ساتویں پاس اُردو کا ایک عالِم اور ہمارا ڈگری یافتہ معاشرہ... تحریر : ندیم صدیقی

ہمارے عم محترم جو شاعر و ادیب تو نہیں مگر زبان اورشعر وادب سے ان کاکیسا شغف ہو سکتا ہے صرف اس واقعے سےآپ اندازہ لگا سکتے۔ ہم اُردو کی مجموعی صورتِ حال پر بات کررہے تھے۔ محترم انہماک سے سُن رہے تھے۔ اچانک اُن کے چہرے پرہماری نظر پڑی تو دیکھا کہ ایک تشویش اور اُداسی کی لہر ان کی آنکھوں میں تیر رہی ہے۔ جب آنکھیں چار ہوئیں تو وہ ہم سے کہنےلگے : کیا واقعی اُردو ختم ہو جائیگی۔؟۔۔۔ ہم نے ان کے سوال کا جواب یوں دیا :چچا ! آپ پانچ بھائی تھے جن میں سے چار بھائیوں کو ہم نے دیکھا کہ وہ اپنی زبان سے کتنے قریب تھے ، دو تو باقاعدہ شاعر ہوئے ۔آپ شاعر تو نہیں مگر ہم نے آپ کے منہ سے حفیظؔ جالندھری کی پوری نظم ’ ابھی تو میں جوان ہوں۔‘ ہی نہیں دیگر شعرا کے اچھے اشعار بھی سنے ہیں برسوں آپ کو باقاعدگی سے اُردواخبار اور کتابیں پڑھتے دیکھا ہے اور آج بھی آپ اُردو اخبارات وغیرہ پڑھ رہے ہیں۔ کبھی آپ کی زبان سے اُردو کے کسی لفظ کاکوئی تلفظ غلط نہیں سنا۔ کل آپ پانچ بھائی تھے اب پانچ کے ہندسے کو تین یا چار سے ضرب دیدیجیے اور بتائیےکہ کیا حاصل ہوا۔؟ ہم جانتے تھے کہ موصوف ریاضی میں طاق ہیں۔ انہوں نے فوراً سے پیشتر جواب دیا : پانچ چوک بیس۔۔۔ اب ہم نے کہا کہ ایک بات اور بتائیں کہ اپنے خاندان کی معاشی حالت گزرے ہوئے زمانے کے مقابلے میں اب کیسی ہے ۔؟۔۔۔ انہوں نے اس سوال کاجواب دینے میں بھی لمحے بھر کی تاخیر نہیں کی اور کہا: الحمد للہ کل سےکہیں بہتر حالت ہے۔ اب ہم نے کہا: ذرا بتائیے کہ صرف آپ کی پانچ اولادیں ہیں ، ماشااللہ معروف معنوں میں سب تعلیم یافتہ ہیں، کیا ان میں بھی اُردو کے تعلق سے وہی جذبات ہیں جو آپ کے ہاں اور آپ کے بھائیوں میں تھے۔ ہمارے اس سوال کے جواب میں اُنہوں نے زبان تو نہیں ہلائی مگر ان کی خاموشی بہت کچھ کہہ گئی۔ اب ہم نے اُن سےکہا: چچا!آپ کی جو کیفیت ہے، اسی کیفیت میں آپ کے سوال۔۔۔ ’’کیا واقعی اُردو ختم ہو جائیگی۔؟‘‘۔۔۔ کا جواب چُھپا ہوا ہے۔ اُنہوں نے ہماری طرف ایک تیز نگاہ کی اور پھر اُن کے چہرے پر وہی اُداسی ہمیں مزید گہری ہوتی نظر آئی۔ کوئی دو دن پہلے اُردو کی ایک مشہور و ممتاز ادیب محترمہ زاہدہ حنا کی سترہویں سالگرہ کی خبر پڑھی۔ اللہ انھیں صحت کے ساتھ تا دیر سلامت رکھے۔(آمین) محترمہ ہماری خواتین قلم کاروں میں کئی لحاظ سے امتیازی شناخت کی حامل ہیں۔ موصوفہ کی ابتک کوئی آٹھ کتابیں شائع ہی نہیں ہوئیں بلکہ دوسری زبانوں میں بھی انھیں منتقل کیا گیا ہے۔ وہ کئی برس سے پاکستان کے مؤقر اخبارات کیلئے باقاعدگی سے ایک کالم بھی ہر ہفتے لکھتی ہیں جو پاکستان ہی میں نہیں یہاں بھی ایک بڑے حلقے میں دلچسپی سے پڑھا جاتا ہے بلکہ یہاں کے ہندی اخبار میں بھی اسے ڈائجسٹ کیا جاتا ہے۔ انھیں پاک۔ ہند کے موقر اعزازات سے بھی نوازا جاچکا ہے۔ انکے والد اپنی بیٹی کو اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتے تھے مگر ان کی معاشی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہ اپنی اس خواہش کی تکمیل کر سکیں مگر پھر بھی انہوں نے اپنی بیٹی کی روح میں علم کے تعلق سے ایک گہرے تجسس اور طلب کے چراغ روشن کر دِیے ۔ خود زاہدہ حنا نے کہیں لکھا ہے کہ’’ گھر میں جس کاغذ میں کوئی چیز بازار سے آتی تھی، اماں اکثر اُس کاغذ کا گولہ جیسا بناکر کسی کونے میں اسے پھینک دیتیں اور پھر کچھ دیر بعد جب میری نظر اس گولے پر پڑتی تو میں اس گولے کو اِس تجسس میں اٹھا لیتی تھی کہ شاید اس میں ایساکچھ چھپا ہو جو میرے لئے کسی علم کا ذریعہ بن جائے۔