سب سے بڑا روپیہ ۔۔۔ از : فرزانہ اعجاز

Bhatkallys

Published in - Other

08:00PM Tue 27 Jun, 2017

روز صبح پابندی سے اخبار پڑھنا اسکی عادت تھی، جب تک وہ تازہ اخبار پورا پڑھ نہ لیتی ، اسے چین نہیں آتا تھا ،پہلا صفحہ وہ بہت دھیان سے پڑھتی اور اندر کی خبروں کی سرخیاں سرسری دیکھتی ، اگر کوئ سرخی اہم لگتی تو وہ خبر تفصیل سے پڑھا کرتی تھی ، اسکی۔ تازہ اخبار صبح صبح پڑھنے کی عادت بہت پرانی تھی ،اتنی پرانی کہ جب اسکے گھر میں ریڈیو بھی  نہیں تھا اور اسکے شہر میں ٹیلی ویژ ن بھی نہیں تھا ،اس نے نیا نیا اردو پڑھنا سیکھا تھا ،بلکہ سیکھ رہی تھی ، ابو کے لۓ اخبار دیوڑھی سے اٹھا کر لاتے لاتے راستے بھر وہ ٹوٹی پھوٹی اردو میں اخبار کی سرخیاں ہجے کر کر کے پڑھا کرتی تھی ،  ویسے بھی اس کے گھر میں دادی سے لیکر اس تک سب اخبار پڑھا کرتے تھے ، سب سے پہلے وہ خود ، پھر ابو ،امی اور دس بجے دادی ،ہاں ، چھوٹی پھپھو اخبار کا صرف ’بیچ کا صفحہ ‘پڑھا کرتی تھیں کہ جس پر شہر میں بنے سنیما گھروں میں لگی فلموں کے با تصویر اشتہار ہوتے تھے ، کبھی کبھی کوئ خبر وہ ابو کو بتا بھی دیا کرتی تھی ، جیسے امریکی صدر کینیڈی کے قتل کی اچانک خبر ،آدھی خبر سن کر ہی ابو نے بے اختیار اسے بہت زور سے ڈانٹا تھا کہ ’کیا بک رہی ہو ؟‘وہ ڈر کے اخبار چھوڑ کر کر بھاگ گئ تھی ، کیونکہ اسے ابو سے اتنی زور کی ڈانٹ پہلی بار پڑی تھی ، ایک سال  سحر کے وقت ایک فون کال سن کر اس نے ابو کو انڈین  وزیراعظم  لال بہادر شاستری جی کے تاشقند میں اچانک انتقال کی خبر بھی دی تھی ، تب بھی پہلے ’ ڈانٹ‘ سنی تھی پھر پوری خبر کی تفصیل سنا سکی تھی ، در اصل وہ خود کو، ابو کی ’سکریٹری جیسی ‘ سمجھتی تھی ،

کئ ماہ پہلے ، جب وہ سخت بیمار تھی تو بھی لیٹے لیٹے  وہ اخبار ضرور دیکھا کرتی تھی ، ایک دن اخبار کے ’اندر کے صفحے‘ پر ایک خبر کی سرخی تھی ، ’ پانچ سو اور ہزار کے موجودہ کرنسی نوٹ بند کرنے کی خبر محض افواہ ہے اور یہ کہ سرکار یا ریزروبینک کا ایسا کوئ ارادہ نہیں ہے ‘۔اسے یاد آیا کہ پہلے بھی ایک بار بڑے نوٹ بند کۓ گۓ تھے ۔تب تک سو روپۓ کا بہت بڑا نوٹ چلا کرتا تھا ، جو کئ دنوں تک کچرے کے ڈھیر اور نالیوں میں پڑے ملا کیٔے تھے، کہا گیا تھا کہ یہ ، وہ دولت ہے جو بغیر ٹیکس دیۓ  بزنس والوں اور ایکٹروں  کے گھروں میں  گدوں تکیوں اور چھتوں ،دیواروں میں چھپا کر رکھی گئ تھی ،ملک بھر میں انکم ٹیکس کا محکمہ چھاپے ماری کرتا ہلکان ہو رہا تھا ، اس وقت اکثر لیڈران ایماندار تھے سو ، ملک میں بہت کم لوگ ٹیکس چوری کرتے تھے ،

