افتخار امام صدیقی کو ۔ ہندی والوں کا اعزاز دینا

تحریر: ندیم صدیقی
کوئی بیس بر س اُدھر کی بات ہے کہ ہم نے ایک ایسے معذور امریکی شخص کو دیکھا کہ جو دونوں ٹانگوں سے محروم تھا کسی حادثے میں اُس کی ٹانگیں چلی گئی تھیں مگر وہ جو کہتے ہیں حوصلہ اور ہمت ہو تو کسی طرح کی جسمانی معذوری کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ اس امریکی معذور شخص کی جرأت ، ہمت نیز حوصلے کوہم بھلا نہیں سکے۔ اُس کی دونوں اصلی ٹانگوں کی جگہ مصنوعی ٹانگیں لگی ہوئی تھیں اور وہ معذورں کی ایک ریس میں حصہ لے رہا تھا۔۔۔۔۔
ہمارے ہاں اس کے برعکس ہوتا ہے اگر کوئی کسی حادثے کے نتیجے میں معذور ہوجائے تو لوگ اُس پر ہر وقت ’نظرِ رحم‘ کرتے رہتے ہیں اگر حادثے کا شکار شخص کچھ حوصلہ اورہمت کا حامل ہو بھی تو یہ بےچارے’’ رحم دل‘‘ حضرات اسے اور معذور کر دیتے ہیں۔ ہمارے برادرِ عزیز افتخار امام صدیقی جو 2002میں ایک ٹرین حادثے میں زخمی ہوئے اور پھر لگاتار کوئی نہ کوئی افتاد اُن کو آزماتی رہی۔ پندرہ برس ہورہے ہیں کہ وہ صاحبِ فراش ہیں اب تو یہ حالت ہے کہ اپنی فطری حاجت و غیرہ کیلئے بھی وہ براد رم ناظر نعمان مانی پر منحصرہیں۔ مگر انکے حوصلے اور ان کی ہمت کی داد دِی جانی چاہیے کہ وہ اپنے بزرگوں کی وراثت کو نہ صرف زندہ رکھے ہوئے ہیں بلکہ صوری اور معنوی طور پر’’ شاعر‘‘ جیسے تاریخی رسالے کو متنوع کر دار اورایک تاریخی تسلسل سے ہم کنار کر رکھا ہے۔
افتخار امام صدیقی ابتدا ہی سے بعض جسمانی کمزوریوں سے جوجھ رہے تھے، کہتے ہیں کہ اس طرح کےلوگوں کی ہڈیاں بہت کمزور ہوتی ہیں۔ ظاہر ہے یہ صورتِ حال تو ایک طرح سے فطری یا پیدائشی سمجھی جاتی ہے مگر اللہ کا کتنا احسان اور کرم ہے کہ ٹرین حادثے کے شکار اور پھر گھر میں، ان کے گرنے کے سبب ہڈیوں کا ٹوٹنا ،مگر قربان جائیے ان کے حوصلے اورہمت پر کہ ان کی ہڈیاں تو ٹوٹیں مگر ذہنی طور پر وہ اب بھی زندہ سلامت ہیں اسی مدت میں انہوں نے ماہنامہ شاعر ؔکے، جیسے خاص شمارے ترتیب دِیے وہ ان کی ذہنی صحت ہی نہیں بلکہ ان کے دل و دماغ کے رنگ و رنگینی کےپرتو بنے ہوئے ہیں۔ ہماری ناقص یاد داشت کے مطابق افتخار امام صدیقی نے ماہنامہ شاعر ؔکی باگ ڈور اپنے والد بزرگوار حضرت اعجاز صدیقی کی رِحلت کے بعد برادر ِبزرگ تاجدار کی ایما پر سنبھالی تھی ،یہ مارچ1978 کا زمانہ تھا۔ ذرا سوچئے کہ اس مدت کو بھی چار دہے ہونے والے ہیں کسی رسالے یا کسی مجلے کی تیس سالہ ادارت کیا کوئی معنی نہیں رکھتی۔؟۔۔ اور پھر حادثے کا شکار ہونا اور بستر سے لگ جانا۔۔۔ کیسی معذور ی ہے۔۔۔!!! ہم پھر اُن کے حوصلے اور ہمت کی داد دیتے ہیں کہ اسی مدت میں پے بَہ پے ان کے خانوادے میں اموات کا ہونا بھی کس قدر جانکاہ تھا۔ فروری 1978میں حضرت اعجاز صدیقی کادُنیا سے سِدھارنا اور چند برس گزرے ہوںگے کہ کچھ ایسا لگ رہا تھا کہ ’’شاعر ‘‘ گھرانے پر افلاس و دُکھ در د کے جوبادل چھائے ہوئے ہیں وہ دور ہوجائیں گے کہ برادر م تاجدار احتشام کا حصولِ معاش کےلئے عرب دیس کو روانگی۔۔۔ واضح رہے کہ اُس زمانے میں اُردو زبان کے شاعر و ادیب اور اساتذہ پر موٹی تنخواہوں اور نذرانوں کے دَر نہیں کھلے تھے ۔ اُردو کو پیشہ بنانا اور اس سے پورے کنبے کی کفالت کا تصور ہی بے معنیٰ سا تھا مگر کیا کِیا جائے کہ اس خانوادے کا گزارا اُردو کے اسی رسالے ’’ شاعر‘‘ سے ہو تا تھا۔ حضرتِ اعجاز صدیقی بہَ فضل ربی کثیرالآل تو تھے مگر صاحبِ مال نہیں تھے۔ خیر اس پر تبصرے کا کوئی محل نہیں مگر کس درجہ مصیبت کا ایک پہاڑ ٹوٹا ہوگا جب 5 فروری1981 کو تاجدار احتشام بھی اللہ کو پیارے ہوگئے۔صرف اس کا خیال ہی ہمارے لئے جاں سوز ہے اب ذرا سوچئے کہ جن پر یہ ناگہانی گزری تھی ان کا کیا عالم رہا ہوگا۔ مگر افتخار امام صدیقی کی ہمت اور ایثار کا کوئی جواب نہ تو اس وقت ہمارے سامنے تھا نہ ہی دور قریب ہمارے معاشرے میں آج اس طرح کا کوئی نمونۂ کردار دِکھائی دیتا ہے۔ اللہ نے اُن پر مشاعروں کے دَر کھول دِیے ا ور وہ پورے ملک میں نہیں دُنیا بھر کے مشاعروں میں یاد ہی نہیں کیے گئے بلکہ نوازے گئے۔۔۔۔ یہ ایثار نہیں تو کیا ہے کہ اپنے برادر زادی( بنتِ تاجدار احتشام) کو پڑھا لکھا کر نہ صرف ڈاکٹر بنوایا بلکہ اس کے ہاتھ بھی پیلے کئے۔ اِس وقت جبکہ نفسی نفسی کا عالم ہے، ایسےمیں ایک باکردار، باایثار شخص ہم میں موجود ہےجو بڑی بات ہے ۔۔۔۔ سانحات نے تو’ شاعر‘ خاندان کو جیسےتاڑ رکھا تھا۔ اس خاندان نے جس طرح کے مصائب کا سامنا کیا وہ تو ہےہی مگر ان حالات میں سب کے سب ثابت قدم رہے۔ ورنہ ایک جھٹکا ہی کافی ہے پورے شیرازے کو بکھیر دینے کیلئے۔ برادرم رئیس(آرٹسٹ) کا گزرنا ، بہن رانی کی رِحلت اور پھر سب سے بڑی اُفتاد یہ تھی کہ اس خاندان کی حرمت، تمام بچوں کی تربیت اور نا مساعد حالات کے باجودثابت قدمی کی بنیاد بیگم اعجاز صدیقی کا بھی دُنیا سے اُٹھ جانا۔ مگر افتخار امام صدیقی کا حو صلہ اور ہمت باقی رہی۔
یاد آتا ہے کہ محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی دراصل حالات کے مارے اس خاندان کی سب سے بڑی طاقت و قوت تھیں۔ ممبئی کے بد نام ِزمانہ علاقے میں رہتے ہوئے اپنے بچوں کی جس طرح پالا اور تربیت کی وہ تو آج شاید و باید ہی دیکھنے کو ملے۔ اُس زمانے میں ممبئی کا وہ کون ادیب و شاعر تھا جو اِس گھرانے کی شفقت سے محروم رہا ہو وہ نداؔ فاضلی ہوں یا یونسؔ اگاسکر ان حضرات کو شاعر گھرانے نے نہ صر ف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ بُرے دِنوں میں اُن کا بہر طور خیال بھی رکھا۔
دراصل حضرتِ سیماب ؔاکبر آبادی اور محترم اعجاز صدیقی نے ماہنامہ شاعرؔ اور شاعر خانوداے کو ایک برانڈ تو یقیناً دِیا مگر اس برانڈ کو بنانے اور اس کی حرمت کو زندہ رکھنے میں محترمہ نسیم بانو اعجاز صدیقی کا کردار بہت اہم ہی نہیں بلکہ اساسی نوعیت کا حامل ہے۔ مجھے کہنے دِیجیے کہ آج یہ ہمارے’ شاعربرادر‘ جو کچھ ہیں وہ سب مرحومہ نسیم بانو جیسی مثالی خاتون کی مرہونِ منت ہیں ۔ افتخار امام صدیقی کا وہ گریہ میں نہیں بھولتا جب دیناتھ بلڈنگ کے نیچے سے ان کی والدہ کا جنازہ لے جایارہا تھا توبھائی افتخارؔ نے کسی چھوٹے بچے کی طرح ہچکیوں کے ساتھ روتے ہوئے کہا تھا: ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امّی! مجھے چھوڑ کر کہاں جا رہی ہو۔!
