حج کا سفر۔۔۔موتمر عالم اسلامی۔۔۔ مفتی محمد رضا  انصاری  فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

08:07PM Thu 22 Jun, 2023

ہمارے قیام مکہ معظمہ کے دوران وہاں رابطہ عالم اسلامی کی دوسری موتمر اسلامی کا انعقاد ہوا، ایک شاہی محل تھا جسے معزول شاہ سعود نے رابطہ عالم اسلامی کو دے دیا تھا، وہیں رابطے کا سکریٹریٹ ہے، وہیں موتمر اسلامی ہوئی، مؤتمر کے مندوبین تمام اسلامی آبادیوں سے آئے تھے اور وہی مؤتمر میں شریک ہو سکتے تھے، رابطہ عالم اسلامی کے نائب صدر مولانا سید ابوالحسن علی صاحب ندوی نے ہمارے لئے بھی مندوب کا ٹکٹ داخلہ بغیر ہمارے کہے منگا کر دیا جس میں ہمیں "صحیفۂ صوت الشعب" (اخبار قومی آواز) کا مندوب کہا گیا تھا، موتمر کے کھلے اجلاس دو ہی تین ہوئے؛ البتہ مختلف سب کمیٹیوں کے جلسے بار بار اور کئی روز تک ہوتے رہے، تقریباً ایک ہفتہ موتمر عالم اسلامی کی سرگرمیوں میں صرف ہوا، ہندوستان سے تین سرکاری ڈیلی گیٹ گئے تھے؛ مسٹر نورالدین احمد (میئر دہلی) مسٹر یونس سلیم ایڈوکیٹ (حیدر آباد) اور مولوی عبدالعلی برکاتی (مدرسہ عالیہ کلکتہ) ان کے علاوہ ہندوستان کی مسلم تنظیموں کے نمائندے بھی سعودی حکومت کی دعوت پر گے تھے، ان میں مفتی محمد عتیق الرحمن عثمانی (دہلی) مولانا سید منت الله رحمانی امیر شریعت (بہار) بھی تھے، مولاناسید ابو الحسن علی ندوی تو نائب صدر اور بانی ممبروں میں ہیں، مولانا محمد منظور نعمانی (مدیر الفرقان) بھی رابطہ کے بنیادی ممبروں میں ہیں یہ دونوں ممبر کی حیثیت سے تھے، مولانا محمد میاں فاروقی الہ آبادی کو موتمر کے جنرل سکریٹری نے مخصوص نمائندے کی حیثیت سے وہیں دعوت دی تھی، مولانا معین اللہ ندوی بھی مولانا علی میاں کے ہمراہ گئے تھے اور مندوب تھے؛ اس کے علاوہ کشمیری لیڈر شیخ محمد عبداللہ اور مرزا افضل بیگ بھی موتمر کے مندوبین میں تھے، پھر ہندوستان کی نمائندگی ہم مولانا ابواللیث ندوی، مسٹر محمد اسماعیل (مدراس) مولوی محمد مسلم (مدیر روزنامہ دعوت) اور مسٹر غلام سرور (مدیر صدائے عام پٹنہ) بھی تو کر رہے تھے!۔