اخبار کی اس ننھی سی سرخی سے اسے لگا کہ ’کچھ ہونے والا ضرور ہے ، اسی ننھی سی خبر نے شہریوں کو مطمعٔن بیشک کر دیا اور زندگی معمول کے مطابق دوڑتی بھاگتی رہی، کچھ عرصے بعد وہ ضروری کام سے ملک کے باہر چلی گئ ، دوسرے ملک میں بھی وہ بہت پابندی سے ٹی وی پر اپنے ملک کی خبریں سنا کرتی تھی ، ایک روز سویرے ہی سویرے ایک نیوز کاسٹر نے بتایا کہ ’رات آٹھ بجے  اچانک اسکے ملک کے  وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ رات بارہ بجے سے ترک کۓ جارہے ہیں ، ‘ رات آٹھ بجے جبکہ تمام بینک اور روپیہ ایکسچینج کرنے کے مراکز بند تھے ،ایسا اعلان کئ کہانیاں سنا رہا تھا ، وزیر اعظم نے فرمایا کہ ’اس حکم ‘سے تمام کی تمام ’کالی دولت ‘ باہر آجاۓ گی ، اور ہر شہری کے بینک اکاؤنٹ میں لاکھوں روپیۓ آجایئں گے ِ ‘ تیز طرار لیڈروں کی لچھے دار باتوں سے ’ خوبصورت خوابوں کی دنیا کی سیر کرنے والے بھولے بھالے عوام پھر خواب دیکھنے لگے اور ’ اچھے دنوں ‘ کے منتظر ہو گۓ،  وہ جانتی تھی کہ اسکے ملک کے زیادہ تر عوام ایماندار اور غریب ہیں ، جو روز کماتے اور اپنے گھروالوں کی پرورش کرتے ہیں ، اسکی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ سرکاروں کے منھ چڑھے مٹھی بھر کالی دولت والوں کی وجہ سے تمام کی تمام آبادی کو ہراساں کرنا اور اے ٹی ایم کی خالی مشینوں اور نۓ جاری نوٹوں سے خالی بینکوں کے آگے بھکاریوں کی طرح ہاتھ پھیلاۓ معصوم عوام کو دن رات کھڑا کرنا کس طرح جائز ہے اور یہ فیصلہ کیا حکومت کے حق میں جاۓ گا ؟’   وہ تڑپ کر اٹھی اور اپنے ملک میں رہ رہے اپنے بیٹے کو فون کرنے لگی ، لیکن ، لائن کسی صورت مل ہی نہیں رہی تھی ، وہ سخت الجھن میں تھی ،ویسے بھی وہ بیمار تھی اور یہاں علاج کے لۓ آئ تھی، اسکا دل بہت کمزور تھا ، ابھی کچھ ماہ پہلے ہی تو اسکی انجیو پلاسٹی ہوئ تھی ، اسکا بیٹا جو وہیل چیٔر پر تھا ، وہ کیسے اس عذاب کا مقابلہ کرے گا ؟ آتے وقت اسکا شوہر احتیاطی طور پر   دو ماہ کا راشن  بھروا آیا تھا ، اور کئ مہینے کے اخراجات کے لۓ،بینک سے نکال کر۔ بیٹے کو کئ ہزار کے نوٹ بھی دے آیا تھا ، سب ہزار ، پا نچ سو ہی کے نوٹ تھے ،

