حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (۱)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

Bhatkallys

Published in - Other

09:00PM Sat 10 Jun, 2023

*حج کا سفر۔۔۔ حرم کعبہ میں (۱)۔۔۔ مفتی رضا انصاری فرنگی محلی

سرزمینِ حجاز میں پہلی منزل جدہ تھی اور دوسری منزل مكہ معظمہ ‏، جدے كے بارے میں ہم جانتے تھے كہ اسلام اور آعازِ اسلام كی تاریخ سے اس كا كوئی خاص تعلق نہیں رہا ہے ‏، یہ بھی ثابت نہیں كہ پیغمبرِ اسلام ﷺ كے مبارك قدموں سے جدے كی زمین كبھی مشرف ہوئی ہے ‏، اس لیے جدے پہنچ كر بھی كسی خاص قسم كا جذباتی اثر طبیعت نے محسوس نہیں كیا ‏، اس كے برعكس یہاں كی عالی شان اور سربہ فلك عمارتوں كو دیكھ كر یہ امتیاز كرنا بھی مشكل تھا كہ یہ وہی سرزمینِ حجاز ہے جو تصورات كی دنیا میں بسی تھی ‏، یا مغرب كے متمدن ترین ملكوں كا كوئی خطہ ؟

اگلی منزل كے لیے جب جدے سے روانہ ہوئے ‏، تو تصورات اورخیالات كا ایك ہجوم ساتھ ‏ساتھ تھا ‏، مكہ معظمہ پیغمبرِ اسلام كا مولد و منشاء ‏، پیغامِ خداوندی كا مہبطِ اولین تبلیغِ اسلام كا نقطہٴ آغاز اور جاہلیت كی تاریكی میں مینارہٴ حق و عرفان ‏، اسلام كے ماننے والے كی حیثیت سے شدید قسم كا جذباتی اتارچڑھاؤ اور تاریخِ اسلام كے طالبِ علم كی حیثیت سے ان مقامات كو جاننے اور دیكھنے كا شوق بےپایاں جن كاذكر تاریخ ِ اسلام میں بارہا ہوتا ہے ‏، حاوی سا ہوگیا تھا ۔

اپنی گھڑی كے حساب سے 5 اپریل كی رات كو 8 بجے ہماری ٹیكسی جدے سے مكہ معظمہ كی طرف روانہ ہوئی تھی ہم تہبند اور تولیے میں ملبوس فریادی ‏، یا قصور وار كی طرح ‘‘ مالك ! تیرے دربار میں غلام حاضر ہے (لبیك اللّہم لبیك )’’ كہتے بڑھتے چلے جارہے تھے اور جدے سے مكے تك تقریباً 45 میل لمبی سڑك كی دورویہ بجلی كی روشنی نے ایسا چوندھیاركھا تھا  كہ سوائے اس سڑك كے اور ایسی سڑكیں ہزاروں بار دیكھی ہیں اور كوئی چیز بھی دائیں ‏، بائیں نظر نہیں آرہی تھیں ‏، وہ اہم تاریخی مقام جہاں پیغمبرِ اسلام ﷺ نے قریش مكہ سے دس سال كے لیے ‘‘ناجنگ معاہدہ’’ كیا تھا اور یہ معاہدہ اسلام كی تاریخ ترقی كا ایك اہم باب ہے ‏، جدے اور مكے كی راہ میں مكے كے قریب پڑتا تھا ‏، ہماری خیرہٴ نگاہی اس پر بھی  نگاہ ڈالنے سے قاصر رہی ‏، اب تو اس تاریخی مقام ‘‘ حدیبیہ’’ كا نام تك بدل چكا ہے ۔

رات كے گہرے سناٹے كے سكوت كو صرف  موٹروں كی صدائیں توڑتی نظر آرہی تھیں ‏، یا كبھی ‏، كبھی خود اپنی یہ صدا ‘‘ مالك !تیرے دربار میں غلام حاضر ہے

آج ہیں خاموش وہ دشتِ جنوں پرورجہاں

رقص میں لیلٰی رہی لیلٰی كے دیوانے رہے

ہمت اگر ساتھ دیتی ‏، تو اس دشتِ جنوں پرور كے ذروں كو سرمہٴ چشم بنانے كے لیے موزوں چھوڑكر پاپیادہ چلتے ہیں لیكن