مؤتمر اسلامی کا اجلاس ۱۸/اپریل سے شروع ہوا، یہ مجلس رابطۃ العالم الاسلامی کا دوسرا دور یعنی دوسرا اجلاس تھا جو تین سال کے بعد ہورہا تھا، موتمر کا پہلا اجلاس یا دور مئی ١٩٦٢ء (ذی الحجہ ١٣٨١ھ) میں ہوا تھا، رابطہ عالم اسلامی کا ذکر کئی سال ہوئے ہندوستان میں ہم اخباروں میں پڑھ چکے تھے اور اس کے فرائض کے بارے میں کوئی واضح تصور قائم کرنے میں ہمیں اس وقت بھی کامیابی نہیں ہوئی تھی، یہاں آکر یاد تازہ ہوگئی ٢٥-١٩٢٤ء کو جب سلطان ابن سعود نے ہاشمی خاندان کے حکمراں شریف مکہ سے بزور شمشیر حجاز کی سلطنت چھینی تھی، جس وقت یہ جنگ حجاز میں چل رہی تھی ہندوستان میں مسلمان دو بڑے گروہوں میں بٹ گئے تھے؛ ایک گروہ ابن سعود کے طرفداروں کا تھا جو شریف مکہ سے اس لئے ناراض تھا کہ اس نے ایک طرف تو انگریزوں کی شہ پا کر عین اس وقت جب خلافت عثمانیہ (ترکی حکومت) پہلی جنگ عظیم میں انگریزوں سے نبرد آزما تھی، ترکی سلطنت کے خلاف بغاوت کر کے خطہ حجاز میں اپنی حکمرانی اور مطلق العنانی کا اعلان کر دیا تھا، دوسری طرف حجاز میں امن وامان اور سلامتی راہ کا کوئی بندوبست نہیں کیا تھا جس کے نتیجہ میں حاجیوں کو بدوؤں کی تاخت اور شب خون سے آئے دن سابقہ پڑا کرتا تھا؛ سلطان ابن سعود سے ہمدردی کی ایک وجہ ہندوستانی مسلمانوں کو یہ تھی کہ وہ انگریزوں کے اثر و نفوذ کو حجاز سے ختم کر دینے کا مدعی تھا، ہندستانی مسلمانوں کا جو گروہ ابن سعود کا مخالف تھا وہ بھی سیاسی پہلو سے نہ تھا بلکہ اعتقادی پہلو سے اسے اختلاف تھا، بہت سے وہ حلقے جو اعتقادی اعتبار سے ابن سعود کے مسلک سے اختلاف رکھتے تھے سیاسی اعتبار سے وہ بھی سلطان کے طرف دار تھے، جن میں رئیس الاحرار مولانا محمد علی مرحوم اور ان کے بڑے بھائی مولانا شوکت علی مرحوم بھی تھے جنھوں نے اپنے پیرو مرشد مولانا عبد الباریؒ (فرنگی محلی) سے جو سلطان ابن سعود کے شدید مخالفوں میں تھے جھگڑا تک کر لیا تھا۔

سعودی اقتدار حجاز میں قائم ہو جانے کے بعد مولانا محمد علی مرحوم کو جو انگریزوں کے سخت ترین مخالف تھے بڑی توقعات نئی حکومت سے قائم ہوگئی تھیں، انھیں سلطان ابن سعود کی سادہ زندگی نیز سلطانیت سے بے رغبتی کی روایات سن سن کر اپنے اس قدیم خیال کے عملی جامہ پہننے کے امکانات روشن نظر آنے لگے کہ حرمین شریفین میں کسی بادشاہ کا حکم نہیں چلے گا، یہ خطہ آزاد ہو گا، مولانا مرحوم اس سلسلے میں اتنے پر امید تھے کہ جب سلطان ابن سعود نے جون ١٩٢٦ء میں مسلمانوں کی ایک بین الا قوامی موتمر بلانے پر آمادگی ظاہر کی (جس کی تحریک ہندستان کے سعودی طرفداروں ہی نے کی تھی) تو مولانا محمد علی مرحوم اس میں شرکت کرنے اس غرض سے گئے تھے کہ سلطان ابن سعود کو ترغیب دینے میں کامیاب ہو جائیں گے کہ حجاز کا انتظام ایک بین الاقوامی اسلامی مجلس کے حوالے کر دیا جائے اور اس مقدس خطے کو جس میں حرمین شریفین واقع ہیں حکمرانوں کی کشاکش سے باہر رکھا جائے، مرکز ی خلافت کمیٹی نے بھی اسی مضمون کی قرار داد منظور کر کے اس کی نقل سلطان ابن سعود کو بھیج دی تھی، اس زمانے میں خلافت کمیٹی کا اعلیٰ کمان زور شور سے سلطان کی حمایت کر رہا تھا۔

