سچی باتیں۔۔۔ بدعات محرم۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:04PM Thu 6 Aug, 2020

سچی باتیں

بدعات محرم

آپ اہل قرآن ہیں؟ تو کیا کلام مجید کی کوئی آیت آپ کو رواجی محرّم کی تائید میں ملی ہے؟ آپ اہل ِ حدیث ہیں؟ تو کیا ااپ رسول خدا ﷺ کے کسی قول یا فعل سے رسوم محرّم کا جواز ثابت کرسکتے ہیں؟ آپ اہل فقہ ہیں ؟ تو کیا امام ابو حنیفہؒ وامام شافعیؒ ، امام مالکؒ وامام احمدؒ، امام محمدؒ وامام ابو یوسفؒ ، کسی کے ہاں کوئی جزئیہ آپ کو مُحرم کے عَلم اور تعزیہ ، بُراق وتابوت، باجہ اور شربت، حلوہ اور ملیدہ کی حمایت میں ملا ہے؟ آپ اہل تصوف ہیں؟ تو کیا حسن بصریؒ وجنید بغدادیؒ، سنانیؒ ورومیؒ، شیخ جیلانیؒ وخواجہ اجمیریؒ، شیخ سہروردی ؒ ومجدد سرہندیؒ میں سے کسی سے کوئی بزرگ مُحرم سنایا کرتے تھے؟ آپ روشن خیال ہیں؟ تو کیا کوئی عقلی دلیل آپ کے پاس بدعاتِ مُحرم کے برقرار رکھنے کی ہے؟

کہ کچھ نہ سہی، آپ محب اہل بیتؑ ہیں؟ تو کیا آپ یہ رواجی محرم مناکر حضرات اہل بیت کے کسی حکم کی تعمیل، یا کسی عمل کی پیروی کررہے ہیں؟ کیا حضرت امیر رضی اللہ عنہ کا کوئی حکم آپ کو ملا ہے ، کہ میری اولاد کی یادگار دُلدُل اور منہدی کے ذریعہ سے قائم کرنا؟ کیا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کا کوئی ارشاد آپ تک آپہنچاہے، کہ میری بہو بیٹیوں کے ناموں کو سربازار خوب اُچھالنا؟ کیا خود امام مظلوم شہید کربلا علیہ السلام کی کسی ایسی وصیت کی تعمیل آپ کررہے ہیں، کہ میری شہادت کی یاد میں خوب ڈھول اور تاشہ بجانا؟ میری بھوک اور پیاس کو یاد کرکرکے پُرتکلف حلوے کھانا اور لذیذ شربت پینا؟ اور میرا نام لے لے کر رنگین کاغذوں اور بانس کی تیلیوں کے گرد طواف اور سجدہ کرنا؟ آخر واقعۂ کربلا کے وقت متعدد صحابہ اور بکثرت تابعین زندہ تھے، اور خود امام زین العابدینؒ، اور خاندان نبوت کی پردگیانِ عصمت عرصہ تک زندہ رہیں، کیا ان میں سے کسی کا یہ شیوہ رہا، کہ عشرۂ مُحرّم کو اس طرح مناتے، جس طرح آج ہندوستان میں منایاجاتاہے؟ کیا یہ حضرات بھی تروتازہ اور پُرتکلف حلوے بنابنا کر کھاتے اور کھلاتے تھے؟ لذیذ وخوش ذائقہ شربت بنابناکر پیتے اور پلاتے تھے؟ کیا نعوذ باللہ ان بزرگوں نے بھی کبھی ڈھول اور تاشہ کی سرپرستی فرمائی تھی؟ کیا ان پاک نفسوں اور پاکیزہ طینتوں نے بھی کبھی سوز خوانی اور خوش گلوئی کے کمالات کو اظہار غم والم کا ذریعہ قرار دیاتھا؟ (استغفر اللہ)

اگر آپ ان طریقوں کے لغو ومہمل ہونے کو جان چکے ہیں، اگر آپ ان بدعات کے حرام ہونے پر یقین رکھتے ہیں، اگرآپ ان رسوم کو مسلمانوں کے حق میں ہر طرح مضر سمجھتے ہیں، تو کیا آپ کا فرض ، اس کے بعد، کچھ اور باقی نہیں رہ جاتا؟ اگرآپ کے ہمسایہ کے ہاں آگ لگ جائے ، تو کیا آپ کا صرف یہ سمجھ لینا اور یقین رکھنا کافی ہوگا، کہ آگ ایک سخت بلاہے، اور اس کے بعدآپ اپنے ہاں بیٹھے ہوئے بہ اطمینان تماشہ دیکھتے رہیں گے؟ اور آگ کے بجھانے میں مدد دینا اپنے بجائے کسی اور کا فرض سمجھتے رہیں گے؟ کیا اس بے محل خاموشی سے آپ گنہگار نہ ہوں گے؟ پھر، ان بدعاتِ مُحرّم کی آگ ، کیا اخلاقی،  معاشی، ومذہبی حیثیت سے، آپ کی قوم، آپ کی بستی، آپ کے جماعت کے لئے کچھ کم باعثِ ہلاکت وبربادی ہے؟

1925-07-10