ڈاکٹر چترنجن قتل. ...ہمارے ایک قائد کو گرفتار کرنے کی سازش۔ از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ۔۔۔۔! (چھٹی اور آخری قسط)

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے
(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم نے کچھ ایسی مؤثر پیشگی منصوبہ بندی کی اور حکمت عملی کے ساتھ کچھ ضروری اقدامات ایسے کیے کہ الحمدللہ خفیہ ایجنسی کے پلان اور اس کے جال سے بچ نکلنے میں ہم پوری طرح کامیاب ہوگئے۔اور ہفتہ عشرہ تک انتہائی تشویش کے ساتھ رات اور دن کا پل پل گزارنے کے بعد راحت کی سانس لینے کا موقع ہمیں نصیب ہوا۔ لیکن سنٹرل انٹلی جنس بیورو کی طرف سے قتل کی تحقیقات کا سلسلہ جاری رہا۔اس ضمن میں کچھ خاص خاص افراد کے ٹھکانوں پر چھاپہ ماری بھی ہورہی تھی۔ہم لوگ سی بی آئی کے اقدامات پر نظر بنائے ہوئے تھے۔ ہمارے ذرائع اور وسائل سے جوبھی معلومات ہمیں مل رہی تھیں اس سے صاف لگ رہاتھا کہ سی بی آئی جان بوجھ کر اصل مجرموں پر ہاتھ نہیں ڈال رہی ہے اور کسی پہلے سے طے شدہ مفروضے پر عمل کرنے کے لئے سرگرمی دکھارہی ہے۔
پھر مجھے بلاوا آیا: پھر ایک دن سی بی آئی کی طرف سے مجھے تفتیش کے لئے حاضر ہونے کا سمن ملا۔ مرونتے بیچ کے کنارے ذراسی دوری پر ٹورسٹ بنگلومیں سی بی آئی کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ نے دیگر افسران کے ساتھ تقریباً ڈیڑھ دو گھنٹے تک مجھ سے پوچھ تاچھ کی اور اس قتل کے امکانی زاویوں پر مختلف سوالات کیے۔ میں نے اپنا بیان درج کرواتے ہوئے آن ریکارڈ یہ کہا کہ ڈاکٹر چترنجن کے قتل کے پیچھے مسلمانوں کا ہاتھ نہیں بلکہ خود سنگھ پریوارکی ساز ش کارفرما ہے۔ اور اس کا مقصد سیاسی مفاد political mileageحاصل کرنا ہے۔ میں نے اس وقت ڈاکٹر چترنجن کے قریبی اور رکن پارلیمان اننت کمار ہیگڈے پر براہ راست اس قتل میں ملوث ہونے کا شک ظاہر کیا اور اس شک کو تقویت دینے والے بعض واقعات بطور شہادت درج کروائے۔(جس کی تفصیل یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہے) ۔تفتیشی افسر کے تیور سے لگ رہاتھا کہ وہ میری طرف سے پیش کی گئی ٹھوس باتوں کو سنجیدگی سے لے رہا ہے۔میرا یہ احساس اس وجہ سے بھی تھا کہ تفتیشی افسران کی طرف سے جسمانی یا ذہنی طور پر مجھے ہراساں کرنے یا پھر بدتمیزی سے پیش آنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی تھی۔جیسا کہ بعض دیگر افراد کے ساتھ پوچھ تاچھ کے وقت کیا جارہا تھا۔اور ہمارا معاملہ تو بس ایسا تھاکہ:
جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے ، رہے نہ رہے وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں
ہمارے قائد کو پھنسانے کی کوشش: وہ رمضان کا مہینہ تھا۔ غالباً بیسواں روزہ تھا۔ دوپہر کے وقت میں گھر پر آرام کررہاتھاتو ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف سے جناب یحییٰ دامودی نے بتایا کہ جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کو سی بی آئی کی ٹیم نے تفتیش کے لئے مرونتے لے جاکر بہت ہی زیادہ ہراساں کیا ہے۔ شبّر صاحب اس وقت اپنے گھر پر بہت پریشان ہیں، اس لئے ہمیں چل کر ان سے ملاقات کرناہے۔ حالانکہ ہمیں یقین تھا کہ سی بی آئی کے افسران ان کے گھر کے آس پاس نگرانی کررہے ہونگے، لیکن ہم نے اس کی پروا کیے بغیر شبّر صاحب سے ملنے کے لئے فوری طور پران کے گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ وہاں پہنچنے پر دیکھا کہ محترم شبّر صاحب واقعی بہت زیادہ فکر مندی اورتشویش کا شکار تھے ۔ انہوں نے مرونتے میں ان کے ساتھ تفتیشی افسرکی طرف سے کی گئی ہراسانی کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ کئی گھنٹوں تک ستانے کے بعدانہیں یہ کہہ کر واپس بھیجا گیا ہے کہ وہ دوسرے دن صبح پوری تیاری کے ساتھ آجائیں ،کیونکہ سی بی آئی انہیں اس قتل کے معاملے میں کل اپنی تحویل میں لینے والی ہے۔انہوں نے تفتیشی افسر کے تیور اور ان کے ساتھ کیے گئے سلوک کی جو تفصیلات ہمیں بتائی تھیں، وہ واقعی تشویشناک تھیں۔اس لئے اس بات کو محض دھمکی سمجھ کر نظر انداز کرنا مناسب نہیں تھا۔ آئی بی کے افسران اور ہمارے تعلقات: اس زما نے میں انٹلی جنس بیورو(آئی بی) کا دفتر بھٹکل میں نہیں بلکہ کاروار میں ہوا کرتاتھا ۔ وقتاًفوقتاً اس کے افسران بھٹکل آیا کرتے تھے۔ویسے جنوبی کینرا کے آئی بی افسران کی ٹیم کے ساتھ بھی ہمارا اچھا رابطہrappot تھا،لیکن بھٹکل شہر شمالی کینرا کے افسران کے دائرۂ کار میں آتا تھااس لئے ہمارا سابقہ زیادہ تر انہی افسران سے پڑتاتھا۔ اس ٹیم میں میاتھیوز Mathewsنامی ایک عیسائی افسر تھا جو نہایت شریف النفس انسان تھا۔اس کا سینئر افسر بھی ٹھیک ٹھاک قسم کا تھا۔ ہماری ٹیم کے بے باک مزاج اوردو ٹوک forward straightقسم کے اپروچ سے وہ لوگ بڑے متاثر تھے۔اجتماعی معاملات میں ان سے ہمیں بڑی حد تک مثبت تعاون مل رہا تھا۔اس کے علاوہ ذاتی قسم کے کسی بھی معاملے میں نہ ہم نے کبھی ان سے کوئیfavourیا فائدہ اٹھایا تھا اور نہ وہ ہم سے ایسی کوئی توقع رکھتے تھے۔اس بنیاد پرصرف ملّی مفاد کی حد تک میاتھیوز اور اس کے سینئر کے ساتھ بڑا پر وقار رابطہ تھا۔وہ جانتے ہیں جو تاریخ پڑھنے والے ہیں ہمیں نے گردشِ دوراں کے بَل نکالے ہیں
ایک ہنگامی ملاقات کا فیصلہ: جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کے تعلق سے سی بی آئی کا رویہ دیکھ کر ہم دونوں نے جو فوری طور پر فیصلہ کیا وہ یہی تھاکہ اس معاملے میں آئی بی سے مدد لینا بہتر ہوگا۔ چونکہ عصر کا وقت ہوچکا تھا اس لئے ہم لوگوں نے جناب شبّر صاحب کو دلاسہ دیا کہ وہ گھبرائیں نہیں، ہم اپنے طور پر جوبھی ممکن ہوگا وہ کریں گے ۔پھر ان کے مکان سے باہر آکر ہم نے کاروار میں موجود مذکورہ آئی بی افسر سے رابطہ قائم کیا اورانتہائی اہم موضوع پر ایک ہنگامی ملاقات کی درخواست کی۔ اس نے فوری مثبت جواب دیتے ہوئے ہمیں کمٹہ اور انکولہ کے بیچ ایک خاص مقام پر پہنچنے کو کہا۔پھر اپنے ساتھ افطاری کے لئے چند کھجور لے کر ہم دونوں اس مقام کی طرف نکل پڑے جس کی نشاندہی آئی بی کے افسر نے کی تھی۔وہاں پہنچ کر کچھ دیر انتظار کے بعد ایک لوکل بس میں میاتھیوز اپنے سینئر افسر کے ساتھ اس مقام پر پہنچ گیا۔ اس نے بتایا کہ رازداری اور احتیاط کے پیش نظر انہوں نے انکولہ تک کا سفر اپنی سرکاری گاڑی میں کیا تھاپھر اس گاڑی کوانکولہ میں ہی چھوڑتے ہوئے وہاں سے طے شدہ مقام تک وہ بس سے سفر کرکے آئے ہیں۔ دو ٹوک وارننگ: طے شدہ مقام پر ملاقات کے بعد ہم چاروں ذرا دور تنہائی والے جنگلاتی علاقے میں پیدل چل پڑے۔ پھر سی بی آئی اور جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کا معاملہ ان کے سامنے رکھتے ہوئے ہم نے کہا کہ سی بی آئی والے خواہ مخواہ اس کیس سے ہاتھ اٹھانے کے لئے شبّر صاحب کو پھنسانے کی سازش کررہے ہیں۔ جسے ہم لوگ کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔ ہم نے دوٹوک انداز میں گویا وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ ’’جناب ڈی ایچ شبّر صاحب او ر جناب عبدالغنی محتشم صاحب(مرحوم) ہمارے سینئر قائدین میں سے ہیں۔شہراور سماج کے لئے وہ بڑی محترم شخصیات ہیں۔ اور ان میں سے کسی کے ساتھ بھی کسی بھی ایجنسی کے ذریعے ناانصافی کا کھیل کھیلا جائے گا تو پھر ہمارے نوجوان کسی حال میں خاموش نہیں رہیں گے ۔ اور ایسی صورت میں شہر کے حالات کو قابو میں رکھنا ہمارے بس کی بات نہیں ہوگی ۔ اگر امن کو بحال رکھنا ہے تو پھر ایسی اوچھی حرکتوں سے سی بی آئی کو باز رہنا ہوگا۔ اب یہ پیغام فوری طور پر ہوم منسٹری تک پہنچانا اور کسی بھی ناخوش گوار صورتحال کو ٹالناآپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔‘‘پھر ہم وہیں پر روزہ افطار کرکے واپس بھٹکل کی طرف لوٹے۔ آئی بی کا مثبت کردار: اس ملاقات میں انٹلی جنس بیورو کے افسران نے یوں تو ہمیں کوئی تیقن نہیں دیا۔ ان کا کہناتھا کہ سی بی آئی کے تعلق سے کوئی بات کہنایا اقدام کرنا ان کے دائرہ حدود سے باہر ہے ۔ان کا کام صرف معلومات اکٹھا کرنا اور حالات کی رپورٹنگ کرنا ہے۔لیکن انہوں نے ہماری دو ٹوک بات کو سنجیدگی سے لیاتھااور اپنے طور پر ممکنہ کوشش کرنے کی بات کہتے ہوئے ہمیں دوسرے دن صبح تک کا انتظار کرنے کو کہاتھا۔اس سے ہمیں احساس ہوگیا کہ اس ملاقات کا فائدہ ضرور ہوگااور مثبت نتیجہ نکلے گا۔کیونکہ ہم جانتے تھے کہ تنظیم کے بینر تلے ہماری اجتماعی قیادت بھٹکل میں کتنی مؤثر ہے اس سے آئی بی کے یہ افسران بخوبی واقف بھی تھے اور معترف بھی تھے ۔لہٰذا وہ ہماری باتوں کو نظر انداز کرنے کا جوکھم نہیں لے سکتے تھے۔بلند عزم ہوگیا ، پروں میں کاٹ آگئی ہوا تو اور طائروں کی ہمتیں بڑھا گئی
