اپنے ایک لیڈر کی معرفت پولیس کے سامنے حاضر کیا گیا اوران کے فوٹو، فنگر پرنٹس لینے اور فرقہ پرست غنڈوں کی فہرست میں نام شامل کرنے کے لئے پولیس کی ضروری کارروائیوں میں تعاون کرنے کے بعد انہیں چھوڑ دیا گیا۔ مجھے قید ہونے سے کچھ دن پہلے مرکزی ادارے کے ایک کلیدی عہدیدارنے جو اشارہ دیا تھا کہ میری گرفتاری یقینی ہے اور ہمارے ایک خاص ساتھی کو مرکزی ادارے کے دوسرے کلیدی عہدیدار کی مداخلت سے گرفتار نہیں کیا جائے گا، وہ بات بھی سچ ثابت ہوئی تھی۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس وقت کے ہمارے بعض سینئر لیڈرز کا جو رویہ ہمارے ساتھ تھاوہ غیر ہمدردانہ،غیر روادارانہ تھا۔ بلکہ کبھی ایسا بھی محسوس ہوتھا کہ ہمارے خلاف کارروائی پر خاموشی اختیار کرتے ہوئے ایک حد تک پولیس کے حق میں تائید اور تعاون کا معاملہ کیا جارہا ہے ۔ اس مفروضے کو حقیقت میں بدلنے والے کئی واقعات اس کے بعد والے برسوں میں مختلف اوقات میں پیش آتے رہے ہیں۔جن کی تفصیل افسوسناک تو ہے مگر اس وقت اسے یہاں دہرانے کا موقع نہیں ہے۔بس یوں سمجھئے کہ: ؂

میرے دل میں درد بھرا ہے اتنا ہی تم جانو ہو دل میں کیسے درد بھرے ہیں ، درد بھرا دل جانے ہے

ریاستی وزیر آر این نائک کی پیش کش: جیل سے رہائی کے بعد حالانکہ ہمارے سینئر لیڈروں نے ہم کو کوئی اہمیت نہیں دی، لیکن اس وقت ہمارے اسمبلی حلقے کے نمائندے اور ریاستی کانگریسی حکومت کے وزیر ایڈوکیٹ آر این نائک(ہوناور) نے اپنے ایک نمائندے کے توسط سے بھٹکل سرکیوٹ ہاؤس میں مجھے مدعو کرکے خصوصی ملاقات کی، اور پیش کش کی کہ وہ مجھ پر پولیس کی طرف سے داخل کیے گئے کیس واپس لینے کا انتظام کر سکتے ہیں۔ اس پیش کش پر ایک لمحے کے لئے بھی ترددکے بغیر جو جملہ قدرتی طور پرمیری زبان پرآیا تھا وہ تھا:’’میرے ساتھ دیگر 21بے قصورنوجوانوں پر بھی کیس داخل کیے گئے ہیں۔ اگر آپ ان تمام نوجوانوں پر دائر مقدمات واپس لینے کا انتظام کریں تو مہربانی ہوگی، ورنہ مجھ اکیلے کو بری کروانے سے میرے دوسرے ساتھیوں کے ساتھ ایک طرح سے ناانصافی ہوگی، جو مجھے پسند نہیں ہے۔‘‘وزیر موصوف نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ تمام ملزموں پر سے کیس ہٹانا ممکن نہیں ہوگا، وہ صرف تنہا میرے لئے یہ کام کرسکتے ہیں۔ مگر میں اس کے لئے راضی نہیں ہوا۔ تنظیم کی قیادت میں تبدیلی: پھر اس کے بعد مرکزی ادارے مجلس اصلاح و تنظیم کے انتخابات جو ہوئے تو اس میں عوام نے ابھرتی ہوئی نوجوان لیڈر شپ کو سینئر قیادت پر ترجیح دی اور بھاری اکثریت سے نئی ٹیم نے تنظیم کی باگ ڈور سنبھالی۔ میں ذاتی طور پر انتخابی سیاست سے دور رہتاہوں اور اپنے طور پر نامزدگی یا campaigningمیں دلچسپی نہیں لیتا، اس لیے تنظیم کے اس الیکشن میں بھی میں نے حصہ نہیں لیاتھا۔ مگر چونکہ ہماری نوجوان ٹیم کے قائد جناب سید محی الدین برماور تنظیم کے صدر منتخب ہوئے تھے تو انہوں از راہ التفات صدر کے لئے مختص کوٹے سے شاید جناب عنایت اللہ شاہ بندری اور کسی ایک شخص کے ساتھ مجھے بھی تنظیم کی انتظامیہ میں شامل کرلیا ۔ وہاں سے جو عملی سماجی خدمات کا سلسلہ چلا اور جس طرح کے چیلنجس کا سامناہماری ٹیم نے کیا ،جس پیمانے کے نازک ترین حالات کو سنبھالنے میں اللہ تعالیٰ نے ہماری مدد فرمائی وہ ایک سنہرا باب ہے۔ اور اس کے شانہ بشانہ بعض ہمارے اپنوں نے ہمارے ساتھ جس طرح کا ناموافق بلکہ معاندانہ رویہ جاری رکھا ، وہ بھی ایک دکھ بھری اور عبرت انگیز داستان ہے، جس کی تفصیل ظاہر کرنے پر قدرت ہونے کے باوجوداسے کسی اور موقع کے اٹھارکھنے اور فی الحال خاموش رہنے کو ترجیح دینا پڑتا ہے۔ آر این نائک کی دوسری پیش کش: پہلی بار اس وقت کے ریاستی وزیر آر این نائک نے مقدمے سے خلاصی کی جو پیش کش کی تھی، وہ میری ان سے پہلی ملاقات تھی۔ اور مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اس کے پیچھے وزیر موصوف کاکیا منشا تھا۔اس کے بعد بھی کبھی میں نے خود سے ملاقات نہیں کی۔مگر کچھہ ہی عرصے کے بعد ہمارے ایک بلدیہ سطح کے لیڈر کی معرفت انہوں نے مجھے دوسری پیش کش کی اور کہلا بھیجا کہ میں کانگریس پارٹی سے وابستہ ہوجاؤں اور پہلے مرحلے میں ہی وہ مجھے کانگریس مائناریٹی سیل کاڈسٹرکٹ صدر بنادینا چاہتے ہیں،کیونکہ اس وقت کانگریس پارٹی میں تنظیمی ردوبدل کا سلسلہ چل پڑا تھا۔ میں نے سرے سے اس پیش کش کو بھی مسترد کردیا کیونکہ میرا مزاج خود اپنے ہی ایک شعر کے مصداق یوں ہے کہ:

بس وہی زباں پر ہے ، جو ہمارے دل میں ہے ہم سیاستوں والی شخصیت نہیں رکھتے

ایک عالم دین سے مشورہ اور رہنمائی: میں سیاسی پارٹیوں کی حد بندیوں اور داؤ پیچ کی تھوڑی بہت شُد بُد اس وقت بھی رکھتاتھا اور چونکہ بابری مسجد کے انہدام کا سانحہ ابھی تازہ تھااس لئے کانگریس کے کردار پر بھی سوال اپنی جگہ باقی تھے ، لہٰذا میں نے اپنے طور پر سیاسی پارٹی سے دوررہنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ لیکن آر این نائک نے ہمارے اسی لیڈر کی معرفت دو چار مرتبہ پھر سے مجھے اس عہدے کو قبول کرنے کے لئے آمادہ کرنے کی کوشش کی اور کسی دوسرے فردکاتقرر کیے بغیر میرا انتظار کرتے رہے ۔ آخر میں نے شہر کے ایک معتبر ترین عالم دین اور موجودہ قاضی جناب مولانا محمد اقبال ملا ندوی سے(شایداب انہیں یاد ہوکہ نہ یاد ہو) فاروقی مسجد میں بعد نماز مغرب خصوصی ملاقات کی اور ان سے اس سلسلے میں رہنمائی طلب کی ۔انہوں نے صرف ایک جملے میں میرے دل کی بات کہہ دی کہ: ’’کسی سیاسی پارٹی سے وابستہ ہونے کا مطلب اپنی رائے اور اپنے موقف کو پارٹی کے تابع کرنا ہوتا ہے۔‘‘ یعنی بات صاف تھی کہ پارٹی کے مفاد اور ضابطے پرہمیں اپنے ملّی مفاد کو بھی قربان کرنا پڑتا ہے ۔ اور سامنے کی مثال بابری مسجد کے انہدام ہی کی تھی کہ کانگریس سے وابستہ مسلم لیڈران اتنے بڑے ملّی سانحے کے بعد بھی پارٹی ضابطے کی پابندی اور کرسی سے چپک کر رہنے پر مجبور تھے۔ بس اسی وقت میں نے قطعی فیصلہ کرلیا کہ مجھے سیاسی پارٹی اور عہدے سے دور رہنا چاہیے۔ عدالتی چکر اور پولیس کی ہراسانیاں: جیل سے رہائی کے بعد مقدمے کے سلسلے میں تقریباًدو سال تک عدالت کے چکر کاٹنے پڑے ۔ پھر خداخدا کرکے ٹیکنیکل بنیاد پر عدالت نے ہمیں بری کردیا۔ مگر پولیس کی فہرست میں میرا نام ایسا شامل ہواکہ وقتاًفوقتاً آئی پی سی کا سیکشن 107(کسی کوجرم اور قانونی خلاف ورزی پراکسانا یا ساتھ دینا وغیرہ)لگاکرفرقہ وارانہ غنڈہ گردی کی روک تھام کے نام پر ہراساں کرنے کا سلسلہ جو چل پڑاوہ اب تک جاری ہے۔ جب ہم تنظیم میں سرگرم تھے تو 107کی نوٹس جاری ہوتے ہی ہمارے ساتھی اور قانونی اقدام کمیٹی کے سربراہ جناب پرویز قاسمجی کی معرفت کاروار سیشنس کورٹ سے اسے کلعدم quashکروالیتے تھے۔ مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔ کیسquashکروانے کی رعایت بھی باقی نہیں رہی ہے۔حالانکہ گزشتہ بیس برسوں میں مجھ پر کوئی ایک بھی کیس داخل نہیں ہوا ہے اور نہ ہی کسی معاملے میں مجھے گرفتار کرکے عدالت سے سزا دلوانے میں پولیس کو کامیابی ملی ہے ۔ اس کے باوجود جب بھی ماحول میں کشیدہ ہوتا ہے یا پھر کسی بھی سطح کے انتخابات کے دن قریب آتے ہیں تو پولیس اسٹیشن میں احتیاطی طور پر 107کا کیس درج کرکے تحصیلدار کورٹ سے نوٹس جاری کی جاتی ہے اور آئندہ فرقہ وارانہ بدامنی نہ پھیلانے کی ضمانت دینے والے بانڈ پر دستخط کرنے کے لئے کہاجاتا ہے۔ میرے جیسے کچھ اور لوگ بھی اسی طرح اب تک ہراسانی کا شکار ہیں۔ہم لوگ بانڈ نہ دیتے ہوئے وکیل کی معرفت کیس لڑتے ہیں ،بار بارتحصیلدار کورٹ میں حاضر ہونا پڑتا ہے انتخاب کی میعاد ختم ہوجاتی ہے اور کیس بند ہوجاتاہے۔ ڈسٹرکٹ کیمونل غنڈہ کا خطاب : ایک وقت ایسابھی آیا کہ ڈاکٹر شرماجب ضلع پولیس سپرنٹنڈنٹ تھے اور بھٹکل کے بگڑے ہوئے حالات میں اور خاص کر ڈاکٹر چترنجن کے مرڈر کے بعد پیش آنے والی سنگین صورتحال میں(اس ایپی سوڈ پر ان شاء اللہ پھر کبھی مفصل مضمون پیش کروں گا) ہمارا ان کا آمنا سامنا ہوتارہتا تھا اور اللہ کے فضل سے ہم ملّی مسائل میں ان کے ساتھ آنکھ سے آنکھ ملاکر بات کرنے کی پوزیشن میں تھے تو ان کے دفتر میں مجرموں کی گیلری میں’ ڈسٹرکٹ کمیونل غنڈہ ‘کے طور پر میرا فوٹو آویزاں کیاگیا۔ مگر ہماری بااثر سینئر قیادت اور پولیس کے اعلیٰ حلقوں میں بڑا رسوخ رکھنے والے لیڈروں نے بھی اس کے خلاف نہ کوئی آواز اٹھائی اور نہ ہی کوئی اقدام کیا۔ بڑی مدت تک یہ فوٹو وہاں لگارہا ۔مگر ایک معاملے میں اللہ کی طرف سے مجھے ایسی تائید ملی کہ خود پولیس سپرنٹنڈنٹ شرما کو وہ فوٹو وہاں سے ہٹانے پرمیرے سامنے مجبور ہونا پڑا۔ ایک سوچ ایسی بھی تھی!: جہاں ایک طرف عوام کے بہت بڑے طبقے میں اور خاص کر نوجوانوں میں ہماری نئی قیادت کا سکہ چل پڑا تھا اور لوگ پورے اعتباراور اعتماد کے ساتھ ہمیں قافلہ سالار مان رہے تھے، مگروہیں دوسری طرف بدقسمتی سے کچھ ذہن ایسے بھی تھے جو ہمیں ابھرتے اور پیش قدمی کرتے ہوئے دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ہم پر سب سے بڑا الزام یہ تھا کہ ہم نے پولیس اور سرکاری انتظامیہ سے پنگالینے کی پالیسی اپنائی ہے اور اس سے قوم کو نقصان ہورہا ہے۔ مختلف بہانوں سے ہماری ٹیم کو توڑنے کی کوششیں بھی ہوتی رہیں۔ یقینی طور پر پانچ چھ افراد پر مشتمل ہماری ایک ایسی ٹیم تھی جو پوری طرح یکسوئی ، ہم آہنگی اور ایک واضح پالیسی اورمشن کے ساتھ کام کررہی تھی۔حالات ایسے تنگ اور کڑے تھے کہ پولیس اور انتظامیہ کے ساتھ مصالحت کے بجائے مثبت بنیادوں پر تصادم اور ٹکراؤ ہی اس وقت کا تقاضہ تھا۔ہمیں یہ بھی پتہ تھاہمارے بعض سینئرس نے سید محی الدین برماور، یحییٰ دامودی اور حنیف شبابؔ کی ٹیم کو ’تریمورتی ‘کانام بھی دے رکھا ہے۔ لیکن حد تو اس وقت ہوگئی جب ایک اہم ادارے کی مجلس انتظامیہ کے لئے اراکین کو شورائی طرز پر نامزد کیا جارہا تھاتو اس ادارے کے ایک بااثر شخص نے بالواسطہ طور پر میری طرف اشارہ کرتے ہوئے اہل مجلس سے کہا:’’ہمیں اپنی مجلس انتظامیہ میں ایسے افراد کوشامل نہیں کرناچاہیے جن کے نام پولیس کی فہرست میں ہیں اور جن کے فوٹوزپولیس اسٹیشنوں میں آویزاں ہیں۔‘‘ اس کا جواب دینے کے بجائے جب سب حاضرین اجلاس خاموش رہے تو میں نے کہا:’’مجھے فخر ہے کہ میرا فوٹو پولیس اسٹیشن میں اپنی قوم کے لئے لڑنے کے جرم میں آویزاں کیا گیا ہے۔ اور میں اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں کہ کسی دوسرے گھناؤنے جرم کے بدلے میں پولیس کو میں مطلوب نہیں ہوں!‘‘ کچھ ایسے مراحل بھی آئے : اس بات کو برسہا برس گزر گئے۔ آج بھی پولیس کی فہرست میں مجھے کمیونل غنڈہ بناکر رکھا گیا ہے۔ذاتی طور پر کافی کچھ نقصان اور دکھ کے مراحل سے بھی گزرنا پڑاہے۔مثلاًڈاکٹر چترنجن کے قتل کے بعد چند منٹوں کے اندرسب سے پہلے مجھے پولیس حراست میں لیا گیاتھا جو کہ بڑا سنگین معاملہ تھا ۔مگر اللہ کا شکر کہ دوسرے دن اعلیٰ پولیس افسران کی مداخلت سے میرے علاوہ سید محی الدین برماور اور یحییٰ دامودی اور مرحوم اسلم گنگولی کورہائی نصیب ہوئی تھی ۔میرے اہل خانہ کو بھی ناکردہ قصور کابھگتان کرنا پڑا۔مثلاً میرے ایک بیٹے کو سول سروس امتحان کے بالکل آخری مرحلے viva (زبانی امتحان) میں جس طرح ناکام کردیا گیا اس کے بارے میں میرا اپنا احساس یہی ہے کہ پولیس نے جو میراریکارڈ خراب کرکے کمپیوٹرائزڈ فائل بنا رکھی ہے ، شاید اس کا خمیازہ میرے بیٹے کو بھگتنا پڑا ہوگا ۔ ورنہ وہ تو سول سروس کی دہلیز تک پہنچ چکا تھا۔مگر الہ آباد میں منعقدہ وائیوا کے دوران میری مصروفیات کے تعلق سے کچھ سوالات کرنے کے بعد اسے باہر انتظار کرنے کے لئے بھیج دیاگیا۔انٹرویو کرنے والے افسران کافی دیر تک اندر نہ جانے کیا تحقیقات کرتے رہے۔ باہر بیٹھے بیٹھے میرے بیٹے نے مجھے فون پر بتایا کہ :’’آپ کے بارے میں پوچھنے کے بعد مجھے باہر بھیجا گیا ہے۔ کافی دیر ہوگئی ہے ، لگتا ہے شاید پتّا کاٹا جارہا ہے۔‘‘اور پھر وہی ہوا۔میرے بیٹے کا خواب ادھورا رہ گیااور اسے وہاں سے ناکام ہی لوٹنا پڑا۔