غم آرزو كا حسرت سبب اور كیا بتاؤں

مری ہمتوں كی پستی مرے شوق كی بلندی

ریگستانی سرزمین كہتے ہیں سرزمینِ حجاز كو جہاں سب سے مناسب اور بہتر سواری اونٹ كی ہوتی ہے ؛ لیكن ہم جس راہ سے گزررہے تھے ‏، وہ ایسی صاف ‏، شفاف تھی كہ ریت كا ایك ذرہ بھی ‏، وہاں ڈھونڈے نہ ملتا تھا ‏، تو پھر اونٹ كہاں سے نظر آتا ‏، حیرت كی بات یہ ہے كہ اس  پورے سفر میں اونٹ كو چلتا پھرتا كہیں نہیں دیكھا ‏، البتہ مكہ معظمہ سے مدینہ منورہ جاتے ہوئے راستے میں كہیں كہیں اونٹ كے ڈھانچے پڑے ملے ۔

وہ مقام جہاں سے حدودِ حرم شروع ہوجاتے ہیں ‏، اس طرح گزرا كہ اگر ڈرائیور نہ بتادیتا ‏، تو اس سے بھی ناواقف نكل جاتے ۔

45 میل كی مسافت موٹر كے لیے وہ بھی عرب كے موٹر  ‏، ڈرائیور كے لیے ایسے زمانے میں جبكہ ان كو منہ مانگے دام مل رہے ہوں اور وہ ایك اتار ‏، دوسرے كو چڑھا كی بھاگ دوڑ میں حج كے یہ دو تین مہینے گزارتے ہوں كیا مسافت ہوسكتی تھی ‏، گھنٹہ بھر میں پہونچا سكتا تھا ‏ ہمارا ڈرائیور جس رفتار سے وہ لےجارہا تھا ‏، وہ تو بیچ ‏، بیچ میں چوكیوں پر پاسپورٹ ویزا اور تنازل وغیرہ كی جانچ كرانے كے لیے ٹہرنا پڑتا تھا اور یہ جانچ كرانا ڈرائیور كے فرائض  میں تھا ‏، مسافروں كی ذمہ داری نہیں تھی ‏، وہ بادلِ ناخواستہ اور دوڑتا ہوا افسر كے پاس جاتا ‏، اندراجات كراتا ‏، پھر بھاگتا ہوا آتا اور موٹر اسٹارٹ كركے فراٹے بھرنے لگتا ۔

مكہ معظمہ شہر ِامن و امان ( البلد الامین) كی روشنیاں بھی نظرآنے لگیں ‏، خدا كا گھر بہت قریب آگیا اور خداكے بندے جو اسی گھر سے یا اس سے جس سے یہ گھر منسوب ہے كچھ قریب ہوئے ‏؟ بظاہر ضرور ؛اس لئے كہ درباری لباس تو زیب تن كیے ہوئےہیں ‏، یہ لباس بظاہر دلیل ہے كہ حاضری دربار كے آداب بھی پوری طرح پیش نگاہ ہوں گے ‏، اپنے حال پر نظركی ‏، تو اندازہ ہوا كہ ہم تو ابھی اپنے گھراور اہل و عیال ہی سے قریب ہیں ‏، جدے پہونچ كر جب ہمیں وطن سے كوئی خط نہیں ملا اور بمبئی میں بھی نہیں ملا ‏، تو طبیعت خاصی فكرمند ہوگئی ‏، یہ فكر جدے سے مكہٴ معظمہ تك ہم سے چمٹی رہی ‏، پھر یہ فكر كہ مكے پہونچ كر رات كے كھانے كا كیا ہوگا ‏، رہ ‏، رہ كر جاگ اٹھتی تھی ۔

شہر میں داخل ہوئے ‏، تو رات كے 11 بجے ہوں گے ‏، ہرطرف سونا پڑا تھا اور شہر وہی مانوس سڑكیں ‏، وہی جانی پہچانی عمارتیں ‏، وہی سڑكوں كے دونوں طرف عمارتیں ‏، وہی سڑكوں كے دونوں طرف بجلی كے كھمبے اور ان میں رنگین روشنیاں !

