عید الاضحی۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

04:10PM Tue 28 Jul, 2020

عیدالاضحیٰ

(۱۰فروری ۱۹۶۸ءکولکھنو ریڈیو اسٹیشن کی فرمائش پر عیدالاضحیٰ کے موقعہ پر یہ نشریہ نشر کیا  گیا۔ اس میں مولانا دریا بادی  نے اپنے منفرد لب ولہجہ مںض سنت ابراہیمی پر روشنی ڈالی ہے اور بڑے دلچسپ انداز سے اس کے مختلف پہلوﺅں کو پیش کیا ہے۔  ڈاکٹر زبیر  احمد  صدیقی)

---------------------------------------------------------

تہوار کے معنی دوسرے مذہبوں اورتمدنوں میں جوکچھ بھی ہوں، اسلام میں تو بہر حال اس کے معنی کھلی چھٹی اور بھر پور آزادی کے نہیں، اورسو بار نہیں ۔ اور نہ ان کا کوئی تعلق موسم کے ادل بدل اورفصلوں کے الٹ پھیر سے ہے۔  بندہ کا اپنے رب سے تعلقِ بندگی جو اس نے ہر وقت اور ہر حال میں قائم و دائم رکھا ہے، اس میں ذرا سی بھی ڈھیل کا روا دار وہ کسی تہوار کے موقع پر بھی نہیں۔  اسلامی مہینہ کے ادھر ۸، ۱۰ مہینے گزرے کہ ادھر حج بیت اللہ کے چرچے اور تذکرے عالمِ اسلامی کے گھر گھر میں شروع ہوگئے، اور مشرق و مغرب سے، شمال و جنوب سے، افریقہ سے، انڈونیشیا سے، ہندو افغانستان سے، حاجیوں کے قافلے کے قافلے زیارت بیت اللہ کے شوق کے مارے ہوئے، احرام پوش روانہ ہونے لگے۔ گورے ہوں کہ کالے، لال ہوں کہ پیلے، بوڑھے ہوں کہ جوان، سب کی منزل وہی ایک بیت الخلیل، جسے رب نے اپنا بیت کہہ کرپکارا! سال کے آخری مہینہ ذی الحجہ کا چاند ہوا کہ بڑے اورچھوٹے سب دن گننے لگے کہ مہینہ کی دسویں کو ”بقرعید“ ہوگی۔

عوامی لفظ اس کے لیے یہی ہے ۔ ورنہ اصطلاحی نام تو اس کا عیدالاضحی، یعنی قربانیوں والی عید ہے۔ عید جس میں ہرخوش حال گھر میں جانوروں کی قربانیاں ہوں گی۔  قربانیوں کے لفظ میں زیادہ ذائقہ کے لیے کس درجہ لذت و کشش موجود ہے۔  دنوں نہیں بلکہ اب تو ہفتوں کیوں کہیے، مہینوں پیشتر سے جانوروں کی تلاش اورٹٹول شروع ہوجاتی ہے۔  مول تول ایک کی جگہ دس دس کے ہونے لگے اور وارے نیارے دس بیس کی جگہ سو سیکڑے کے بے کھٹکے اور بے دھڑک ہوکر رہے۔

ادھرفجرکی اذان ہوئی کہ مومن کے گھرمیں بقرعید شروع ہوگئی۔  بلکہ بچے تو مارے خوشی کے فجرسے پہلے ہی جاگ پڑے، اورنہانے دھونے کے انتظام شروع ہوگئے۔  نام عید کی برکت ہے کہ بڑے بڑے بے غسلے بھی آج نہائیں گے، اورنہا دھو کر ہی عید گاہ کو جائیں گے۔  نماز فجر جوں توں ہوئی، اور تیاریاں نمازِ عید کی ہونے لگیں ۔  ”نمازِ عید“  کیسی؟ جی ہاں، نماز کی آج چھٹی نہیں ملی، کوئی نماز تخفیف میں بھی نہیں آئی، بلکہ علاوہ پانچ بندھے ہوئے وقتوں کے ایک چھٹی نماز اور بڑھ گئی ۔ پہر دن چڑھا، اور نمازیوں کی ٹولیاں صاف ستھرا نفیس لباس پہنے عیدگاہ اور مسجدوں کی طرف چل پڑیں۔  بوڑھے اور بچے سب ساتھ ہیں۔  "اللہ اکبر اللہ اکبر لاالٰہ الااللہ۔ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد" کے زمزموں اور نغموں سے راستے بھی گونج رہے ہیں، اورمسجدوں کے در و دیوار بھی۔  بڑا اللہ ہے کوئی دوسرا اس کے سوانہیں، اور اللہ ہی بڑا ہے اللہ بڑاہے، اور حمد ساری کی ساری اسی کی ہے۔

