محسن کتابیں۔۔(۱۸)۔۔۔ مولانا سید ابو الاعلی مودودیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

06:58PM Tue 4 Aug, 2020

مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ

            ولادت: اورنگ آباد،/۳ رجب  ۱۳۲۱ھ ،مطابق،۲۵ / ستمبر۱۹۰۳ء

            آبائی وطن دہلی تھا۔ پیدائش اورنگ آباد میں ہوئی، جہاں ان کے والد وکالت کرتے تھے۔ میٹرک تک وہاں تعلیم حاصل کی، پھر حیدر آباد میں بھی علم حاصل کیا۔۱۹۲۱ء سے مستقل دہلی میں سکونت اختیار کی، جہاں مولانا عبدالسلام نیازی (متوفی ۱۹۶۶ء) سے عربی ادب و بلاغت اور معقولات کا علم حاصل کیا، نیز تفسیر وحدیث اور فقہ کی کتابیں بھی ان سے پڑھیں۔ اور مولانا اشفاق الرحمن کاندھلوی (متوفی ۱۹۵۷ء) سے حدیث کی سند حاصل کی۔

             بچپن ہی سے اردو مضمون نگاری کی مشق کی تھی، اس لئے عنفوان شباب ہی میں صحافتی زندگی میں قدم رکھا، دہلی میں اخبار ’’مسلم‘‘ اور ’’الجمعیہ‘‘ کی ادارت کے بعد حیدرآباد منتقل ہوکر’’ ترجمان القرآن‘‘ کی ادارت سنبھالی، اور زندگی بھر اس سے وابستہ رہے۔ مولانا کی شگفتہ اور دلکش تحریروں نے جدید تعلیم یافتہ طبقے کو بہت متاثر کیا۔ مگر اس کے ساتھ مولانا کے قلم سے بعض باتیں ایسی نکلیں جن کی وجہ سے بڑی تعداد میں علماء نے ان کی مخالفت کی۔

             ۱۹۳۵ء میں لاہور ہجرت کی۔ ۱۹۴۱ء میں جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی۔ تقسیم ملک کے بعد پاکستان کو ایک اسلامی ملک بنانے کے لیے بڑی جدوجہد کی، جس کے لیے بڑی آزمائشوں سے گزرنا پڑا۔ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی وجہ سے انہیں حکومت پاکستان نے جیل میں ڈالا، اور موت کی سزا سنائی گئی، تو مولانا نے اس وقت حیرت انگیز استقامت کا مظاہرہ کیا، آخر بیس ماہ کے بعد رہائی ملی۔

             فکری اور عملی میدان میں فروغ اسلام کیلئے بے مثال کام کرنے پر۱۹۷۹ء میں ان کو سب سے پہلا شاہ فیصل ایوارڈ دیا گیا۔

             مولانا کے اہم کتابوں میں تفہیم القرآن، الجہاد فی الاسلام، پردہ، سود، تفہیمات، تنقیحات، خطبات، رسائل ومسائل، قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، رسالہ دینیات، اور سیرت سرور عالم وغیرہ ہیں۔

            وفات: بفیلو (امریکہ) ۳ /ذیقعدہ  ۱۳۹۹ھ،مطابق /۲۲  ستمبر ۱۹۷۹ء

             مدفن: ذیلدار پارک، اچھرہ، لاہور

---------------------------------------------------------------------------------------------------------

            جاہلیت کے زمانے میں، میں نے بہت کچھ پڑھا ہے۔ قدیم و جدید فلسفہ، سائنس، معاشیات، سیاسیات وغیرہ پر اچھی خاصی ایک لائبریری دماغ میں اتار چکا ہوں، مگر جب آنکھیں کھول کر قرآن کو پڑھا توبہ خدا یوں محسوس ہوا کہ جو کچھ پڑھا تھا سب ہیچ تھا، علم کی جڑ اب ہاتھ آئی ہے، کانٹ، ہیگل،نٹشے، مارکس اور دنیا کے تمام بڑے بڑے مفکرین اب مجھے بچے نظر آتے ہیں، بے چاروں پر ترس آتا ہے کہ ساری ساری عمر جن گتھیوں کو سلجھانے میں الجھتے رہے، اور جن مسائل پر بڑی بڑی کتابیں تصنیف کر ڈالیں، پھر بھی حل نہ کر سکے، ان کو اس کتاب نے ایک ایک دو دو فقروں میں حل کرکے رکھ دیا ہے۔ اگر یہ غریب اس کتاب سے نا واقف نہ ہوتے، تو کیوں اپنی عمریں اس طرح ضائع کرتے! میری اصلی محسن بس یہی ایک کتاب ہے، اس نے مجھے بدل کررکھ دیا، حیوان سے انسان بنا دیا، تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئی ہے، ایسا چراغ میرے ہاتھ میں دے دیا کہ زندگی کے جس معاملے کی طرف نظر ڈالتا ہوں، حقیقت اس اس طرف بر ملا مجھے دکھائی دیتی ہے، کہ گویا اس پر کوئی پردہ ہی نہیں ہے۔ انگریزی میں اس کنجی کو’’ شاہ کلید‘‘ (master key) کہتے ہیں، جس سے ہر قفل کھل جائے، سو میرے لئے یہ قرآن’’ شاہ کلید‘‘ ہے۔ مسائل حیات کے جس قفل پر اسے لگاتا ہوں، وہ کھل جاتا ہے۔ جس خدا نے یہ کتاب بخشی ہے، اس کا شکر ادا کرنے سے میری زبان عاجز ہے!۔