ایک واقعہ ذہن میں تازہ ہو رہا ہے۔ جب حضرتِ اعجازِ صدیقی کا انتقال ہوا تو شہر کے ایک اُردودوست ایس ایس (شانتی سروپ)نشاط نے اپنے ہاں بیگم اعجاز کو بلایا اور ایک خطیر رقم سے بھرا بیگ اعجاز مرحوم کے بیٹے کو دینا چاہا تو اس وقت مرحومہ نسیم بانو کی غیرت اور نیک نفسی عود کر آئی اور انہوں نے نشاط صاحب کو لا جواب کر دیا تھا۔ محترمہ نے نشاط صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ جناب ! آپ ہمارے بچوں کو بھیک کی ترغیب دے رہے ہیں۔ نشاط صاحب یہ جملہ ٔ غیرت سن کر سناٹے میں آگئے اور پھر کچھ توقف کے بعد انہوں نے کہا بتائیے، ہم کیا کر سکتے ہیں آپ لوگوں کےلئے؟ تو محترمہ کا جواب تھا: کچھ ایسا کر دِیجیے کہ شاعر کا سہارا ہو جائے، یہ جاری رہے۔
آج شاعرؔ کے جو قارئین ہیں وہ اس امر سے باخبر ہونگے کہ ’شاعر‘ کے سرورق کے آخری حصے پر خضاب کا جو اشتہار برسہا برس سے دیکھا جارہا ہے وہ انہی شانتی سروپ نشاط کی کمپنی کا ہے ، یہاں اس وراثت کی پاسداری کی داد نہ دینا بھی ہمارے نزدیک کسی کفر سے کم نہیں کہ نشاط صاحب کو آنجہانی ہوئے مدت گزر گئی مگر ان کے وارثین نے اپنے بزرگ کی روایت کو آج بھی زندہ رکھا ہے۔ فرقہ واریت اور خود غرضی کے اس دور میں یہ ساری باتیں سننے والوں کو نجانے کیسی لگتی ہوں۔
تاریخ علم سے بنتی ہے یا نہیں، مگر اس کی اساس میں عمل ہی کارگر ہوتا ہے۔ کیسے لوگ تھے اور کیسی تاریخ چھوڑ گئے۔ذرا سوچئے کہ محترمہ نسیم بانو اور آنجہانی نشاط کا زندہ کردار نہ ہوتا تو کیا آج ’’شاعر‘‘ ہوتا اور شاعر خاندان کے یہ ستارے بھی اسی طرح روشن ہوتے۔ ۔۔!!
عزیزو! علم ،صرف قطب نما ہے وہ تو آپ کی منزل کی نشاندہی کرتا ہے اور وہ عمل ہی ہے جو منزل پر پہنچاتا ہے۔ لہٰذا عمل عمل عمل۔
ہم ذاتی طورپر افتخار امام صدیقی کو’’ شبدستا‘ ‘ایوارڈ دینے والوں کو مبارک باد دیتے ہیںکہ جو عمل اُردو والوں کے ’ذہن ِزر خیز‘ میں نہیں آیا وہ آپ کر گزرے۔ پھر اُنہی شبدوں کو دُہراتے ہیں کہ۔۔۔ عمل عمل عمل۔ ندیم صدیقی
(یہ مضمونچہ افتخار امام صدیقی کی اعزازی تقریب(جمعہ ۲۷ جنوری۲۰۱۷) میں پڑھا گیا۔)