بدلتے روز و شب، نیا سال اور کیلنڈر کی کہانی۔۔(قسط نمبر ۲) 

Bhatkallys

Published in - Other

03:43PM Sat 28 Jan, 2017
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے………..  از:ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ دنیامیں بدلتے موسموں کے لحاظ سے زمانے کو دنوں اور مہینوں میں تقسیم کرنے کا رواج قدیم زمانے سے رہا ہے۔ انسانی تاریخ میں سب سے پہلا کیلنڈر کس نے ایجاد کیا اس بارے میں کوئی یقینی بات سامنے نہیں آتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ تقریباً تمام قدیم تہذیبوں کے اپنے کیلنڈر رہے ہیں۔ ماناجاتا ہے کہ مصری تہذیب نے سب سے پہلے چاند کی گردش کو بنیاد بناکر قمری کیلنڈر استعمال کرنے کے بجائے سورج کے گرد زمین کی گردش کو بنیاد بناکر شمسی کیلنڈر ایجاد کیا تھا۔اس کے بعد سے دنیا میں رائج سارے کیلنڈر بنیادی طور پر تین زمروں میں تقسیم ہوگئے ۔نمبر ایک سورج کے گرد زمین کی گردش پر منحصر وقفوں کے حساب سے بنے ہوئے شمسی(Solar)کیلنڈر، نمبر دوچاند کی گردش کے حساب سے طے کئے وقفوں پر مشتمل قمری(Lunar) کیلنڈر اورنمبر تین چاند اور زمین دونوں کی مشترکہ گردشوں کے حساب بنائے گئے شمسی و قمری (Lunisolar)کیلنڈر ۔ اس کے علاوہ دنیا میں رائج کیلنڈروں میں کچھ ایسے کیلنڈر بھی ہیں جو گریگورین یا جولین کیلنڈروں پرہی مشتمل ہیں لیکن علاقائی لحاظ سے وہاں مہینوں کے نام تبدیل کر دئے گئے ہیں یا پھر زمانے کا تعین اپنے طور پر الگ سے کیا گیا ہے۔کیلنڈروں کی اہمیت بدلتے موسموں اور زمانوں کا حساب رکھنے کے لئے تو خوب ہے اس سے ہٹ کرلوگ اسے قسمت بدلنے کے زاوئے سے بھی دیکھتے ہیں۔جس پر اعتبار ساجد جیسا شاعر یوں طنز کرتا ہے :