آنکھیں کھلیں تو جاگ اٹھیں حسرتیں تمام اس کو بھی کھو دیا جسے پایا تھا خواب میں

دودبارہ جیل بھیجنے کی سازش: اس کے علاوہ سن2006میں مخدوم کالونی کے پاس سے مورتیاں غائب ہونے کے بعدوالی کشیدگی اورپیش آنے والے ایک غیر مسلم نوجوان کے قتل میں پولیس نے میرے بھائی کوکلیدی ملزم بناکرہمیں جسمانی و ذہنی اذیت کے علاوہ لاکھوں روپے کے بھاری مالی نقصان سے دوچارکیا ۔ اور پھر اس پورے معاملے کی سازش رچنے کا الزام میرے سر تھوپتے ہوئے مقامی پولیس کی طرف سے مجھے سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کی بھی تیاری کرلی گئی تھی۔مگر خوش قسمتی سے کچھ خاص اور معتبر ذرائع سے اس بات کی پیشگی بھنک مجھے مل گئی کہ رپورٹ ایس پی کو بھیج دی گئی ہے اور دو ایک دن کے اندر کسی بھی وقت پولیس مجھے گرفتار کر سکتی ہے۔ اس سچویشن پر غور وفکرکے بعدمحترم عبدالغنی محتشم مرحوم کی قیادت میں (اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے) جناب سید محی الدین برماور اور دیگر ذمہ داران کے وفد نے کاروار جاکر پولیس سپرنٹنڈنٹ سے خصوصی ملاقات کی اورمورتیاں غائب کرنے یا قتل اورفسادمچانے کی اس واردات سے میرا کسی قسم کا تعلق نہ ہونے کایقین دلایا تو ایس پی نے مرحوم عبدالغنی صاحب کی بات کا احترام کرتے ہوئے میری گرفتاری کے منصوبے پر عمل نہ کرنے کا وعدہ کیا۔اس طرح پھر ایک بار کاروار یا بیلگام کی جیل کا دروازہ میرے لئے کھلتے کھلتے رہ گیا۔ الحمد للہ! مجھے اب بھی فخر ہے : پولیس کھاتے میں مجھے بدنام کمیونل غنڈہ بنائے رکھنے پروقتی طور پر ذہنی اذیت تو ہوتی ہے مگر تب بھی مجھے اس بات پر فخر تھا اور آج بھی ہے کہ یہ قوم وملت کے مفاد میں زبان کھولنے کا ہرجانہ ہے،جوکہ میری نظر میں ایک سعادت کی بات ہے۔حالانکہ ذاتی طور پر مجھے جو نقصان ہوا سو ہوا، لیکن ان حالات اور دشواریوں کے باوجودتب بھی میں اللہ کا شکر گزار تھااور آج بھی ہوں کہ اس نے مجھے ہر آزمائش سے گزرنے کاحوصلہ دیا اور ہمیشہ بحفاظت بھنور سے باہر نکالنے کا ایساانتظام کردیاکہ اب سوچتاہوں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔اورکہنا پڑتا ہے : وما توفیقی الا باللہ۔علیہ توکلت و الیہ انیب۔

اللہ اگر توفیق نہ دے انسان کے بس کا کام نہیں فیضانِ محبت عام سہی عرفانِ محبت عام نہیں

(نوٹ: مندرجہ بالا مضمون میں درج مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے اور ان کے تجربات پر مشتمل ہے۔ اس سے ادارہ کا متفق ہونا ضروری نہیں۔)