کیا دُھن ہے اورکیا مستی ہے، ہر ایک کی زبان پر یہی نعرہ خدا پرستی ہے۔ نہ کسی اور کی جے پکاری جائے گی، اور نہ کسی اور کی بڑائی منائی جائے گی۔ اسی کا نام پکارتے، اسی کا نام اچھالتے، جس طرح کل نویں کو عرفات میں حج ہوگیا اسی طرح آج عالم اسلام میں گھر گھر بقرعید ہوجائے گی۔  دوپہر سے ذرا قبل مسجدوں سے واپسی شروع ہوگئی۔  اسی شان کے ساتھ اسی آن بان کے ساتھ، توحید کا وہی نعرہ دہراتے ہوئے تکبیر کا پرچم لہراتے ہوئے، مسلمان کے کھیل میں بھی تفریح میں بھی کیا بانکپن ہے

دوپہر ابھی ہونے بھی نہیں پائی کہ خوش حال گھرانوں میں تو قربانیاں شروع ہوگئیں۔  قربانی کے نصاب قربانی کے جانور یہ سب تفصیلات فقہ کی کتابوں میں درج ہیں۔  اور ہر پڑھا لکھا مسلمان اس سے بہ قدرضرورت واقف ہی ہے۔ مسلمان جانور ذبح  کرتے اورچھری چلاتے ہوئے علاوہ رسمی کلمہ بسم اللہ اللہ اکبر کے یہ بھی کہتاجائے گا کہ ”ربناتقبل منی کما تقبلت من خلیلک ابراہیم“ اے اللہ اسے قبول کیجیے میری طرف سے جیسی قربانی آپ نے قبول کی تھی اپنے دوست ابراہیمؑ  کی پیش کی ہوئی۔

اس ذرا سی تلمیح نے کتنا اہم پہلو تاریخ امت کا نظروں کے سامنے کردیا!  ۴ہزار سال قبل مسیح میں ابراہیم  ؑبن آذر امت کے وہ مورث اعلیٰ ہوئے ہیں، جنھوں نے محض خواب میں اشارہ پا کر اپنے لخت جگر اسمٰعیل ؑ کو لٹا کر بھیڑ بکری کی طرح راہ خدا میں ذبح کر ڈالنا چاہا تھا، بلکہ آنکھ پر پٹی باندھ چھری اپنے خیال میں حلقوم اسمٰعیلؑ پر چلا ہی دی تھی کہ ایک معجزہ غیبی نے اسمٰعیلؑ کو موت کے آغوش سے نکال لیا۔  وَفَدَینَاہُ بِذِبحٍ عظیم  ،  اس اہم تاریخی واقعہ کو یاد گار بنا کر اس قربانی کو امت کے لیے واجب قرار دے دیا۔

قربانی کی تاریخیں تین دن تک رہیں گی۔  علاوہ بقرعید کے ساڑھے تین دن ہر فرض نماز کے بعد تکبیر بالجہر بھی قائم رہے گی۔  تینوں دن مسلمانوں میں دعوت وضیافت کا چلن بھی جاری رہے گا۔  مسلمان ان تین دنوں میں گوشت جتنا کھائے گا اس سے بڑھ کر دوسروں کوکھلائے گا، اورغریبوں مفلسوں کو بھی،  امیروں رئیسوں کے دسترخوان کا مزہ ایک بار تو حاصل ہو ہی جائے گا۔  قورمہ، قلیہ پلاﺅ، بریانی، دوپیازہ، کلیجی، گردے، سیخ کے کباب، کوفتے، تکے،  پسندے اوربھنی ہوئی ران کتنے ہی نام ذہن میں اندر اندر گردش کرنے لگے ہیں۔

عید کی طرح بقرعید کے بھی وقت ملنے ملانے کے ہوتے ہیں۔  نماز کے بعد ہی سے یہ گشت شروع ہوجاتے ہیں۔  امیرغریب کے ہاں جانے سے جھجھک رہے ہیں نہ غریب امیر کے ہاں حاضری سے شرما رہے ہیں ۔ چکوﺅں، قصابوں، قصائیوں، بوچڑوں، گوشت فروشوں کی آج بن آئی ہے۔  قیمت و اجرت کے نام سے جوچاہتے مانگ لیتے ہیں، اورمنہ مانگی اجرتیں کما لیتے ہیں۔  ان کی سہالک کا کہنا چاہیے کہ یہی زمانہ ہوتاہے۔"

(منقول: نشریات ماجدی، ترتیب جدید مع تخریج و تحشیہ، مرتبہ زبیر احمد صدیقی،۲۰۱۶ء)

     http://www.bhatkallys.com/ur/author/abdulmajid/