تجربات ومشاہدات(۵) ۔۔۔ تحریر ڈاکٹر بدر الحسن قاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

08:41AM Sat 1 May, 2021

اپریل 1980 م میں جناب مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی دعوت پر دارالعلوم ندو ة العلماء میں عالمي تمهيدي ادبى سيمينار منعقد هوا جس نے رابطہ ادب اسلامی کی راہ ہموار کی شركاء سیمینار ميں ڈاکٹر عبد العزیز الرفاعی ڈاکٹر فتحی عثمان شیخ عبد اللہ ابراھیم الانصاری مصر کے وزیر اوقاف ڈاکٹر زکریا البری اڈاکٹر عبد الحمن رافت البا شا معروف قاری شیخ محمود الطبلاوی ڈاکٹر عدنان النحوی معروف شاعر احمد فرح عقیلان اورعبد الباسط بدر وغیرہ تھے اس سیمینار میں مجھے دارالعلوم کے نمائندہ اور الداعی کے ایڈیٹر کی حیثیت سے شریک تھا شرکائے سمینار میں مقصد کی ہم آہنگی بھی تھی اور شخصیات کا وزن بھی تھا اسلئے یہی کہا جائیگا کہ سیمینار کامیاب تھا مجھ سے کہا گیا تھا کہ صرف ایک صفحہ میں اپنے مقالہ کا خلاصہ بھی ساتھ لائیں ایک نشست میں شیخ عبد اللہ ابراھیم الانصاری ادب اسلامی کے خصائص پر اپنے خیالات پیش فرمارہے تھے وہ اچھی شخصیت کے مالک اور دینی علوم کی خدمت میں پیش پیش رہے "اظہار الحق "اور پہت سی مفید کتابوں اور کئی متون کے ناشر بھی تھے انکے مقالہ پر تبصرہ یہ تھا کہ شیخ نے جو باتیں ذکر کی ہیں ان میں ادبی یا جمالیاتی پہلو نہیں تھاایسی صورت میں جمعہ کے خطبہ کےاوصاف میں ادبی تحریر وں کیا فرق ہوا اس پرخفگی کے ساتھ شیخ نےفرمایا کہ میں چاہوں تو تمہاری تردید میں دو جلدیں لکھ سکتاہوں ڈاکٹر فتحی عثمان نے کہا کہ تمہارا اعتراض صحیح تھا شیخ کو ناراض ہونے کے بجائے جواب دینا چاہئیے _ میرے مختصر مقالہ کا حاصل یہ تھا کہ یہ زمانہ سائنس کی ترقی اور عقلی دلائل کا ہے, محض جذبات بھڑکانے اور جوش دلانے کا نہیں ہے اسلئے ان ادباء کا طریقہ زمانہ سے ہم آہنگ نہیں ہے جو لو گوں کے وجدان کو خطاب کرتے اور جذبات کو بھڑکانے کا کام کر تے ہیں اور عقل کو مطمئن کر نے کی کوشس نہیں کرتے میرا مضمون کویت کے " البلاغ "میں مکمل شائع ہواتھا اس سے پہلے "الداعی" میں شائع ہو چکا تھا مضمون کی تمہید میں جیساکہ یاد پڑتا ہے یہ لکھا تھا کہ ادباء کے اسلوب مختلف ہوتے ہیں بعض جاحظ اور ابوحیان تو حیدی کی طرح دراز نفس اور طوالت پسند اور بعض ایجاز کے خوگر اور مختصر اور سبک تعبیرات کے گرویدہ دونوں طریقوں کی مثالیں موجودہ زمانہ کے ادباء الرافعی المنفلوطی العقاد اور طہ حسین وغیرہ کے یہاں مل جائیں گی یہ بھی غالبا لکھا گیا تھا کہ بعض ادباء مترادف الفاظ کے استعمال میں مہارت رکھتے ہیں انکی تحریروں میں معانی کم اور الفاظ زیادہ ہوتے ہیں اور انکی تصنیفات پڑھتے وقت محسوس ہوتا کہ ایک کتاب اصل ہے اور باقی اسی کے تفسیری حواشی و تعلیقات ہیں ان میں کوئی نئی کی کم ہی ملتی ہے _