وہ سخت پریشان تھی ، اسکا چہرہ ز رد ہو رہا تھا اور وہ مستقل ٹی  وی سے اور کمپیوٹر سے چپکی  ہوئ تھی ،جیسے ہی فون ملا ، وہ بیٹے کو ہدایات دینے لگی ، کہ ’ وہ بہت سا آٹا، چاول ، آلو ،تیل اور شکر ، پاؤڈر کا دودھ ۔سب جمع کر لے ، وہ گھبراہٹ میں بس بولے ہی جا رہی تھی، بیٹا کیا کہہ رہا ہے، اسے کچھ سنائ ہی نہیں دے رہا تھا ، آخر اسکے بیٹے نے زور سے کہا کہ ’اماں ، ہماری بات سنیۓ‘۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ’دوکانیں بند ہیں ،کوئ پانچ سو اور ہزار کے نوٹ نہیں لے رہا ہے، نۓ نوٹ ابھی جاری نہیں ہوۓ ہیں ، ‘اسکی بیماری کی وجہ سے۔ آتے وقت اسکا شوہر راستے کی کسی’ ایمرجنسی ‘ کے لۓ کئ ہزار روپئے ساتھ بھی لے آیا تھا ، حالات ہی ایسے تھے کہ اگر راستے میں دلی میں اسے کچھ علاج کی ضرورت پڑتی تو پیسہ کہاں سے ملتا ؟۔ بہرحال لوگ ان چار گھنٹوں میں اپنے اپنے بینکوں کی اے ٹی ایم مشینوں کی طرف دوڑ پڑے تاکہ گھروں میں ایمرجنسی کے لۓ محفوظ بڑے پرانے نوٹوں کو جمع کر سکیں اور کچھ نۓ روپۓ نکال بھی سکیں ، عجیب افراتفری کا سماں ہوگیا ، خبریں بتا رہی تھیں کہ چند گھنٹوں میں سب اے ٹی ایم مشینیں خالی کھڑی عوام کو منھ چڑھا رہی تھیں ، ایک ایسا ملک کہ جس کی آدھی سے زیادہ ناخواندہ  آبادی سوۓ ہوۓ دیہاتوں میں آ باد ہو کہ جہاں نہ بینک ہوں نہ اے ٹی ایم ۔اکثر جگہ تو بجلی بھی بس منھ چڑھانے کو آتی ہو ،تازہ خبریں کہاں پہنچ سکتی ہیں ، انجام یہی ہوا کہ بقول شخصے،’ایسے حالات ہو گۓ کہ عوام خالی پیٹ اور خالی ہاتھ رہ گۓ۔‘شادیاں ملتوی ہو گیئں ، مریض بے موت مرنے لگے، اور وہ پردیسی جو اس  کےملک کو ’جادو نگری ‘ سمجھ کر گھومنے چلے آۓ تھے ،دنیا کے عجائبات میں شامل مشہور عمارتوں کے باہر خالی جیب اور خالی ہاتھ ’ہونق‘ بنے کھڑے رہ گۓ، ملک کی معاشی حالت جیسے منجمد ہو کر رہ گئ۔ یہ بھی پتہ چلا کہ ممالک غیر کی کئ ایمبیسیوں نے سرکار کو ایلٹیمیٹم دے دیا کہ اگر انکو ضرورت کی کرنسی نہ ملی تو وہ اپنا کام بند کر دیں گی، ایک مقررہ وقت تک تمام پرانے پانچ سو اور ہزار کے نوٹ بینکوں میں جمع کرنے کا بھی ’حکم ‘ تھا ۔بھری پری دکانیں بند پڑی تھیں ،گاہک اور دکان مالک سب لایئنوں میں لگے تھے ، جیسے ’ محمود و ایاز ایک ہی صف میں کھڑے ہوں ‘،دو تین دن بعد بازاروں میں ’موہن جداڑو‘کے زمانے کی طرح کا بزنس شروع ہو گیا ، یعنی ’چیزوں کے بدلے چیزیں ‘لی اور دی جانے لگیں ، آخر دکان مالک اور گاہک دونوں کا درد ایک ہی تھا ، پرانے اور پہچان والے گاہکوں کا ’ دکانوں پر ’ حساب کھل گیا ۔ ‘ اور ہو بھی کیا سکتا تھا ، کوئ زچہ ، بچے کو پیدا کرتے کرتے اسپتال کے باہر ہی دم توڑ گئ، اسکے گھر والوں کے پاس ’نۓ نوٹ ‘ نہیں تھے ،سو مریضہ ،آئ تو حوصلے سے تھی  مگر آنکھیں  موندے ،بچے سمیت اس دنیا سے ہی چلی گئ ، کئ عمردراز لوگ مسلسل کئ دنوں تک گھنٹوں گھنٹوں  بینک کی لائینوں میں  کھڑے کھڑے اچانک گرے اور انتقال کر گے ٔ۔ بینک کے اندر بھی حالات خوشگوار نہیں تھے ، مسلسل کئ دنوں تک کام کرنے اور عوام کی گالیوں اور مار پیٹ سے بچنے کے لۓ بینک میں بند رہنے کی وجہ سے بیہوش ہو ہو کر آفیسر تک گرنے لگے، ہر روز نۓ نۓ احکا مات جاری ہوتے جارہے تھے ، ملک میں گھوم گھوم کر اور بیرون ملک دورے پہ دورہ کرکے ‘ ملک کی ترقی کی فرضی کہانیاں سنا ئ  جا رہی تھیں ،یہ بھی تکلیف دہ خبر آئ کہ ایک ضعیفہ صدمے سے مر گئ، اس کے آنچل میں پانچ پانچ سو کے چند نوٹ اور ایک پرچہ بندھا ملا تھا ، جس میں لکھا تھا ’ہمرے کریا کرم کے لۓ ۔‘کریا کرم تو محلے والوں نے انسان دوستی میں کر دیا ،لیکن ، افسوس کہ مرگھٹ پر مردہ جلانے والوں نے  ’قرض پر ‘ مردہ جلانے سے بھاگنے کی کوشش شروع کر دی ، انسانوں کی لاشیں جلاتے جلاتے ساتھ ہی شاید انکا ضمیر بھی جل بھن گیا تھا ،

