کلام مجید کے تیسویں پارہ کے وسط میں سورہ غاشیہ ہے جس میں قیامت کا بیان ہے اس کے شروع میں آتا ہے
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ ۔ عَامِلَةٌ نَاصِبَةٌ ، تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً ۔
کتنے چہرے ہیں جو اس روز ذلیل و خوار ہوں گے ،محنت کرنے والے تھکے ماندے اشخاص اس روز کون ہوں گے ؟ اسکے جواب میں صحیح بخاری میں حضرت ابن عباس کا قول ملتاہے۔’’وقال ابن عباس عاملۃٌناصبۃ النصاری‘‘ (کتاب التفسیر)کہ اس سے مراد نصاریٰ ہیں اورمتعدد مفسروں نے اسی قول کو نقل و اختیار کیا ہے،یہی وہ گروہ ہے جسے جلتی ہوئی آگ میں جھونکا جائے گا جسے ابلتے اور کھولتے ہوئے چشمہ کا پانی پینے کو ملے گا اورجسے ان خشک وخار دار جھاڑیوں کی غذاملے گی جس سے نہ بھوک ہی کو تسکین ہوگی اور نہ جسمانی تنو مندی ہی حاصل ہوگی " تَصْلَى نَارًا حَامِيَةً (4) تُسْقَى مِنْ عَيْنٍ آنِيَةٍ (5) لَيْسَ لَهُمْ طَعَامٌ إِلَّا مِنْ ضَرِيعٍ (6) لَا يُسْمِنُ وَلَا يُغْنِي مِنْ جُوعٍ (7)"
قیامت کا دن کشف اسرار کا دن ہوگا وہ گھڑی ظہور نتائج کی گھڑی ہوگی اس وقت کوئی شئے سرے سے نئی پیدا نہ ہوگی بلکہ آج جو کچھ کیاجارہا ہے وہی اپنی آخری اورر انتہائی صورت میں نمودار وظاہر ہوکررہے گا،آج کس قوم کو اپنے عاملہ ہونے کا دعویٰ ہے؟آج کس قوم کے افراد کو اپنی قوت عمل پر ناز ہے آج کون قوم سارے سارے دن اپنے کا رخانوں اور اپنی دوکانوں میں اپنے ورک شاپ اور اپنی فیکٹری میں اور انجنوں میں اور اپنے بجلی گھروں میں اپنے کالجوں اور اپنی یونیورسٹیوں میں ،اپنے کتب خانوں اور اپنی تجربہ گاہوں میں،اپنی کونسلوں اور اپنی کچہریوں میں،اپنے اخباروں اور اپنی انجمنوں میں،اللہ کو بھلائے ہوئے مشغولِ عمل رہا کرتی ہے؟آج کون قوم ساری کی ساری راتیں ہوٹلوں اور پارکوں میں،تھیٹر اور سینمامیں، ناچ گھروں اور شراب خانوں میں بغیر اپنے پروردگار کے نام کے بُھولے سے بھی یاد کئے ہوئے ،گنوانا اپنی تہذیب کا کمال سمجھ رہی ہے؟ان دنیا پر ستوں کو اور حیات مادی کے ان پرستاروں کواس وقت جو ہر کوشش کے آخری اورکامل اور بے پردہ ظہور کا وقت ہوگا اگر اپنی ساری لاحاصل محنت اوربے سود جدوجہد ،کانتیجہ نری تھکن اور ماندگی محض خستگی و اضمحلال کی شکل میں نظر آئے تو کیا اس پر کچھ بھی حیرت ہونی چاہیے؟
آج جن کا سارا وقت بھاپ اور دھوئیں کے کارخانوں میں ورک شاپ اور پاور ہاوس کی پرستاری میں گزر رہاہے آج جن کی ساری زندگیاں آگ اور بجلی کی قوتوں کی پوجا کے لیے وقف ہیں کل اگر یہی دہکتی ہوئی آگ اور یہی کھولتا ہوا پانی ، ان پر عذاب اور دردناک اور بے پناہ عذاب کی شکل میں ظاہر ہو ،تو یہ نا انصافی نہیں عین انصاف ہوا ،اور آج جو قومیں مادی لذتوں اور نفسیاتی خواہشوں پر اتنی حریص ہیں کہ ملک پر ملک فتح کرنے کے بعد اور کروڑوں بندگان خدا کو اپنا بندہ بنالینے کے بعد بھی انھیں کسی طرح سیری اور آسودگی نصیب نہیں ہوتی ،کل اگر اپنے انھیں کرتوتوں کا نتیجہ ایسی بے ثمر اور خاروارجھاڑیوں کی صورت میں ملے جن سے نہ بھوک کی تسکین ہوسکتی ہو اور نہ کسی قسم کی روحانی و جسمانی تنو مندی حاصل ہوسکتی ہو،تو اس کے فیصلہ کے بالکل منصفانہ اور اس جزاء عمل کے بالکل قدرتی ہونے میں کسی کو شبہ ہوسکتا ہے؟