شرم الشيخ کاسفر _^^_ مشہور تاجر وصنعت کار واسلامی بینکنگ کے علم بردار شیخ صالح کامل کی طرف سے دعوت نامہ آیا کہ مصر کے شہر " شرم الشیخ "میں ایک عالمی کانفرنس ہونے والی ہے اور تمکو انسانی حقوق کے عنوان سے مقالہ پیش کرنا ہے " شرم الشیخ" مصرکا ایک ساحلی سیاحتی شہر ہے اور وہاں عام طور پر لوگ تفریحی مقاصد سے جایا کرتے ہیں یاپھر وہاں سربراہوں کی کانفرنسیں ہوا کرتی ہیں مولویوں یا مشائخ دین کا وہاں کیا کام ؟ لیکن کانفرنس ہوئی اور ہر طرح کے مشائخ وہاں نظر آئے ,,,,

شیخ سید محمد طنطاوی شیخ محمد الراوی د یوسف القرضاوی د وھبہ الزحیلی دعبد الستار ابوغدہ د عبد اللہ بن بیہ عائض القرنی سلمان العودہ صالح العبیکان دصالح المرزوقی د عصام البشیر اور دسیوں دوسرے نمائندے اس کانفرنس میں شریک تھے

ایک ہفتہ ہم نے فندق مونبیک میں گزارا ,اس کے بعد صحرائے سینا سے اڑکر قاھرہ پہنچے اور جامع ازھر اورمسجد عمر و بن العاص وغیرہ کی زیارت کی پھر کویت لوٹے کانفرنس اپنے معیار اور شرکاء کی کثرت اور مسائل کی اہمیت کے لحاظ سے بالکل ہی منفرد نوعیت کی تھی شیخ صالح کامل نے ایک دن خاص طور پر مجھے بلا کر اس تمہید کے ساتھ کہ مجھے علمائے ہند کی دقت نظر کا علم ہے حدیث کے ذخیرہ کی از سر نو تدوین سے متعلق ایک مذکرہ انہوں نے دیا اور کہا کہ ایک ہفتہ کے اندر اس پر نظر ثانی کےبعد مجھے رپورٹ چاہیے کہ یہ مشروع( پروجیکٹ) کیسا ہے ؟ اور اس پر عمل ہونا چاہیے یا نہیں ؟ چنانچہ کویت آنے کے بعد ہفتہ ختم ہونے سے پہلے ہی میں نے انکو تین صفحہ کی رپورٹ بھیج دی کہ یہ مشروع جو ان کے سامنے رکھا گیا ہےوہ انتہائی خطر ناک ہے اس سے نہ صرف حدیث کے ذخیرہ بلکہ خود قرآن کریم کے بارے میں بھی شکوك وشبهات کا دروازہ کھل جائیگا اس کے بعد پھر كبھی اس کا نام میں نے نہیں سنا حالانکہ اسكو تیار کرنے میں انکا کوئی قریبی عزیز اور ایک یمنی عالم شریک تھے اور شیخ کو اسکی تنفیذ کیلئے آمادہ کر لیا تھا لیکن اللہ نے اس فتنہ کا راستہ بند کردیا فالحمد للہ علی ذلک

كرایہ کی مائیں :۔

****** ہم قاہرہ کے مرکز الصحة العالمی کے کانفرنس ہال میں تھے مقصد جینیٹک انجینیرنگ (الھندسه الوراثیه) کے موضوع پر ایک ایسی کانفرنس میں شرکت جس میں مسلما ن علماء فقہاء و اطباء کے ساتھ یہودی حاخام اورعیسائی پادری بھی شریک تھے انہیں بھی دعوت دی گئی تھی کویت کی المنظمةالا سلامیة للعلوم الطبیة اور مصر کے مرکز الصحة العالمی کے اشتراک سے یہ کانفرنس منعقد ہو رہی تھی کارروائی کی رپورٹ تو میں پہلے لکھ چکاہوں صرف دو لطیفے یہاں ذکر کرنے ہیں