آنے والی خبریں کتنی ’ سچ ‘ تھیں ۔ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتی تھی ۔ وہ جو ایک مثل ہے ’آنکھ اووٹ  پہاڑ اووٹ‘ تو وہ اس وقت ’پہاڑ اووٹ ‘ تھی ۔بس۔ ریڈیو اور ٹی وی اور اخبارات سے آنے والی خبروں تک ہی اس کی پہنچ تھی ، وہ اپنے بیٹے کے لۓ پریشان تھی ۔

اسکا بیٹا باہر جا نہیں سکتا تھا ، بہت پریشان تھا ، گھر میں کام کرنے والی ایک معتمد لڑکی کے حساب میں اس نے کچھ روپۓ جمع کرواۓ،بیٹے کے دوست اور خود اسکے پڑوسی ،مدد کو آگۓ، واقعی ایسے دوست اور ایسے مخلص پڑوسی ، قسمت والوں کو ملتے ہیں ، اور وہ یقینن بہت خوش قسمت تھی ،

اس نے اپنے بیٹے سے کہا کہ ’ گھر کی ہر دراز، الماری ،لاکر اوراسکا ہر پرس، ہر وہ جگہ جہاں کوئ پیسے رکھے جا سکتے ہوں ،دیکھ کر روپیۓ نکال لے ۔ا س کے بیٹے نے ایسا ہی کیا ،

آتے وقت اسکے شوہر نے جو پچیس تیس ہزار کے بڑے نوٹ ساتھ لے لۓ تھے ، اسکی بابت ، اس نے شکاگو کے ہر انڈین بینک سے رابطہ کیا کہ شاید یہاں نوٹ جمع کرنے کا انتظام ہو ، لیکن  اس وقت تک ۔ کسی بھی انڈین بینک کے پاس کوئ آرڈر نہیں آیا تھا ،

