محسن کتابیں۔۔۔ پیش لفظ۔۔۔ تحریر: مولانا محمد عمران خان ندوی ازہری


انسانی سیرت کی پاکیزگی،اخلاق کی بلندی اور کردار کا وا حد مؤثرحد ذریعہ اچھی صحبت ہے۔اسلام سے پہلے بھی جس دور کو ہم جاہلیت کے دور سے تعبیر کرتے ہیں یہ اصو ل متفق علیہ تھا ،مشہور جاہلی شاعر طرفہ اپنے معلقہ میں کہتا ہے: عن المرء لاتسئل وأبصر قرینہ فان القرین باالمقارن مقتدیٰ اذا کنت فی قوم فصاحب خیارھم ولا تصحب الأردیٰ فتردیٰ مع الردی(یعنی اگر تم کو کسی شخص کے متعلق تحقیق مقصود ہو تو اس شخص کی تحقیق نہ کرو،بلکہ اس کے ہم نشینوں کو دیکھو،کیونکہ دوست اپنے ہم نشینوں کا متبع ہوتا ہے،جیسے ہم نشین ہوں گے ویسا ہی وہ شخص ہوگا۔ جب تم کسی قوم میں ہو تو اس قوم کے اچھوں کی صحبت اختیار کرو،ناکارہ لوگوں کی صحبت میں نہ بیٹھو ،ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے۔) رسول اللہﷺ کا ارشاد گرامی ہے،جس میں نیک و بد صحبت کی نہایت دل نشین مثال بیان فرمائی ہے: ’’مثل الجلیس الصالح والجلیس السوء کحامل المسک ونافخ الکیر ،فحامل المسک اما ان یحذیک ،واما ان تبتاع منہ ،واما ان تجد منہ ریحاً طیبۃً،ونافخ الکیر اما ان یحرق ثیابک ،واما ان تجدمنہ ریحاً منتنۃً‘‘ (اچھے اور برے ہم نشیوں کی مثال ،مشک فروش اور بھٹی دھونکنے والے کی سی ہے،مشک فروش یا تو مشک دے گا یا تم بہ قیمت اس کو خرید لوگے ،ورنہ (کم ازکم)تم کو مشک کی خوشبو ہی (سونگھنے کو) ملے گی،؛لیکن بھٹی دھونکنے والا یا تمھارے کپڑے جلا دے گا ،یا اس کی بدبو تم پاؤ گے۔) بعض مأثور اقوال میں تو یہاں تک ہے ’’وحدۃ المرء خیر من جلیس السوئ‘‘.یعنی اگر صالح ہم نشین اور اچھا ساتھی میسر نہ ہوپھر انسان کی تنہائی ہی بہتر ہے۔ یہ اصول جس طرح اس وقت صحیح تھا ،آج بھی صحیح ہے،اور اسی ایک اصل کے مفقود ہوجانے سے مسلمانوں کی اخلاقی زندگی میں وہ گھن لگتا چلا جارہاہے جس کو اب وہ بھی محسوس کرنے لگے ہیںجن کی نظریں پہلے اس طرف نہیں جاتی تھیں۔ لیکن یہ زمانہ جس کوبرعکس نام نہند زنگی کافور کے اصول پر ترقی کا زمانہ کہا جاتاہے،پریس کا زمانہ ہے،اور سیرت سازی میں کتابوں،رسالوں اور سفید کاغذپر سیاہ چھپے ہویئ حروف کوبڑا دخل ہے۔ ادب کے نام سے ،آرٹ کے نام سے،افسانے کے نام سے،ناول کے نام سے،ادب لطیف کے نام سے،اور خدا جانے کن کن ناموں سے،اچھی کتابت،بہتر طباعت،خوبصورت جلد اور خوشنما گردپوش کے ساتھ سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں خرافات شائع ہوہو کر پھیل رہی ہیں،جس سے بڑے، چھوٹے،بچے اور بچیاں اور حد یہ ہے کہ گھر کی پردہ نشین عورتیں تک متأثر ہورہی ہیں،کالجوں اور اسکولوں کے پڑھنے والے طلبہ اور طالبات کا یہ تأثر جس حد پر پہنچ چکا ہے،اور اس کے جو نتائج پیدا ہورہے ہیں ،وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں،اور اب تو بیشتر عربی مدارس کے طلبہ (کیونکہ ان کے سامنے سے بلند مقصدِ زندگی اوجھل ہوتا چلا جارہا ہے)بھی اس کا شکار ہوتے جارہے ہیں،عام مدارس میں’’فنون‘‘کی کتابوں کے علاوہ طلبہ روشناس ہی کس چیز سے ہوتے ہیں جو علم ومطالعہ کا کوئی خاص ذوق ان میں پیدا ہو!