کیا کرناٹکامیں لسانی اورصوبائی جنون ،نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟ (دوسری قسط)۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
ہندی زبان کو قومی زبان(راشٹر بھاشا) قرار دینے اوراسے پورے ملک میں نافذکرنے کا جو معاملہ ہے وہ ابتدا ہی سے متنازعہ رہا ہے۔1950میںآئین ہند کی منظوری کے ساتھ یہ طے ہواتھا کہ آئندہ 15برسوں تک دستوری طور پر 1965تک ہندی زبان کے ساتھ انگریزی کے لئے بھی سرکاری زبان کا درجہ باقی رکھا جائے گا اورپھر اس کے بعد صرف ہندی کو ہی قومی زبان کا درجہ دیا جائے گا۔اس پالیسی کے تحت سرکاری طورپر ملک بھر میں ہندی لاگو کرنے کے لئے وقتاً فوقتاً مختلف اسکیمیں اپنائی جانے لگیں۔اور غیر ہندی داں علاقے میں اس کے خلاف محاذ آرائی بھی تیز ہوتی رہی ہے۔
پنڈت نہرو اورہندی زبردستی نہ تھوپنے کا تیقن: غیر ہندی داں ریاستوں کے عوام کے خدشات اور مخالفت کا ازالہ کرنے کے لئے اس وقت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے سن1959میں جو تیقن دیاتھا اور پھر 1963میں Official Languages Actجاری کیا تھا،جس کی رو سے 1965 کے بعد بھی غیر معینہ مدت تک ہندی کے ساتھ انگریزی کو بھی دفتری زبان کے طور پر برقرار رکھنا طے پایاتھا۔کہا جاسکتا ہے کہ وزیر اعظم نہرو نے ملکی سلامتی اور اتحادکے پیش نظر مذکورہ Official Languages Actجاری کرتے ہوئے بڑی دوراندیشی کاثبوت دیا تھا۔ پنڈت نہرو کی اس معاملہ فہمی کا اندازہ7اگست1959کو پارلیمنٹ میں انگریزی زبان کو 8ویں شیڈول میں شامل کرنے کے لئے فرانک اینتھونی کے پیش کردہ بل پربحث کے دوران کے اس بیان سے ہوتا ہے جب انہوں نے کہا تھا: "میں دو باتوں پر یقین رکھتا ہوں۔ ایک یہ کہ ہندی تھوپی نہیں جائے گی۔۔ دوسرے ایک غیر معینہ مدت کے لئے۔۔مجھے پتہ نہیں کہ کب تک۔۔مجھے رکھنا چاہیے، میں انگریزی کوایک شریک ، اضافی زبان کے طور پرشامل رکھوں گاجس کا استعمال اس کی سہولتوں وغیرہ کے لئے کرنا مقصد نہیں ہے۔۔مگر اس لئے کیونکہ میں یہ نہیں چاہتا کہ غیر ہندی علاقے کے عوام یہ محسوس کریں کہ ان کے لئے ترقی کے کچھ دروازے بند کردئے گئے ہیں کیونکہ ان کو سرکاری۔۔ میرا مطلب ہے کہ ہندی زبان میں مراسلت کے لئے مجبور کیا گیا ہے۔ وہ انگریزی میں مراسلت کرسکتے ہیں۔میں اسے ایک متبادل زبان کے طور پر رکھتا ہوں اس وقت تک جب تک کہ عوام اسے رکھناچاہیں گے اور اس کا فیصلہ۔۔میں ہندی داں طبقے پر نہیں۔۔ بلکہ غیر ہندی داں طبقے پر چھوڑتا ہوں۔"
وہ جس پہ ذکر ہے قول و قسم اور عہد و پیماں کا کتاب زندگی کے اس ورق کو موڑ دینا تھا
ہندی حامیوں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی: ملک کے وزیر اعظم کے قول و عہد کا پاس ولحاظ تو خیر کیا کِیا جاتا، اُلٹے اس موقف کی مخالفت میں ہی ایک طبقہ کھڑا ہوگیا۔ایک طرف پنڈت نہرو کی اس یقین دہانی سے غیر ہندی داں عوام کے خدشات توایک حد تک کم ہوگئے لیکن دوسری طرف ہندی حامی طبقے اور اس کے دانشوروں کو یہ بات ہضم نہیں ہوئی ۔پنڈت نہرو کے اس موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے ہندی کو عام کرنے کی مہم پورے زورو شور کے ساتھ چلانے والے اور پارلیمنٹری کمیٹی آن آفیشیل لینگویج کے چیرپرسن گووند بلبھ پنت نے کہا تھا: "میں نے دو سال کی جدوجہد میں جو کچھ بھی حاصل کیاتھااسے وزیراعظم نے دو منٹ میں مسمار کرکے خاک میں ملادیا۔" اس کے علاوہ جن سنگھ (موجودہ بی جے پی)کے بانی شیا ما پرساد مکھرجی نے ہندی کے ساتھ انگریزی زبان کو جاری رکھنے کی سخت ترین مخالفت کی تھی اور پورے ملک میں صرف ہندی زبان کو ہی قومی زبان کے بطورلاگو کرنے پر اصرار کیا تھا۔