‘‘ یعنی ان کے والد نے اپنی بیٹی کے دل و دماغ میں علم و ادب کے جو چراغ روشن کیے تھے اس کی لَو کم نہیں ہوئی بلکہ وقت کے ساتھ بڑھتی رہی، آج زاہدہ حنا جو کچھ ہیں اس میں اسی تربیت اور طلب علمی نے اساسی کردار اد ا کیا ہے۔ محترمہ نے ایک انٹرویو میں یہ بھی بتایا تھا کہ ’’میں کوئی سات آٹھ برس کی تھی جب میرے والد مجھے خواجہ حالیؔ کی مسدس حفظ کرا رہے تھے، اکثراسے پڑھتی رہتی تھی والد کے جو دوست گھر میں آتے تھے تو انہوں نے جب مسدسِ حالی اور میرے حفظ کا معاملہ سنا تو ابا کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ تم بچی پر ظلم کر رہے ہو وہ ابھی کم عمر ہے مسدسِ حالی جیسی طویل ترین نظم( نئی نسل کیلئے یہ وضاحت کہ یہ نظم کوئی نو سَو بند پر مشتمل ہے اور ایک بند چھ مصرعوں کا ہے۔ گو یا ایک کتاب ہے۔) اسے پڑھا رہے ہو۔‘‘ مگر اُن کے والد نے وہی کیا جو وہ چاہتے تھے۔ ۔۔ پتہ چلا کہ ان کے والد کے ذہن میں کوئی منصوبہ ،کوئی پروگرام تھا۔ جس کا نتیجہ آج زاہدہ حنا کی شکل میں تمام دُنیا کے سامنے ہے۔۔۔ گزشتہ ہفتے ممبئی کے تدریسی حلقے کی ایک معتبر شخصیت ، شاعرو ادیب ڈاکٹر مجاہد حسین حسینی کے دَولت خانے پر حاضری ہوئی وہاں اُن کے منجھلے فرزند محمد سلمان حسینی عرف ببلو میاں بھی موجود تھے، جو بنگلور سے قریب کسی ٹاؤن میں درس و تدریس جیسے شعبے سے وابستہ ہیں، ان سے کئی برس بعد ملاقات ہوئی۔ محترم مجاہد حسینی جو عمر کے آٹھ دہے دو برس قبل ہی پورے کر چکے ہیں اب ضعف کے حصار میں ہیں موصوف دورانِ گفتگو برمحل اپنا کوئی شعر سنا رہے تھے مگر شعر بر وقت اُنھیں یاد نہیں آیا، تو قریب ہی بیٹھے ہوئے سلمانؔ میاں نے اپنے والد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ کی اِجازت ہوتو مَیں وہ شعر سنا دوں۔ باپ نے مسکراتے ہوئے اجازت دی اور لائق فرزند نے فوراً سے پیشتر وہ شعر ہی نہیں سنایا بلکہ دورانِ گفتگو ہم نے اُردو کاایک ایسا لفظ بھی اُن کے منہ سے سنا جو ہم جیسے نہ اب بولتے ہیں اور نہ ہی لکھتے ہیں، مختصراً یہ کہ اسے فراموش کر چکے ہیں۔ سلمان میاں نے کہا کہ بنگلور سے قریب ایک قریے سے ہمارا گزر ہوا۔۔۔! اس میں لفظ ۔۔۔قریہ ۔۔مدتوں بعد سنا تو اچھا ہی نہیں لگا بلکہ اپنی فراموشی کا بھی شدت سے احساس دِلا گیا۔ خدا جانے ہم نے اور کیا کیا فراموش کر رکھا ہے۔!! گزشتہ ہفتے اُردو کی ایک شخصیت ٹام الٹر رُخصت ہوگئے ہمارے کرم فرما سید اقبال صاحب نے اپنے کالم میں انھیں خوب یاد کیا جس میں اُستاد جالب مظاہری پر بھی توجہ کی گئی جو اچھی لگی ۔ گزشتہ جمعرات کو معاصر روزنامے میں سابق ایم ایل اے پرنسپل سہیل لوکھنڈ والا کا ایک مراسلہ بھی نظر سے گزرا جس میں موصوف نے جالب مرحوم کے تعلق سے یہ انکشاف کیا کہ’’ وہ (جالب صاحب) اُس زمانے میں صرف فائنل یعنی ساتویں پاس اور پرائمری سرٹیفکیٹ پی ٹی سی رکھتے تھے لیکن اُردو اور فارسی پڑھانےمیں کالج کے پروفیسرس بھی ان کے معیار تک نہیں پہنچ پاتے تھے۔‘‘۔۔۔ آج کم لوگ جانتے ہونگے کہ ساتویں پاس جالب مظاہری کی ایک کتاب ( قاموس الادب) بھی شائع ہوئی تھی ، یہ کتاب ،ساتویں پاس اس عالِم کی تبحر علمی کا واضح ثبوت ہے۔ دَورِ حاضرمیں اسکولوں ، کالجوں سے لے کر جامعات تک عام طور پر جو اساتذہ کی شکل میں مخلوق ہے وہ ہے تو اعلیٰ ڈگری یافتہ مگر علمی سطح پر دیکھو تو ان سے کہیں ملاقات کا امکان نہیں ۔ واہ ہمارے ساتویں پاس جالب مظاہری، ۔۔۔ دُنیا دیکھے، کیسے وہ ذہنوں میں تابندہ ہیں اور کل بھی زندہ رہیں گے۔ لوگ عبرت حاصل کریں کہ جالبؔ مظاہری مالی طور پر تو قلاش رہے مگر اُن کا علمی تمول آج بھی باقی ہے۔