سچی باتیں ۔۔۔ مکر اللہ --- تحریر : مولانا عبد الماجد دریابادی


( فَلَمَّا نَسُوْا مَاذُکِّرُوْا بِہٖ فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَیٍْٔ حَتّیٰ اِذَا فَرِحُوْا بِمَا اُوْتُوْا اَخَذْنٰھُمْ بَغْتَۃً فَاِذَا ھُمْ مُبْسِلُوْن) (انعام۔ع۔۱۱)
پھر جب وہ ان چیزوں کو بھولے رہے جن کی انھیں نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کشادہ کردیئے یہاں تک کہ جو چیزیں ان کو ملی تھیں،جب ان پر وہ خوب اتراگئے توہم نے دفعۃًانھیں پکڑ لیا پھر تو وہ ہکا بکاہوکر رہ گئے۔
کلام پاک میں بعض اگلی شامت زدہ گمراہ قوموں کا ذکر کرکے ارشاد ہوتاہے کہ جب وہ لوگ احکام الٰہی سے برابر غفلت ہی برتتے رہے اور چونکانے سے نہ چونکے تومشیت الٰہی نے دفعۃً انھیں کوئی سزا نہیں دی،فورًا ان پر درِرزق بند نہیں ہوا ،بلکہ اس کے برعکس ان پر ہر شے کے دروازے کشادہ کردیئے گئے ! فَتَحْنَا عَلَیْھِمْ اَبْوَابَ کُلِّ شَی ان کی آمدنیاں بڑھنے لگیں ،ان کے دولت واقبال میں ترقی ہونے لگی،ان کا جاہ وچشم عروج پر آگیا ،یہاں تک کہ وہ اپنی ان کامیابیوں اور کامرانیوں کے نشہ میں اور زیادہ مست وسرشار ہوگئے ،خود پرستی اور خدا فرموشی میں اور زیادہ منہمک ہوگئے، اپنی فتحمندیوں ،خود بینیوں اور خود اعتمادیوں کے گھمنڈ میں اور زیادہ آگئے اس وقت ان پر یک بیک قہرِالٰہی نازل ہوا اور وہ پاداشِ عمل میں دھر پکڑے گئے۔
آج آپ کو سود خواری کی تلقین دی جاتی ہے اور دلیل یہ پیش کی جاتی ہے کہ دیکھیے مغرب کی سود خوار قومیں کیسی خوش حال ہیں ،آج آپ کو شریعت شکنی کا سبز باغ دکھا یا جاتا ہے اورکہا یہ جاتا ہے کہ دیکھیے مغرب کی اقبال مند قومیں ان قیود سے آزاد ہوکر کیسی کیسی ترقیاں کر رہی ہیں،کلامِ پاک کی جو تصریح آپ کی نظر سے گزری اس کے بعد اس قسم کے دلائل و شواہد کا کوئی وزن باقی رہ جاتا ہے!’’خوش قسمت‘‘ اور ’’اقبال مند‘‘اور ’’قابل رشک‘‘ وہ قومیں نہیں جن کا آغاز خوش گوار ہوتاہے، بلکہ وہ ہیں جن کا انجام خوش گوار ہوتا ہے،گھوڑدوڑ میں بازی اسی گھوڑے کے ہاتھ میں نہیں رہتی جو دوڑ کے شروع میں آگے رہتاہے ،بازی اس کے ہاتھ رہتی ہے جو خاتمہ پر سب سے آگے ہوتا ہے،فرعون اورنمرود،ہامان اورقارون اور قوم عاد وثمود سے زیادہ شاندار اورزیادہ بااقبال ’’آغاز‘‘کس کا ہوا،لیکن ’’انجام‘‘ آخرت میں نہیں اسی دنیا میں جو کچھ ہواہے ،اس کا تذکرہ بھی قرآن ہی میں محفوظ ہے ، خوشحال اور اقبال مندی کو لازمی طور پر اور ہر حال میں کسی قوم کی ’’اصلاح‘‘و’’فلاح‘‘کی دلیل قرار دینا،قرآنِ پاک کی تعلیم سے یکسر بیگانگی کا ثبوت دینا ہے۔