روز روز کی خبریں سن سن کر اور ٹی وی پر لمبی لمبی لائنیں دیکھ دیکھ کر ،عوام کے بیانات سن سن کر وہ سخت پریشان تھی ، اسے ڈر تھا کہ کہیں پریشانی میں مجبور لوگ اب  لوٹ مار نہ  شروع کر دیں ۔ ہاتھوں میں سہاگ کی مہندی لگاۓ ، مانجھے سےا ٹھ کر ایک دلہن بینک کی لائن میں لگی تھی ،خوش قسمتی سے اسے پیسے مل گۓ ،لیکن بد قسمتی سے کسی نے اسکا پرس پار کر دیا ، اب وہ زارو قطار رو رہی تھی ، ایسی ہی بہت سی خبریں نشر کرتے کرتے اکثر  ٹی وی کا نمائندہ  بھی اپنے آنسو نہ روک سکا ،

  ایک روز اس کے بیٹے نے بتایا کہ ’اماں ، آپکی سہیلی  کا بھی فون آیا تھا ، پوچھ رہی تھیں ،کوئ مسٔلہ تو نہیں ہے ؟ اس کے دل کو بہت   اطمینان بھی  ہوا ،اور وہ بےساختہ رو پڑی ، بیٹے نے ہنس کر بتایا کہ وہ پریشان نہ ہو ، گھر میں دالیں ، چاول ،آٹا ، تیل ، شکر اور گیس کا مزید سلینڈر بھی رکھوا لیا ہے ،  سلنڈر لانے والا اس کے  بیٹے کی حالت جانتا تھا ، سو، ایک سلنڈر دے گیا اور کہہ گیا ، ’ڈاکٹر صاحب ، پیسے کی فکر نہ کیجیۓ ،پیسے ہم بعد میں لے جایئں گے ، وہ لڑکی جو اس کے گھر میں کام دیکھتی تھی ، روز سویرے اپنے بینک کی لایئن میں لگ جاتی ، ٹوکن مل جاتا ، لیکن ، اس کی باری آنے تک نۓ نوٹ ختم ہو جاتے تھے ، اسے خود پیسوں کی ضرورت تھی ، اپنی بچی کی فیس دینا تھی ، اپنی دوا لانا تھی ، لیکن ، وہ خالی ہاتھ تھی ، نماز فجر سے پہلے یا دیر رات وہ کسی کے ساتھ جاکر اے ٹی ایم سے ساڑھے چار ہزار کے نۓ نوٹ لے ہی آتی تھی ،

وہ سخت بیمار تھی ، اور علاج کے لۓ ہی ملک سے باہر گئ تھی، مگر اپنے ملک کی موجودہ معاشی صورت حال سے وہ بہت ہراساں تھی، اس کی ٹھیک ہوتی طبیعت اور بگڑنے لگی، اسی حالت میں اس نےپرانے نوٹ جمع کرنے کی آخری تاریخ یعنی  اکتیس دسمبر سے چند روز پہلے ، اپنے ملک واپس جانے کا فیصلہ کر لیا ، اپنا مڈیکل چیک اپ ادھورا چھوڑ کر وہ بیٹے کے پاس آگئ، چند ماہ کی افرا تفری کی وجہ سے ملک کا ہر سسٹم بے ڈھب نظر آرہا تھا ، اسے اب بس یہی اطمینان تھا کہ ’وہ اب اپنے بیٹے کے پاس ہے، اپنی زندگی کے پاس ، ‘

ائیرپورٹ پر پورٹر کو دینے کے لۓ اس کے پاس اس ملک کی  نئ اور بڑی کرنسی نہیں تھی ، سو اس نے ڈالر سے کام چلایا ، وہ وہیل چیئر پر تھی ، اور باہر سے آنے والوں کی بہت لمبی لایئن تھی جہاں لوگ اپنے کاغذات دکھا کر  یہاں کی نئ کرنسی لے رہے تھے ، وہ بھی ایسا کر سکتی تھی  لیکن ، وہ ڈری کہ کہیں اسے لینے آنے والے واپس ہی نہ چلے جایئں ، یہ سوچ کر کہ’ پورا مجمع نکل گیا ہے، اب شاید وہ آئ ہی نہیں ہو‘ ، ‘سو ، گھبراکر وہ ویسے ہی باہر نکل آئ،گھر آتے ہی اسنے ساتھ لائ پرانی کرنسی بینک بھجوائ ، اب بینکوں میں پرانے نوٹ جمع کرنے والوں کا مجمع کچھ کم نظر آرہا تھا ،