موٹر بوہرہ رباط كے پھاٹك پر ركی ‏، ہمارے معلم مولانا عبدالہادی سكندر پہونچنے كی اطلاع پاكر فوراً ہی آئے ‏، پاس ہی ان كا گھر تھا ‏، ان كے ساتھ ان كا ایك نوجوان رشتہ دار بھی تھا ‏، اس نوجوان كے ساتھ ہم لوگ سامان ركھاكر حرمِ محترم كی طرف روانہ ہوگئے كہ پہلے ‘‘عمرہ’’(جسے عام زبان میں چھوٹا حج كہتے ہیں ) اداكركے احرام سے باہر ہوں لیكں ‏، تب قیام و طعام كی طرف اطمینان سے توجہ كریں گے ۔ وضوكركے حرمِ محترم میں اس دروازے سے داخل ہوئے جدھرسے عمرہ كرنے والے داخل ہوتےہیں‏۔

 پہلے شاید دورہی سے خانہ كعبہ كا جلوہ نظر آجاتا تھا ‏، اب حرم كی نئی عمارت جو معزول شاہ سعود كی توجہ سے بنی ہے ‏، اتنی اونچی ہے كہ اندر داخل ہونے سے پہلے جمال كعبہ نظر نہیں آپا تا ‏، اندر پہونچے اور خانہ كعبہ كا دیدار ہوا‏، بس ایسا محسوس ہوا كہ اپنے قابو میں نہیں رہے ‏، بے اختیار گریہ طاری ہوگیا‏، كوئی پوچھ بیٹھتا كہ كیوں ‏، تو ہمارے پاس كوئی جواب نہ تھا ‏، سچ یہ ہے كہ كسی بھي استفسار  كا جواب ہمیں یاد نہیں پڑرہا تھا ‏، نوجوان ہمیں طواف كی دعائیں پڑھارہا تھا ‏، وہ بلند آواز سے ایك جملہ كہتا ہم اسی كو بلند آواز سے دہرادیتے ‏، یہ احساس بھی نہ تھا كہ كہاں ہیں اور كیاكررہے ہیں ‏، بے خودی اور بے خبری كا ایسا سخت تجربہ اس سے پہلے كبھی نہیں ہوا تھا ‏، عربی زبان  میں دعائیں تھیں ‏، جدید عربی ہم سمجھ نہ پائیں گے ‏، مگر ان دعاؤں كی قدیم عربی تو ہماری سمجھ سے باہر نہ تھی ‏، مگر سمجھ اس وقت ہمارا ساتھ چھوڑ چكی تھی ‏، جہاز پر حج اور عمرے كے مسائل پوچھنے والوں كو بتانے والا اس وقت اپنے كو بالكل كورا پارہاتھااور ایك طفلِ مكتب كی طرح نوجوان معلم كے دیئے ہوئے سبق كو دہراتا جاتا تھا ‏

جوں ہی جاكے مكتبِ عشق میں سبق مقامِ فنا لیا

جو پڑھا لكھا تھا نیاز نے اسے صاف دل سے بھلادیا

خانہ كعبہ كی پہلی زیارت تھی جو از خود رفتگی كے عالم میں ہورہی تھی ‏، اس گھر كے گرد سات بارگھومے ‏، نوجوان معلم كی ہدایت پر طواف كركے صفا اور مروہ كی سعی كے لیے چلے ‏، یہاں بھی نوجوان سبق كی طرح دعائیں پڑھا رہا تھا اور ہم پڑھ رہے تھے ‏، سات بار سعی بھی كرلی ‏، ہاں زمزم كے كنوئیں كی تلاش میں گئے ‏، تو وہاں ‘‘ٹیوب ویل’’ نظرآیا ‏، جس سے فوارے چھوٹ رہے تھے اور كئی عدد بمبے لگے ہوئے تھے جن كی ٹوٹیاں كھولیے اور آبِ زمزم پینے كی سنت اداكرلیجیئے ۔

  https://www.bhatkallys.com/ur/author/muftiraza/