اس کے علاوہ سچائی یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم پنڈت نہرو کی اس یقین دہانی کے باوجود ہندی حامیوں کے دباؤ اور مہم کے چلتے مرکزی حکومتیں (چاہے وہ کانگریسی ہو یا پھر بھاجپاکی سرکار) مختلف مواقع پر الگ الگ اسکیموں اور حکم ناموں کے ذریعے ہندی زبان کو غیر ہندی داں عوام اور علاقے میں لاگو کرنے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ جس سے جنوبی ریاستوں میں یہ مسئلہ ہمیشہ گرمی اور اشتعال انگیزی کا سبب بنتا رہا ہے۔ ہندی بھی غیر ملکی زبان ہے!: ہندی کی حمایت اور مخالفت پر بحث کے دوران ایک موڑ ایسا بھی آیاجب سرکاری زبان کے تعلق سے کھیر کمیشن اورپنت کمیٹی رپورٹ کی سفارشات کو فرانک اینتھونی اور پی سبرامنین جیسے غیر ہندی داں سیاست دانوں نے مسترد کرتے ہوئے اس کی مذمت کی تھی۔اس کے علاوہ 1956 منعقدہ ایک کنونشن میں تیلگو اکیڈیمی نے سرکاری طور پر انگریزی ختم کرکے پوری طرح ہندی اپنانے کی کھلی مخالفت کی تھی۔یہاں تک کہ ایک زمانے میں ہندی زبان کے سب سے بڑے اور کٹّر حامی سمجھے جانے والے سیاست داں اور ہندوستان کے آخری گورنرجنرل چکرورتی راج گوپال اچاری المعروف راجہ جی نے بھی ہندی لاگو کرنے کے خلاف موقف اختیار کرتے ہوئے1958میں آل انڈیا لینگویج کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں تمل، ملیالم، تیلگو،آسامیز، اوریہ ، مراہٹی، کنڑا اور بنگالی زبان کے نمائندوں نے شرکت کی۔جس میں یہ اعلان کیا گیا کہ "ہندی کے حامیوں کے لئے جس قدر انگریزی غیر ملکی زبان ہے بالکل اسی طرح غیر ہندی داں طبقے کے لئے ہندی بھی اتنی ہی غیر ملکی زبان ہے۔"روشنی پھیلی تو سب کا رنگ کالا ہوگیا کچھ دئے ایسے جلے ، ہر سو اندھیرا ہوگیا
ہندی زبان پر مرکز اور ریاستوں کا ٹکراؤ: غیر ہندی داں علاقے میں خاص کر تملناڈو میں آزادی سے پہلے اور بعد کے دنوں میں صرف ہندی کو قومی زبان کا درجہ دئے جانے اور اس کے عام اطلاق کے خلاف باربارپرتشدد احتجاجی مظاہرے ہوتے رہے۔آزادی کے بعدمدراس اسٹیٹ (موجودہ تملناڈو) میں سن 1965کا ہندی مخالف فساد انتہائی بھیانک تھا۔اس آگ میں پوری ریاست جل اٹھی تھی۔چونکہ دستورکی رو سے سرکاری طورپر ہندی کے ساتھ انگریزی کے استعمال کی میعاد اس سال ختم ہورہی تھی اور تنہا ہندی زبان ہی قومی زبان بننے والی تھی،اس پس منظر میں مدراس اسٹیٹ میں 25 جنوری 1965کو بہت بڑے پیمانے پر اس کے خلاف آگ بھڑک اٹھی۔جس میں طلبہ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔دو مہینوں تک چلنے والے والے اس ہندی مخالف تشدد کے دوران پولیس کو فائرنگ تک سے کام لینا پڑا ۔ریاستی کانگریسی حکومت کو حالات پر قابو پانے کے لئے نیم فوجی دستے طلب کرنے پڑے۔سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس فساد کے دوران بشمول دو پولیس والوں کے 70افراد ہلاک ہوئے تھے۔فسادات کا سلسلہ اس وقت تھم گیا جب وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ہندی مخالف جذبات کو ٹھنڈا کرنے کے لئے یہ یقین دہانی کی کہ" دفتری زبان کے طور پر انگریزی کا استعمال اس وقت تک باقی رہے گا جب تک کہ غیر ہندی داں ریاستیں چاہیں گی۔" تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ 1965کے اس ہندی مخالف فسادات کا سب سے بڑا خمیازہ کانگریس پارٹی کوہی بھگتنا پڑا کیونکہ اس کے بعدسے اب تک ریاست تملناڈو میں ڈی ایم کے اور اے ڈی ایم کے جیسی پارٹیوں کا ہی غلبہ چھایارہااور کانگریس دوبارہ کبھی وہاں انتخابات جیت کر برسراقتدار آ نہیں سکی۔نئے کردار آتے جا رہے ہیں مگر ناٹک پرانا چل رہا ہے