کسی کو سالِ نو کی کیا مبارک باد دی جائے کیلنڈر کے بدلنے سے مقدر کب بدلتا ہے

دنیا میں رائج مختلف کیلنڈر: گریگورین عیسوی اور اسلامی ہجری کیلنڈروں کے علاوہ بھی دنیا کے مختلف خطوں اور تہذیبوں میں قبل مسیح زمانے سے اب تک بہت سارے کیلنڈر عام رہے ہیں، یا کچھ کیلنڈر آج بھی علاقائی سطح پر استعمال کیے جاتے ہیں، ان میں بعض کیلنڈروں کے نام یہ ہیں: ۱۔ رومن کیلنڈر ۲۔ جولین کیلنڈر ۳۔ ترمیم شدہ جولین کیلنڈر ۴۔ جیویش (یہودی) کیلنڈر ۵۔ پارسی کیلنڈر ۶۔ مایا کیلنڈر ۷۔ چینی کیلنڈر ۸۔ایتھوپیائی کیلنڈر ۹۔ ہندو کیلنڈر ۱۰۔ مصری کیلنڈر ۱۱۔ایرانی کیلنڈر ۱۲۔میسوپوٹیمین کیلنڈر ۱۳۔ بدھسٹ کیلنڈر ۱۴۔بازنطینی کیلنڈر ۱۵۔نیپالی کیلنڈر ۱۶۔ تمل کیلنڈر ۱۷۔ بنگالی کیلنڈر ۱۸۔ تھائی کیلنڈر ۱۹۔ بربر کیلنڈر ۲۰۔جلالی کیلنڈر اور ایسے درجنوں کیلنڈر مختلف اوقات میں انسانوں کے استعمال میں رہے ہیں۔ دنیا کے سب سے قدیم کیلنڈر: ایک خیال یہ ہے کہ وارن فیلڈ ، ابرڈین شائر اسکاٹ لینڈمیں پائے گئے اور وسطی حجری دور یعنی پتھروں کے زمانے (middle stone age)کی باقیات سمجھے جانے والے 12گڈھے اور ایک قوس کواُس زمانے کا کیلنڈر ہے مانا جاتا ہے جو تقریباً10,000ہزار سال قبل رائج تھا۔ لہٰذا سال 2013 ؁ء میں اس کیلنڈر کواب تک سامنے آنے والا دنیا کا سب سے قدیم ترین قمری کیلنڈر قرار دیا گیا ہے۔ دنیاکے دوسرے دوقدیم ترین کیلنڈروں میں جو کہ آج بھی استعمال میں ہیں، یہودی یا عبرانی(Hebrew)کیلنڈر اور ہندو کیلنڈر شامل ہیں۔ عبرانی یا یہودی کیلنڈرکوجسے جیویش (Jewish) کیلنڈربھی کہاجاتا ہے ، اس حساب سے قدیم ماناجاتا ہے کہ اس کیلنڈر کا زمانہ اگرآج2017 ؁ء میں دیکھیں تو پانچ ہزار سات سو اٹھہتر سال 5778سال ہے۔ لیکن اس کیلنڈرکا زمانہ کیلنڈر وضع کیے گئے زمانے پرمنحصر نہیں ہے بلکہ بائبل کے مندرجات پر مبنی اس تصور پر ہے کہ دنیا کی تخلیق 3761 سال قبل مسیح ہوئی تھی۔ یہ ایک شمسی اور قمری حساب والا مشترکہ ((Lunisolar کیلنڈر ہے۔اس میں کچھ برس 12مہینوں کے ہوتے ہیں اور کچھ برس 13 مہینوں کے شمار ہوتے ہیں۔اس کے برعکس ہندو کیلنڈر کا عرصہ امسال یعنی 2017میں 5119سال چل رہا ہے کیونکہ اس کے زمانے کی ابتدا3102سال قبل مسیح سے طے کی گئی ہے ۔ یہ بھی ایک شمسی اور قمری حساب والا مشترکہ ((Lunisolar کیلنڈر ہے۔ قدیم مصری کیلنڈر: مصری (Egyptian)کیلنڈر بھی دنیا کا قدیم کیلنڈر ہے مگر اب یہ بڑے پیمانے پر استعمال میں نہیں ہے۔یہ ایک قمری کیلنڈر ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ مصری کیلنڈر کی تاریخ 5000 سال پرانی ہے۔ ایک روایت کے مطابق ابتدا میں مصری کیلنڈر کی بنیا د شمسی و قمری (Lunisolar) رہی ہوگی۔مگر اس کی خاص بات یہ تھی کہ اس کیلنڈر میں رومن کیلنڈرکے برعکس شروع ہی سے سال کے 12مہینے اور ہر مہینے کے30دن ہوتے تھے۔