1 _ایک اسرائیلی خاتون پروجیکٹر کی مدد سے یہ وضاحت کر رہی تھی کہ رحم مادر میں انسانی خلایا کس طرح نمو پذیر ہوتے ہیں اور جنین کی تکمیل کس طرح اللہ کی قدرت سے عمل میں آتی ہے؟ ہم میں سب سے معمر فقیہ وبالغ نظر عالم تونس کے سابق مفتی شیخ مختار السلامی نے اس یہودی خاتون سے سوال کردیا: اگر ایک مسلمان مرد کا نطفہ کسی یہودی عورت کے بییضہ سے ملاکر لقیحہ تیار کیا جائے تو اس سے پیدا ہونے والا بچہ یہودی ہوگایامسلمان ؟ اس نے ہنستے ہوئے کہا ہماری حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ آبادی میں اضافہ ہو ،بچے کس طرح پیدا ہوں اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے ، پھر اس نے کہاکہ بچے کے یہودی یا مسلمان ہونے کا مسئلہ مجھ سے نہیں یہ سامنے بیٹھے ہوئے حاخام سے پوچھئے اس پر حاخام نے کہا کہ بیٹی ان سے یہ مت کہو پلکہ یہ کہو کہ جس طرح بہت سے مسائل میں مسلمان فقہاء کے درمیان اختلاف ہے اسی طرح ہمارے یہاں بھی ہے -

2_ مغربی ممالک میں" امھات للایجار" "یاکرایہ کی مائیں"جیسے اشتہارات تو نظر آتے ہیں لیکن کسی مسلم ملک کے بارے یہ بات حیرت ہی کی سمجھی جائیگی کہ شرعی طور پر دوسرے شخص کے بچہ کی ولادت کیلئے کسی عورت کا رحم کرایہ پر لیا جائے لیکن ایران کے مشہور فقیہ شیخ علی تسخیری جو جب تک زندہ رہے وہی بین الاقوامی فقہ اکیڈمی میں اپنے ملک کی نمائندگی کرتے رہے ہیں انہوں نے کرایہ پر رحم لینے اور دینے کے جواز پر اپنا مختصر مقالہ پیش کیا کہ شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ حمل و ولادت کا فریضہ کرایہ کی ماں انجام دے اور اس خدمت کی اجرت لیلے انکے اس عجیب وغریب فتوی پر اعتراض ہونا یقینی تھا چنانچہ تونس کے سابق مفتی شیخ مختار السلامی نے کہا کہ : ارشاد ربانی ہے : ( ان امھاتم الااللائی ولدنھم)ا سلئے کرایہ کی ماں کے بعد اصل ماں کی حیثیت مشتبہ ہوجائیگی شیخ تسخیری نے کہا کہ اس آیت کا تعلق ظہار کے مسئلہ سے ہے اس مسئلہ سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے مولانا تقی عثمانی صاحب نے فرمایا کہ حدیث میں " لا یسقی احد زرع غیرہ" یعنی دوسرے کی کھیتی کو سیراب کرنے سے منع کیا گیا ہے شیخ تسخیری نے کہا کہ" لقیحہ "تیار ہو جا نےکے بعد اس کو سیراب کرنے کی گنجائش ہی نہیں رہتی لہذا حدیث کا اطلاق اس پر نہیں ہوتا میں نے صدر جلسہ کی طرف سے اجازت کاانتظار کئے بغیر ہی مائک کا بٹن دبا کر اورشيخ علی تسخير ي كو براہ راست خطاب كر كے کہنا شروع کیا : ارشاد باری ہے : (نسائکم حرث لکم )لکم ولیس لغیرکم سواء وضعت فیہا البذرہ او الشتلہ " بیویاں صرف اپنے شوہروں کیلئے کھیتی کی حیثیت رکھتی ہیں کسی اور کے لئے نہیں خواہ اس کھیت میں بیج ڈالی جائے یا تیار شدہ پودا لگایا جائے دوسری طرف یہ حقیقت بھی کہ اللہ تعالی نے طلاق اور وفات کی عدت استبرائے رحم کیلئےرکھی ہے تو پھر رحم کرایہ پر لینا یا دینا کیسے جائز ہوگا ؟ شیخ تسخیری کہنے لگے کیا تم اسے زنا سمجھتے ہو ،؟ مین نے کہا کہ اصطاح میں اس پر زنا کا اطلاق کیا جائے یا نہ کیا جائے اسکو شرعاجائز ہر گز نہیں کہا جاسکتا _

( ومن لم یجعل اللہ له نورا فما له من نور )