کرناٹک کے مفادات اور کنڑا کی حمایت کا نیا دور: پچھلے چند برسوں سے ریاست کرناٹکا میں بھی کرناٹکا کے مفادات اورکنڑا زبان کی حمایت کا نیا دور شروع ہوا ہے ۔اس مقصد کو لے کر جو سب سے زیادہ منظم گروہ ابھر کر سامنے آیا ہے وہ کنڑا رکھنشنا ویدیکےKRV(کنڑا تحفظ منچ)ہے ۔ اور یہ تنظیم کرناٹک کے اندرونی اور بیرونی مسائل سے متعلقہ ہر چھوٹی بڑی بات کے لیے میدان میں اترنے اورسرخیوں میں چھائے رہنے کے لئے جانی جاتی ہے۔اس کے علاوہ واٹال ناگراج کی اپنی ایک تنظیم بھی Kannada Chalavali Vatal Paksha کے نام سے کنڑا مفادات کے لئے سر گرم ہے۔ لیکن کے آر وی کی طاقت کے بارے میں بتایا جاتا ہے اس کے باضابطہ اراکین کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اسی لئے ریاست کے ہر کونے میں کنڑا اور کنڑیگاس کی حمایت میں احتجاجی مظاہرے اسی کے بینر تلے کیے جاتے ہیں۔ چاہے وہ بیلگام سرحدی معاملے میں مہا راشٹرا ایکی کرن سمیتی سے مقابلہ کرنا ہو، یا گوا میں کنڑیگاس کے ساتھ ہونے والے مبینہ تعصب کے خلا ف آواز اٹھاناہو۔ چاہے کاویری آبی تنازعے میں کرناٹکا کے مفادات کے لئے لڑنا اور تمل موقف کی مخالفت میں اترنا ہویا پھرکیرالہ کاسر گوڈ میں اسکولی سطح پر ملیالم کے لازمی نفاذ کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کرنا ہو۔ ہر جگہ یہ تنظیم (کے آر وی) لائم لائٹ میں نظر آتی ہے۔ کنڑا رکھشنا ویدیکے کے مقاصد: کنڑا رکھشنا ویدیکے کے اہداف یہ ہیں:ریاست کے سرحدی ، لسانی اور آبی تنازعات کے علاوہ(شیو سینا اور راج ٹھاکرے کی مہاراشٹرانو نرمان سینا کی طرح) کرناٹکا میں سرکاری ، نیم سرکاری اور نجی اداروں کی ملازمتوں میں کنڑیگاس کے لئے ترجیح کو یقینی بنانا اور اس ضمن میں Dr. Sarojini Mahishi Reportکو لاگو کروانا جس کے تحت سرکاری اداروں میں سی اور ڈی درجے کی ملازمتیں صرف کنڑیگاس کے لئے مختص کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔انگریزی زبان کے مقابلے میں کنڑا زبان کی فوقیت تسلیم نہ کرنے والے اداروں کے خلاف کارروائیاں کرنااور ان کے انگریزی سائن بورڈز پر کالک پوتنا۔اور اہم ترین ہدف میں ہندی زبان کو ریاست میں لاگو کیے جانے کے خلاف اقدامات کرنابھی شامل ہے۔لہٰذا مرکزی حکومت کی راج بھاشا پالیسی کی مخالفت کرنے اور کنڑیگاس پر ہندی کے نفاذ کو روکنے کا پلان بنانے کے لئے سن 2006میں کے آر وی نے 14ستمبر کو ہندی دیوس(یوم ہندی ) کے موقع پر بنگلورو میں "Anti Hindi-imposition conference"کا انعقاد کرکے یہ واضح سگنل دے دیا تھاکہ وہ آئندہ دنوں میں لسانی مسئلے پر مرکزی حکومت سے آر پار کی لڑائی کے لئے تیار ہورہی ہے۔کیونکہ اس کانفرنس میں یہ قرارداد پاس کی گئی ہے کہ جب ملک میں14ستمبر کو ہندی دیوس منایا جاتا ہے اسی دن کرناٹکا میں ہرسال ہندی نفاذ مخالف دن"Anti Hindi-imposition day"منایاجائے گا۔ہر اک طرف ہے ہنگامۂ جنوں برپا خِرد سے بیٹھ کے راز و نیاز کون کرے
(۔۔جاری ہے۔۔۔اب سرکاری طور پر بھی کنڑا مفادات کا کارڈ کھیلا جارہا ہے۔۔۔آئندہ قسط ملاحظہ کریں)