سلطان ابن سعود کسی بین الا قوامی اسلامی مجلس کے خیال سے اتفاق نہ کر سکا، اس کا کہنا تھا کہ عالم اسلامی کے بعض خطے (مثلا ہندوستان مصر وغیرہ) اجنبیوں کے تابع ہیں (انگریزوں کے) ایسے مسلمان جو آزاد نہیں ہیں ایک آزاد خطے کا انتظام سنبھالنے یا اس انتظام میں شریک ہونے کے اہل نہیں ہیں؛ پھر بھی سلطان نے طرف دار ہندوستانی مسلمانوں کی تجویز کا پاس کرتے ہوئے اس پر آمادگی ظاہر کر دی تھی کہ حج کے انتظام اور حجاج کی سہولتوں کے سلسلے میں دنیائے اسلام اگر کوئی مجلس بنا لے تو اس کے مناسب مشوروں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش ضرور کی جائے گی اور سعودی حکومت اس مجلس سے پورا تعاون کرے گی، مولانا محمد علی مرحوم اور مولانا ظفر علی خاں مرحوم جو سلطان کی حمایت میں رفیق و شریک تھے اس اہم سوال پر مخالف صفیں قائم کرتے نظر آئے، مولانا ظفر علی خان آخر تک سلطان کی ہمدردی کا دم بھرتے رہے اور مولانا محمد علی مرحوم کو اپنی امیدیں جب خاک میں ملتی نظر آئیں تو وہ اتنے ہی شدید مخالف ہو گئے جتنے شدید اس کے حامی رہ چکے تھے۔

سلطان ابن سعود کی بنائی ہوئی اس موتمر میں جو حرمین شریفین کے انتظام کے بارے میں غور و خوض کرنے والی تھی ہندوستانی مسلمانوں کا یا خلافت کمیٹی کا جو وفد شریک ہو اتھا اس میں مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، مولانا محمد عرفان اور مسٹر شعیب قریشی وغیرہ تھے۔ مشہور ہے کہ مولانامحمد علی مرحوم نے اپنی عادت کے موافق جب سلطان ابن سعود سے حجاز کو "خطہ آزاد" رکھنے پر بے طرح اصرار جاری رکھا تو نجدی سلطان (نجدی مزاجا درشت اور نڈر کہلاتے ہیں) اپنی کمر سے بندھی ہوئی تلوار کے قبضے پر ہاتھ رکھ کر یوں گویا ہوا "سنیے صاحب اس شمشیر کے بل پر میں نے حجاز کی حکومت حاصل کی ہے کسی کو یہ حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ میری مفتوحہ زمین کے انتظام کے بارے میں ادنی دخل دے، جو دخل دینے کا حوصلہ رکھتا ہے اسے پہلے بزور شمشیر مجھ سے اس حکومت کو چھیننے کا حوصلہ کرنا ہو گا"۔

            ہندوستانی مسلمانوں کے مربی مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم بھی سلطان کے حمایتی تھے اور موتمر کے انعقاد کے فی الجملہ موافق لیکن اپنی عادت کے موافق وہ کسی معاملہ میں اس وقت تک حصہ نہیں لیتے تھے جب تک اس کے تمام پہلوؤں کا تمام جزئیات کے ساتھ جائزہ نہ لے لیں؛ مؤتمر اسلامی کے بارے میں بھی وہ اس کے دائرہ بحث کی مزید وضاحت چاہتے تھے اور سلطان کی بلائی ہوئی موتمر کو بس اس پہلو سے اہم سمجھتے تھے کہ یہ ابتدائی کانفرنس ہو جس میں بڑی مؤتمر کے انتقاد کا باضابطہ فیصلہ کیا جائے اور ایک مجلس قائمہ (اسٹینڈنگ کمیٹی) بنادی جائے جو آئندہ سال حج کے موقع پر مطلوبہ درجۂ اہمیت و اجتماع کی کانفرنس (موتمر) منعقد کرنے کا انتظام کرے، مولانا آزاد کا خیال تھا کہ اسلام کی بین اقوامی موتمر بجائے خود اس درجہ اہم معاملہ ہے کہ اچانک اس کا وجود میں آجانا مکن نہیں تدریج و ترتیب نا گزیر ہے؛ ادھر سلطان ابن سعود نے حجاز پر تسلط قائم ہوتے ہی بعجلت تمام حجاز میں اپنی بادشاہی کا اعلان کر دیا اور حرمین شریفین میں اس کی بادشاہی کی بیعت بھی ہو گئی۔

