سچی باتیں۔۔۔ راہ خداوندی میں خرچ۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

08:22PM Thu 18 Nov, 2021

1927-11-04

الشیطان یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء واللہ یعدکم مغفرۃ منہ وفضلا، واللہ واسع علیم۔

شیطان تمہیں تنگدستی سے ڈراتاہے، اور تمہیں بخل کا حکم دتیاہے، اور اللہ تمہیں اپنی طرف سے بخشش اور فضل کا وعدہ دیتاہے، اور اللہ کشائش والا علم والاہے۔

آیۂ بالا سورۂ بقرہ رکوع ۷ ۳ میں واقع ہوئی ہے۔ اوپر سے مضمون یہ چلا آرہاہے، کہ مسلمانوں کو رسم ورواج کی مد میں، ریا ونمائش ، جاہ و نفس کی راہ میں، خرچ کرنے سے بچنا چاہئے، اور اپنی دولت، اللہ کی رضاجوئی کے لئے، نیک کاموں میں خرچ کرنا چاہئے، اوراس خرچ کو فضول ولاحاصل نہ سمجھنا چاہئے، اس آیت میںمذکور یہ ہے ، کہ راہ خدامیں، کارخیر میں، خرچ کرنے سے شیطان طرح طرح آکر روکتاہے، دل میںمفلس وتنگدست ہوجانے کے وسوسے پیداکرتاہے، اور مال کو بچابچاکر جوڑ رکھنے کی ترغیب دیاکرتاہے۔ لیکن اللہ جس کے ہاتھ میں سارے اسباب کشائش کی کنجی ہے، اورجوتمام داناؤں سے بڑھ کرداناہے، اُس نے افلاس وامارت، ناداری وخوشحالی کے قوانین ہی دوسرے رکھے ہیں، اور اپنی طرف سے اطمینان دلاتاہے، کہ اُس کی راہ میں خرچ کرنے سے ہرگز کوئی مصیبت نہیں آجاتی، بلکہ اُس کے فضل وکرم ہی کانزول ہوتاہے۔

شیطان برابر یہ تحریک دل میں ڈالتارہتاہے، کہ صدقات میں روپیہ نہ اُٹھاؤ، زکوٰۃ نہ اداکرو، حج میں روپیہ نہ اُٹھاؤ، امت کے فلاح وبہبود کے کاموں میں چندہ نہ دو، غریبوں اور بیکسوں، یتیموں اور رانڈوں کی خبرگیری کی فکر میں کہاں تک پڑوگے، کہ ان طریقوں سے روپیہ گھٹنے لگے گا، اور چند روز میں تم خود زیر بار  وقرضدار ہوکر مفلس ونادار ہوجاؤ گے(یہی معنی)ہیں ’’فحشاء‘‘ کے، اُس بداخلاقی کے جو طبیعت میں بخل پیدا ہوتی ہے) بلکہ اپنی دولت کو بڑے بڑے بینکوں میں محفوظ کردو، اپنے سرمایہ سے ساہوکاری شروع کردو، اپنے روپیہ کو کرایہ پر چلانا شروع کردو، کہ اس سے روپیہ بجائے گھٹنے کے بڑھنے لگے گا، ایک ایک کے چار چار ملنے لگیں گے، ہرقسم کے لطف وعیش ، عزت ونمود کا سامان خرید کیاجاسکے گا، کہ یہی حاصل حیات ومقصد زندگی ہے! یہ تمام تحریکیں جس ذریعہ سے دل میں پیدا ہوتی ہیں، اُن کا ایک جامع نام قرآن پاک نے ’’شیطان ‘‘ فرمادیاہے۔

اب ارشاد ہو ، کہ آج آپ کے گردوپیش یہی صورتِ حال ہے یا نہیں؟ آپ کے دوستوںمیں، آپ کے ملنے والوںمیں، آپ کے جاننے والوں میں، کتنے ایسے ہیں، جوآپ کو سفر حج کے لئے آمادہ کرتے ہیں؟ جو آپ کو پابندی کے ساتھ نکالتے رہنے کی صلاح دیتے ہیں؟ پھر جب آپ از خود، کسی نیک مقصد میں چندہ دینے کے لئے آمادہ ہوتے ہیں، تو کتنے ایسے ہیں، جو اس سے آپ کو روکنے کی کوشش نہیں کرتے، اور قومی کارکنوں کے ’’چندہ کھاجاتے‘‘ کی داستانیں سناسناکر آپ کو ان کے خلاف نہیں ورغلایاکرتے؟ اس کے برخلاف، کس کثرت سے ، ہر اخبار، ہر انجمن، ہرلکچرار، کے ذریعے سے آج یہ شیطانی تحریک آپ کے دل میں ڈالی جارہی ہے، کہ روپیہ کو سودی کاروبار میں لگاؤ، بیمہ کمپنیاں قائم کرو، ساہوکاری اور مہاجنی کا پیشہ اختیار کرو، اور اپنا اعتماد ، اپنے پیدا کرنے والے، اور ہرشے پر قدرت رکھنے والے سے ہٹاکر ، بینک کے مینجروں، اور بیمہ کمپنی کے ڈائرکٹروں پر قائم کرو! اللہ پر اعتماد وتوکل کا نام زبان پر لانا’’ترک دنیا‘‘ کی تعلیم دیناہے، ’’رہبانیت‘‘ ہے، ’’جمود وتاریک خیالی ‘‘ہے، لیکن وہی توکل واعتماد اگر بجائے دولت آفریں کے، دولت پر قائم کیجئے، گورنمنٹ کے پرامیری نوٹوں پر، ڈاکخانہ کے تمسکات پر، بینک کے حصوں پر، جتنا بھی چاہئے، آنکھ بند کرکے قائم کیجئے، عین دانشمندی، روشن خیالی ، ہے، ضروریات زمانہ کی نبض شناسی ہی امت کی مخلصانہ خدمت گزاری ہے، اور قوم کی مصلحانہ خیر اندیشی ہے!!