بھٹکل میں پروان چڑھتاہائی فائی شادی کلچر!۔۔۔۔از: ڈاکٹر محمد حنیف شبابؔ

آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے...........
شہر بھٹکل الحمدللہ ایک زمانے سے غالب اسلامی تشخص والے اپنے مخصوص کلچر اور معاشرے کے لئے معروف رہا ہے۔ اس میں یہاں کی نوائط برادری میں موجود پابندئ صوم وصلوٰۃ، خیر خواہی، ملّی اخوت،علم وآگہی اور شعائر اسلامی سے بے پناہ لگاؤ جیسے اوصاف حمیدہ کا بنیادی کردار ہے۔جس کے اثرات غیر نوائط مسلم برادریوں پر بھی نمایاں ہوئے ہیں۔اس کے علاوہ عربی النسل ہونے کی وجہ سے نوائط برادری کے نوجوانوں کی فطرت میں پائی جانے والی تجارتی مہم جوئی اوران کا اینٹرپرائزنگ کردارانہیں ہر جگہ امتیازی شان عطا کرتا ہے اور وہ دوسروں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروانے اور اپنی اہمیت کا احساس دلانے میں بہت جلد کامیاب ہوجاتے ہیں۔
علماء اوراکابرین کی سرپرستی: بھٹکل کے معاشرے کی یہ بھی بڑی اہم خاصیت رہی ہے کہ یہاں کے عوام نے انفرادی اور اجتماعی زندگیوں میں اپنے سماجی وسیاسی اکابرین اور علمائے دین کی رہنمائی و سرپرستی کوہمیشہ ہی بسر و چشم قبول کیا ہے۔اور آج کے اس پرفتن دور میں بھی ماشاء اللہ یہ روایت پوری طرح مستحکم اور برقرار ہے۔یہی وجہ ہے کہ ماضی سے لے کر اب تک جس دور میں بھی اور جس زاویے سے بھی اصلاح معاشرہ کی کوشش کی گئی ہے وہ کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہے۔ اس کا اندازہ گزشتہ پچاس ساٹھ سال پرانے بھٹکل کے معاشرے اور موجودہ دور کے معاشرے کا محاسبہ کرنے سے ہو جاتا ہے کہ کس طرح دینی اورسماجی نہج پر فکری و عملی اصلاح کاکام ہوا ہے اورکس قسم کے ناپسندیدہ افعال اور لغویات سے چھٹکارہ دلانے میں موجود ہ دور کے علماء اور اکابرین کتنی خوش اسلوبی سے کامیاب ہوئے ہیں۔
بھٹکل کی انوکھی شادیاں اور خرافات: ملک کے دیگر حصوں میں ہونے والی شادیوں کی تقاریب اور بھٹکل کی شادیوں میں کچھ پہلو توقدیم زمانے سے انتہائی انوکھے سمجھے جاتے ہیں۔قدیم روایات میں سے کچھ اچھے اور پسندیدہ پہلوؤں پر آج بھی عمل ہوتا ہے جبکہ بہت ساری خرافات کا قلع قمع کردیا گیا ہے۔ نوائطس آف کینرا کے عنوان سے ڈاکٹروی ایس ڈیسوزا نے سن60ء کی دہائی میں دھارواڑ یونیورسٹی سے جو ریسرچ پیپر (Thesis) شائع کی ہے اس کو پڑھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہاں کے ہندو معاشرے اور اطراف و اکناف میں موجود دیگر مسلم برادریوں کی شادیوں میں ہونے والی کچھ خرافات ایسی تھیں جس پر بھٹکل و اطراف کی نوائط برادری میں بھی عمل ہوا کرتاتھا اس میں سے ایک شادی میں دولھے کو بینڈ باجے کے ساتھ دلہن کے گھر لے جانا بھی شامل تھا۔جبکہ گزشتہ پچاس ساٹھ پہلے ہمارے بچپن سے قبل ہی یہ چیزپوری طرح ختم ہوچکی تھی ۔ البتہ اس کی جگہ دولھے کے گھر پر نکاح کے دن شام کے وقت مائک پر فلمی گانے اور قوالیاں بجانے کا سلسلہ کچھ عرصے کے لئے چل پڑاتھااور وہ بھی الحمدللہ کب کاختم ہوگیا ہے۔