یہ قضیہ جو اس قدر تفصیل سے یہاں بیان ہوا ہے پورے انتالیس سال پرانا ہے مگر معلوم ایسا ہو رہا ہے کہ جیسے اسی سال اپریل ١٩٦٥ء میں جو موتمر عالم اسلامی مکہ معظمہ میں منعقد ہوئی وہ تمام تر اس الجھاؤ میں رہی، افکار ومقاصد کے واضح نہ ہو پانے اور دائرہ بحث کے صحیح طور پر متعین نہ ہو سکنے نے بالآخر موتمر عالم اسلامی کو ایسے اختلافات کا شکار بنالیا جس کو حجاز ونجد کی مطلق العنان بادشاہی بھی بچا نہ سکی اس کے برعکس وہ خود اپنی عزت بچاتی نظر آئی؛  ہوا یہ کہ اسلامی ملکوں سے رابطہ عالم اسلامی نے (جس کے زیر اہتمام موتمر اسلامی منعقد ہوتی ہے) وفود طلب کئے، اس سلسلے میں اسلامی حکومتوں کو دعوت نامے بھیجے گئے، غیر اسلامی ملکوں سے بھی وفود طلب کئے گئے اور دعوت نامے بھیجے گئے پہلے تو حکومت عراق نے وفد بھیجنے سے انکار کیا اور معقول بات یہ کہی کہ کسی غیر سرکاری ادارے کو (رابطہ عالم اسلامی غیر سرکاری ادارہ ہے) یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی سرکار کو دعوت دے، مصر کی حکومت کو دعوت ہی نہیں بھیجی گئی کیونکہ موتمر کا بنیادی خیال اخوان المسلمین کی نمائیندہ شخصیتوں کا دیا ہوا تھا اور مصر کی موجودہ حکومت اخوان المسلمین کی جانی دشمن کہی جاتی ہے، تو خاص دو اسلامی حکومتیں مؤتمر سے الگ ہی رہیں، حبش کی عیسائی حکومت میں بھی مسلمانوں کی وافر آبادی ہے، وہاں سے بھی سرکاری وفد مدعو کیا گیا تھا اور وہ آبھی گیا، آگیا تو بعض اسلامی وفود نے اس کی شرکت پر اعتراض کیا کہ غیر اسلامی حکومت سے سرکاری وفد آنے کے کیا معنی؟ غیر اسلامی ملکوں سے اسلامی اداروں کے نمائندے ہی از روئے ضابطہ شریک ہو سکتے ہیں، کافی الجھن اس اعتراض نے شروع ہی میں پیدا کر دی۔

            ہندوستان سے بھی سرکاری وفد دعوت نامہ پا کر گیا تھا، حبش کے سرکاری وفد کو اگر شرکت سے روک دینے کی کوشش کامیاب ہوگئی تو اس نظیر کی بنیاد پر ہندوستان کے سرکاری وفد کو بھی شرکت سے روک دیا جائے گا، پاکستان کا وفد اس تاک میں بیٹھا ہی ہوا تھا؛ جب حبش کے سرکاری وفد کی شرکت کا معاملہ موتمر کی اعلیٰ کمیٹی میں اٹھا تو اس کے ساتھ ہندوستان کا معاملہ بھی اٹھا دیاگیا، مگر شام کے ایک سوجھ بوجھ رکھنے والے نمائندے نے جو صدارت کے فرائض انجام دے رہا تھا رولنگ دے کر حبش اور ہندوستان کے معاملوں کو مختلف قرار دیا، اس کی رولنگ یہ تھی کہ حبش عیسائی حکومت ہے جہاں مسلمان آبادی کا حکومت سے شہری اور بنیادی حقوق کے سوال پر جھگڑا چل رہا ہے، ہندوستانی حکومت مذہبی حکومت نہیں ہے وہاں کے تمام شہری آئین کی نظر میں مساوی ہیں؛ اس لئے ہندوستان کے سرکاری وفد کو موتمر میں سرکاری حیثیت سے شرکت سے روکا نہیں جا سکتا۔

