کیا کرناٹکامیں لسانی اورصوبائی جنون ،نئے طوفان کا پیش خیمہ ہے ؟!(تیسری اور آخری قسط )۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ 

Bhatkallys

Published in - Other

02:13PM Tue 22 Aug, 2017
آزادی کے بعد کچھ عرصے تک جنوبی ہند میں وقفے وقفے سے ہندی مخالف مظاہرے ہوتے رہے اور پھر بعد میں یہ طوفان کچھ تھم سا گیا تھا۔مگرآج کل ایک بار پھر منافرت اور مخالفت کے اس سمندر میں نئی ہلچل پیداہوگئی ہے ۔ اس کے پیچھے پائے جانے والے بنیادی اسباب کا جائزہ اس مضمون کی سابقہ قسطوں میں لیا جا چکا ہے۔ اب نئے سرے سے اس میں جو اُبال آیا ہوا ہے اس میں مرکزی حکومت کی طرف سے پورے ملک میں ہندی زبان کے نفاذ کے لئے کی جانے والی ایک اور پہل کا بڑا ہاتھ سمجھا جارہا ہے۔جس کے تحت کیندریہ ودیالیہ(KV) اور CBSE سے الحاق شدہ اسکولوں میں دسویں جماعت تک ہندی زبان کوسیکھنا لازمی ہوجا ئے گا۔ جس سے سمجھا جاتا ہے کہ نہ صرف ذولسانی اور سہ لسانی فارمولے کا توازن بگڑ جائے گا، بلکہ ہندی مخالف جذبات سے جنم لینے والے تصادم اور تشدد سے ملکی سالمیت اور یگانگت ہی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پارلیمانی کمیٹی کے مشورے اور صدر ہند کی توثیق: ہندی کو یکساں طور پر پورے ملک میں عام کرنے کے لئے مرکز کی اگلی کوششوں کے طور پرCommittee of Parliament on Official Languageپارلیمانی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں 117مشورے دئے تھے۔ان میں سے بیشتر کو صدرجمہوریہ ہند پرنب مکھر جی نے منظوری دیدی ۔جس میں سے ایک تمام دور درشن سنٹرز اور آل انڈیا ریڈیو کے تمام اسٹیشنوں سے ہندی نشریات کا وقت مقرر کرنا ہے ۔ دوسرا اہم مشورہ صدر ہند، وزیراعظم اور مرکزی وزراء کو آئندہ ہندی زبان میں خطاب کرنے کا پابندبنانا اور ہندی سے آشنا معزز شخصیات سے ہندی میں تقریریں کرنے کی درخواست کرنا ہے۔اس کے علاوہ صدر ہند نے اس مشورے کو بھی منظوری دیدی جس میں کہا گیا ہے کہ جہاں بھی ممکن ہو مرکزی حکومت اپنے تمام اشتہارات ہندی اور علاقائی زبان میں شائع کرے گی۔پارلیمانی کمیٹی کاایک اہم مشورہ یہ بھی تھاکہ کسی بھی سرکاری نوکری پر تقررکے لئے ہندی زبان کا بنیادی علم لازمی قرار دیا جائے۔ اس مشورے کو صدر ہند پرنب مکھر جی نامنظور کردیا ہے۔ دسویں جماعت تک ہندی لازمی مضمون: اس میں سب سے اہم تجویزجو غیر ہندی داں طبقے میں اضطراب کا باعث ہواہے وہ کیندریہ ودیالیہ(KV) اور CBSE سے الحاق والے اسکولوں میں دسویں جماعت تک ہندی زبان سیکھنا لازمی قرار دینے کا فیصلہ ہے۔کہاگیا ہے کہ ہندی کو لاگو کرنے کی سنجیدہ کوششوں کے جانب یہ پہلا قدم ہے ۔البتہ صدر پرنب مکھرجی نے اس مشورے کواصولی طور پر منظوری دیتے ہوئے مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل (HRD)سے کہا ہے کہ اس حکم کے اطلاق کے لئے ریاستی حکومتوں سے صلاح و مشورہ کرکے لائحۂ عمل ترتیب دیا جائے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سنٹرل بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس ای) ملک کا سب سے بڑا ایسا تعلیمی بورڈ ہے جس سے الحاق شدہ اسکولوں کی تعداد فروری ۲۰۱۷ تک ملک کے اندر18,546اور بیرونی ممالک میں210ہے۔