سچی باتیں۔۔۔ ماتا ہری۔۔۔ تحریر: مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

09:22AM Sun 29 May, 2022

1930-05-23

آج سے چودہ پندرہ سال قبل، جس وقت یورپؔ کی جنگِ عمومی کا شباب تھا، انگلستانؔ کے سرپر آگ کی بارش ہورہی تھی، فرانس ہرسانس میں بجائے ہَوا کے زہریلی گیس پی رہاتھا، جرمنیؔ کے بڑے بڑے سورما ایڑیاں رگڑرگڑ کردَم توڑ رہے تھے، عین اُس وقت، اِن جہاں سوزیوں اور ہلاکت باریوں کے درمیان، رنگیلے فرانس کے اسٹیج پر، حُسن وادا، نزاکت ورعنائی کی ایک دیوی ناتاہریؔ کے نام سے نمود ہوئی ، اور سارا فرنگستان اُس کے حسن وجمال کے چرچوں، اور اس کی عشوہ فروشیوں کے تذکروں سے گونچ اُٹھا۔ جو لوگ اُس زمانہ کے انگریزی اخبارات کے پڑھنے والے ہیں، اُن میں سے اکثروں کی یاد میں اِن ’’نیک بخت‘‘ کا نام تازہ ہوگا۔ ملک ہالینڈؔ میں پیداہوئیں، شادی کی، طلاق لی، اور اس کے بعد سے یہ تھیں، اور پیرس کی اونچی اونچی رقص گاہیں! ہاں وہی پیرسؔ ، جس کی شان میں اکبر ؔ مرحوم فرماگئے ہیں،  ع

جو اُجڑا لکھنؤ، کچھ غم نہیں، پیرس ؔ تو باقی ہے؟

رنگیں ادائیوں کا آفتاب نصف النہار پر تھا، کہ جنگ چھِڑی۔ ادھر جنگ نے زور پکڑا، اور اُدھر اِس ’’پری پیکر‘‘ کو ……یہ یاد رہے کہ یورپ، صرف پریوں کا مُنکر ہے، پری پیکروں کا نہیں……اپنے مصارف کے لئے کسی جدید آمدنی کی فکر ہوئی۔ ’’جاسوسی‘‘ کا کاروبار سب سے زیادہ پُرمنفعت نظرآیا ۔ ایک نہیں، پانچ پانچ زبانوں میں مہارت تھی۔ جرمنؔ افسروں سے یارانہ بڑھا، اور خاطر خواہ معاوضہ ملنے لگا۔ فرانسؔ چوکنے والا نہ تھا، اُس کے جاسوسوں نے بھی بالآخر پتہ لگالیا۔   ۱۶ء؁ میں راز کھُلا، اور قریب تھاکہ قانون اپنی گرفت میں لے، کہ اس مشہور عالم رقاصہ نے ایک پھر پلٹاکھایا، اور فرنچ حکام کے سامنے اقبال جُرم کرکے جرمنیؔ کے راز فرانس پر ظاہر کردئیے، فرانسؔ نے اعتبار کیا، اور اپنی طرف سے جاسوس مقرر کرکے اسپین ؔ بھیجا۔ وہان پہنچتے ہی جرمنوں کا جادو ایک بار پھر چل گیا، اور ابکی جاسوسی کی خدمات کے منہ مانگے دام جرمنیؔ نے دینے منظور کئے۔ ’’وقت مقرر‘‘ قریب آچکاتھا، جرمنیؔ کا لاسلکی ، فرانسؔ میں اُچک لیاگیا۔ اب سارا راز فاش تھا۔ اور مدتِ عمر پوری ہوچکی تھی۔ عدالت نے سزائے مَوت کا فیصلہ سنایا، اور سپاہیوں کے ایک دستہ نے اپنے سامنے کھڑاکرکے باڑھ ماردی۔

ایک دَم سے گولیاں چلیں، اور دھڑدھڑام سے زمین پر گرا۔ وہ جسم جو اب تک صرف عطر اور تیل، غازہ اور پوڈر کے لئے وقف تھا، بندوق کی گولیوں سے چھلنی ہوکر گرپڑا۔ رقص کی ملکہ نے ناسوت کے اسٹیج پر آخری بار رقص بسمل کا تماشہ دکھایا! اور جس سروقد کے حُسن وشباب کی گرمی ، خدامعلوم کتنے دلوں کو گرمائے ہوئے تھی، چشم زدن میں تڑپ تڑپ کر سرد ہوگیا!شریکِ غفلت سب تھے، شریکِ عبرت کوئی نہ ہوا۔ زندگی میں نہ قدردانوں کی کمی تھی نہ قدردانی کی۔ مُردہ جسم کو کسی نے مفت بھی نہ پوچھا۔ لاش، لاوارثوں کے لاشے کی طرح، جہاں پڑی تھی ، پڑی رہی۔ کوئی مصور فوٹو لینے نہ آئے، کوئی نقاش، فلمی تصویر کشی کی غرض سے نہ تشریف لائے۔ کسی آرٹسٹ نے چہرہ کے خط وخال اور اعضاء کے تناسب کی داد دینے کے لئے قدم رنجہ نہ فرمایا! مٹی کی بنی ہوئی مورت، اب خاک کا ایک ڈھیر تھی۔ آخر، لاش کو اُٹھاکر شہر کے مرکزی طبّی کالج میں لے گئے، وہاں ڈاکٹری کے طالب علموں نے جسم کے تکّے بوٹی کرکرکے تشریح الاعضاء کے سبق حاصل کئے! یہ انجام اُسی شہر پیرس میں ہوا جہاں کچھ ہی عرصہ قبل، ہزاروں لاکھوں قدردان ، راہ میں آنکھیں بچھادینے کو تیارتھے!