            اس موتمر میں ٥٣ ملکوں سے نمائندے آئے تھے جن میں ۳۵ سرکاری وفد تھے، مؤتمر اسلامی کی صدارت مجلس رابطہ عالم اسلامی کے مستقل صدر مملکت عربیہ سعودیہ کے مفتی اکبر شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ کر رہے تھے (یہ پیدائشی نابینا ہیں) مجلس کے تاسیسی ممبروں میں جن کی تعداد ٢١ بتائی جاتی ہے ایک تو ہمارے محترم مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ہیں جو اس سال بھی شریک اجلاس تھے، دوسرے ڈاکٹر سعید رمضان تھے جو لکھنو آچکے ہیں، ان سے ملاقات ہو چکی تھی، فلسطین کے مفتی اعظم سید امین الحسینی بھی تاسیسی ممبروں میں ہیں اور فلسطین نیز عرب ملکوں کی سیاست میں ایک زمانے میں ان کا بڑا نام رہا ہے، مفتی اعظم صاحب بتیس سال قبل لکھنؤ آئے تھے، اس وقت ان کو فرنگی محل میں مولانا قطب میاں صاحب مرحوم سے بات چیت کرتے دیکھا تھا، ان کو ایک نظر میں پہچان لیا، اس میں تعجب کی بات نہ تھی؛ اس لئے کہ ان کی تصویریں اخبارات میں برابر آتی رہی ہیں غالباً انھیں کی مدد سے پہچانا اور جب فرنگی محل کا حوالہ دیا تو ان کو سب کچھ یاد تھا یہ ضرور تعجب کی بات تھی، قطب میاں صاحب مرحوم کا ذکر کیا اور بڑی دلچسپی سے لکھنو کی دو پلی ٹوپی کو یاد کیا جو ملاقات کے وقت قطب میاں صاحب کو پہنے انھوں نے دیکھا تھا، کہتے تھے کہ کتنی ہلکی پھلکی ٹوپیاں وہاں پہنی جاتی ہیں، ظاہر ہے کہ اس عرب ٹوپی کے مقابلے میں جو فلسطین، عراق، شام اور مصر میں پہنی جاتی ہے؛ گول ٹوپی جس پر پگڑی لپٹی ہوتی ہے، لکھنؤ کی دوپلی روپے میں ایک پیسے کا وزن رکھتی ہوگی!

موتمر کا افتتاح جلالتہ الملک (ہز مجسٹی) شاہ فیصل کی تقریر سے ہوا جو مطالب کے لحاظ سے معتدل اور خطابت کے اعتبار سے کامیاب ترین تھی، ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک بے حس و حرکت مجسمہ کھڑا ہے جس کے دہن سے ایک مربوط اور مسلسل سلسلہ تقریر کا نکل رہا ہے، نہ ہاتھ چلانا، نہ سرہلانا، نہ ادھر دیکھنا، نہ ادھر دیکھنا، دونوں ہاتھوں سے وہ اپنی زرین عبا کے سامنے کے حصے کو اس طرح پکڑے تھے جیسے کوئی نماز کی نیت باندھتا ہے اور تقریر کر رہے تھے، کوئی ایک گھنٹے انھوں نے پر مغز تقریر کی؛ انہوں نے اسلامی حکومتوں کے نمایندوں کو تلقین کی کہ وہ اپنی حکومتوں کے آئین کتاب (قرآن) وسنت (سیرت نبوی) کے مطابق بنانے کی کوشش کریں، ان مسلمان نمایندوں کو جو غیر اسلامی حکومتوں کے نمائندہ بن کر آئے تھے یعنی اپنے وطن میں اقلیت میں ہیں، جلالتہ الملک نے نصیحت کی کہ وہ تخریب اور بغاوت کرنے سے پر ہیز کریں اور اپنی نجی زندگی کو اسلامی تعلیمات کے مطابق بنانے کی کوشش کریں؛حالانکہ موتمر کا ہیجانی ماحول اس نصیحت کے لئے ساز گار نہ تھا، وہاں تو جو وفد آیا تھا وہ کسی نہ کسی ملک کے خلاف کوئی نہ کوئی مورچہ کھولنے کے دھن میں معلوم ہوتا تھا ۔

عالم ہے مکدر کوئی دل صاف نہیں ہے

اس عہد میں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے

جہاں تک مجلس رابطہ عالم اسلامی کے بنیادی مقاصد کا تعلق ہے وہ بلاشبہ بے ضرر اور مفید ہیں یعنی "تبلیغ اسلام کا فریضہ جو ہم مسلمانوں پر عائد ہوتا ہے اس کو انجام دنیا، اسلام کے بنیادی مسائل اور اس کی تعلیمات کی تشریح و توضیح کرنا اور ان شبہات کا جواب دنیا جو دشمنان اسلام کی طرف سے اس غرض سے پیدا کئے جاتے ہیں کہ مسلمان اپنے دین سے متنفر ہوجائیں اور ان کی وحدت پارہ پارہ ہو جائے"؛ یہ مقاصد یقیناً ایسے ہیں جن سے ہرمسلمان پوری طرح متفق ہے؛ لیکن ایک مقصد جو اس کے آگے بیان ہوا ہے وہ مبہم اور مشتبہ ہے یعنی "مسلمانوں کے مسائل پر غور کرنا اور ان مشکلات کو دور کرنے کی تدبیروں پر غور کرنا اور ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے کوشش کرنا ہے"۔

