ابھی ایک ’عید میلے‘ سے واپس آۓ ہیں ، اس خیال کے ساتھ کہ‘زمانہ کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے ۔ ‘اپنے پیارے شہر لکھنؤ سے شکاگو تک کے ’سفر زندگی ‘ نے کیا کیا منظر دکھلاۓ اور کیا کیا حیران کن تبدیلیاں نظر نواز کی ہیں ، ایک ایسے سادہ سے متوسط اور ’توکل علی اللہ‘والے ماحول مین پرورش پانے کی ’عادت ‘ ابھی تک اکثر دل دماغ کو ’جھنجھوڑ‘ دیتی ہے۔ آج بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے،
یادوں کی ایک ’ یلغار ‘ ہے جو بار بار ،لگاتار ہو رہی ہے ۔ ہم نے ایک ایسے ماحول اور زمانے میں آنکھ کھولی جو ’بکھر بھی رہا تھا اور سنور بھی رہا تھا ، ‘ لوگ سادگی سے زندگی گزارتے تھے یعنی ’ دال روٹی کھاتے اور پربھو کے گن گاتے تھے ، ‘ کہیں مقابلے بازی نہیں تھی اور ہر وقت ، ہر شخص ’ شکر ، الحمد للہ ـ کہا کرتا تھا ،بڑوں کی دیکھا دیکھی بچے بھی ایسی ہی روش اپناتے تھے ، یعنی ’ جو مل گیا ، اسی کو مقدر سمجھ لیا ۔‘
زیادہ تر لوگ ’سفید پوش اور متوسط طبقے سے ‘تعلق رکھتے تھے ، ’امیروں ‘ کی دنیا الگ تھی ، ان سے مقابلہ کرنا مناسب نہیں سمجھا جاتا تھا ، یہی وجہ تھی کہ ’اپنے برابر والوں ‘ سے دوستی اور تعلقات رکھے جاتے تھے ، لڑکیاں اکثر سفید شلوار اور سفید دوپٹے کے ساتھ مختلف رنگوں اور ڈزایئنوں کے جمپر پہنتی تھیں ، جو وہ خود سیتی بھی تھیں ، اگر کسی لڑکی کا ’سلائ ‘ نہیں آتی تھی تو وہ بالکل پھوہڑ مانی جاتی تھی ، کپڑے بھی بار بار نہیں بنتے تھے ، بس، عید بقرعید اور بارہ ربیع الاول یا ایسے ہی مخصوص موقعوں پر بنتے تھے ،ہمارے گھر میں دو عدد سادے جوڑے اور بنتے تھے ، ایک ’بڑی گیارہویں ‘ یعنی بڑے پیر صاحب کے عرس پر اور ایک رجب کے مہینے میں ۔ابو کہتے تھے کہ ’رجب کا مہینہ بہت بابرکت ہوتا ہے ، اس میں کوئ نیا کپڑا بنے تو سال بھر برکت رہتی ہے، عید کا ریشمی جوڑا ’سب سے اچھا اور مہنگا ہوتا تھا ، اکثر عید کا جوڑا ’لیڈی ہملٹن ‘ یا ’ٹافٹا ‘ کا ہوتا تھا ، جو متوسط طبقے کے لۓ ’مہنگا ‘ نہیں مانا جاتا تھا ، ’ساٹن ‘ یا ’شامو‘ کا کپڑا مہنگا ہوتا تھا ، جو متوسط طبقہ محض دلہن کے جہیز یا بری کے لۓ ہی خریدتا تھا ، بہر حال ،’عید کا جوڑا ہی سب سے اچھا اور خوبصورت ہوتا تھا ،جن لڑکیوں کو سلائ کے ساتھ ساتھ کشیدہ کاری اور کارچوب اور دوسرے کام بھی آتے تھے ، وہ اپنے عید کے جوڑے پر اپنی ’مہارت ‘ کا اکثر مظاہرہ کرتی تھیں ،عید کے جوڑے ہی کو اس سال ہونے والی شادی بیاہ کی تقاریب میں بار بار پہنا جاتا اور بہت سلیقے سے رکھا جاتا تھا ، ایسا رواج بھی پھوہڑ پن میں شمار ہوتا تھا کہ ’کسی دوسرے گھر میں تقریب ہو اور کوئ رشتہ دار’اپنے لۓ‘ نیا جوڑا بناکر پہنے ،