مہینوں کی علالت اور گھر سے غیر حاضری کے بعد اب جو وہ زرا بہتر ہوئ تو اس نے آہستہ آہستہ  اپنے گھر کا جائزہ لینا شروع کیا ، کبھی کوئ الماری چیک کرتی ، کبھی کوئ دراز اور کبھی کچن کا معائنہ کرتی اور دالوں و مصالوں کو دیکھتی کہ کہیں کوئ گھن نہ لگ گیا ہو، اپنی کتابوں کی الماری وہ بہت پیار سے چیک کرتی رہی اور ایک نئ کتاب نکال لی ، تاکہ حسب عادت سوتے وقت پڑھ سکے ،

کسی ضروری کاغذات کی تلاش میں آج پھر وہ درازیں اور ڈبے چیک کر رہی تھی ، وہ چیک بک ، پاسپورٹ اور شناختی کارڈ وغیرہ  زیورات کے خالی لاکر میں رکھ دیا کرتی تھی ، یوں ہی ادھر ادھر ہاتھ مارتے مارتے ،اسکا ہاتھ کسی ملائم سے بٹوے سے ٹکرا گیا ، اس نے بٹوہ دبا کر دیکھا تو اسے اس میں کوئ زیور تو محسوس نہیں ہوا ،اب اس نے بٹوے کی زپ ابھی آدھی ہی کھولی تھی کہ بھونچکی رہ گئ ،بٹوے کے اندر ’نوٹوں کی ایک موٹی سی گڈی‘ مڑی رکھی تھی ، اسکا دل دھک سے ہوگیا ، اور خوف ذ دہ ہو گئ کہ اب اتنی بڑی گڈی کہاں سے نکل پڑی ہے ،جبکہ پرانے بڑے نوٹ بدلنے کی آخری تاریخ بھی نکل چکی ہے ،  اب اس سے بڑا نقصان ہونے والا ہے ،وہ سوچنے لگی کہ اب اس میں اتنا دم کہاں ہے کہ وہ سرکاری دفتروں  کے چکر لگاسکے گی، وہ بٹوہ ہاتھ میں پکڑے بے ساختہ اپنے بیٹے کے پاس بھاگی ، اسے ’اتنے بڑے‘ پہنچنے والے نقصان نے ڈرا دیا تھا ، اسکا چہرہ سفید پڑ گیا تھا ، وہ دل پر ہاتھ رکھے لرز رہی تھی ، اسکے ہاتھ میں بٹوہ تھا جس میں سے نوٹوں کی گڈی زرا سی نظر آرہی تھی ،  ، وہ کپکپاتی آواز میں بولی۔۔۔’بیٹا  ۔۔۔۔ دیکھو ، اب یہ کہاں سے نکل آیا ؟،  بیٹا بھی گھبرا گیا اور اس نے اسکے ہاتھ سے بٹوہ چھین کر پوری گڈی نکالی  ،اور ہنسنے لگا ، کہنے لگا ’۔۔۔۔ اماں ۔۔۔۔ خوش ہو جایئے ،یہ پانچ سو یا ہزار کے متروک نوٹ نہیں ہیں ، سو سو کی گڈی ہے ۔‘

بے اختیار اس نے اطمینان کی سانس لی ،اور اپنے ہاتھوں ہونے والے ایک ’ بڑے نقصان‘ سے بچ جانے پر اللہ کا شکر ادا کیا ، اسکا ہمیشہ سے یہی حال تھا ، اس سے زرا سا بھی کوئ نقصان ہوجاتا تو وہ اپنے کو ’مجرم ‘ سمجھنے لگتی اور کئ دنوں تک الجھی الجھی رہا کرتی تھی ،

اس تمام ہڑبونگ سے اس کی سمجھ میں آگیا تھا کہ لوگ کیوں کہتے ہیں ’ سب سے بڑا روپیہ ‘۔

farzanaejaz@hotmail.com