ایک مہینہ تین ہفتوں میں تقسیم تھا یعنی ہرہفتہ 10دن کا ہوتا تھا۔ اس طرح بارہ مہینوں کے 360دنوں میں مزید 5دنوں کا اضافہ کرتے ہوئے سال کے کل 365دن شمار کیے جاتے تھے۔اسی طرح اس کیلنڈر میں سال کے تین موسم ہوا کرتے تھے جو چار چار مہینوں پر مشتمل تھے اور اس کی تقسیم دریائے نیل میں پانی کے مد وجزر پر منحصر ہوتی تھی۔اس کیلنڈرمیں مختلف ادوار میں بڑی تبدیلیاں کی گئیں اور اس کا ترمیم و اصلاح شدہ ایڈیشن آج بھی مصری چرچ اور خاص کر مصری کسانوں کے ذریعے استعمال ہوتا ہے ۔ اسے عرف عام میں قبطی Coptic یا پھرسکندری Alexendarianکیلنڈر بھی کہتے ہیں۔ قدیم یونانی کیلنڈر: اسی طرح دنیاکی قدیم ترین اور علم و فن کے اعتبار سے ترقی یافتہ تہذیبوں میں شمار ہونے والی یونانی Greekتہذیب کے بھی اپنے کیلنڈر تھے جو مختلف ادوار میں بدلتے رہے ہیں۔ان کیلنڈروں کی تاریخ بھی صدیوں سال قبل مسیح شمار کی جاتی ہے۔یونانیوں کے یہاں خاص بات یہ تھی کہ ان کے یہاں زندگی کے تمام معاملات کے لئے ایک ہی کیلنڈر استعمال کرنے کے بجائے مختلف مقاصد کے لئے بیک وقت مختلف کیلنڈر وں کا استعما ل عام تھا۔ جیسے تہواروں کے لئے بارہ مہینوں پر مشتمل ایک سال والا کیلنڈر، سرکاری کام کاج کے لئے دس مہینوں پر منحصر دفتری کیلنڈر اور موسموں کی تقسیم کے لئے ایک جداگانہ کیلنڈرپایا جاتا تھا۔یونانی کیلنڈر میں ایک مہینے کے 29اور30دن ہوا کرتے تھے۔یہ کیلنڈر بھی شمسی و قمری (Lunisloar)نظام پر منحصر تھے ۔ اسلامی یا ہجری کیلنڈر: جہاں تک اسلامی یا ہجری کیلنڈر کا تعلق ہے یہ دنیا کے جدید کیلنڈر وں میں شامل ہے جس کا عرصہ2017 کے مقابلے میں 1439سال ہے۔ جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اس کی بنیاد حضور اکرم ؐ کی مکہ سے مدینہ کی ہجرت کی بنیاد پر ہے اور ابتداحضرت عمرؓ کے زمانے میںیکم محرم الحرام سے ہوئی۔ اس کیلنڈر کا زمانہ عیسوی کیلنڈر کے حساب سے ساتویں صدی عیسوی سے شروع ہوتاہے۔ یہ قمری (Lunar)نظام پر منحصر کیلنڈر ہے جس کے مہینوں میں کبھی 30اور کبھی 29دن ہوتے ہیں جس سے ہجری کیلنڈر کے ایک سال میں354یا 355سال ہوا کرتے ہیں۔ چو نکہ ہمارا موضوع فی الحال پورے عالم میں یکساں طور پر رائج گریگورین کیلنڈرہے اس لئے ہم ہجری اور دیگر بہت سارے جدید و قدیم کیلنڈروں پر کوئی تفصیلی گفتگو نہ کرتے ہوئے صرف رومن، جولین کیلنڈر اور اس کے بطن سے نکلنے والے گریگورین کیلنڈر سے مطابقت رکھنے والی تفصیلات پر ہی مرکوز رہیں گے۔ رومن کیلنڈرکی ابتدا اور اس کی خامیاں : چونکہ جدید گریگورین کیلنڈراصل میں رومن کیلنڈر کی بنیادوں پر جنم لینے والے جولین کیلنڈرکے اندر ترمیم کی شکل میں منظر عام پر آیا ہے تو ہمیں اس میں موجود دنوں اور مہینے کے ناموں کی جڑیں وہیں سے تلاش کرنی ہوں گی اور وہیں سے اس کی وجہ تسمیہ سمجھنے کے بعد اپنی رائے اور موقف طے کرنے میں مدد ملے گی۔