عید کے کپڑوں کا بہت شوق اور بے صبری سے انتظار کیا جاتا تھا ، سہیلیاں اکثر آپس میں متوقع جوڑے کی باتیں کیا کرتی تھیں ،’بہت گہری سہیلیاں اکثر ’ایک جیسے عید کے جوڑے بنواتی تھیں ، متوسط طبقے کے لوگوں کے دلوں میں بڑے چھوٹے کی تفریق نہیں ہوتی تھی اس لۓ والدیں بھی خوشی خوشی ’سہیلیوں کے ایک جیسے کپڑے بنا دیتے تھے اور سہیلیوں کی عید کی خوشی دوبالا ہو جاتی تھی ، جب لڑکیاں اسکول میں ہوتی تھیں تو انکی والدہ خود بازار جاکر ’اپنی پسند ‘ کے کپڑے خرید لاتی تھیں ،بس ، وہی ’قیمتی جوڑا عید کا جوڑا ہوتا تھا ، والدہ سے کسی ’بحث مباحثے ‘ کی تو گنجایش ہی نہ تھی ، ہم لوگوں کو ابو پندرہ رمضان کی رات کو ، جب وہ مسجد سے اپنا قرآن شریف ختم کر کے آتے اور سکون سے ہم لوگوں میں بیٹھتے تو ہر بچے کو اسکے ہاتھ میں سو ۔ سو روپۓ دیتے تھے ، آنے والی عید کے جوڑے اور جوتوں کے ، ‘اس روز ہم لوگوں کو دوہری خوشی ہوتی تھی ایک تو ابو کے قرآن شریف ختم ہونے کی ،اس روز صبح سے رات تک ابو کے چار قرآن شریف ختم ہوتے تھے اور بار بار ہم لوگوں پر ’ پھونک ڈالتے تھے ‘اس روز ہم لوگ کوشش کرتے تھے کہ گھر سے کہیں باہر نہ جایئں ورنہ ’پھونک کی برکت ‘ سے محروم رہ جایں گے ، دوسری خوشی ’ ان سو روپیوں ‘ کی ہوتی تھی جو ابو کی محنت کی کمائ کے ہوتے تھے ، وہ بہت اچھا زمانہ تھا ، توکل والا زمانہ، زرا فاصلے پر بازار میں حاجی عبدالقیوم صاحب کی کپڑوں کی بہت بڑی اور مشہور دوکان تھی ، ہمارے محلے اور آس پاس کے محلوں کی تمام کی تمام بیبیاں ،وہیں سے کپڑے خریدتی تھیں ،ایک ہی اسٹیٹس کے کپڑے ، تب لوگ آج کی طرح ’ اسٹیٹس کانشس ‘ نہیں تھے ، کچھ لوگ امین آباد کے بڑے بازار چلے جاتے تھے لیکن ’حضرت گنج ‘ کے قیمتی اور فیشن ایبل بازار ‘سے کپڑے خریدنے کا کوئ تصور نہیں تھا ، کم از کم ہمارے علاقے کے متوسط لوگوں میں ،
آج بار بار نظروں اور یادوں میں ایسے ہی ہمارے کئ عیدکے جوڑے آجا رہے ہیں ،ہلکا گلابی جوڑا ، جو سب سے قیمتی تھا ۔ ساٹن کا غرارہ ، جالی کا جمپر اور دوپٹہ ،ہم کئ ’عیدوں ‘ سے ساٹن کا غرارہ بنوانا چاہ رہے تھے مگر اتنے پیسے نہیں تھے ’آخر اپنے ہر ماہ کے جیب خرچ کو جمع کرکے ہم نے اسی عید کے جوڑے میں لگا دیا تھا ، فیروزی اور ہلکا نیلا جوڑا ہماری بہنوں کا تھا ، سب غراروں پر ہم نے بڑے شوق سے ’میچینگ سیپ کے ستاروں سے کام بنایا تھا ،اپنے اور اپنی چھوٹی بہنوں کے کپڑوں پر بھی ہم بہت شوق سے کڑھائ کرتے تھے ، ان بیچاریوں کی مرضی کی زرا بھی فکر نہیں کرتے تھے ،بلکہ ان پر اپنی مرضی مسلط کرتے تھے ، یہ کہہ کر کہ ’تم کو کیا معلوم کہ تم پر کیا اچھا لگے گا ۔ ہمارا یہ ’ ہٹلر ازم ‘زیادہ نہیں چل پاتا تھا اور کبھی کبھی ’ مقدمہ ‘ابو کی عدالت میں پہنچ جاتا تھا ، ابو سب کی ’ فریادیں ‘ بڑے غور سے سنتے اور فیصلہ سناتے ’مدعی ‘سے کہتے۔۔۔دیکھو ۔۔ وہ بڑی بہن ہے،اسکی بات مانا کرو ، اور مسکراتے جاتے اور ہم سے کہتے بیٹی ۔چھوٹی بہنوں کی پسند کا خیال ضرور رکھا کرو ۔ اور اگر کہیں ہماری ’امی ‘جج ہوتیں تو کم از کم ’ہماری بولتی بند ہوتی ،چونکہ وہ خود اپنے گھر میں سب سے چھوٹی تھیں ، بڑی بہن کی ’ہٹلری‘کی مظلوم شکار ۔
، وہ عید جاڑے میں پڑی تھی ،سو ہم نے سب کے پرانے سوییٹر کھول کر نۓ ڈزایئن کے سوئٹر بھی بنے تھے ، آہ۔ کیسی معصوم عید تھی ، سرمئ جوڑا ،نارنجی جوڑا اور سفید جوڑا،ہرا جوڑا ، سب اسی قبیل کےہوا کرتے تھے ۔ ، جن کو پہن کر ایک خوبصورت سی آسودگی ہوتی تھی ، ایسا لگتا تھا جیسے ’صرف ہماری ہی عید ہے ۔ ‘ بارہویں کلاس کے سالانہ امتحان سے فارغ بیٹھے تھے کہ پروگرام بنایا کہ ’اوشا سلائ ۔کڑھائ ‘کے اسکول سے ’مشین کی کڑھائ ‘سیکھی جاۓ ، کوئ ساتھ دینے کو تیار ہی نہ ہواکہ کہوں اس سخت گرمی میں پیدل مارچ کرکے ’گول دروازے ‘ جایا جاۓ ، بس، ایک بہن جو زرا سیدھی تھی ۔تیار ہو گئ ، ہم دونوں نے خوب دل لگا کر مشین کی کڑھائ ‘سیکھی ۔ محلے میں کوئ بچا نہیں جس کاکم از کم کوئ کپڑا ہم دونوں نے کاڑھا نہ ہو ،یہاں تک کہ وکٹوریہ اسٹریٹ پر واقع مشہور ’ کاظم ہوٹل ‘ کی مالکن ’ بیگم صاحب ‘کے لۓ جمپر کا کپڑا بھی کاڑھا کیونکہ ان کے پاس ہی سلائ مشین کا پاۓ دان کا اسٹینڈ تھا جو انہوں نے ازراہ محبت ہمارے گھر بھیجا تھا ، تاکہ ہماری امی کو اسٹینڈ کریدنا نہ پڑے ، قصہ مختصر یہ کہ آنے والی عید میں ہم نے اپنےہلکے کتھئ جوڑے پرکالے ریشم سے مشین کی کڑھائ ’امین آباد کی رفیوجی مارکٹ سے کرائ،ہمارا جوڑا سب سے اچھا لگ رہا تھا ، ہمارے اکلوتےماموں جان جو ہم سے بہت خوش رہتے تھے اور ہم ان سے ، اپنی محبت میں وہ یہ سمجھے کہ ’ اتنی شاندار کڑھائ ہم نے خود کی ہے ،جب ہم سب انکو سلام کرنے گۓ تو ماموں جان نے ہمارے اس ’کارنامے ‘ کی خوب تعریف کی اور ہم کو ’ ڈبل عیدی ‘ دی ، ہم نے ہنستے ہنستے عیدی جلدی سے ’ جھپٹ ‘ لی ، کہ کہیں کوئ سچ نہ بول دے ، عید کے بعد اس ڈبل عیدی کی سب بہنوں بھایئوں نے ہم سے زبردستی ’سعادت علی چاٹ والے ‘ کی چاٹ کھائ یہ کہتے ہوۓ کہ چاٹ کھلاؤ ورنہ ’ماموں جان کو سچ بتا دیا جاۓ گا ۔اور یہ دھمکی ہماری وہ کزن دے رہی تھی جو سب سے کمزور سی تھی ، بولتی بھی بہت کم تھی اور ہمارے ساتھ سب سے زیادہ ’چپکی ‘ رہتی تھی ،
