پچیس سال پہلے کی وہ سرد راتیں اور جیل یاترا!!(دوسری قسط)۔۔۔۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:56PM Tue 26 Dec, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........  haneefshabab@gmail.com جیسا کہ میں نے اپنے مضمون کی پچھلی قسط میں کہا تھاکہ پولیس نے براہ راست ایس پی اوم پرکاش کی نگرانی میں فسادات میں ملوث ہندو نوجوانوں ، ہندو جاگرن ویدیکے کے سرگرم لیڈروں اوربھگوابریگیڈ کے دیگر بڑے اورچھوٹے لیڈروں کے خلاف ہلّہ بول دیا تھااورجو بھی ہاتھ لگا اسے سیدھے جیل بھیجنے کی کارروائی جاری تھی۔ غیر مسلم علاقوں میں سنسنی اور خوف کے ماحول کو صاف محسوس کیا جاسکتا تھا۔ پولیس کے ڈر سے غیر مسلم مرد اپنے گھروں سے بھاگ کر نامعلوم مقامات پر روپوش ہوچکے تھے۔ اس طرح بظاہر فسادات کا سلسلہ کچھ تھمتا ہوا نظر آرہا تھا مگر اس کے دو چار دن گزرنے کے بعد پولیس کی طرف سے مسلم نوجوانوں کے خلاف جو نئی کچھڑی پکائی جارہی تھی اس کے سگنل ہمیں ملنے شروع ہوگئے تھے۔ سینئرقیادت کو اس کا علم تھا: اورمسلمانوں کو بھی گرفتار کرنے کاپولیس کا یہ منصوبہ اپنے آپ کو غیر جانبدار ثابت کرنے اور دونوں طبقات کی گرفتاری کا بیلینس قائم رکھنے کے لئے تھا۔ ہمارے بعض سینئر قائدین کوجو کہ پولیس کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہتے تھے اس بات کاپہلے ہی سے علم تھاکہ غیر مسلم لیڈروں کو گرفت میں لینے کے بعد پولیس مسلم نوجوانوں اور ابھرتی ہوئی نئی مسلم قیادت کے کچھ سرگرم لیڈروں کو گرفتار کرنا چاہتی ہے۔لیکن انہوں نے اس صورتحال سے نمٹنے کا کوئی پلان نہیں بنایا۔ہمارے خلاف پولیس کے منصوبے کا پورا علم ہمارے سینئر قائدین کو ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ جب 6دسمبر کو ہم لوگ یوم سیاہ منانے کے سلسلے میں بازار میں سرگرمی دکھارہے تھے تو ہمارے مرکزی ادارے کے ایک کلیدی عہدیداراورمیرے بہت ہی خیر خواہ نے (اللہ ان کی مغفرت فرمائے ) مجھے مٹن مارکیٹ کے پاس روک کربہت ہی رازدارانہ انداز میں متنبہ کیا تھا کہ تم ہوشیار رہو، زیادہ ہلچل نہ کروکیونکہ تم لوگوں کی گرفتار ی طے ہے۔انہوں نے صاف بتایا تھا کہ تمہاری ٹیم سے تم کو گرفتار کیا جائے گا، اور تمہارے ایک اور ساتھی کوجو کہ ہماری ٹیم کا اصل قائد تھا، ( مرکزی ادارے کے ایک اور کلیدی عہدیدار کی مہربانی سے) صرف پوچھ تاچھ کے بعد چھوڑ دیا جائے گا، گرفتار نہیں کیا جائے گا!۔۔۔لیکن اس کے باوجود ہماراموقف یہ تھا کہ:

اصولوں پر جہاں آنچ آئے ٹکرانا ضروری ہے جو زندہ ہو تو پھر زندہ نظر آنا ضروری ہے

منظر اور پس منظر کیاتھا؟: پولیس ہمیں کیوں گرفتار کرناچاہتی تھی، اس کی کوئی اگر وجہ پوچھے تو ہم میں سے بہت سارے لوگوں کے خلاف کوئی فرد جرم تھی ہی نہیں۔ سوائے اس بات کے کہ ہم نے پولیس کی طرف سے مسلمانوں کو تحفظ نہ ملنے اور فسطائی فسادیوں کو کھلی چھوٹ دے رکھنے کے خلاف آواز اٹھائی تھی۔ فساد کے اس منظر نامے پر میں نے جو ایک نظم کہی تھی(جو میرے اولین مجموعۂ کلام" سلگتے خواب 'میں موجود ہے) وہ یوں ہے: وہ ایک پتھر جو دستِ انساں میں آگیا ہے ؍ اس کو گر تم تراش لو تو؍ صنم بنے گا ؍ مندروں میں سجا رہے گا ؍ وہ ایک پتھر ہی تو ہے جو ؍ کسی عمارت کی تہہ میں رہ کر ؍ ہزار پتھرسنبھالتا ہے ؍ اپنے سر پر! ؍ وہ ایک پتھر ہی تو ہے جو ؍ خدا کے گھر کی بناہے زینت ؍ وہ ایک پتھر ہی تو ہے جو ؍ چرچ بن کر کھڑا ہوا ہے ؍ مگر وہ پتھر ؍ جو دستِ شر میں مچل رہا تھا ؍ اچھل پڑا تو؍ ہزار فتنے جگا گیا ہے ؍ کبھی یہ مسجد کے گنبدوں پر ؍ گرا ہے آکر ؍ کبھی یہ مندر یا رتھ پہ گر کر ؍ سکون شہروں کا لوٹتا ہے ؍ لہو کے دریا اچھالتا ہے ؍ مسرتوں کے گلاب سارے جھلس گئے ہیں ؍ محبتوں کے سہانے سپنے اجڑ گئے ہیں ؍ نہ جانے کیسی وحشیانہ ہوا چلی ہے ؍ کہ جنگلوں کے درندے سارے ؍ دبائے دانتوں میں انگلیاں یہ سوچتے ہیں؍ کہ شہر ویران کیوں پڑے ہیں؟ ؍ کہ جنگلوں میں سکون کیوں ہے ؟! گرفتاری کی پہلی ناکام کوشش: غالباً 10یا 11دسمبر کی شام کا وقت تھا جب پولیس کی طرف سے ہمارے خلاف کارروائی پر عمل در آمد کا پہلا اقدام ہواجو ناکام رہا۔ہوا یہ کہ ہمارے ٹیم کے ایک نہایت سرگرم رکن جناب پرویز قاسمجی کسی کام سے تحصیلدار کے دفتر گئے ہوئے تھے، اس زمانے میں پولیس اسٹیشن بھی اسی احاطے میں ہواکرتا تھا۔ پولیس نے سب سے پہلے پرویز قاسمجی پر ہی ہاتھ ڈالنے کا منصوبہ بنایا اور انہیں گھیرنے کی تیاری کرلی۔ اتفاق سے اس کی بھنک پرویز صاحب کو لگ گئی اور وہ فوراًوہاں سے کھسکنے لگے۔ پولیس نے آگے بڑھ کر انہیں دبوچنے کی کوشش کی تو وہ کسی طرح چھلانگ لگا کر پولیس کے گھیرے سے فرار ہونے اور محفوظ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔پھر انہوں نے ہم سے ٹیلی فون پر رابطہ قائم کیا اورصورتحال سے واقف کراتے ہوئے محتاط رہنے کا پیغام دیا۔ ہم نے بھی منصوبہ بندی کی: چونکہ پولیس کے نشانہ پر مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی نوجوان قیادت تھی اس لئے ہم نے سوچا کہ اب ہم لوگوں پر آفت آنا طے ہے۔اور جب ہم نے جان بوجھ کر قوم و ملت کے مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے ملّی تحفظ اور حقوق کے لئے سرگرمی سے سماجی ذمہ داری نبھائی تھی تو پھر اس طرح کے خدشات اس راستے میں لازمی تھے۔ اور اگر ہم سب روپوش ہوگئے تو پھر پولیس خواہ مخواہ دیگر بے قصوروں کواٹھا کر لے جائے گی۔اس لئے ہم لوگوں نے منصوبہ بندی کی کہ ہم میں سے کچھ لوگ گرفتار ہونے کے لئے تیار رہیں، لیکن ہماری ٹیم کے اہم ساتھی پرویز قاسمجی کسی قیمت پر پولیس کے ہاتھ نہ لگیں، تاکہ وہ باہر رہ کر ہماری رہائی کے لئے قانونی کارروائی انجام دے سکیں۔ ہم جانتے تھے کہ ان کے علاوہ کوئی دوسرا سینئر لیڈر اس سلسلے میں زیادہ دلچسپی نہیں دکھائے گا اور کوئی مؤثر کارروائی انجام نہیں دے گا۔کیونکہ پولیس کے منصوبے سے پیشگی آگاہی کے باوجود ہمارے تعلق سے سینئر لیڈرشپ کی بے اعتنائی ہمیں صاف دکھائی دے رہی تھی۔ پھر شروع ہواگرفتاریوں کا سلسلہ: پھر غالباً 12دسمبر93سے گرفتاریوں کاسلسلہ شروع ہوا۔صبح دس بجے کے قریب چند پولیس والے میرے دوا خانے(جو کہ میری رہائش گاہ بھی تھی) پر آئے اور کہا کہ پولیس سپرنٹنڈنٹ نے کسی معاملے میں بات چیت کے لئے مجھے پولیس اسٹیشن بلایا ہے اور وہ مجھے اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہیں۔ چونکہ پہلے سے ہی اس دعوت نامے کی اطلاع تھی، بلکہ اس کا انتظار چل رہاتھا، تو میں نے کہا آپ لوگ چلے جاؤ ، بس تھوڑی دیر میں خودپہنچ جاؤں گا۔ اس وقت میری بہن کی طبیعت بہت ناساز تھی اور پوری فیملی ڈاکٹر گونسالویز کے اسپتال میں تھی تو میں اپنی اسکوٹر پر سیدھے اسپتال پہنچا، گھر والوں کو اطلاع دی کہ شاید کچھ دن سرکاری مہمان بننا پڑے گا۔ ان کی ہمت بندھائی اور اپنی اسکوٹر اسپتال کے احاطے میں چھوڑکررکشہ کے ذریعے پولیس اسٹیشن پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر کیا دیکھتا ہوں کہ مجھ سے پہلے ہی کچھ نوجوانوں کو پولیس یہاں وہاں سے اٹھا کر اسٹیشن لا چکی ہے۔ اور یکے بعد دیگرے پولیس جیپ میں ٹھونس کرنوجوانوں کو لانے کا سلسلہ جاری ہے۔ پورا دن سب جیل کے ورانڈے میں : ہمیں پتہ نہیں تھا کہ معاملہ کیا رخ اختیار کرنے والا ہے۔ہم میں سے بہت سارے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ پوچھ تاچھ، ڈانٹ ڈپٹ یا پھر 107کے مقدمات درج کرکے ہمیں ذاتی بانڈ پر رہا کردیا جائے گا۔جب دس بارہ لوگ جمع ہوگئے توسب انسپکٹرنے ہم لوگوں کو ایس پی کے سامنے پیش کیا ۔ اس نے نام وغیرہ پوچھے اور سب انسپکٹر سے کنڑا میں پوچھا کہ "ایشٹو کوُری آئیتو؟"(یعنی کتنے بکرے مل گئے! )  اس نے کچھ تعداد بتائی ، ایس پی نے کوئی اشارہ کیا اورپھر ہم سب کو اسی احاطے میں موجود سب جیل کے محفوظ ورانڈے میں قید رکھا گیا۔ اس دوران مزید کچھ نوجوانوں کو لایا گیا،دہشت ڈالنے کے لئے تھوڑی بہت پیٹائی بھی کی گئی اور انہیں بھی ہمارے ساتھ لاکر ٹھونس دیا گیا۔ میرے علاوہ میرے دونوں بھائی مشتاق اور قمرالدین کو بھی پکڑ کر لایا گیا تھا۔جناب ایس ایم سید عبدالقادر، نثار رکن الدین، ذی شان خطیب ، امتیاز ادیاور کے بھائی (غالباً اشتیاق)،قاسمجی پرویز کے بہنوئی ظفراللہ اور دیگر نوجوانوں کے (مزید نام اب یاد نہیں رہے)ساتھ ہماری تعداد 22تھی۔ صبح سے عصر تک بھوکے پیاسے ہم لوگ ایک غیر یقینی صورتحال کے ساتھ اور بہت ذہنی اذیت اور کوفت برداشت کرتے ہوئے سب جیل کے ورانڈے میں پڑے رہے۔ دکھ، الجھن، خوشی سب ایک ساتھ: اب سوچتے ہیں تو افسوس اور دکھ ہوتاہے کہ اس وقت کی ہماری بہت ہی بارسوخ اور بااثر سینئر قیادت کی طرف سے ہماری خبر گیری کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ہمارے بعض ساتھی انتہائی تناؤ اور چڑ چڑے پن کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔ اسی دوران عصر سے شام کا وقت قریب آرہا تھا تو ہم سب کو تعلقہ میجسٹریٹ (تحصیلدار) کے سامنے پیش کیا گیا۔ اس نے ہم سب سے مخاطب ہوکر بس ایک سوال پوچھا :"کیا تم لوگ نہیں چاہتے کہ بھٹکل میں امن اور شانتی قائم رہے؟"ہم نے جواب دیا کہ بالکل ہم یہ چاہتے ہیں۔اس کے بعد کاغذات پر ہمارے دستخط لیے گئے اور واپس سب جیل کے ورانڈے میں لاکر قید کیا گیا۔پولیس کی طرف سے ہمیں ہوٹل سے ناشتہ یا کھانا منگوانے کی اجازت دی گئی۔ ہم سب خوش ہوگئے کہ بس اب دیگر کاغذی کارروائی کے بعد شام تک رہائی ہوجائے گی۔ مگر یہ بھی ہماری خام خیالی تھی۔۔۔ اگلا سخت مرحلہ بس آنے ہی والا تھا!

دکھ ہی تھا ایسا کہ رویا ترا محسنؔ ورنہ غم چھپا کر اسے ہنستے ہوئے اکثر دیکھا

  (۔۔جاری ہے۔۔ اگلی قسط ملاحظہ کریں) (اس مضمون میں تحریر کردہ مواد مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے۔اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضرور ی نہیں)