رومن کیلنڈر کا آغاز کب ہوا اس بارے میں کوئی قطعی بات تاریخی شواہد کے ساتھ دنیاکے سامنے موجود نہیں ہے۔روایت یہ کہتی ہے کہ سلطنت روم کے بانی کہلانے والے پہلے اور بہت ہی نامور بادشاہ Romulusنے سات سو سال قبل مسیح اس کیلنڈر کو متعارف کروایا۔کہتے ہیں کہ 45 سال قبل مسیح تک رومن کیلنڈر میں بہت ساری الجھنیں پائی جاتی تھیں۔جس کو دور کرتے ہوئے جولین کیلنڈر بنایا گیا تھا۔ مگر جو کچھ بھی معلومات دستیاب ہے، وہ زیادہ تر قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ سال کے دس مہینے اور304دن: رومن کیلنڈر کی اپنی کچھ خصوصیات یا کوتاہیاں تھیں۔ ایک تو یہ کہ آج کے ماڈرن کیلنڈر میں توایک سال کے 12مہینے ہیں لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ رومن کیلنڈر کاایک سال 10مہینوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا جس کے کل 304دن ہوتے تھے۔اس کے علاوہ سال کا آغاز جنوری سے نہیں بلکہ مارچ کے مہینے سے ہوا کرتاتھا۔ ابتدائی برسوں میں رومن کیلنڈر کے مطابق سال کے دس مہینوں کے نام اس طرح ہوا کرتے تھے: ۱۔ Martiusمارٹیئس یا مارشیئس(مارچ) ۲۔Aprilisاپریلیس(اپریل) ۳۔Maiusمایئس (مئی) ۴۔ Juniusجونیئس (جون) ۵۔Quintilisکوینٹی لیس (جولائی) ۶۔Sextilisسیکسٹی لیس (اگست) ۷۔ Septemberسپٹیمبر(ستمبر)۸۔Octoberاکٹوبر (اکتوبر) ۹۔ November(نومبر) ۱۰۔ Decemberڈسمبر (دسمبر) اس کے بعد موسم سرما کے دو مہینوں کے لئے اس کیلنڈر میں کوئی نام نہیں تھا۔کہا جاتا ہے کہ 700سال قبل مسیح میں روم کے دوسرے بادشاہ نیوما پومپلیئس Pompilius Numaنے اس کیلنڈر میں دو مہینوں کا اضافہ کرتے ہوئے ان کے نام ۱۔Januarius جنوری (جنوری) اور ۲۔ ٖFebruarius فیبروریئس (فروری) قرار دئے۔جس کے بعد رومن کیلنڈر کاایک سال بارہ مہینوں اور355دنوں پر مشتمل ہوگیا۔ تو یہ بات صاف ہوگئی کہ رومن کیلنڈر کی خامیوں کو دور کرتے ہوئے نیا روپ دے کر جولین کیلنڈر بنایا گیا تھا۔اور پھر جولین کیلنڈر میں ترمیم کے بعد گریگورین کیلنڈر اپنایا گیا ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ جدید زمانے کے کیلنڈر میں موجود ان 12مہینوں میں سے بیشتر مہینوں کے نام رومن تہذیب اور کیلنڈر سے وجود میں آئے ہیں۔ ان12مہینوں کے ناموں کی وجہ تسمیہ کیا ہے اور اس کے رشتے کن غیر اسلامی عقائد یا اقدار سے ملتے ہیں ،اس کا جائزہ ان شاء اللہ اگلی قسط میں لیا جائے گا۔

فضل خدا کا ہم پر سایہ رہے ہمیشہ ہر دن چڑھے مبارک ہر شب بخیر ٹھہرے

(۔۔۔۔ سلسلہ جاری ہے۔۔۔۔۔)

haneefshabab@gmail.com

ضروری وضاحت:اس مضمون میں پیش کئے گئے خیالات مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مبنی ہیں۔ اس میں پیش کردہ مواد کی صحت کے سلسلہ میں ادارہ بھٹکلیس ذمہ دار نہیں ہے۔ ادارہ کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