مدتوں بعد جو اس راہ سے گزرا ہوں قمرؔ عہد رفتہ کو بہت یاد کیا ہے میں نے
بھٹکل کی انوکھی شادیاں اور قابل تحسین پہلو: قدیم زمانے سے بھٹکل کی شادیوں میں سب سے قابل تحسین و تقلید پہلولڑکی کے لئے جہیز دینے کی پابندی کا نہ ہونا ہے جبکہ ملک کی غیر مسلم ہی نہیں بلکہ مسلم آبادی کوبھی 'جہیز کا کینسر' کھائے جارہا ہے۔یہ نوائط کلچر کا حصہ ہے کہ دلہن کے لئے مہر کے علاوہ آرائش و زیبائش اوردیگر ضرورت کی تمام چھوٹی بڑی چیزیں نکاح کے وقت دولھے کی طرف سے فراہم کی جاتی ہیں اور اسے' جہیز' کہا جاتا ہے۔ قدیم زمانے سے چلی آرہی ایک اور انوکھی روایت جو اب تک برقرار ہے وہ دولھے کے گھرپرنکاح پڑھنا اوراس کے بعد شب بسری کے لئے دولھے کاروزانہ اپنی دلہن کے گھر جانا ہے۔ اورجب شوہر وطن سے باہر چلاجائے تو بیوی کا اپنے مائیکے میں قیام کرنا بھی عام روایت ہے۔اس کے علاوہ بہت ساری ایسی باتیں ہیں جس کی وجہ سے بھٹکل کی شادیوں کی ایک مثبت اور امتیازی شان ظاہر ہوتی ہے اس کی تفصیل کی یہاں گنجائش نہیں ہے۔ اس موضوع پر نوائطس آف کینرا کے مصنف ڈیسوزانے ایک مفصل باب باندھا ہے جو بڑا دلچسپ اورپڑھنے لائق ہے۔(خبر ہے کہ نوائط تہذیب پر اس تحقیقی کتاب کا اردو ترجمہ تیار ہے اورایک نجی گروپ کی طرف سے بہت جلد منظر عام پر آنے کی توقع ہے) بدلتے زمانے کے ساتھ ہم آہنگی: رفتار زمانہ کے ساتھ انسانی سوچ اور طرز عمل کے دھارے بدلنا فطری بات ہے۔ اگر ہم نصف صدی قبل کے بھٹکل اور موجودہ بھٹکل کا جائزہ لیتے ہیں تو یہاں کی معاشرتی زندگی میں دو بہت بڑی اور اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ایک تو دینی و عصری علم اور شعور کا ہر طرف بول بالا ہوا ہے دوسراخلیجی ممالک کی ملازمتوں اور تجارتی سرگرمیوں سے آنے والامعاشی انقلاب ہے جس سے تقریباً ہر خاص و عام میں دولت کی فراوانی عام ہوگئی ہے اور اس سے انفرادی و اجتماعی طرز زندگی کا معیار بدل گیا ہے ۔ اگر ہم پچاس سال پرانے زمانے میں جائیں توپورے معاشرے میں غربت و افلاس کے مارے گھرانوں کی تعداد غالب نظر آتی تھی۔دولتمندوں، تاجروں اور رئیس ترین کہلانے والے خاندانوں کی تعداد بہت محدود تھی۔ مختلف شہروں میں کپڑوں کی دکانوں اور ہوٹلوں میں ملازمت کرنے اور پھیری کا کاروبار کرنے والوں کی اکثریت ہونے کی وجہ سے معاشرے میں دولت کی نمائش کے امکانات معدوم تھے۔ لیکن آج الحمدللہ اس کے الٹ حقیقی طور پر مفلس اورتنگ حال کہلانے لائق گھرانوں کی تعداد محدود ہے اور دولت کی ریل پیل کا مظاہرہ جہاں ہورہا ہے ان گھرانوں کی تعداد غالب نظر آتی ہے۔بفضل خداوندی ماضی کے اکثرتنگ حال گھرانے اب خوشحال اور بعض تو رئیس ترین گھرانوں میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ دولت کی فراوانی اور خیراتی و فلاحی سرگرمیاں: خلیجی ممالک میں روزی روٹی کمانے کے لئے رخت سفر باندھنے کا سلسلہ گزشتہ نصف صدی قبل سے جوشروع ہواتو عام انسانوں کی زندگی میں در آنے والی خوشحالی نے اپنا منفی و مثبت رنگ بھی دکھانا شروع کیا ۔ایک تو یہ ہوا کہ مال وزر کے افراط کے ساتھ ماضی سے چلی آرہی فلاحی اور خیراتی سرگرمیاں تیز سے تیز تر ہوگئیں۔مقامی طور پر مفلوک الحال یا ضرورتمندوں کی خبر گیری کے نئے انتظامات سامنے آئے ۔ قدرتی آفات و مصائب کے پس منظر میں بھٹکلی برادری کی طرف سے بڑے پیمانے پر امداد وتعاون کا سلسلہ صوبوں اور علاقوں کی حد سے نکل کر ملک گیر پیمانے پر پھیل گیا۔چاہے وہ گجرات کا زلزلہ ہو، تملناڈو میں سونامی کی تباہی ہویا کشمیر کا سیلاب ہو ہر جگہ بھٹکلی مسلمانوں نے دل کھول کر تعاون کیا۔دینی مدارس اور ملی اداروں کو مالی طور پر مستحکم کرنے میں بھی انہوں نے فراخدلانہ کردار ادا کیا۔بستیاں کیسے نہ ممنون ہوں دیوانوں کی وسعتیں ان میں وہی لاتے ہیں ویرانوں کی
شادیوں میں فضول خرچی پر روک لگانے کی مہم: مال و زر کی فراوانی کا دوسرا منفی پہلو یہ ظاہر ہونے لگا کہ ماضی میں سماجی تقریبات ، شادی و بیاہ کی کارروائیاں جو سادگی اور محدود اخراجات کے ساتھ انجام دی جاتی تھیں، اس میں اب ظاہری شان و شوکت اور نام و نموداورمقابلے و تفاخر کے مظاہروں کی جھلک نظر آنے لگی۔ نت نئی رسومات اورفضول خرچی نے متوسط اورکم آمدنی والے طبقے کو مشکلات میں جکڑنا شروع کیا۔اس موڑ پر سماج کے بیدار دماغ اکابرین اور علمائے کرام کے کان کھڑے ہوگئے۔سماجی اصلاح و ترقی کے مقصد سے منعقد ہونے والی بین الجماعتی کانفرنس میں اس طرح کی فضول خرچی اور شان و شوکت کے مظاہروں کے خلاف قراردادیں منظور کی گئیں۔ اس پر عمل پیرائی کے لئے کمیٹیاں بنیں۔ متعلقہ سماجی و دینی محکمہ جات متحرک ہوگئے۔سماج میں شعوری بیدارلانے کی مہم چھیڑی گئی۔ نہی عن المنکر کمیٹی نے مؤثر اور فعال کردار اداکرتے ہوئے کسی بھی گھرانے میں شادی کے موقع پر پہنچ کر اسراف اور فضول خرچی سے باز رہنے کی تلقین کا سلسلہ شروع کیا۔ اور ماشاء اللہ اس کے کافی مثبت اثرات بھی معاشرے پر مرتب ہوگئے۔ مگر یہ تحریک اور جد وجہد دھیمی پڑ گئی: لیکن دھیرے دھیرے اصلاح معاشرہ کی جد وجہد اور کوشش کی رفتار اور اس کے اثرات میں کمی دکھائی دینے لگی۔ اس کی ایک وجہ سماجی تجزیہ نگار یہ بتاتے ہیں کہ قوم کے سرمایہ داروں نے اصولی طور پر بین الجماعتی کانفرنس کی قراردادوں کی حمایت کی اور اسے دوسروں پر نافذ کرنا تو ضروری سمجھا۔ اس طرح کی عملی کوششوں کا احتساب کرنے میں بھی وہ شامل رہے۔لیکن افسوسناک طور پر سماج کے بعض ذمہ دار اور مالدار افراد نے خود اپنے گھراور خاندان کے معاملے میں اسے پوری طرح نظر اندازکردیااور سادگی کے بجائے شان و شوکت کے زیادہ سے زیادہ اظہار کو پسند کیااور بظاہر اس پر گرفت کرنے والا کوئی نظر نہیں آیا۔اس طرح نہی عن المنکر کمیٹی، شعبۂ تبلیغ یا اصلاح معاشرہ کی تحریک سے وابستہ ذمہ داروں کے رول کو بے اثر ہوتا دیکھ کر جماعتوں اور اجتماعی فیصلوں کی قدرکرنے اوراس پرعمل پیراہونے والے متوسط طبقے کے عوام کامایوس ہونا فطری بات تھی۔اور پھر لوگ یہ پوچھتے نظر آئے کہ قوم و ملت کی ہمدردی اور اخروی فوز و فلاح کے نیک جذبے کے تحت پرجوش اجتماعی فیصلے کرنے اور انہیں نافذ کروانے میں لگے ہوئے "بڑے لوگ" ہی اس کی پابندی نہ کریں ، تو پھر عام آدمی اپنی حیثیت اور بساط کے مطابق جس طرح چاہے اپنی تقریبات منعقد کرے، اس پر کیوں قدغن لگنی چاہیے!ایسا نہ ہو یہ رات کوئی حشر اٹھا دے اٹھتا ہے ستاروں سے دھواں ، جاگتے رہنا
شادیوں میں دولت کی نمائش کا نیا دور: اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ چاہے ہلکی رفتار سے ہی سہی اصلاحی کوششیں جاری رہنے کے بعد بھی اب شادیوں میں بے جا اخراجات اور دولت کی نمائش کا ایک نیا دور شروع ہوگیاہے۔اسٹیج کی سجاوٹ اور کھانے پینے کی ڈشس کی اقسام او ر اس کی افراط دیکھ کر ایک عام آدمی کے ہوش اڑنے لگے ہیں۔ منگنی کی تقاریب کے اخراجات میں جس قدر اضافہ ہوا ہے وہ اپنی جگہ ہے، لیکن نکاح کی محفل اور ولیمہ اوردلہن کے گھروں پر دعوت عام میں طعام کی نوعیت دیکھنا تو کیا صرف سننابھی ایک عام محنت کش اور ملازم پیشہ آدمی کے ہی نہیں بلکہ کھاتے پیتے گھرانوں کے ہوش اڑادینے کے لئے کافی ہے۔ یہ سچ ہے کہ بعض خاندانوں پر اللہ نے اس دور میں اپنی بے پناہ نعمتوں کے دروازے پوری طرح کھول دئے ہیں۔اور اس سے استفادہ کرنا ان کا حق ہے۔ لیکن اللہ کے اس انعام کو جس طرح بے دریغ استعمال کرنے کی چند ایک مثالیں پچھلے دنوں سامنے آئی ہیں اسے دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے اورسوچنا پڑتا ہے کہ کیا یہ رویہ بھٹکل کے اسلامی معاشرے کی حقیقی تصویر سے میل کھاتا ہے؟ صدقہ و خیرات اور انسانی فلاح و بہبود کی لائق ستائش و تقلید خصوصیات سے متصف، خدا ترسی ،فیاضی اور سخاوت کے لئے معروف افراد اور سماج کو کیا اس طرح کی تشہیر اور دولت کی نمائش زیب بھی دیتی ہے! یہاں بھیڑ چال عام ہے : بھٹکل کے معاشرے کی ایک اور اہم خصوصیت بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ یہ بہت چھوٹا ہونے کے باوجود بے حد مربوط اور آپسی سماجی انسلاک والا معاشرہ ہے۔یہاں ہرکوئی ایک خاص اجتماعی معیار اور نہج پر قائم رہنے کی کوشش کرتا ہے۔ سماج میں ایک دوسرے کی تقلیداور اس میں بھی دو قدم آگے بڑھنے کا جذبہ ہمیشہ کُلبُلاتا رہتا ہے۔اب جو نکاح کی محفلوں اور دعوتوں میں ماکولات و مشروبات اور دوسرے لوازمات کے معیار ، مقدار اور انواع و اقسام میں بے تحاشہ اضافہ ہوگیا ہے، جس کاانتہائی' دلکش مظاہرہ' پچھلے دنوں ہونے والی کچھ شادیوں میں سامنے آیاہے، وہاں تک پہنچنے یا اس سے آگے بڑھنے کی سکت سماج میں جو لوگ رکھتے ہونگے ان کو تو خیر انگلیوں پرہی گنا جاسکتا ہے۔لیکن اس پیمانے کو سامنے رکھ کر اپنی بساط پھیلانے کی کوشش کرنے اور سماجی تقاضے سمجھ کرکسی حد تک انہیں پورا کرنے کی ڈگر پر نکل پڑنے والا پورے کا پورا معاشرہ ہوگا اور خدشہ ہے کہ اس وجہ سے مالی بحران اور مشکلات کا شکار ہونا ان میں سے بیشترکا مقدر ہوجائے گا۔ کیا ہم جوابدہی کے لئے تیار ہیں: دکھ اس بات پر ہوتا ہے کہ مصلحین شہراور اکابرین ملت کی طرف سے سماج میں پنپتی ہوئی اس روش پر نکیر کرنے یا کم ازکم ایسی محفلوں میں شرکت سے اجتناب کر تے ہوئی دولت کی بے جا نمائش کرنے والوں تک اپنی ناپسندیدگی کا سگنل دینے کی کوئی بڑی اور واضح مثال معاشرے کے سامنے نہیں آئی۔قوم و ملت کی قیادت و رہنمائی کے اعلیٰ منصب پر فائز ذمہ داران کی حق گوئی اور حق پرستی کی آنچ ان معاملات میں کیوں دھیمی ہوگئی، اس کو سمجھنے کی کوشش اور اس پر تبصرے کو کوتاہ فہمی قرار دیا جاسکتا ہے۔لیکن بے شک یہ کہا جاسکتا ہے کہ کچھ بیدار ذہنوں میں ایک سوال ضرور اضطراب کا سبب بن رہا ہے کہ کل حساب کے دن ہم سب اپنی اس خموشی کو کیا زبان دیں گے اور اپنے رویے کو کیا جواز دے سکیں گے؟! کیونکہ معاشرہ اگر اسی طرز پر بے لگام ڈٹا رہا تو خدا نہ کرے آنے والے دنوں میں کہیںیہ سننا پڑے کہ : غریبِ شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ امیرِ شہر نے ہیرے سے خود کشی کر لی
haneefshabab@gmail.com (مندرجہ بالا مضمون میں تحریر کردہ مواد مصنف کے ذاتی خیالات اور ان کی رائے پر مبنی ہے۔ اس سے ادارہ بھٹکلیس کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ادارہ)