عید کے جوڑے ،امی سنبھال کر اپنے ’بڑے بکس ‘ میں رکھ لیتی تھیں ، پھر کسی شادی بیاہ یا تقریب میں پہننے کو ملتے تھے ، ایک بار ہم نے اور ہماری ’ایک پکی سہیلی ‘ نےبھی ایک جیسے جوڑے بنواۓ تھے تو ہماری امی اور اس کی امی جو ہماری چچی بھی تھیں ساتھ ساتھ بازار گئ تھیں ۔حالانکہ ہمارے چچا کی معاشی حالت بہت بہتر تھی۔ ایک جیسے کپڑے پہننے میں بھی بڑی خوشی ہوتی تھی ، کبھی کبھی کسی تقریب میں ’پکی سہیلیاں ‘ ایک ہی پلیٹ میں کھانا بھی کھاتی تھیں ، اب ہم اور ہماری ’ پکی سہیلی ‘ہزاروں میل دور رہتے ہیں ، مگر دوستی اب بھی قائم ہے، جب جب اس سے بات ہوتی ہے تو ہم گھنٹوں گزرے خوبصورت زمانے میں گھوما کرتے اور آپ ہی آپ مسکرا تے رہتے ہیں ۔ اب جبکہ ’کمپیوٹر‘ نے تمام فاصلوں کو مٹا دیا ہے ، ہماری بات چیت زیادہ ہوتی ہے ، زندگی کی ’ اٹھا پٹخ ‘ میں یہی چند لمحے بہت قیمتی ہوتے ہیں جب اس سے بات چیت ہوتی ہے ۔
اتنی طویل زندگی میں لاتعداد عیدیں آیئں اور ماشا اللہ ہر بار ایک سے ایک عید کے جوڑے بنے اور بنتے رہیں گے، خوشی خوشی پہنے بھی، لیکن بچپن کے وہ سو روپیوں کے جوڑے معہ جوتوں کے جن کو اب کوئ سنے توحیرت کرے اور ’معمولی ‘ کہے ۔ہم کو وہ خوشی دے گۓ جسے ہم نے آج تک سنبھال کر رکھا ہے ،
آج اور آج سے کئ بار پہلے ہم جب جب ’عید بازار ‘ گۓ،ایسی ہی ذہنی کیفیت سے دو چار ہوۓ اور حیران بھی کہ اب دس ہزار ، بیس ہزار کے جوڑے ، لوگوں کو سستے لگتے ہیں ، بیشک وہ ’ڈزاینر جوڑے ‘ بھی ہوں تب بھی ۔ پتہ نہیں یہ بازار کا کمال ہے یا کرنسی کا زوال کہ اب ہر شخص ان ہی قیمتوں کے عید کے جوڑے خریدتا ہے ،اور نہ تیوری پر بل آتے ہیں نہ ماتھے پر پسینہ ،مزے کی اور عبرت کی بات یہ ہے کہ ’بجلی کا بل نہیں دیتے اور ذکؤۃ نہ دینے کے ہزار بہانے ڈھوڈھتے ہیں ،لیکن مہنگا ترین عید کا جوڑا پہن کر فخر اور سکون محسوس کرتے ہیں ،
ہم نے بھی ایسے ہی بازار سے اکثر جوڑے خریدے اور گھر آکر ’ بار بار جوڑا الٹ پلٹ کے دیکھتے ہیں کہ کہیں ’ ٹھگ تو نہیں گے ٔ‘۔اب یہ تو اللہ میاں کے دربار میں حاضر ہوکر پتہ چلے گا کہ ’ہم نے کسی کو ٹھگا یا ہم خود بری طرح ’ٹھگے ‘گۓ۔
farzanaejaz@hotmail.com
………………………………………………………………………………………………………………..