تجربات ومشاہدات(۱۵)۔۔۔ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی یاد۔۔۔ مولانا بدر الحسن القاسمی۔ الکویت

Bhatkallys

Published in - Other

08:03PM Wed 30 Jun, 2021

کئی دنوں سے یہ خبر آر ہی تھی کہ ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کی حالت تشویشناک ہے اسکے بعد انکی رحلت کی افسوسناک اطلاع کے آنے کا ہی خدشہ تھا جو قدرت کے فیصلہ کے مطابق واقع ہوکر ہی رہا انالله وانا اليه راجعون ايتهاالنفس اجملي جزعا ان الذي تحذرين قد وقعا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر علامہ سید محمد یوسف بنوری کے مایہ ناز شاگرد تھےاور انکی قسمت میں انکی گدی کی وراثت بھی تھی خاص طور پر مولانا حبیب اللہ مختاروغیرہ کی شہادت کے بعد انکی شخصیت ہی جامعہ کے امور کی دیکھ بھال کیلئے تنہا رہ گئی تھی مولانا عبد الرزاق اسکندر صاحب سے میری پہلی ملاقات 1980 م میں لیبیا کے دار الحکومت طرابلس میں ہوئی تھی یہ کرنل معمر القذافی کے اقتدار کا زمانہ تھا پورے ملک کی سرکاری عمارتوں پر "الکتاب الاخضر" کی عبارتوں :۔ شرکاء لاآجراء۔ من تحزب خان ؛الثورہ لاتآتی فی القرن الا مرة واحدة الثروة والسلاح بيد الشعب " وغیرہ کوپروپیگنڈہ کے انداز پر لکھا گیا تھا ہوٹل بینک سرکاری آفسوں کی عمارتیں سبھی انہیں نعروں کا بورڈ نظر آتی تھیں ہم دونوں ایک کانفرنس میں شرکت کیلئے بلائے گئے تھے وہاں کا تاریخی کیلنڈر بیس سال پیچھے کردیا گیاتھا ہجرت کے بجائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سےسال کا آغاز قذافی صاحب کی جدت تھی انکار حدیث کادور دورہ تھا البتہ قرآنی حلقات کو خوب فروغ حاصل تھا لیبیا کانام بھی اس زمانہ میں "الجماھیریة العربية الليبة الشعبية الاشتراكية العظمي "لکھا جاتا تھا شرکائے کانفرنس میں ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ہی میرے لئے ذھن ومزاج اور فکرو عقیدہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ قریب تھے گوکہ میں عمر میں وہ ان سے چھوٹاتھا اور وہ مجھ سے بیس سال بڑے تھے لیکن ہمارے درمیان بے تکلفی کے تعلقات قائم ہوگئے اور اتنی ہم آنگی پیداہوگئی تھی کہ ہم دونوں ساتھ رہے اور ساتھ ہی اردن کے راستے سے کراچی ہوتے ہوئے واپس لوٹے عبد الرزاق اسکندر صاحب کے علمی ذوق اور وقت کے انضباط کا یہ حال تھا کہ وہ ہوائی جہاز میں بھی اپنا علمی مشغلہ جاری رکھتے تھےان دنوں وہ مولانامناظر احسن گیلانی کی مشہور کتاب تدوین حدیث کا عربی زبان میں تر جمہ کر رہے تھے جسے پچیس تیس سال بعد اپنے عراقی محقق دوست ڈاکٹر بشار عواد معروف کے مقدمہ کے ساتھ شائع کیاگو کہ اس مقدمہ میں بعض باتیں تحقیق طلب ہیں کتاب کا ایک نسخہ مسجد نبوی میں ایک ملاقات کے دوران مولانا نےبطور ہدیہ عنایت فر مایا ہدیہ کیلئے عطر کی شیشیاں بھی ہمیشہ انکے ساتھ رہتی تھیں اردن میں ساتھ ہی ہم لوگو نے اصحاب کہف کے آثار کی زیارت کی تھی حسان تیسیر ظبیان بھی محبت سے ملے انکے والد کی اصحاب کہف کے بارے میں کتاب معروف ہے وہ خود مجلہ الشریعہ کے ایڈیٹر تھے اور مجھے لیبیاسے محفوظ نکل آنے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے رابطہ عالم اسلامی کےمقامی آفس کے ذمہ دار منصور الحیاری نے بھی ہم لوگوں کی بھر پور تکریم کی ارادہ تو عمرہ کرتے ہوئے کراچی جانے کا تھا لیکن جدہ ایرپورٹ پر اسکی سہولت نہ مل سکی اور ہم احرام باندھے لوگوں کو دیکھتے رہے اوراندرونی کیفیت یہ تھی کہ :۔ خیال وصل کو اب ارزو جھولے جھلاتی ہے قریب آنا دل مایوس کا پھر دور ہوجانا کراچی میں ہم انہیں کے مہمان رہے جامعہ اسلامیہ بنوری ٹاون کی زیارت اوراپنی محبوب شخصیت محدث اعظم علوم انور شاہ کشمیری کے شارح و ترجمان کی قبر پر حاضری کا موقع ملا مفتی ولی حسن ٹونکی صاحب سے بھی ملاقات ہوئی وہیں دارالعلوم کراچی میں حاضری حضرت مولانا محمد تقی عثمانی کی خاص عنایتیں حاصل رہیں اورانکی معیت میں حضرت ڈاکٹر عبد الحی عارفی صاحب کی مبارک مجلسوں میں شرکت کی بھی توفیق ہوئی جس کی تاثیر کی لذت آج بھی اسی طرح محسوس ہوتی ہے ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندرسے اس بعد ایک کانفرنس میں ہوئی جب وہ ویل چیئر پر آپ تھے اور انکے صاحبزادے سعید انکی خدمت میں لگے ہوئے تھے ایک اور ملاقات ریاض میں ہوئی جب کہ ہم دونوں امیر ترکی الفیصل کی دعوت پر ایک بڑے ہی اہم ترین پرگرام میں شریک تھے عنوان تھا "قیم الصراع فی عصر العولمہ " اس سمینار میں امریکن اسکالرز بھی شریک تھے شاہزادہ ترکی الفیصل خود شریک تھے اور اسکا انتظام مرکز الملک فیصل للدراسات الاسلامیہ جو انکی ہی نگرانی میں کام کرتا ہے اس کی طرف سے کیا گیا تھا میں نے اسلام کے اصول جنگ پر تفصیلی مقالہ لکھا تھا اور ان اصولوں کی برتری تمام دوسرے قوانین پر ثابت کرنے کی کوشش کی تھی جو بحمد اللہ بی حد کامیاب رہی جنگ عظیم اول و ثانی کے نقصانات اور بے مقصد جنگوں کی تباہ کاری پر روشنی ڈالی تھی ہیئت کبار العلماء کے رکن ڈاکٹر قیس آل مبارک نے اس کا بھر پور تجزیہ کیا تھا اور مفتی لبنان اورخود امیر ترکی الفیصل نے اسکی تعریف کی تھی ان دنوں میرا پریشر بھی کنٹرول میں نہیں تھا اور مولانا عبد الرزاق اسکندر صاحب تو ویل چیئر پر تھے ہی انھوں نے مجھے ایک سندھی عالم کی دعا سکھلائی تھی جو دل کے مریضوں کیلئے مفید ہے کہ ہر نماز کے بعد دل پر ہاتھ رکھ کر "یاقوی القادر المقتدر قونی وقلبی" سات بار پڑھی جائے پھر ہم سب مدینہ طیبہ گئے مدینہ کے گورنر امیر فیصل بن سلمان نےخاص اہتمام کیا روضہ اقدس میں بھی جگہ مخصوص کر کے اطمینان سے عبادت کرنے کا فراہم کیا گیا مدینہ یونیورسٹی کے ابنائے قدیم میں ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر صاحب کی تکریم کی ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر ایک طرف علامہ بنوری کے شاگرد فیض یافتہ تھے ساتھ ہی انہوں نے مدینہ یونیور سیٹی میں بھی تعلیم حاصل کی تھی اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری جامع ازھر مصر سے لی اور ڈاکٹریٹ کا مقالہ "فقہ عبد اللہ بن مسعود "کے موضو ع لکھا تھا جو اب غالبا کتابی شکل میں شائع ہوگیا ہے علامہ محمد یوسف بنوری صاحب نے مولانا سید ابو الاعلی مودودی کے افکارو نظریات پر جو تنقیدیں کی ہیں انکو عربی زبان میں مولا عبد الرزاق اسکندر نے ہی منتقل کیا تھا جو "الاستاذ المودودی وشئ من افکارہ "کے نام سے شائع شدہ ہیں اس وقت مولانا ڈاکٹر عبد الرزاق اسکندر کاشمار پاکستان کے چوٹی کے علماء میں ہوتاتھا وہ جامعة العلوم الاسلامية كے مہتمم اور شیخ الحدیث وفاق المدارس الاسلامیہ کے صدر مجلس تحفظ ختم نبوت کے سربراہ اور متعدد علمی ودینی اداروں کے نگراں اور سرپرست تھے شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خا ں کے انتقال کے بعد انکا انتخاب وفاق کی سر براہی کیلئے کیا گیا تھا آج وہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور ایک بڑا خلا چھوڑگئے انکی پیدائش 1935 م کی تھی اور آج 30 جون 2021 م کو انتقال ہوا ہے اللہ تعالی انہیں فردوس بریں میں جگہ دے اور اعمال کو قبولیت سے نوازےاوردرجات بلند فرمائے آمین