جھوٹ پہلے بولا گیا یا اب بولا جارہا ہے؟

Bhatkallys

Published in - Other

05:12AM Sat 13 Feb, 2016
حفیظ نعمانی بات آج کی نہیں گذشتہ سال کی ہے کہ وزیر اعظم نے اچانک ایک دن کو ’’یوم یوگا‘‘ کے طور پر منانے کا فیصلہ کیا اور انہوں نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے اسے دنیا بھر میں منانے کی آواز اٹھائی۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی آواز پر 170 ممالک نے اسے قبول کیا۔ ہم یہ تو نہیں بتا سکتے کہ دنیا میں کیا ہوا لیکن ہندوستان میں مسلمانوں کے مفتیوں اور عالموں نے اسے اس لئے اسلام کے خلاف قرار دیا کہ اس میں جو آسن ہیں ان میں اوم اور سوریہ نمسکار کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔ وزیر اعظم نے اسے صرف ورزش قرار دیا تھا اور ان کی تائید میں ان کی ہر بات میں تائید کرنے والے اور انہیں حکومت دلانے میں سب سے زیادہ پیش پیش رہنے والے بابا رام دیو نے اس کی تائید میں نہ جانے کتنی دلیلیں دے دیں۔ اب یاد نہیں کہ بابا رام دیو دارالعلوم دیوبند خود گئے تھے یا انہیں بلایا گیا تھا وہ وہاں بھی تمام علماء دین کو یہ یقین دلاکر آئے تھے کہ یوگا صرف اور صرف ورزش ہے۔ اس کا دھرم سے کوئی تعلق نہیں۔ بات صرف ایک سال پرانی ہے اس لئے ہر کسی کو یاد ہوگا کہ علماء اسلام نے اسے مسترد کردیا اور ورزش کو قبول کرلیا۔ 08 فروری کو وندرابن میں بی جے پی کے صدر وزیر اعظم کے سب سے بڑے معتمد امت شاہ شاید بھول گئے کہ یوگا کے مسئلہ میں ایک سال پہلے کیا کیا ہوچکا ہے؟ انہوں نے وہ کہہ دیا جو سچ ہے کہ برسوں سے غلط سوچ کی بناء پر ملک میں سیاست اور مذہب کے درمیان خلیج تھی۔ اب مودی حکومت نے ملک کو مذہب کی راہ پر لے جانے کا کام کیا ہے۔ امت شاہ نے ’’پریہ کانت جو مندر‘‘ کے افتتاح کے موقع پر کہا کہ مودی حکومت نہ صرف مادّی ترقی کے راستہ پر ملک کو آگے لے جانا چاہتی ہے بلکہ ہندوستان کے روحانی پیغام کو بھی ساری دنیا میں پھیلا رہی ہے۔ انہوں نے بین الاقوامی یوگا دن منانے کی جب تجویز پیش کی تو دنیا کے 170 ممالک نے ریکارڈ وقت میں اسے منظور کرلیا۔ جب دنیا کے مختلف ممالک میں اپنے طرز زندگی سے لوگ اُکتا جاتے ہیں تو ان کی نظر سناتن دھرم پر پڑتی ہے۔ دنیا کی فلاح و بہبود کا یہی ایک راستہ ہے۔ امت شاہ نے کہا کہ ہمارے رشیوں اور منیوں نے برسوں کی تپسیا کے بعد ہمارے لئے جو سرمایہ چھوڑا ہے اسے دنیا میں پھیلانے کے لئے ہمیں کسی پیٹنٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ بی جے پی کے صدر نے کہا کہ ملک میں پہلی بار ایسا شخص وزیر اعظم بنا ہے جو مقدس گنگا کو گنگوتری سے گنگا ساگر تک مسلسل رواں دواں رکھنے کی بات کرتا ہے۔ امت شاہ شاید بھول گئے یا انہوں نے ہندوستان کے اس دستور کو پڑھا نہیں جس کے بل پر ان کے آقا مودی وزیر اعظم بن سکے ہیں۔ اس دستور میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حکومت ملک کو کسی مذہب کی طرف لے جائے۔ اس میں وضاحت کے ساتھ کہا گیا ہے کہ حکومت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ ملک میں حکومت کا کام ملک کو ترقی کی طرف لے جانا ہے۔ یوگا جسے مودی حکومت نے ورزش قرار دے کر پورے ملک میں اسے رائج کرنا چاہا تھا اور صاف انکار کیا تھا کہ وہ مذہب نہیں ہے۔ اسے امت شاہ نے مذہب بتاکر سب کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ اور سارے سناتن دھرم کو سال بھر میں ایک دن یوگا اور گنگا کو رواں دواں کرنے تک محدود کردیا۔ گنگا ایک قدرتی دریا ہے۔ ہندو اس میں اشنان کرتے ہیں اور مسلمان اس کے پانی سے وضو بھی کرتے ہیں۔ اس کی صفائی اور اسے آلودگی سے روکنے کی کوشش دھرم کی نہیں بلکہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اور آج جو وہ آزادی کے وقت کی جیسی رواں دواں نہیں ہے اس کی ذمہ دار بھی وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے جگہ جگہ اس کے پانی کو روک کر ڈیم بنادیئے ہیں جن سے آبپاشی کا کام بھی لیا جاتا ہے اور بجلی بنانے کا بھی اور اسے گندہ کرنے کی ذمہ دار بھی وہ حکومتیں ہیں جنہوں نے بڑی بڑی فیکٹریوں کے لئے پرمٹ دیتے وقت یہ عہدو پیمان نہیں کئے کہ وہ اپنا گندہ پانی گنگا میں نہیں ڈالیں گے اور نہ کسی دھرم گرو نے ہندوؤں کو یہ بتایا کہ وہ اپنے مردوں کو گنگا میں نہ بہائیں۔ جب گنگا میں ہر دن سیکڑوں مرے ہوئے انسان اور بندر بہائے جائیں گے تو ان کے جسم میں بھری ہوئی غلاظت پانی کو گندہ نہیں کرے گی تو کیا کرے گی؟ ہم نے مودی حکومت کا بھی کوئی حکم نہ سنا نہ پڑھا کہ اگر کسی نے اپنے مردہ رشتہ دار کو گنگا میں ڈالا تو اسے سزا دی جائے گی۔ امت شاہ کا یہ بیان پڑھ کر کہ دنیا کے ملکوں کے لوگ جب طرز زندگی سے اکتا جاتے ہیں تو ان کی نظر سناتن دھرم پر پڑتی ہے ہمیں اس لئے حیرت ہوئی کہ ہم تو خبروں میں یہ پڑھ رہے ہیں کہ دنیا کے لوگوں کو اسلام میں نجات نظر آرہی ہے اور وہ اسلام قبول کررہے ہیں۔ امت شاہ گجرات کے رہنے والے ہیں اور گجرات کے ہندو جتنے یوروپ اور امریکہ یا ساؤتھ افریقہ میں ہیں اتنی تعداد میں کوئی نہیں ہے۔ ان کے بعد شاید سکھ ہیں اور مسلمان ہیں۔ انگلینڈ کے بارے میں امت شاہ اپنے گجراتی بھائیوں سے معلوم کریں کہ وہاں جو مذہب سے مایوسی کی وجہ سے عیسائی گرجا گھر فروخت کررہے ہیں اور شراب خانے بک رہے ہیں وہاں مسجدیں بن رہی ہیں یا سناتن دھرم کے مندر یا گرودوارے؟ ہندوستان میں آزادی کے بعد ہندو حکومت تو ایک دن بھی نہیں ہوئی لیکن یہ حقیقت ہے کہ حکومت ہندوؤں کے ہاتھ میں رہی اور ہندوؤں میں امت شاہ اور مودی جیسے بھی تھے اور بابو ترلوکی سنگھ، لالو پرشاد یادو، رام نرائن ترپاٹھی اور چودھری چرن سنگھ جیسے بھی تھے۔ لیکن یہ کسی نے نہیں کہا کہ وہ ملک کو یوگا، اوم، سوریہ نمسکار اور گنگا کے ذریعہ سناتن دھرم کی طرف لے جارہے ہیں۔ انتہا یہ ہے کہ شری مودی نے بھی لوک سبھا کا پورا الیکشن وکاس اور گجرات کے وکاس۔ گھر گھر بجلی اور کھیت کھیت پانی، بے روزگاری، مہنگائی اور بھرشٹاچار کے نام پر ہی لڑا۔ انہوں نے بنارس میں بھی اتنی ہمت نہیں دکھائی کہ وہ دھرم کا لفظ یا ہندو کا لفظ بھی زبان سے نکالتے۔ وہاں بھی بس اتنا کہا کہ نہ میں خود آیا ہوں، نہ کسی نے بھیجا ہے۔ مجھے تو ماں گنگا نے بلایا ہے اور کامیاب ہونے اور وزیر اعظم بننے کے بعد بھی بس گنگا کی آرتی اتاری۔ ہم نہیں جانتے کہ یوگا کو ورزش بتانے والے وزیر اعظم اور صرف ورزش بتانے والے بابا رام دیو جھوٹ بول رہے تھے۔ یا یوگا کے ذریعہ دنیا کے 170 ملکوں میں سناتن دھرم کو فروغ دینے کی بات کرنے والے بی جے پی کے صدر امت شاہ جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم نے تو پہاڑوں اور جنگلوں میں تپسیا کرنے والے رشیوں اور منیوں کے بارے جو کچھ پڑھا ہے اس میں بھی جھوٹ بولنے اور دھرم کے اوپر ورزش کا لیبل لگاکر اسے پھیلانے کی بات کہیں نہیں پڑھی اگر آج کی گندی سیاست میں ان رشیوں اور منیوں کو گھسیٹا گیا تو یہ ان کی توہین ہوگی۔ انہوں نے جو کچھ کیا وہ صرف حق کو پانے کے لئے کیا۔ وہ حق کو پاسکے یا ناکام رہے یہ ان کے اور حق کے درمیان کا معاملہ ہے؟ کسی سیاسی پارٹی کا صدر یا کسی ملک کا وزیر اعظم اگر اپنے لئے ان کا استعمال کرے تو ان پر ظلم ہے۔ اچھا یہ ہے کہ پارٹی کی بات پارٹی تک اور حکومت کی بات حکومت تک رہے۔