اس بورڈ سے الحاق شدہ اسکولوں میں زبانیں سکھانے کا معاملہ اب تک ریاست در ریاست جداگانہ ہے ۔ سنٹرل بورڈ نے دو سال قبل اپنے اسکولوں کے لئے ۹ ویں اور ۱۰ ویں جماعت تک سہ لسانی فارمولہ منظور کیا ہے جس میں انگلش کے علاوہ کوئی دو ہندوستانی زبانوں کا انتخاب کرنا ہوتا ہے۔اس فارمولے کے تحت ایک طرف شمال میں جہاں ہندی زبان طلبہ اور عوام کے لئے پہلی پسند ہے وہیں پر جنوب میں طلبہ کو دستور ی طور پر منظور شدہ 22زبانوں میں سے کوئی 2زبانیں منتخب کرنا ہوتا ہے۔ کرناٹکا اور کیرالہ کا ماسٹر اسٹروک : لسانی بنیادوں پر تشکیل دی گئی ریاستوں میں بھی ہندی کے اطلاق کے لئے مرکزی حکومت کی اس ترکیب کے خلاف ایک ماسٹر اسٹروک کھیلتے ہوئے ریاست کیرالہ نے تمام اسکولوں میں دسویں جماعت تک ملیالم زبان کوآرڈیننس کے ذریعے لازمی مضمون قرار دے دیا۔ادھر ریاست کرناٹکا کے وزیر تعلیم نے بھی اس بات کا اعلان کیا ہے کہ جلد ہی ریاست کے تمام اسکولوں میں پہلی جماعت سے دسویں جماعت تک کنڑا زبان لازمی قرار دینے کے احکامات جاری ہونگے۔ اس پالیسی کا اطلاق سرکاری اسکولوں میں پہلے ہی سے ہوچکا ہے لیکن اب امدادی، نجی، لسانی اقلیتی اورسنٹرل بورڈ وغیرہ سے ملحقہ تمام اسکولوں پربھی اسے لاگو کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔اور اس پر عمل نہ کرنے والے اسکولوں کے خلاف سخت کارروائی اورمحکمہ تعلیم کی طرف سے جاری کیا گیا اسکول کا اجازت نامہ منسوخ کرنے کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔ اس وجہ سے اب سی بی ایس بورڈ کے لئے اپنے نصاب میں(بشمول انگلش) سہ لسانی فارمولے پر نظر ثانی کرنا ضروری ہوگیا ہے۔ سہ لسانی کے بجائے ذولسانی فارمولے کی حمایت: اسکولوں میں سہ لسانی فارمولے کی مخالفت کرتے ہوئے کنڑا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی (KDA)نے کہا ہے کہ طلبہ کے لئے ذولسانی فارمولہ ہی مناسب ترین ہے۔ KDAنے اب یونیورسٹیوں کو بھی سرکلر جاری کردیا ہے کہ انڈر گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کی سطح پر کنڑا زبان کو لازمی طور پر پڑھایا جائے اور اس حکم پر اس تعلیمی سال سے عمل بھی شروع ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ کے ڈی اے نے یونیورسٹیوں سے یہ رپورٹ بھی مانگی ہے کہ پروفیسر بایلگا کمیٹی کی رپورٹ پر کس حد تک عمل ہوا ہے۔ جس کے تحت میڈیکل اور انجینئرنگ جیسے پروفیشنل کورسس میں بھی کنڑا کو لازمی کرنے کی سفارش کی گئی ہے۔کے ڈی اے کے چیرپرسن ایس جی سدارامیا کا کہنا ہے کہ سہ لسانی فارمولے کے تحت تیسری اختیاری زبان کے بھیس میں ہندی کومسلط کرنے کی کوشش قابل قبول نہیں ہے۔ انتخابی سیاست کا نیا ہتھکنڈا۔کنڑا کلچر!: ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں بدلتے سیاسی ہوا کے رخ کو دیکھتے ہوئے کرناٹکا کے سیاسی کھلاڑیوں نے شطرنج کی بساط پر اپنی اپنی چال چلنا شروع کردیا ہے۔ چونکہ کچھ ہی مہینوں میں یہاں انتخابی دنگل شروع ہونے جارہا ہے ۔ اس لئے اپوزیشن پارٹی بے جی پی برسراقتدار کانگریس کو دھول چٹانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے گی جس کا آغاز امیت شاہ کے حالیہ دورے سے ہوگیا ہے۔ جبکہ کانگریس کے لئے ہر قیمت پر اقتدار دوبارہ حاصل کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ اس کی ناک کا سوال بن گیا ہے۔ ایسے میں وزیر اعلیٰ سدارامیانے ایک اور ماسٹر اسٹروک لگاتے ہوئے کنڑا زبان اور کلچر کا کارڈپہلے ہی کھیل دیااور ایک طرح سے بی جے پی کو ایک قدم پیچھے چھوڑدیا ہے۔اس مقصد کے لئے سدارامیا کو کنڑی عوام کے محافظ کے طور پر پیش کرتے ہوئے ایک ویڈیویوٹیوب پر اپ لوڈ کیاگیا ہے جس کا عنوان ہے:'کرناٹکا نَمّا ہیمّے 'یعنی' کرناٹکا ہماری شان'ہے اس میں کرناٹک کے عوام سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے کنڑیگا ہونے پر فخر محسوس کریں۔ پڑوسی ریاستوں کو وارننگ: اسی ویڈیو کلپ میں سدارامیا کو یہ پیغام بھی دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے کہ : "ہمارے پڑوسی ہمار ے بھائی بہن ہیں۔ لیکن اگر کوئی ہماری زبان، ہماری زمین یا ہمارے پانی پر حملہ کرے گا تو اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔اس( کنڑا ریاست اور کنڑا عوام) کی حفاظت ہماری ذمہ داری ہے۔"اس کے علاوہ سدارامیانے اپنی سیاسی زندگی میں کنڑا کلچر اور زبان کے تحفظ اور فروغ کے لئے اور کرناٹکا کو متحد کرنے کی جدوجہد کے دوران کیا کیا خدمات انجام دی ہیں اس کا بھی بھرپور احاطہ کیا گیا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ یہ ایک سیاسی ہتھکنڈاہونے کے باوجود ریاست میں پہلے سے موجودکنڑا کی برتری اور supremacy کا جنون رکھنے والے ایک بہت بڑے طبقے کے لئے یہ ویڈیوجذباتی تسکین کا ایک کامیاب حربہ ثابت ہوگااور سدارامیا کو کنڑا کلچر اور زبان کے مسیحا کی شکل میں لیا جائے گا۔حالانکہ مرکزی وزیر سدانند گوڈا نے کانگریس کی اس چال کو انگریزوں کی "تقسیم کرو اور حکومت کرو "کی پالیسی سے زیادہ بدترسیاست قرار دیا ہے۔لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی کے لئے اس کے خلاف بولنا آئندہ اسمبلی الیکشن میں کافی مہنگا پڑسکتا ہے۔ میٹرو اسٹیشنوں پر ہندی بورڈ ز کی مخالفت: بنگلورو میٹرو اسٹیشنوں پرسہ لسانی فارمولے کے تحت انگریزی اور کنڑا کے ہندی میں بھی جوسائن بورڈز آویزاں تھے اس کے خلاف جذبات بھڑکانے کا سلسلہ شروع ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے کنڑا حامیوں نے ہندی میں لکھے گئے نام پر کالا رنگ پھیرنا شروع کیا۔ حالانکہ پولیس کی طرف سے ان حرکتوں کے خلاف قانونی کارروائی کی گئی ۔مگر اصولی طور پر کنڑا حامیوں کی پشت پناہی کرتے ہوئے کرناٹکاحکومت نے بنگلورو میٹرو ریل کارپوریشن سے سرکاری طور پر مطالبہ کیا ہے کہ کرناٹکا میں صرف ذولسانی فارمولے پر عمل کرنے کی اجازت دی جائے اورمیٹرو سے ہندی کو ہٹاتے ہوئے صرف کنڑا اور انگریزی والے سائن بورڈز لگوائے جائیں۔