مشرقی علوم کے محسن اور اردو زبان کے شیدائی، منشی نول کشور۔۔۔۔۔از: عارف عزیز بھوپال

Bhatkallys

Published in - Other

03:16PM Tue 20 Feb, 2018
منشی نول کشور کا نام محسنِ اردو اور زبان وادب کے شیدائی کی حیثیت سے لیا جاتا ہے، اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں کیونکہ سو سواسو سال تک اردو کی اشاعت اور علم وفن کی ترقی کیلئے جو کارنامے منشی نول کشور اور ان کے قائم کردہ پریس نے انجام دیئے، وہ بے مثال ہیں، منشی جی نے لکھنؤ ، لاہور، کانپور وغیرہ میں چھاپہ خانے قائم کرکے اردو کتابوں کی اشاعت کا انتظام وانصرام ہی نہیں کیا بلند فکر ونظر کے حامل ادیبوں اور شاعروں کو تصنیف، تالیف اور ترجمے کے کام پر مامور کرکے اردو زبان وادب کی اشاعت کا وہ زبردست کارنامہ بھی انجام دیا جس کے نتیجہ میں کئی دہائیوں تک تصنیف وتالیف کا کام ہوتا رہا، آج اردو میں مطبوعہ کتابوں کا جو وسیع ذخیرہ ملتا ہے، اس کا قابل لحاظ حصہ منشی جی کی نگرانی میں نول کشور پریس کی طباعتی واشاعتی سرگرمیوں کا مرہون منت ہے۔ یہ حقیقت ہے زبان ، ادب اور صحافت کے تعلق سے اس بنیادی کام پر منشی جی اپنی توانائی صرف نہیں کرتے تو اردو زبان اپنے بے شمار فن پاروں سے محروم رہ جاتی، بقول خواجہ احمد فاروقی: ’’منشی نول کشور کے اردو، فارسی اور عربی زبانوں پر بڑے احسانات ہیں، انہوں نے ۱۸۵۷ء میں اسلامی لٹریچر کے ذخیرہ کو تباہ ہونے سے بچالیا، میں نے ان کے مطبع نول کشور پریس کی چھپی ہوئی کتابیں۔ تاشقند، سمرقند، تہران، لندن اور نیویارک میں دیکھی ہیں۔‘‘ منشی نول کشور کی زندگی کا یہ پہلو بھی بڑا ولولہ انگیز ہے کہ انہوں نے اپنی صحافتی وادبی زندگی بہت معمولی سطح سے شروع کی، ابتداء میں منشی نول کشور، منشی ہر سکھ رائے کے اخبار ’’کوہِ نور‘‘ لاہور میں دس روپے ماہانہ پر ملازم ہوئے اور اخبار کی حالت خراب ہونے پر وہ لاہور سے لکھنؤ چلے آئے، یہاں اپنی خداداد صلاحیت اور تجربہ کو کام میں لاکر مطبع نول کشور قائم کیا، جو محنت ولگن سے ترقی کرتا گیا، یہاں تک کہ اس مطبع کی کتابیں سکہ رائج الوقت کی طرح پورے ہندوستان اور افغانستان میں پھیل گئیں، اگر یہ دعویٰ کیا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ اردو، فارسی اور عربی کی جتنی کتابیں اس مطبع سے منظر عام پر آئیں، اتنی برصغیر ہند۔پاک کے تمام مطابع کی مجموعی کوششوں سے بھی طبع نہیں ہوسکیں، یہی وجہ ہے کہ نول کشور پریس نے برصغیر ہی نہیں عالمی پیمانے پر اپنی اعلیٰ کارکردگی کا گہرا نقش چھوڑا ہے اور مشرقی ادب کا شاید ہی کوئی کتب خانہ ایسا ہو جہاں اس مطبع کی کتب موجود نہ ہوں، اس کے علاوہ منشی جی نے تجارتی مصالح سے بلند ہوکر سستی اور معیاری کتابیں چھاپنے کے ایسے منصوبے پر بھی کام کیا، جس سے نہ صرف غریب بلکہ شوقین ضرورت مندوں کو فائدہ پہونچا اور زبان کی نشر واشاعت کا اہم کام انجام پایا اس کے اعتراف میں منشی جی کو حکومت ہند اور امیر افغانستان نے اعزاز واکرام اور خطابات سے نوازا ۔ منشی نول کشور کو طباعت کے ساتھ صحافت میں بھی گہری دلچسپی تھی، انہوں نے اپنی ۵۹ سالہ زندگی کا بڑا حصہ اس کام میں صرف کردیا، خود ’’اودھ اخبار‘‘ (اردو) ، ’’لکھنو ٹائمس‘‘ (انگریزی) اور ’’اودھ ریویو‘‘ (اردو) نکالے، جن میں روزنامہ ’’اودھ اخبار‘‘ کو امتیازی حیثیت حاصل ہے، یہ اخبار کم وبیش ایک صدی تک جاری رہ کر معیاری اردو صحافت کا نمونہ پیش کرتا رہا، محققین کا تو یہ خیال ہے کہ منشی نول کشور کو پریس سے زیادہ صحافت سے دلچسپی تھی، ’’کوہ نور‘‘ اخبار لاہور میں معمولی حیثیت سے کام کرنے کے بعد وہ چاہتے تھے کہ لکھنؤ سے ایک بڑا اخبار نکالیں اور اس مقصد سے انہوں نے نول کشور پریس قائم کیا۔ منشی جی نے اپنے اخبار کے ذریعہ جہاں ہندو مسلم اتحاد کی تبلیغ وترجمانی کا کام کیا، وہیں اخبار کے کالموں کو اردو زبان کے تحفظ و بقا اور ترقی کے لئے وقف کردیا، بالخصوص۱۸۶۸ء میں اردو۔ ہندی کا قضیہ گرم ہوا اور الٰہ آباد انسٹی ٹیوٹ کے دوسرے سالانہ اجلاس میں طے پایا کہ دیوناگری رسم خط کو رواج دیا جائے اور اردو رسم خط کو تبدیل کرکے اردو میں مستعمل عام عربی الفاظ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے تو منشی جی نے اس متنازعہ مسئلہ پر ’’اودھ اخبار‘‘ کے کالموں میں بے لاگ تبصرے شائع کرکے اردو رسم خط کا دفاع اور اردو زبان کو ہندو مسلمانوں کی مشترکہ وراثت سے تعبیر کیا۔ڈاکٹر اکبر حیدری نے ایک مضمون میں منشی نول کشور کو اردو کا محسنِ اعظم قرار دیتے ہوئے لکھا کہ انہیں پیغمبر اردو بھی کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کیونکہ اردو کی بقا اور تحفظ کے لئے وہ ہمیشہ ایک نڈر سپاہی کی طرح خاموش جہاد کرتے رہے۔ ہندو مسلم اتحاد کیلئے بھی منشی نول کشور کا گرانقدر کام ہے، بارہ ہزار یومیہ کی اشاعت والا ان کا ’’اودھ اخبار‘‘ تو اس کاز کے لئے وقف تھا، ملک وقوم کی خدمت کے ساتھ ہندو اور مسلمانوں میں خیرسگالی کے جذبات کو فروغ دینا اس اخبار کا مشن تھا، دونوں قوموں کے تہوروں پر اخبار کے خاص نمبر رنگین سرورق کے ساتھ بڑی آب وتاب سے شائع ہوتے تھے۔ نول کشورکی اس مقبولیت میں بھی ’’اودھ اخبار‘‘ کا بڑا دخل تھا۔ اس میں پریس کا اشتہار مسلسل شائع ہوتا اور یہ اخبار ملک وبیرون یہاں تک کہ انگلینڈ میں بھی خصوصی توجہ سے پڑھا جاتا تھا۔ اسی طرح اردو اور ہندی کتابوں کے ساتھ ہندوستان کی دیگر علاقائی زبانوں میں منشی جی نے کتابیں شائع کرکے لسانی تعصب وتنگ نظری کو مٹانے اور رواداری برتنے کی مثال قائم کی۔ بحیثیت انسان منشی نول کشور اعلیٰ شخصی خوبیوں کے مالک تھے، لکھنؤ میں ہونے والے امور خیر اور سماجی سرگرمیوں میں ان کا بڑا حصہ ہوتا تھا، وہ علمی و تہذیبی اداروں کی بلا تفریق مذہب وملت مدد کرتے اور ان کو اپنی قیمتی مطبوعات بطور تحفہ پیش کرتے، ایسے اداروں میں دارالعلوم دیوبند، مسلم یونیورسٹی علی گڑھ، فرنگی محل لکھنؤ وغیرہ کے نام قابل ذکر ہیں، دارالعلوم دیوبند کے بارے میں تو مشہور ہے کہ وہاں کے اساتذہ وطلباء اپنی علمی ودینی ضرورتوں کو ایک عرصہ تک منشی نول کشور سے ملنے والی کتابی عطیہ سے پورا کرتے رہے۔ منشی نول کشور کی اس علم پروری، رواداری اور درمندی کو تجارتی حکمتِ عملی یا کاروباری مصلحت سے ہم تعبیر نہیں کرسکتے، ان کے عہد میں شمالی ہندوستان صاحبِ ثروت لوگوں سے خالی نہیں تھا لیکن علم نواز ی اور خیر خواہی میں منشی جی کا جو مقام ہے ، اس کا ثانی ہمیں دور دور تک دوسرا نظر نہیں آتا، منشی جی کی یہی اعلیٰ صفات اور خوبیاں ہیں جن کی وجہ سے انہیں آج علم وادب کے محسن اور اردو زبان کے شیدائی کے خطاب سے یاد کیا جاتا ہے۔ www.arifaziz.in E-mail:arifazizbpl@rediffmail.com Mob.09425673760