اور یہی باعث ہے کہ ان کا مطالعہ بہت محدود،اور علم کا دائرہ بہت تنگ ہوتا چلاجارہا ہے۔ اب صورت یہ ہے کہ ایک طرف اچھی صحبت،نیک ساتھی،صالح ہم نشین اورمناسب ماحول کا فقدان ہے ،اور دوسری طرف پریس کی راہ سے ہر چھپی ہوئی چیز اپنا غیر محسوس زہر پھیلا رہی ہے۔حقائق بدل رہے ہیں ،اچھائی اور برائی کے معیار تبدیل ہورہے ہیں،کل کے معائب آج ہنر بن چکے ہیں،کل تک جن فواحش کا انتساب کسی شریف آدمی کی طرف کرنا اس کے غصہ وغیرت کی آگ کو بھڑکانے کے مرادف تھا،آج ان کے کرنے والے خود اس نسبت کو اپنی طرف کرتے ہوئے نہ صرف یہ کہ جھجک اور شرم محسوس نہیں کرتے ،بلکہ فخر یہ اس کا اظہار کرتے ہیں۔ الغرض گندگی اور فحش سب سے زیادہ مؤثر طریقے پر جس راہ سے اس وقت حملہ آور ہے،وہ پریس کی راہ ہے۔گندہ لٹریچر جس کثرت ووسعت کے ساتھ چھپ اور پھیل رہا ہے،اس کے مقابلے میں صالح لٹریچر کی اشاعت بہت ہی محدود اور انگلیوں پر گنے جانے کے لائق ہے۔یہ صورت حال مصلحین اور زعمائے ملت کے لئے اولین فکر کی مستحق ہے،اور ضرورت ہے کہ اہل قلم اس خامی کو محسوس کریں،اخلاق،علم اور دین کی حفاظت کے اس اہم مورچے کو ’’اغیار‘‘ کے دست برد سے بچانے کی پوری سعی وکوشش کریں۔ فانما الأمم باالأخلاق مابقیت فان ھم ذھبت ،أخلاقھم ذھبوا پیش نظر کتاب رسالہ ’’الندوہ‘‘ دور جدید کے چند مفید مضامین کا مجموعہ ہے۔’’میری محسن کتابیں‘‘کے زیر عنوان یہ سلسلہ مشاہیر اہل علم کے قلم سے کئی ماہ تک الندوہ میں شائع ہوتا رہا۔دینی،اخلا قی ا ورعلمی نقطئہ نظر سے امید ہے کہ ان مضامین کا مطالعہ ہر پڑھے لکھے کے لئے اپنے ذہنی اور فکری معیار کے بقدر مفید ہوگا۔کتاب میں مضامین کی ترتیب وہی باقی رکھی گئی ہے جس ترتیب سے یہ الندوہ میں شائع ہوئے ہیں۔مولانا ابوالاعلی صاحب مودودی کا مختصر مضمون الندوہ میں شائع نہ ہوسکاکہ رسالہ بند ہوچکا تھا،لیکن اس کتاب میں وہ شامل کردیا گیاہے۔ آخر میں ایک مضمون کا اضافہ کیا گیا ہے جو الندوہ میں شائع نہیں ہوا ہے۔یہ مضمون میرے محترم کرم فرما مولانا ابوالحسن علی ندوی (رحمہ اللہ )شیخ التفسیر دار العلوم ندوۃ العلماء کے قلم ہے۔میں ممنون ہوں کہ میری فرمائش اور اصرار سے انھوں نے اس کے لکھنے کی زحمت گوارا کی،اور اس طرح یہ مضمون اس مجموعے میں ایک گراں قدر اضافے کا باعث ہوا۔ مرتب۲۳ جمادی الثانی ۱۳۶۵ ھ محمد عمران ندوی