جبکہ کرناٹکا ڈیولپمنٹ اتھاریٹی نے بنگلورو میٹرو ریل کارپوریشن سے غیر کنڑیگا ملازمین کو ہٹانے اور ان کی جگہ پر کنڑیگاس کو تعینات کرنے کی رپورٹ طلب کی۔ توا گرم رکھنے کے لئے جھنڈے کی سیاست: سیاسی ماحول کو گرم رکھنے اور آئندہ انتخابات میں اچھی فصل کاٹنے کی نیت سے ایک اور چال جو سدارامیا حکومت نے چلی ہے ،وہ ہے ریاست کے لئے ایک جدا گانہ سرکاری جھنڈامنظور کرنے کی طرف پہل کرنا۔ جس کے لئے ایک۹ رکنی کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جو اس ضمن میں تفصیلی جائزہ لے گی۔ حالانکہ ریاست کرناٹکا کی تشکیل کا دن مناتے ہوئے یا ریاستی سرکار کے پروگراموں کے دوران، کنڑا حامیوں کی طرف سے احتجاجات اور ریالیوں کے موقع پر، جلسے جلوسوں میں کنڑا کا دو رنگی جھنڈا لہرانا یا اسے اسکارف کے طور پر استعمال کرنا عام ہے۔ مگر یہ جھنڈاریاست کا سرکاری جھنڈا نہیں ہے بلکہ سیاسی زبان میں یہ عوام کا جھنڈا ہے جسے 1960میںMa Ramamurthy نے ڈیزائن کیا تھا۔اسے باقاعدہ سرکاری پرچم قرار دینے کی مانگ کنڑا حامیوں کی جانب سے ایک عرصے سے کی جارہی ہے۔ اب سدارامیا کی طرف سے ریاستی پرچم وضع کرنے کی پہل کو جانکار اندر ہی اندر سلگ رہے ہندی مخالف جذبات پر تیل چھڑکنے کی کوشش قرار دے رہے ہیں جو کہ ووٹ بینک سیاست کا حصہ ہے۔ نئی کلچرل پالیسی کی منظوری: کرناٹکا حکومت کی کابینہ نے کنڑا حمایتیوں کی تسکین کے لئے ایک اور سیاسی کارڈ کھیلتے ہوئے نئی کلچرل پالیسی کو منظوری دینے اور اس پر عمل پیرائی کے لئے تقریباً60کروڑ روپے مختص کرنے کا تازہ اقدام کیا ہے۔دراصل یہ ایک 'جدا اور مخصوص کلچرل پالیسی' مشہور کنڑا مصنف باراگرو رامچندرپا کی قیادت میں تشکیل شدہ ۶ رکنی کمیٹی کی44 سفارشات پر مبنی ہے جوکہ تین سال قبل 2014میں حکومت کو پیش کی گئی تھی۔ لیکن لگتا ہے کہ سدارامیا کے لئے اس کارڈکو کھیلنے کااس سے بہتر موقع اور کوئی نہیں ہوسکتاتھا۔ اس میں کنڑا کے تحفظ اور فروغ کے لئے مختلف اقدامات شامل ہیں۔اس کا ایک اچھا پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے تحت اخلاقی پولیس کاکردار ادا کرنے ،مصنفین پر حملے کرنے اور کتابوں پر پابندی لگوانے کے رجحانات پر لگانے کی بات بھی کہی گئی ہے جس کا سیدھا نشانہ سنگھ پریوار سے وابستہ رضاکاروں کی غنڈہ گردی پر ہے۔ ریاست اورمرکز ی حکومت کا ٹکراؤ: کرناٹکا سرکار کی اس جھنڈے کی سیاست پر مرکز نے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ ریاستوں کے لئے جداگانہ جھنڈے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ سرکاری طور پر صرف ایک جھنڈا رہے گا اور وہ ترنگا جھنڈا ہوگا۔ اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے وزیراعلیٰ سدارامیا نے کہا کہ ملک کا ترنگاہمیشہ اونچا رہے گا۔ ہم ایک قوم اور ہمار ا ایک جھنڈا ہے۔ لیکن کیا قانونی طور پر ریاست کے لئے جداگانہ جھنڈا اختیار کرنے پر کوئی پابندی ہے؟ اگر اس کی اجازت دستور میں نہیں دی گئی ہے تو اس پر پابندی بھی دستور میں موجود نہیں ہے۔ اس سے قبل 2012میں سدانند گوڈا کی ریاستی بی جے پی حکومت نے کرناٹکا کے لئے جدا پرچم کی مخالفت کرتے ہوئے کرناٹکا ہائی کورٹ میں بیان داخل کیا تھا کہ ملک کا ترنگا ہی ایک جھنڈا ہے اس سے ہٹ کر ریاستی جھنڈا وضع کرنے سے ترنگے کی حیثیت کم ہوجائے گی۔اور یہ ملک کے اتحاد اور سالمیت کے خلاف ہوگا۔اس لئے اس نے کرناٹکا میں موجود دو رنگی (لال اورپیلے) جھنڈے کو ریاستی پرچم کے طور پر منظور کرنے کی تجویز قبول نہیں کی ہے۔اب سدارامیا کے موقف کو بی جے پی کے ساتھ متصادم نظریے کے ساتھ دیکھا جارہا ہے کیونکہ سدارامیا نے گرماتی ہوئی سیاسی بھٹی کو ہوا دیتے ہوئے سیدھانشانہ تاناہے اور کہا ہے کہ بی جے پی کو باضابطہ اعلان کرنے دیجیے کہ وہ کرناٹکا کے لئے ریاستی پرچم کی مخالفت کرتی ہے۔ بی جے پی اورہندی ، ہندو ، ہندوستان: صدر ہند کی طرف سے سی بی ایس ای اور کیندریہ ودیالیہ میں ہندی لازمی کرنے کی تجویز منظور کرنے کے بعد غیر ہندی علاقوں میں پھر سے ہندی مخالف جذبات بھڑکنے لگے ہیں اور الزام لگایا جارہا ہے کہ مرکزی حکومت ہندی پریم کی شکل میں علاقائی زبانوں کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ترنمول کانگریس کے لیڈر سوگاتا روئے نے اسے بی جے پی کی طرف سے اپنے"ہندی ، ہندو ، ہندوستان"جیسے اکثریتی نظریے اور ایجنڈے کو عوام پر لاگو کرنے کی سازش قرار دیا ہے۔اورتنبیہ کرتے ہوئے کہا ہے غیر ہندی علاقوں میں ہندی کے اس طرح اطلاق کی کوشش کرنے سے پہلے مرکزی حکومت احتیاط سے کام لے۔ دوسری طرف تلنگانہ محکمہ تعلیم کے ایک افسر کا سوال یہ ہے کہ": جب شمال کے لوگ کسی بھی جنوبی ریاستی زبان کو سیکھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے ، تو پھر ہمارے بچوں کو کسی مخصوص زبان کے سیکھنے پر کیسے مجبور کیا جاسکتا ہے؟ "اسی طرح تملناڈو کے اپوزیشن لیڈر ایم کے اسٹالن (ورکنگ صدرڈی ایم کے) کا کہنا ہے کہ :"مرکز نے ماضی میں ہائی ویز کے بورڈز اوراخباری اشتہاروں میں ہندی زبان کو نافذ کیاتھا۔یہاں تک کہ ٹیچرز ڈے کو بھی' گرو پورنیما 'میں بدل دیا گیا ہے۔میں مرکزی حکومت کو وارننگ دیتا ہوں کہ پھر ایک بار ہندی مخالف احتجاج کے بیچ بونے سے باز آجائے۔" نیا طوفان سر اٹھا رہا ہے : اس پورے منظر نامے اور بدلتے سیاسی موسم کی گرم ہواؤں کااگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے توصاف اشارے مل رہے ہیں کہ صوبائی، لسانی اور ثقافتی تحفظ کے نام پر تعصبات کا نیا طوفان سر اٹھا رہا ہے جو عین ممکن ہے کہ آگے چل کرمرکز اور ریاستوں کے ٹکراؤ اور تشدد کا ایسا چکر ویو بن جائے جس سے باہر نکلنا مشکل ہوجائے گا۔اور یہ امن و امان اور ملکی اتحاد و سالمیت کے لئے ہی سنگین خطرہ بن جائے گا۔لہٰذا ضروری ہے کہ مرکز اور صوبوں کے حکمراں سیاسی خود غرضی سے بالا تر ہوکر ملک کے وسیع تر مفادات ذہن میں رکھتے ہوئے پالیسیاں وضع کریں اور اسی کے مطابق فیصلے کریں ورنہ اس تصادم کی مار تو بے چارے عوام کو ہی جھیلنی پڑے گی۔اللہ خیر کرے!