الیکشن کی سیاست اور مسلمان

از: حفیظ نعمانی
مولانا ابوالکلامآزادؒ کو امام الہند مانیں نہ مانیں لیکن ان کی فراست کے بارے میں صرف ان کے مخالف ہی مخالفت کرسکتے ہیں ورنہ یہ سب نے تسلیم کیا ہے کہ وہ ملک اور مسلمانوں میں سب سے زیادہ دور اندیش تھے۔ ہم ان خوش نصیبوں میں ہیں جنھوں نے اس لکھنؤ میں انہیں تقریر کرتے ہوئے دیکھا اور سنا تھا اور انھوں نے 1948میں جیسے درد بھرے انداز میں کہا تھا کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا لیکن اب ہندوستان میں مسلمانوں کو اپنی الگ کوئی سیاسی پارٹی بنانے کی ضرورت نہیں اور مولانا نے جمعیۃعلماء ہند سے بھی جو ان کے ساتھ کانگریس میں سرگرم تھی کہا تھا کہ جمعیۃ کے جو حضرات الیکشن لڑنا اورسیاست میں حصہ لینا چاہتے ہیں وہ انفرادی طور پر یا کانگریس کے ٹکٹ سے الیکن لڑیں۔
مولانا آزاد کے اس حکم اور درمندانہ مشورہ کے بعد ہی جمعیۃ علماء ہندنے سیاست سے کنارہ کشی کرلی اور تعلیمی کام کرنے کا منصوبہ بنایا اور اس جمعیۃ کے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مولانا محفوظ الرحمن نامی، مولانا سعید سلطان پوری، مولانا منظور النبی خان جہاں پوری، مولانا شاہد فاخری اور بہت سے عالم کانگریس کے ٹکٹ پر الیکشن لڑتے رہے۔ مولانا آزاد نے مسلمانوں کو کانگریس میں آنے پر مجبور نہیں کیا تھابلکہ صاف صاف کہا تھا کہ اپنی پا رٹی کے بجائے موجودہ سیاسی پارٹیوں میں جسے پسند کریں اس میں شامل ہو کر سیاست میں حصہ لیں اور اسی وجہ سے مولانا اسحاق سنبھلی ہمیشہ کمیونسٹ پارٹی میں رہے اور جمعیۃ علماء سے بھی وابستہ رہے۔
جنوبی ہند اور ملک کا باقی حصہ الگ ہے۔ جنوبی ہند میں ہندو بہت کم ہیں جو دراوڑ ہیں ان میں اکثریت لامذہب ہے یا بودھ ہیں۔ مسلم لیگ اور کانگریس کے درمیان جو کشمکش باقی ہندوستان میں تھی وہ جنوبی ہند میں نہیں تھی اور دراوڑوں کو پاکستان اور مسلم لیگ سے وہ نفرت نہیں تھی جو باقی ہندوستان کے ہندوؤں کو تھی اور انہیں اس کی بھی شکایت نہیں تھی کہ جنوبی ہند کے مسلمان مسلم لیگی کیوں ہیں؟ ملک کی تقسیم اور پاکستان بن جانے کے بعد بھی مدراس (جو اب چنئی ہے) اور کیرالا میں نہ صرف مسلم لیگ باقی رہی بلکہ ہر مسلمان اس وقت بھی مسلم لیگی تھا اور آج بھی مسلمانوں کی اکثریت مسلم لیگی ہے۔ لیکن باقی ہندوستان میں لاکھوں مسلمان صرف اس لیے جیل بھیج دئے گئے کہ ان کے گھر یا دکان پر ٹنگے کیلنڈر پر جناح صاحب کی تصویر لگی تھی یا ہرا جھنڈا لگا تھا یا وہ پاکستان ریڈیو سن رہے تھے۔ مسلم لیگ کا نام لینا تو دور کی بات تھی۔
یہ تو بہت بعد میں یعنی 1964میں ہوا کہ مسلم مجلس مشاورت بنی لیکن انتخابی سیاست سے دور دور پھر اس کے اندر سے ہی مسلم مجلس نکلی جس نے الیکشن میں حصہ لیا۔ پھر مسلم لیگ بھی جنوبی ہند سے ڈولی میں بٹھا کر لائی گئی اور اس کے بعد تو ہر صوبہ، ہر شہر اور ہر شوقین مزاج نے ایک پارٹی پال لی مجلس اتحاد المسلمین شمالی ہند کی ان پارٹیوں میں نہیں ہے جو مشاورت کے بعد پیدا ہوئی ہیں بلکہ یہ حیدرآباد میں صلاح الدین اویسی صاحب نے بنائی تھی اور حیدرآباد کا مسئلہ نہ وہ ہے جو شمالی ہند کا ہے اور نہ وہ جو جنوبی ہند کا ہے۔ بلکہ وہ ایک الگ چیز ہے جہاں دو بار جانے کا اتفاق ہوا اور دونوں بار ٹیکسی ڈرائیور نے معلوم کیا کہ کیا آپ انڈیا سے آئے ہیں؟ اویسی صاحب نے حیدرآباد کے مسلمانوں کو احساس محرومی اور احساس کمتری سے نکالنے کے لیے یہ پارٹی بنائی تھی اور حیدرآباد میں خود پارلیمنٹ کا بھی الیکشن لڑا اور مسلمانوں کو اسمبلی کا الیکشن بھی لڑایا اور یہ حقیقت ہے کہ ان کا جو مقصد تھا وہ پورا ہوگیا۔
