سچی باتیں۔۔۔ رحمت کا مہینہ۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادی

Bhatkallys

Published in - Other

08:01PM Fri 2 Oct, 2020

1925-09-25

اگر یہ سوال کیاجائے ، کہ خدائے کریم ورحیم نے اپنی سب سے بڑی رحمت کس مہینہ میں دُنیا پر اُتاری؟ تو اس کے جواب میں ہرشکر گزار بندہ کی زبان سے نکلے گا کہ ماہ ربیع الاول میں، اگر یہ دریافت کیاجائے، کہ نسلِ انسانی کو سب سے بڑی نعمت سال کے کس حصہ میں حاصل ہوئی؟ توا س کے جواب میں بھی ہرمسلمان کی زبان پر ربیع الاول کا نام آئے گا۔ اگر یہ پوچھاجائے کہ دنیا کا سویا ہوا نصیب کس زمانہ میں بیدارہوا؟ تو ایک بار پھر اسی ماہ مبارک کا نام لینا پڑے گا۔ کیا آپ چاہتے ہیں ، کہ اس ماہ مبارک کی یاد دلوں سے مٹ جائے؟ کیا آپ کی یہ خواہش ہے، کہ لوگ اس برکت والے مہینے کو بھلادیں؟ کیاآپ اس خیال میں ہیں، کہ دنیا اس سعادت والے زمانہ کے واقعۂ اہم کو فراموش کردے؟ اگر ایسا نہیں، تو کیا وجہ ہے، کہ ہم آپ سب مل کر اس پاک مہینہ کی پاک یادگار کو پاک طریقہ پر نہ منائیں؟ کیا اس پاک یادگار کو منانے کے لئے ہم خدانخواستہ اس پر مجبور ہیں کہ اپنوں کی نہیں، بیگانوںکی پیروی کریں؟ عیسائیوں کے طریقے اختیار کریں؟ یہودیوں کے رسم ورواج کی تقلید کریں؟ ہندووں کے دستور قبول کرلیں؟ پارسیوں کے رنگ ڈھنگ سیکھیں؟ کیا خود ہمارا پاک مذہب خدانخواستہ اس باب میں ہمیں راہ دکھانے سے عاجز ہے؟ ربیع الاول کا احترام، ہمارے سچے مذہب کی رُو سے یہ ہے ، کہ ہم ربیع الاول کے پیام کو قبول کریں۔ محض زبان سے نہیں، بلکہ دل سے ، خالی الفاظ سے نہیں، بلکہ اپنے عمل سے۔ اور دنیا پریہ روشن کردیں، کہ اس ماہ مبارک میں پیام لانے والا دنیا کا سب سے بہتر، سب سے اشرف، سب سے اعلیٰ انسان، ہر اعتبار، ہر حیثیت، اور ہر لحاظ سے گزرا ہے، جس کے مساوی مرتبہ کا کوئی انسان نہ پہلے ہواہے، نہ اب موجود ہے، اور نہ آیندہ ہوگا۔ دنیا کے بڑے سے بڑے حکیم، بڑے سے بڑے عاقل، بڑے سے بڑے مدبّر، بڑے سے بڑے عالم، بڑے سب بڑے درویش، بڑے سے بڑے ولی، کسی میں اُس کی سی بڑائی نہیں، کسی کو اُس کا سا مرتبۂ کمال حاصل نہیں، کسی کی زندگی اُس کی سی کامل وپاکیزہ نہیں۔ اس بڑے ہادی (علیہ الصلاۃ والسلام) کے مقابلہ میں کسی دوسرے انسان کے قول کو پیش کرنا، اُس کے مرتبۂ کمال کی تحقیر کرناہے، کسی دوسرے کے عمل سے، اس ذات معصوم کے کسی عمل کے سامنے سند پکڑنا شانِ رسالت میں گستاخی کرناہے۔ حُبِّ نبیؐ کے معنی یہ ہیںِ کہ اس آفتاب کی روشنی میں ہمیں تمام ستارے ماند دکھائی دینے لگیں، سرکار رسالتؐ سے عشق کے معنی یہ ہیں، کہ اس شاہراہ پر پڑ کر ہم تمام پگڈنڈیوں سے بے نیاز ہوجائیں۔ نہ یہ کہ زبان سے دعوٰی تو محمد رسول اللہ ﷺ کی پیروری کا کیاجائے، لفظًا تو اُن کی افضلیت ساری کائنات پر تسلیم کی جائے، لیکن عمل میں اُن کے طریقے کو چھوڑ کر دوسروں کی راہیں اختیار کی جائیں۔ اور اُن کے نمونۂ عمل سے دوسروں کے اعمال کو ٹکرایاجائے! فرہاد کو جب شیریں کے ساتھ دل کا لگاؤ پیداہوا تواس نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ لی، اور اس کی پروا نہ کی، کہ لوگ اس کے عقل وفہم کی بابت کیا رائے قائم کریں گے، مجنوں جو جب لیلیؔ سے عشق ہوا، تو وہ سب کچھ کرگذرا، اور یہ کبھی پوچھنے نہ بیٹھا کہ خلقت اُسے سڑی، دیوانہ، یا کِن الفاظ سے یاد کرے گی۔ پس آپ کے دل میں اگر رسول خداﷺ کے ساتھ عشق ومحبت کا ایک ذرّہ بھی موجود ہے، توآپ کیوں نہیں ساری دنیا کے قیل وقال سے بے پروا وبے نیاز ہوکر سرتاسر اُنھیں کی فرماں برداری واطاعت، اُنھیں کی پیروی وتعمیل احکام ، اُنھیں کی غلامی وحلقہ بگوشی میں لگ جاتے؟ اور اس فکر اور الجھن میں کیوں گرفتار رہتے ہیں ، کہ دنیا آپ کو کہیں فلاں فلاں لقب سے یاد کرنے نہ لگ جائے! اگر آپ کا عقیدہ حشرونشر پر ہے، تو یہ خوب سوچ لیجئے ، کہ روز حشر آپ کے کام کیا شے آئے گی؟ آیا رسول کریمؐ کی وہ سچی محبت جو آپ کے دل میں ہے، نبی ؐ برحق کی وہ حقیقی عظمت، جو آپ کے ایک ایک عمل سے ظاہر ہو، یا پھر یہ شے کہ دنیا کے لوگ آپ کو ’’سُنّی‘‘، ’’حنفی‘‘، ’’وہابی‘‘، ’’صوفی‘‘، ’’بدعتی‘‘ یا کسی اور نام سے پکارتے ہیں؟ ربیع الاول کا مہینہ اس سے خاص مناسبت رکھتاہے، کہ آپ اپنے تعلقات کو دربار رسالت سے زیادہ مخلصانہ اور استوار بنائیں، اور اپنے عقیدہ کی سچائی میں کہیں کھوٹ نہ رہنے دیں۔ کیا خدا نخواستہ ابکی اس پاک مہینہ کو آپ پھر ضائع ہونے دیں گے، اور اللہ کی اس سب سے بڑی نعمت کو پھر بے توجہی کے سپرد کردیں گے؟ قبل اس کے کہ آپ کی انگلیاں اس صفحہ کو اُلٹیں، اور قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ ان سطروں سے ہٹے، خدا کے لئے خود اپنے اوپر رحم کرکے، ایک بار ذرا حُبِّ رسول اور پیروی سنت رسولؐ کے مفہوم پر اچھی طرح غور کرلیجئے۔ اس عالمِ مادّی سے گذرنے کے بعد ، سب سے پہلا سوال (بعد توحید) آپ سے یہی ہوگا ، کہ آپ نے عرب کے اُس اُمّی (جس پر اللہ کی رحمت وسلام نامحدود نازل ہو) کی، جو دنیا کا سب سے بڑا عالم ومعلّم تھا، کہاں تک پیروی کی، یہ سوال نہ ہوگا کہ زید، عمرو، بکر، کی آپ نے کہاں تک پیروی کی؟ http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/