سچی باتیں ۔۔۔ دنیا کی لگاوٹ ۔۔۔ تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی مرحوم

اِنَّ الَّذِیْنَ لَایَرْجُوْنَ لِقَاء نَا وَرَضُوْا بِالْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَاطْمَأَنُّوْا بِھَا وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنْ آ یا تِنَا غَافِلُوْنَ * أُوْلٰئِکَ مَأْوٰھُمُ النَّارُ بَمَا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ ۔ یونس ع ۱ جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے اور دنیاکی زندگی پر راضی ہیں او ر اسی پر مطمئن ہوگئے ہیں اور جو لوگ ہماری نشانیوں سے غافل ہیں ایسے ہی لوگوں کا ٹھکانہ آگ ہے ،اس کے بدلے میں جو کچھ وہ کرگئے۔ آیۂ پاک کے آخر میں بعض لوگوں کے حق میں ارشاد ہوتا ہے کہ انھوں نے جیسے جیسے عمل کیے جو کچھ کیا دھرا جس طور پر زندگی بسر کی اس کے عوض میں ان کا ٹھکانہ آگ ہے، انھوں نے اپنے کو اپنی اس آتشی زندگی کے لئے تیار کیا انھوں نے اپنے میں اس کی صلاحیت ہی باقی نہ رکھی کہ جنت کی خوشگوار ہوا اور لطیف پانی سے اعلیٰ سے اعلیٰ روحانی نعمتوں اور مسرتوں سے کچھ لطف و سرورحاصل کرسکیں یہ لوگ کون ہوتے ہیں ؟ جن کا یہ ہولناک انجام بتایا گیا ہے وہ کون سے لوگ ہوتے ہیں؟ ان کی علامتیں اور شناختیں کیا ہیں؟ آیت کے ابتدائی اور درمیانی حصوں میں انھیں سوالات کا جواب ہے یہ بدنصیب لوگ ہوتے ہیں (۱)جو اللہ سے ملنے کی کوئی امید نہیں رکھتے (۲)اسی مادی وناسوتی دنیا پر راضی ہیں (۳)اسی زندگی پر مطمئن ہوگئے ہیں (۴)اور اللہ کی نشانیوں سے غفلت برتتے رہتے ہیں ۔ بیان علامات میں انتہائی حکیمانہ شان سے ایک خاص تدریج اور ترتیب بھی مرعی رہی ہے پہلی علامت یہ بتائی کہ قلب میں آخرت کی طرف سے غفلت و بے پروائی ، بے تعلقی پیدا ہوجاتی ہے ، انسان اپنے کھانے پینے ، ملنے جلنے ، بولنے چالنے ، دنیا کے مشاغل میں ایسا منہمک ہو جاتاہے کہ اسے یہ یاد ہی نہیں رہ جاتا کہ آخر ان اعمال کی جواب دہی بھی کبھی کرنی ہے ، گمراہی کی بنیاد یہیں سے پڑتی ہے رفتہ رفتہ وہ اپنے انھیں مشاغل میں خوش اور مسرور رہنے لگتاہے اس کا دل اسی مادی دنیا سے لگ جاتا ہے ، آخرت سے اور اللہ سے بے تعلقی اس کے قلب میں رچ جاتی ہے، یہاں کے مکروہات سے کوئی انقباص و تنقص نہیں رہ جاتا یہ دوسری منزل ہوئی تیسری منزل میں نوبت یہ پہنچ جاتی ہے کہ آخرت کے تذکروں کا بھولے سے بھی خیال نہیں آتا اور دل آرام وراحت انھیں دنیوی چرچوں اور اور مشغلوں سے پانے لگتا ہے ’’اطمینان‘‘ کا درجہ’’رضا مندی‘‘ سے بہت بڑھا ہوا ہے اب اسے اس موجودہ زندگی کے ساتھ محض رضا مندی ہی نہیں اطمینان کی بھی کیفیت پیدا ہوجا تی ہے اور آخرت کا خیال مستقلاً نہ سہی ، اکثر بھی نہ سہی اب کبھی کبھی چونک کر بھی نہیں آتا ۔ اعاذاللّٰہ منھا سب سے آخری منزل ان لوگوں کی ہے جو قدرتِ حق کی بڑی سے بڑی نشانیاں دیکھتے ہیں جب بھی ان کا ذہن قادرِ مطلق کی طرف منتقل نہیں ہوتا محض ظاہری اسباب اور مادی تدبیروں میں الجھا ہوارہتا ہے ، طاعون ، ہیضہ ، زلزلہ، جو ان عزیزوں اور دوستوں کی اچانک موت یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہتے ہیں لیکن برابر ہر واقعہ سے غفلت ہی برتتے چلے جاتے ہیں عبرت کسی واقعہ سے بھی حاصل نہیں کرتے اور مسبب الاسباب کی جانب بھولے سے بھی توجہ نہیں کرتے! عالمِ آخرت اس عا لمِ ناسوت سے بالکل بے تعلق کوئی مستقل عالم نہیں ، اسی عالم کے تسلسل اور تکملہ کا نام ہے آج غیب کے کشف کامل کا نام ہے، جن کے دلوں پر آج مادیت و حیوانیت اس درجہ غالب آچکی ہے ، وہ کل کیونکر نعماء الٰہی سے فائدہ اٹھا سکیں گے؟ گربر کا کیڑا اگر عطردان میں رکھ دیا جائے تو پھٹ سے مر جائے گا جنھوں نے آج اپنی صلاحیتوں کو یوں مردہ وبرباد کررکھا ہے انھوں نے اپنے ہاتھوں اپنا ٹھکانہ آج آگ میں تیار کر رکھا ہے اورمناسبت اسی آگ کی جلن اور کھولن ، سوزش اور تڑپ سے پیدا کر رکھی ہے!