یہ مقصد اپنے اندر سیاست کی پوری سمیت رکھتا ہے؛ اس لئے کہ مسائل کا دائرہ بہت وسیع ہے اور اغلب یہ ہے کہ یہ وسعت جان بوجھ کر رکھی گئی ہے؛ تاکہ سیاسی شاطروں کو اس سے نفع اٹھانے کا پورا پورا موقع حاصل رہے، پھر یہ دیکھ کر یک گونہ تسلی ہو جاتی ہے کہ مجلس رابطہ عالم اسلامی کے اس منشور کے ساتھ ایک عہد و میثاق بھی ہے اور بہت صاف و صریح الفاظ میں جن میں تاویل کی کوئی گنجایش نہیں ہے اور وہ یہ کہ: اور ہم خدائے عزو جل کو گواہ بنا کر ا علان کرتے ہیں کہ ہمارا مقصد بگاڑ یا فتنہ پردازی نہیں ہے اور نہ کسی کی مخالفت مقصود ہے، نہ ہم کہیں اپنا نفود پیدا کرنا چاہتے ہیں اور نہ کسی پر قبضہ و تسلط کی طمع رکھتے ہیں، ہم نے اپنے مقاصد کے پیش نظر طے کیا ہے کہ ہمارا طریقہ کار یہ ہوگا اتحاد بین المسلمین کے لئے اپنی پوری کوشش صرف کرنا اور ان رکاوٹوں کو دور کرنا جو عالم اسلام کے لئے ایک مرکز بنانے کی راہ میں حائل ہوں گے۔

"بگاڑ" اور فتنہ پردازی جس سے برات کا خدائے عزوجل کو گواہ کر کے پوری قوت سے اعلان کیا گیا ہے آخر ہیں کیا چیز؟ کسی مسئلے کو جو سیاسی طور پر الجھا ہوا ہو حل کرنے کی کوشش کر نا رابطہ کی نظر میں "اصلاح" اور "اتحاد" کی حامل ہو سکتی ہے لیکن یہی کوشش بگاڑ اور فتنہ پر دازی کے مرادف بھی ثابت ہو سکتی ہے، اس میں شک نہیں کہ رابطہ کے بنیادی اراکین میں ایسے لوگ بھی ہیں جن کا مزاج خالص مذہبی اور تبلیغی ہے اور وہ پوری نیک نیتی سے اسلام کے بنیادی مسائل اور اس کی تعلیمات کی تشریح و توضیح کرنے کے جذبے کے تحت اس کے ممبر بنے ہیں، لیکن ایسے لوگ بھی ان میں ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا سیاست رہا ہے اور ہے، یہی دانستہ یا نادانستہ بگاڑ اور فتنہ پردازی کا باعث بنتے ہیں؛ محسوس یہ ہوا کہ موتمر میں جن میں اسلامی ملکوں کے نمائندوں کی غالب اکثریت تھی، ان مسلمانوں کے اقوال و آراء کو بے وقعت سمجھا گیا جو کسی غیر اسلامی ملک کے نمائیندے تھے، یہ کہنا تو بہت سہل ہے کہ یہ نمائندے اپنی حکومت کے دباؤ میں ہیں؛ اس لئے صحیح صورت حال پیش نہیں کر سکتے تو پھر موتمر نے ان کو زحمت ہی کیوں دی؟ اگر ان کی بات میں کوئی وزن اور صداقت نہیں ہے؟

ان غیر اسلامی ملکوں کے مسلمانوں کے مسائل سے بحث صرف ان کے حریف اسلامی ملکوں کی خاطر کر لی جاتی ہے، فیصلے بھی کر لئے جاتے ہیں جن کے ذریعہ غیر اسلامی ملکوں کو دھمکایا بھی جاتا ہے؛ اگر ایسا نہ ہوا تو تمام اسلامی ملک سیاسی روابط منقطع کرلیں گے وغیرہ وغیرہ اس کے بعد سب ہنسی خوشی اپنے وطن واپس چلے جاتے ہیں، وہاں پہنچ کر اپنی حکومتوں کی اپنے اغراض و مفادات کے تحت مقرر کردہ خارجہ پالیسی کا دم بھرنے لگتے ہیں۔

