سچی باتیں۔۔۔ جاسوسی ناولوں کی بھرمار۔۔۔ مولانا عبد الماجد دریابادیؒ

Bhatkallys

Published in - Other

11:48AM Sat 21 May, 2022

1930-04-18

 سٹرڈے ریویوؔ، انگلستانؔ کا ایک نامور سیاسی وادبی ہفتہ وارہے، اُس کے ایک مضمون میں ، جو پانیرؔ (۲۱۔ مارچ) میں نقل ہواہے، یہ تخمینہ شائع ہواہے، کہ اس وقت انگلستانؔ میں کم ازکم دس ہزار اہل قلم ایسے ہیں، جن کا ذریعۂ معا ش محض سراغ رسانی کے ناول لکھناہے۔ یہ تخمینہ درج کرنے کے بعد، مضمون نگار سوال کرتاہے، کہ جب پبلک سراغ رسانی کے انسانوں سے اُکتا جائے گی، اور ان افسانہ فروشوں کے لئے کوئی بازار نہ رہ جائے گا، اُس وقت یہ اپنے رزق کا سامان کیا کریں گے؟ وہ وقت ان کی فاقہ کشی کا ہوگا، اور اُس وقت غالبًا اِس ’’مسئلہ‘‘ کے حل کرنے کے لئے کوئی شاہی کمیشن قائم کرنا پڑے……مضمون نگار کے اِن سوالات وقیاسات کو توخود اسی پر چھوڑئیے، ہمارے آپ کے کام کی چیز صرف اس کے پیش کئے ہوئے اعداد ہیں۔ انھیں کو لیجئے۔ یہ دس ہزار کی کم از کم دس ہزار کی تعداد، سارے یورپ کے متعلق نہیں، اس کے ایک چھوٹے سے ملک صرف انگلستان کے متعلق ہے۔ یہ اعداد ، ناول پڑھنے والوں کے نہیں، ناول لکھنے والوں  کے ہیں۔ اور ناول بھی ہرقسم کے نہیں، صرف ان کی ایک خاص صنف، یعنی سراغ رسانی کے ناول لکھنے والوں کے ہیں! اور لکھنے والے بھی کیسے، اِن اعداد میں وہ شامل نہیں، جو کبھی کبھی اور تفریحًا لکھ لیتے ہیں، بلکہ صرف وہ مشاغل ہیں، جو اسے اپنا مستقل پیشہ اور ذریعہ معاش بنائے ہوئے ہیں! کُل ناول لکھنے والوں، اور کُل ناول پڑھنے والوں کی مردُم شماری کے اعداد اگرآپ کے سامنے نہیں، تو کیا آپ قیاس واندازہ سے بھی کچھ کام نہیں لے سکتے؟

’’ترقیوں‘‘ کا ، علمی اور دماغی ترقیوں کا، نمونہ آپ نے دیکھا؟ ذہنی اور تصنیفی ’’کمالات‘‘ کا اندازہ آپ نے فرمایا؟ اسی مہذب قوم کا ولولۂ تقلید آپ کے بے قرار کئے ہوئے ہے؟ اسی شائستہ وتعلیم یافتہ ملک کے نقش قدم پر چلنے کا حوصلہ آپ فرمارہے ہیں؟ سینما کے شیدائیوں، تھیٹر کے پرستاروں، گھوڑدوڑ کے عاشقوں، ’’کارنیوال‘‘ کے شوقینوں، شراب خانہ کے متوالوں، ناچ گھر کے سنگت والوں، اِن سب کی آبادی کی میزان کو تو اپنے قیاس پر چھوڑئیے، صرف افسانہ نویسوں ہی کے اعداد کو پیش نظر رکھئے۔ کیااِن مہذبوں کی راہ پر دوڑنے کی اب بھی ہمت ہے؟……اپنے ہاں کے شاعروں کی کثرتِ تعداد سے آپ عاجز آچکے تھے، اور باربار جھُنجلا جھُنجلا کرفرماتے تھے کہ یہ کیا حشرات الارض کی طرح ہمارے مُلک میں ہرہر شہر اور ہرہر قریہ سے شاعر نکل پڑے ہیں، ’’وہاں‘‘ کے افسانہ نویسوں کی یہ کثرت سُن کر کیا اب بھی آپ ’’یہاں‘‘ کے شاعروں کی کثر ت پر شرماتے رہیں گے؟ ’’اکلِ حلال‘‘ کی تعریف ، دانایان فرنگ کے دماغ میں آپ نے دیکھ لی؟

’’کمیت‘‘ کو چھوڑئیے، ’’کیفیت‘‘ کو لیجئے۔ طلسم ہوشرباؔ ، اور بوستان خیالؔ، الف لیلہ ؔ اور داستان امیر حمزہؔ کے پلاٹ کیسے ہی خلاف فطرت ہوں، بحمد اللہ انھوں نے کبھی ، جرائم خلافِ فطرت کی تعلیم نہیں دی۔ اور دیوجن، پرستان اور طلسمات کے قصے، خلافِ عقل وبعید از قیاس کیسے ہی ہوں، چوری اور نقب زنی، ڈاکہ اور فریب، آتش زنی اور جعل سازی، بدمعاشی اور اوباشی، رندی و بدمستی، قانون شکنی اور امن سوزی کے وہ وہ حیرت انگیز طریقے، جن تک اُن قدیم افسانہ نویسوں بیچاروں کا ذہن بھی نہیں پہونچ سکتاتھا، کبھی اُن کے ذریعہ سے قوم کے بوڑھوں اور جوانوں ، لڑکوں اور لڑکیوں تک نہیں پہونچے تھے۔