پنچ ہزاری کتابیں پرسہ اور نقش برآب

Bhatkallys

Published in - Other

12:15PM Tue 29 Mar, 2016
دوسری و آخری قسط حفیظ نعمانی ہم نے کل ندیم صدیقی کی کتاب پرسہ پر ہونے والے ظلم کا ذکر کرتے ہوئے تشطیر کے بارے میں لکھا تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ تضمین تو ہمیشہ سے سنتے رہے ہیں اور پڑھتے رہے ہیں لیکن تشطیر پہلی بار پرسہ کے صفحات پر پڑھنے کا موقع ملا۔ ندیم صدیقی نے لکھا ہے کہ اصغر مرزا پوری نے ایک صاحب سے ملوایا کہ ان سے ملو یہ بلالؔ انصاری ہیں۔ اور ان سے ان کی تشطیریں بھی سنو۔ بلال انصاری صاحب ہم کو پہلے سے جانتے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میاں ندیم اپنی نعت کا ایک مصرع ’’آنے والی یہاں قیامت ہے‘‘ کا پہلا مصرع پڑھو ندیم صدیقی نے سنا دیا۔ ؂ اب نبیؐ دوسرا نہ آئے گا۔ آنے والی یہاں قیامت ہے۔ بلال صاحب نے اس شعر کی تشطیر کرکے بتایا کہ یہ کیسے کہی جاتی ہے۔ اب نبیؐ دوسرا نہ آئے گا ’’وقت جتنا ہے وہ غنیمت ہے اپنے اعمال پر نظر کرلو‘‘ آنے والی یہاں قیامت ہے تشطیر کہنے والے صرف بلال انصاری نہیں بلکہ کراچی کے شاہد الّوری سے بھی ندیم واقف ہیں اور انہوں نے ایک بڑا ذخیرہ چھوڑا ہے۔ ندیم کراچی میں ان سے ملے بھی ہیں اور ذخیرہ دیکھا بھی ہے۔ ’’پرسہ‘‘ میں ندیم ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ایک پرانی کتاب ہاتھ لگی کوئی حریف فیض آبادی تھے۔ طنز و مزاح سے کتاب بھری ہوئی تھی۔ دو شعر ملاحظہ ہوں۔ پیر جی دیجئے ایسا کوئی نیارا تعویذ توڑکر چرخ سے لادے جو ستارا تعویذ جج پر فالج گرے وکلا کی زبانیں سڑ جائیں کورٹ میں لے کے جو جاؤں میں تمہارا تعویذ ندیم صدیقی کی کتاب کی بے توقیری بلکہ تذلیل کرنے کے بجائے اگر اسے ان کتابوں میں رکھ دیتے جنہیں صرف دعائیں دی ہیں تو ہم جیسے پڑھنے والوں کو صدمہ تو نہ ہوتا۔ بات صرف ندیم صدیقی کی نہیں ہے۔ سہیل انجم کی بھی ہے ان کی کتاب بھی پانچ ہزار یعنی خیرات کی فہرست میں ڈال دی گئی۔ سہیل جیسے صحافی جتنے اس وقت ہیں ان کے مقابلہ میں انگلیاں بلاشبہ انگلیاں زیادہ ہیں اور ان دونوں کے ساتھ اور دو اکادمی نے جیسی بے رحمی کی ہے اس کا نتیجہ ہے کہ ہم بھی چیخ پڑے جس نے اردو اکادمی کو اس قابل بھی کبھی نہیں سمجھا کہ اپنے مشہور، نیک نام اور معروف پریس میں اس کی کوئی کتاب چھاپی ہو۔ کیونکہ وہ اردو کا سلاٹر ہاؤس ہے اور وہاں علم کی سرپرستی نہیں ہوتی بلکہ جوتے کی پوجا ہوتی ہے۔ نواز دیوبندی سے ہمیں دیوبند کے رشتہ سے توقع تھی کہ اگر ان سے بے ایمانی کرائی جائے گی تو شاید وہ وعلیکم السلام کرکے جانا پسند کریں گے۔ لیکن اس سال کی فہرست دیکھ کر اور یہ دیکھ کر کہ گورنر عزیز قریشی صاحب کو ڈیڑھ لاکھ روپئے دینے کے لئے امیرخسرو سے انہیں وابستہ کردیا گیا جبکہ امیرخسرو سے ان کا کیا لینا دینا؟ اگر ایک فائل پر دستخط کی قیمت ہی دینا تھی تو پھر مولانا آزاد انعام پانچ لاکھ دیئے ہوتے۔ رہیں مجموعی ادبی خدمات تو وہ کون سا تھرمامیٹر ہے جس سے ان خدمات کو دیکھا جاتا ہے؟ بہادری تو یہ ہوتی ہے کہ کہہ دیتے کہ وہ مجبور ہیں۔ نواز دیوبندی کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ غلط فیصلہ پر دستخط کرانے والے سے زیادہ بڑا مجرم دستخط کرنے والا ہوتا ہے۔ وہ اگر فرصت ہو تو ان کو بھی دیکھ لیں اور ان کے کارناموں کو بھی دیکھ لیں جن پر روپئے کی بارش کی گئی ہے؟ صرف اس لئے کہ انہیں کس سے فائدہ پہونچے گا اور کس سے وزیر کے حکم کی تعمیل ہوجائے گی۔ اور کون حاجی سن کر انہیں ملاّ کہہ دے گا؟ سہیل انجم کی کتاب ’’نقش برآب‘‘ خاکوں کا مجموعہ ہے۔ اردو اکادمی کا بیان سچ ہے یا جھوٹ کہ یہ کتاب خیرات وصول کرنے کے خانہ میں آتی ہے؟ منظور عثمانی ممتاز صحافی ہیں اور ان سے بہت بڑے ہیں جنہیں اردو اکادمی کی آنکھیں دیکھتی ہیں وہ سہیل انجم کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’خوشا نصیب کہ یہ دیونۂ لوح و قلم ایک دن اچانک میری دیوار تک آپہونچا اور اس نے اپنی تازہ ترین کتاب سے بھی نوازا۔ ورق گردانی سے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ آپ کی پہلی تصنیف ’’بازیافت‘‘ مطبوعہ 2005 ء (تنقیدی مضامین کا مجموعہ) کے بعد یہ ان کی پندرہویں تخلیق ہے۔ ان کے علاوہ بھی رحم طباعت میں تین اور کتابیں کلبلا رہی ہیں جن کی تولید سعید عنقریب ہونے والی ہے۔ بھلا سرعت کی اس سے بڑی مثال کیا ہوسکتی ہے؟ ؂ لرزے ہے موج سے تری رفتار دیکھ کر آگے لکھتے ہیں انجم صاحب نے میڈیا کو اپنا موضوع بنایا جس کے نتیجے میں میڈیا اور صحافت پر ’’میڈیا روپ اور بہروپ‘‘ اور ’’مغربی میڈیا اور اسلام‘‘ ’’میڈیا اردو اور جدید رجحانات‘‘ اور احوالِ صحافت وجود میں آئیں۔ سہیل انجم صاحب وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں اور تصنیف و تالیف کے ساتھ ساتھ حالات حاضرہ پر مضامین بھی لکھتے ہیں جنہیں ملک کے اخبار احترام کے ساتھ چھاپتے ہیں۔ اتفاق سے 14 فروری کو میرے ساتھ ایک حادثہ ہوگیا جس میں داہنے ہاتھ اور داہنی آنکھ میں چوٹ آگئی۔ اتفاق کی بات کہ 15 فروری کو تین ہفتے کے لئے میرے رفیق و حبیب عالم نقوی صاحب ملک سے باہر جارہے تھے اور اودھ نامہ کے چیف ایڈیٹر فیاض رفعت صاحب کو دہلی جانا تھا۔ اخبار کے ایڈیٹر عبید اللہ ناصر صاحب بنگلور جانا چاہتے تھے۔ اس صورت حال سے آنکھوں کے سامنے اندھیرا گہرا ہوگیا اور میں نے صرف سہیل انجم کو آواز دی کہ اگر ممکن ہو تو میری مدد کردیجئے اور انہوں نے ازراہ محبت ایک مہینہ تک مسلسل اودھ نامہ میں ہر دن مضمون بھیجا جس کے بعد ہر کسی کی زبان پر تھا کہ اخبار کا وقار بہت بڑھ گیا۔ سہیل جتنی عمر کے ہیں وہ اس سے بہت آگے بڑھ کر لکھ رہے ہیں۔ ان کے ساتھ بھی اردو اکادمی نے بھونڈا مذاق کیا ہے کہ پانچ ہزار کی خیرات کی لائن میں انہیں بھی کھڑا کردیا۔ پانچ ہزار کی خیرات پانے والوں کی تعداد 114 ہے اور جو بے صلاحیت، کم لیاقت اور کسی بھی وجہ سے نوازے جانے والے نہال کئے گئے ہیں وہ بھی کئی ہیں۔ جن کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ وہ ندیم صدیقی اور سہیل انجم کو سمجھ میں یہی بہت ہے؟ ان 114 میں اور کون کون ایسا ہے جس کی شکایت وہ خود کرے جیسے ٹانڈہ کے انس سرور انصاری نے شکایت کی ہے کہ میری تیسری کتاب 250 صفحات کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس پر پانچ ہزار ملے ہیں جو میں واپس کررہا ہوں۔ اور بھی ایسے ہوں گے جن کے متعلق ہماری طرح دوسرے بولیں گے یا وہ جو خود اس رقم کو لے کر عمربھر شرمندہ رہنے پر تیار نہیں ہیں وہ واپس کریں گے۔ یہ بھی سامنے آجائے گا لیکن جن ادیبوں اور شہرت کی حد تک دانشوروں نے کتابیں پڑھ کر فیصلہ کیا ہے یا تو اردو دنیا میں ان سے بڑا جاہل کوئی نہیں ہے۔ یا تمام انعامات اکادمی کے دفتر میں بیٹھ کر ذمہ داروں اور کلرکوں نے ایسے ہی دے دیئے ہیں جیسے کسی زمانہ میں بورڈ کی کاپیاں گاؤں کے اسکولوں کے ماسٹر جانچتے تھے اور وہ اپنے لڑکوں لڑکیوں سے یہ کام کراتے تھے۔ اور جو کوئی ان تک پہونچ گیا اور اس نے منھ میٹھا کرا دیا اس نے من چاہے نمبر لے لئے۔ والا فارمولہ استعمال ہوا ہے۔ اس لئے کہ بڑے سے بڑا بے ایمان اس سے بڑی بے ایمانی نہیں کرسکتا تھا کاش کوئی توبہ کرنے کے لئے سامنے آنے کی ہمت کرے؟