عنایت تخلیے میں بزم میں نا آشنا ہونا

            غضب ہیں یہ ادائیں! دم ہی بھر میں کیا سے کیا ہونا کسی اسلامی ملک کا وفد اپنے مطلق العنان حکمراں کی نمائندگی کے علاوہ اپنے جمہور کی بھی نمائندگی کر رہا ہے؟ اس پہلو سے جائزہ لینے کے لئے ہمیں خوردبین کی ضرورت محسوس ہوئی جو بد قسمتی سے ہمارے پاس نہ تھی؛ مؤتمر سے بھی ایک ہفتے کے اندر چھٹی ہوگئی اور اس احساس کے ساتھ چھٹی ہوئی کہ اگر کوئی یہ امید لے کر یہاں آتا ہے کہ "اسلام کے بنیادی مسائل اور اس کے تعلیمات کی تشریح وتوضیح" امت کے اس نمائندہ اجتماع میں ممکن ہو سکے گی تو وہ قطعا حق بہ جانب ہے؛ لیکن جو اس خام خیالی میں مبتلا ہو کر آنا چاہتا ہے کہ یہاں "مسلمانوں کے مسائل پر" اس طرح غورو خوض ہوگا کہ بگاڑو فتنہ پر دازی کا شائبہ بھی نہ آنے پائے تو یہ اس کی خام خیالی ہوگی۔

اب جو فرصت ہوئی تو دیکھا کہ بہت سے ہمارے ہم وطن رخصت ہو چکے ہیں جو رمضان سے پہلے آئے تھے وہ تو وطن کی طرف اور جو رمضان کے بعد حج سے بہت پہلے آئے تھے اور اب تک مدینہ منورہ نہیں گئے تھے مدینہ شریف کی طرف روانہ ہو گئے، حج کے بعد مکہ معظمہ میں ٹھہرنا سب ہی کو کھلتا ہے جو مدینہ شریف ہو آچکے ہوتے ہیں ان کو گھر کی یاد بری طرح ستانے لگتی ہے اور جو نہیں گئے ہیں جیسے ہم لوگ انھیں مدینہ شریف کی حاضری کا شوق بے چین کئے رہتا ہے ، ایسے بھی ضرور ہوتے ہیں جن کا دل مکہ معظمہ ہی میں خوب آسودہ رہتا ہے یہ وہ ہیں جن پر نسبت توحید غالب ہوتی ہے اور "حقیقت" کی منزل کے آشنا ہوتے ہیں لیکن جن کی براہ راست رسائی منزل حقیقت تک نہیں ہو سکتی وہ کسی وسیلے یا سہارے کے طلبگار ہوتے ہیں ان کا دل " وسیلے" میں اٹکا ہونا ہی چاہئیے۔

ایک نقشبندی بزرگ (جن کا چند سال ہوئے انتقال ہوا ہے) مولانا شاہ ہدایت علی صاحب مرحوم جے پوری نے ایک دفعہ ایک نجی صحبت میں اپنے ایک پڑھے لکھے مرید سے فرمایا تھا: "بعض حضرات پر نسبت توحید غالب ہوتی ہے مگر مولوی صاحب! اس میں خطرہ ہے، ہمارا واسطہ تو حضرت رسول ﷺ سے ہے، اور کوئی راستہ خطرات سے خالی نہیں"۔

ہم ان نقشبندی بزرگ کے ارشاد کا اپنے کو تابع پاتے تھے اور بڑی بے چینی سے حضور انور ﷺ کے دربار میں حاضری کے متمنی تھے۔