اور ہمارے قائد بچ گئے ! : واپس آکر ہم نے جناب ڈی ایچ شبّر صاحب کو یہ تو نہیں بتایا کہ چند گھنٹوں کے اندر ہم نے کس سطح پر کیا کارروائی کی ہے ۔ البتہ تسلّی دی اورکہا کہ سی بی آئی نے ان کو صبح تفتیشی مرکز پر آنے کی جو ہدایت دی ہے، اس پروہ عمل کریں، اور بڑی بے فکری اور اطمینان کے ساتھ بالکل نارمل انداز میں وہاں جائیں۔ان شاء اللہ ان کو گرفتار کرناتو دورکی بات ہے ،ان کا بال بھی بیکا نہیں ہوگا۔اور الحمد للہ وہی ہواجس کی ہم توقع کررہے تھے ۔ دوسرے دن شبّر صاحب حالانکہ سی بی آئی کی طرف سے گرفتاری کا خوف لے کر گھر سے نکلے تھے ، مگر مرونتے پہنچنے کے بعدانہوں نے دیکھا کہ وہاں پر تفتیشی افسران کا رویہ یکسربدل چکا تھا۔ ان سے مزید کوئی سوال و جواب کے بغیر انہیں سیدھے واپس بھیج دیا گیا۔اورہمارے قائد شبّر صاحب چہرے پر اطمینان اور لبوں پر مسکراہٹ سجائے بخیر وعافیت گھر واپس پہنچ گئے۔ سی بی آئی کی ناکامی: ڈاکٹر چترنجن کا قتل ایک ایسا معمہ ہے جس کو حل کرنے میں سی بی آئی کی تقریباً آٹھ یا ۹ ٹیمیں بدلتی رہیں اور نتیجہ پھر بھی صفر نکلا۔ اس قتل کی تحقیقات میں ایک مرحلہ ایسا بھی آیا کہ ایک مدت تک تحقیق اور تفتیش کے بعد بھی کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کی وجہ سے سی بی آئی نے بھٹکل کی عدالت میں ’سی‘ رپورٹ داخل کی کہ اس واردات کے مجرموں کا پتہ لگانا مشکل ہے اس لئے اس کیس کو ’بند‘ کرنے کی اجازت دی جائے۔اس کے خلاف سنگھ پریوار کی طرف سے ایک ایڈوکیٹ نے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کردی کہ اس طرح اس کیس کو بند کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ اس اپیل کو منظور کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے سی بی آئی کو ہدایت دی کہ کیس کو بندبالکل نہ کرے اور اس کی مزید تحقیقات کی جائے۔ اس کے لئے غالباً مزید6مہینوں کی مدت بھی طے کی گئی تھی ۔سی بی آئی کی طرف سے مزید نئی ٹیمیں تشکیل دی گئیں اور تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی کوئی نتیجہ نہیں نکلا اور بالآخر اس معاملے کو عقدۂ لاینحل بتاکر طاق پر رکھ کر بھلا دیا گیا ہے۔یہی حال بی جے پی کے ایک اور لیڈر تھیمپّا نائک کے قتل کا بھی ہے ، جس میں ملوث قاتلوں کا بھی پتہ ابھی تک چل نہیں پایا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ جب تک یہ دونوں مرڈر mysteriesحل نہیں ہوتی ہیں، تب تک سنگھ پریوار کو اسے مسلمانوں کی دہشت گردی اور جہادی کارروائی قرار دے کر سیاسی مفاد حاصل کرنے کا راستہ کھلا رہے گا۔اوراگر کسی طرح یہ معمہ حل ہوجاتا ہے تو پھر ممکن ہے کہ سنگھ پریوار کے دامن اور آستینوں پر ہی اس خون کے داغ دھبے نکل آئیں گے۔ اے کاش کہ ایسی کوئی صورت بن جائے !کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم *******
haneefshabab@gmail.com (اس مضمون میں درج تحریر مضمون نگار کی ذاتی رائے پر مشتمل ہے ۔اس سے ادارہ کا متفق رہنا ضروری نہیں۔ادارہ)