مرحوم صلاح الدین اویسی مسلم مجلس مشاورت اور مسلم پرسنل لاء بورڈ میں سب کے دوش بدوش رہے لیکن اپنے کو سیاسی اعتبار سے آندھرا تک محدود رکھا۔ اب ان کے بڑے بیٹے اسد الدین اویسی پارلیمنٹ کے ممبر ہیں اور اکبر الدین اویسی اسمبلی کے ممبر ہیں۔ اور اب وہ بے وجہ اور بے ضرورت یا کسی خاص وجہ اور کسی خاص ضرورت کے لیے ملک میں ہر اس جگہ ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں جہاں مسلمان معقول تعداد میں ہیں۔ ان کا نشانہ وہ سیکولر پارٹیاں ہیں جو فرقہ پرست پارٹیوں اور تنظیموں سے اپنی سیاست چلانے کے لیے برسر پیکار رہتی ہیں اور ان کا سب سے بڑا سہارا مسلمان ہیں اس لیے وہ مسلمانوں کو بھی ٹکٹ دے دیتی ہیں اور حکومت بنی تو وزیر بھی بنادیتی ہیں۔
ملک کی مسلم پارٹیوں میں صرف ایک پیس پارٹی نے ۲۰۱۲ء سے کہنا شروع کیا ہے کہ وہ حکومت بنائیں گے اور خود وزیر اعلیٰ بنیں گے۔ یہ بات ۲۰۱۲ء میں بھی انھوں نے کہی تھی اور پوری تیاری کے ساتھ الیکشن لڑا مگر دو سو ووٹوں کی کسر رہ گئی یعنی ۲۰۴ کے بجائے چار امیدوارجیت گئے دو سو اور جیت جاتے تو وہ وزیر اعلیٰ ہوتے۔ اس سال انھوں نے دو دلتوں کو ساتھ ملایا تھا مگر کافی دنوں سے صرف میں اور میری پارٹی کا اشتہار آرہا ہے جس سے شبہ ہوتا ہے کہ جیسے ۲۰۱۲ء کے جیتے ہوئے تینوں ممبر بھاگ گئے تھے شاید ایسے ہی دونوں دلت لیڈر اپنی اپنی پارٹی لے کر بھاگ گئے۔
اسد الدین اویسی صاحب نے بھی بار بار کہا کہ ہم مایاوتی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑنا چاہ رہے ہیں لیکن اندازہ یہ ہوا کہ یہ ایسی ہی چاہت تھی جیسے ڈاکٹر ایوب کی وزیر اعلیٰ بننے کی چاہت۔ کہ مایاوتی کے مسلم ٹھیکہ دار نسیم الدین صدیقی سے بھی ان کی ملاقات کا ذکر نہیں آیا۔ جبکہ ان کے دیکھتے دیکھتے دو سیاسی پارٹیوں نے آپس میں معاہدہ کیا ہے کہ ۱۰۵ پر کانگریس لڑے گی اور ۲۹۸ پر سماج وادی پارٹی۔ اس کے لیے ایک آواز اکھلیش کی آئی کہ اگر کانگریس ہمارے ساتھ مل کر لڑے گی تو ۳۰۰ سیٹیں ہم جیت کر لائیں گے اور راہل کے نمائندے پرشانت کشور مسلسل مذاکرات کرتے رہے لیکن اویسی صاحب کو نہ مایاوتی نے آواز دی نہ اویسی نے ان کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ یہ آج کی نہیں ہمیشہ کی بات ہے کہ مسلمان دلت بھائیوں کو قریب لاتے ہیں لیکن وہ بھاگ جاتے ہیں۔ سب سے پہلے علی گڑھ میں بی پی موریہ اور بصیر احمد نے مل کر پارلیمنٹ اور اسمبلی کا الیکشن لڑا۔ اور پہلی بار یہ نعرہ گونجا کہ بھنگی مسلم بھائی اور موریہ پارلیمنٹ جیتے اور بصیر صاحب اسمبلی کا الیکشن اور پھر موریہ کانگریس میں چلے گئے۔ ڈاکٹر فریدی صاحب نے چھیدی لال کو سڑک سے اٹھا کر لیڈر بنایا اور جب وہ ایک مقبول لیڈر بن گئے تو کانگریس نے ایم ایل سی بنا کر اپنا غلام بنالیا۔ یہ دلتوں کی فطرت ہے کہ وہ باعزت نہیں بننا چاہتے۔ ہندو بننا چاہتے ہیں۔ مسلمان گھسیٹ گھسیٹ کر لاتے ہیں اور تخت شاہی پر بٹھاتے ہیں لیکن وہ اپنی منزل پنڈت جی اور ٹھاکر صاحب کے جوتوں کے پاس کی زمین کو سمجھتے ہیں اور مایاوتی نے جو دلتوں سے اتنا فاصلہ رکھا اور اپنی مورتیاں بنوائیں وہ اس لیے کہ غلام ذہنیت کی آسودگی کے لیے وہ خود دیوی بن جائیں او ر یہ ہونے لگا کہ مایاوتی جہاں بیٹھ کر اٹھتی ہیں اس جگہ کو دلت ماتھا ٹیکنے لگے اور پیار کرنے لگے ہیں۔ (جاری)
موبائل نمبر:9984247500