مگر ضابطے کے اعتبار سے ہمیں مکہ معظمہ سے نکلنے کی ابھی اجازت ہی نہیں مل سکتی تھی اور لاطائل اعذار کرکے اپنے سفارت خانے سے ہم ترجیح حاصل کرنا بھی نہیں چاہتے، سفارت خانے والوں کی پریشانی اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے ؛ لیکن ہندوستان سے روانگی سے قبل ہی ہمارے ایڈیٹر حیات اللہ صاحب انصاری نے نائب وزیر خارجہ شری دنیش سنگھ کو ہمیں ترجیح دینے کے لئے لکھ دیا تھا انھوں نے سفارت خانے کو لکھ دیا تھا، ہمیں معلوم ہوا کہ ہم ضابطہ کی خانہ پری کے لئے اب ایک درخواست دے دیں تو کافی ہے چنانچہ درخواست دے دی، ٢٤/اپریل کو درخواست دی تھی فورا منظور ہوگئی اور ٨/ مئی کے جہاز سے جدے سے ہماری روانگی کا حکم ہو گیا، اس حکم کو دکھا کر رئیس المعلمین کے یہاں سے ہمارے معلم نے مکہ معظمہ سے مدینہ شریف کے لئے روانگی کا پروانہ منگایا، پروانہ نہ ملتا تو حدود مکہ سے نکلتے ہی پہلی چوکی پر ہم سب دھر لئے جاتے۔

بہت سے ہوائی جہاز سے آئے تھے جن کے پاس اتنا وقت نہ تھا کہ بحری جہاز میں آنے جانے میں ۱۵-۲۰ دن صرف کریں اور باری کے انتظار میں مہینہ ڈیڑھ مہینے پڑے رہیں، کچھ لوگ ایسے بھی تھے جنہیں بحری جہاز میں جگہ نہیں ملی تھی مجبوراً ہوائی جہاز سے آئے تھے، یہ یہاں ٹھہرنا چاہتے تھے، واپسی کا ٹکٹ ہونے کی وجہ سے واپس انھیں اپنے ہوائی جہاز سے ہی سے ہونا تھا، ہاں اگر کوئی ہوائی مسافر پہلے جانے کا خواہشمند ہو تو وہ اپنی بعد کو آنے والی باری ٹھہرنے کے خواہشمند کو دے کر اس کی باری میں پہلے روانہ ہوسکتا تھا، ہوائی جہاز کے مسافروں کی باری میں ردو بدل کرنے کا کام حج کمیٹی کے چیرمین مسٹر مصطفی فقیہ ایم ایل اے(بمبئی) کے سپرد تھا اور وہ اسی بوہرہ رباط میں مقیم تھے، انہیں کے ساتھ مولانا محمد میاں صاحب فاروقی بھی ٹھہرے ہوئے تھے، ہم اکثر ان کے کمرے میں جاکر ردو بدل کی درخواستوں پر کارروائیاں ہوتے دیکھا کرتے تھے۔

ایک دن ہمارے کمرے پر کسی نے دستک دی دیکھا تو ہمارے شہر کے مجتہد مولانا محمد سعید صاحب کھڑے ہیں، خوشی ہوئی کہ انھوں نے ہم وطنی اور مراسم دیرینہ کا اتنا پاس کیا کہ باوجود بڑے ہونے کے خود ملاقات کے لئے زحمت کی، وہ بھی ہوائی جہار سے آئے تھے اور سیدھے واپس جانے کے بجائے مقامات مقدسہ ہو کر جانے کا پروگرام بنا چکے تھے، "کہنے لگے ہوائی جہاز کا واپسی کا ٹکٹ میرے پاس ہے، واپس کروں گا تو گیارہ سو کے بجائے صرف چھ سو روپیے واپس ہوں گے آپ اپنے اخبار کی وجہ سے جلد جانا چاہتے ہوں گئے آپ ہی اسے استعمال کریں جیسے میں نے استعمال کیا و یسے آپ نے"؛ ممنونیت کا غیر معمولی جذبہ اس وقت ہمارے اوپر طاری ہو گیا، تھوڑی دیر تو شکر گزاری کے کلمات بھی زبان سے ادا نہ ہو پائے پھر ہم نے بتایا کہ والدہ، پھوپھی جان اور ممانی ہمارے ساتھ ہیں، سعید میاں نے کہاکہ پھر آپ کے لئے ایک ٹکٹ بیکار ہے، اتفاق سے ایک ایسے ان کو مل گئے جو بحری جہاز سے آئے تھے اور ہوائی جہاز سے جلد واپس جانا چاہتے تھے یہ ٹکٹ انھوں نے لے لیا اور دام بھی دیدیئے، سعید میاں تو ہمیں بے دام دے رہے تھے۔

کمپوزنگ: شکیل احمد مئوی